مساجد کے ائمہ و مدارس دینیہ کے ذمہ داران کی مشکلات
مساجد کے ائمہ و مدارس دینیہ کے ذمہ داران کی مشکلات
از: افتخار الحسن رضوی
مجھ سے یہ سوال درجنوں بار پوچھا گیا کہ آپ تجارت یا کاروبار چھوڑ کر کسی مسجد، مدرسہ یا دینی ادارہ میں فل ٹائم ذمہ داری کیوں نہیں سنبھال لیتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے پاس متعدد بار امریکہ، برطانیہ اور یورپ سے احباب تشریف لاتے ہیں اور اپنے ہاں مساجد کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے عوض مالی مراعات بھی آفر کرتے ہیں لیکن آخر کار ان کی یہ آفرز قبول کرنا میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی بعض وجوہات بارِدگر لکھ رہا ہوں جس سے دینی مدارس کے گریجوایٹس، علماء و ائمہ کی نمائندگی بھی ہو جائے گی۔
1. مسجد و مدرسہ کی کمیٹیاں ذات، سیاست اور زبان پر مبنی ہیں، امام مسجد ان کے ذاتی اختلافات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ مثلاً کیمبرج (برطانیہ) میں ایک مسجد کی انتظامیہ والوں نے بھرپور آفر کی، لیکن پہلے سے موجود امام صاحب کو ہٹا کر مجھے رکھنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ وہ امام صاحب میرے ساتھ نظریاتی اختلاف بھی رکھتے تھے لیکن جب میں نے براہِ راست ان سے امانتاً معلومات حاصل کیں تو انہوں نے بتایا مسجد انتظامیہ میں جٹ اور گجر آپس میں الجھتے ہیں، لہٰذا مجھے ان کے مزاج کے مطابق گفتگو کرنی ہوتی ہے بصورتِ دیگر میرا برطانیہ میں ویزہ و قیام مشکل ہو جائے گا۔
2. ایک امام مسجد سے متعدد کام لیے جاتے ہیں، اذان ، جماعت، مسجد کی صفائی، تدریس و تعلیم، جنازے، نکاح وغیرہ، لیکن تنخواہ ایک ہوتی ہے اور اگر value added services یعنی نکاح وغیرہ کے عوض وہ کچھ حاصل کر لے تو اسے برا سمجھا جاتا ہے۔ اگر امام صاحب جٹ کے گھر کھانے کے لیے گئے تو گجر ناراض، ملک صاحب کے ہاں چائے پینے سے راجہ صاحب کا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے۔
3. جرمنی سے ایک پاکستانی بزرگ جو عرصہ دراز سے وہاں مقیم ہیں ، انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد جمع پونجی مسجد کے لیے ہدیہ کر دی، مسجد کے ڈیزائن وغیرہ میں ہماری مشاورت شامل رہی اور وہ روزِ اول سے مصر رہے کہ اس کی مکمل ذمہ داری آپ ہی سنبھالیں گے (جس کے لیے میں بالکل تیار نہ تھا)۔ مسجد کے افتتاح کے وقت پاکستان سے ان کے پیر صاحب وہاں پہنچے، پیر صاحب پر پنڈی کے منحوسوں کا سایہ تھا، بابا جی کو میرے ساتھ قریب دیکھ کر پیر جی نے ا نہیں دھمکی دی کہ اگر رضوی صاحب کو دور نہ کیا تو ہم تمہیں بیعت سے خارج کر دیں گے (حالانکہ یورپی مریدوں کو ایسی دھمکی دینا آسان نہیں، یورو بند ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے)۔ اس دن سے آج کے دن تک بابا جی ہمیں عید شبرات پر ہی یاد کرتے ہیں۔
4. دینی تعلیم کے ساتھ میں نے ہزاروں ڈالرز لگا کر دنیوی تعلیم حاصل کی ہے، اقتصادیات اور بزنس منیجمنٹ میرا شعبہ ہے۔ میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا میں اپنی ان صلاحیات سے فائدہ نہ اٹھاوں، اس لیے عصری علوم کے اداروں میں ملازمت اور اپنی تجارت و کاروبار کو ترجیح دی۔ اسی وجہ سے مجھے کسی کے سامنے حق بات کہنے میں کبھی جھجھک محسوس نہیں ہوئی اور ہر عنوان پر کھل کر لکھنا بولنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اسی آزادی کی وجہ سے کئی پیر حضرات ناراض رہتے ہیں تاہم علماء کرام بہت خوش ہوتے ہیں۔ تنخواہ دار بندہ کھل کر بات نہیں کر سکتا اور جو مردانِ حق کھل کر بات کرتے ہیں انہیں نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ بابا جی رحمہ اللہ اس کی بہترین مثال ہیں۔
5. بلا مبالغہ دنیا کے ہر کونے میں موجود مسلمان میرے ساتھ وابستہ ہیں، روحانی علاج، گھریلو مسائل حتٰی کہ لوگوں کے انتہائی ذاتی نوعیت کے مسائل میں رائے و مشاورت کے لیے میں دستیاب رہتا ہوں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مکمل آزادی کے ساتھ عملیات، پھر دنیوی اعتبار سے لوگوں کو انتظامی مشورہ دینا، شرعی و روحانی رہنمائی فراہم کرنا میرے لیے کوئی مالی فوائد یا اہمیت کا سبب نہیں بلکہ یہ سب میں اپنی مرضی، خوشی، اور رضائے الٰہی کے لیے کرتا ہوں۔ اگر میں کسی مسجد و مدرسہ یا اسلامک سینٹر کی آفر قبول کر لوں تو مسجد انتظامیہ زائرین و حاضرین کی تعداد اور متوسلین کی کثرت دیکھ کر مقبولیت سے پریشان ہو جائے گی۔ لہٰذا اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا۔ میں نے اپنے مشائخ کرام سے خودی سیکھی ہے۔ اپنے وقت ، محنت اور روحانی علاج میں حسبِ ضرورت استعمال ہونے والی اشیاء کے عوض پیسہ لینا جائز ہے لیکن اس کے بدلے ضمیر نہ بیچا جائے۔
6. برطانیہ میں مقیم ائمہ و خطباء کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ پاسپورٹ ملنے کے فوری بعد اپنی الگ مسجد، ٹرسٹ، چیریٹی وغیرہ بنا لیں، ان میں سے بعض مخلص بھی ہیں اور بعض شیخ النساء بن جاتے ہیں لیکن اہداف حاصل ہوں یا نہ ہوں، علماء متنازعہ ضرور بن جاتے ہیں اور چیریٹی یا الگ مسجد قائم کرنے سے مسلمانوں کی وحدت ضرور کمزور پڑتی ہے۔ میرے خیال میں دینی ذمہ داروں کی financial hygiene بہت اچھی ہونی چاہیے۔ اگر رب تعالٰی کی طرف سے کوئی امتحان ہو تو وہ ایک الگ معاملہ ہے۔
اس ساری گفتگو میں کوئی علماء کرام یا ائمہ کی توہین نہ سمجھے، بلکہ دنیا دار کچھ غیرت کا مظاہرہ کریں اور اپنی مساجد و مدارس کے ائمہ و خطباء کی قدر کریں۔ ان کی تنخواہیں بڑھائیں، یورپ و امریکہ میں equal opportunity کا بہت بھاشن دیا جاتا ہے۔ ثابت اس دن ہو گا جب آپ اپنے امام صاحب کو ماہوار کم از کم پانچ ہزار ڈالرز، مفت رہائش بشمول یوٹیلیٹی بلز، ان کی بچوں کی مفت تعلیم و میڈیکل انشورنس، ایک عدد مناسب گاڑی ، ٹیکسز سے استثناء اور سالانہ paid vacation دیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ امام و خطیب کو دینِ محمدی بیان کرنے کی مکمل آزادی دیں، لیکن امام صاحب معروضی و درپیش حالات کو سمجھ کر بات کریں،مقصد دین پھیلانا ہے، شر پھیلانا نہیں، پنڈی کا ایک چنگاڑہ مولوی برطانیہ گیا، دوران تقریر من سب نبیا فاقتلوہ لگا دیا، اس سے اگلے روزہ ااسلام آباد ائیرپورٹ پہنچا دیا گیا تھا۔ ایسے ہی کراچی کے شہنشاہِ مغلظات کو امریکہ و برطانیہ تو دور افریقی ائیرپورٹ سے واپس کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا انتظامیہ و امام، دونوں مل کر، حکمت ، فہم و فراست اور اخلاص سے کام لیں تو یہ مکروہ دھندہ رک سکتا ہے، ہم نے دین کی تبلیغ کرنی ہے، اپنا گھریلو غصہ مائیک پر نہیں نکالنا۔ امام مسجد کو رسول اللہ ﷺ کی شریعت بیان کرنے دیں، گجروں جٹوں، ملکوں، شاہوں اور راجوں کا غلام نہ بنائیں۔
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۱۳ رمضان المبارک ۱۴۳ بمطابق ۱۴ اپریل ۲۰۲۲