دفاعی اقدام اور مستحکم حکمت عملی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
دفاعی اقدام اور مستحکم حکمت عملی
چند سالوں سے بھارت میں ںدمذہب جماعتوں سے سیاسی اتحاد کے لئے زور لگایا جا رہا ہے,حالاں کہ ایک متحدہ جماعت پچاس سالوں سے بھارت میں کام کر رہی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ تمام کلمہ گو جماعتوں کا مشترکہ بورڈ ہے۔1972میں اس کا قیام ہوا۔اس میں تمام کلمہ گو فرقوں کے لوگ شریک ہیں۔مسلم پرسنل لا بورڈ بھی یہی اعلان کرتا ہے کہ وہ بھارت کے تمام مسلم طبقات کی نمائندہ جماعت ہے۔سنی جماعت کے بھی بعض افراد ہمیشہ اس میں شریک رہے ہیں۔
کلمہ گو جماعتوں کی متحدہ تنظیم”مسلم پرسنل لا بورڈ”نے کورٹ میں متعدد مقدمات کی پیروی کی۔مشہور مقدمات مثلا شاہ بانو مقدمہ,بابری مسجد کیس اور طلاق ثلاثہ کیس میں ناکامی ہوئی۔غیروں کی سازش کو باہمی اتحاد سے نہیں,بلکہ قوی ومستحکم حکمت عملی سے توڑا جاتا ہے۔
اگر ایک ہزار بکریاں کسی میدان میں مل جل کر رہیں اور ایک شیر اس ریوڑ میں پہنچ جائے تو ہزار بکریاں بھی شیر کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں,کیوں کہ وہ شیر سے مقابلہ نہیں کر سکتیں اور نہ ہی ان کے پاس کچھ حکمت عملی ہوتی ہے۔
ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ شیر کی خوراک کے لئے جنگل کے جانوروں کی باری لگی۔لومڑی کی باری آئی تو وہ کچھ دیر سے شیر کے پاس گئی۔اسے راستہ میں ایک کنواں ملا۔وہ راستے میں شیر کو ہلاک کرنے کی منصوبہ بندی کرتی گئی۔
جب وہ دیر سے شیر کے پاس پہنچی تو شیر غرایا کہ تم دیر سے کیوں آئی؟ لومڑی نے کہا کہ راستے میں ایک دوسرا شیر مل گیا تھا,وہ خود کو اس جنگل کا راجا کہتا ہے۔میں بہت مشکل سے اس سے اپنی جان بچا کر آپ کے پاس آئی ہوں۔یہ سن کر شیر غصہ سے بے قابو ہو گیا کہ میرے جنگل میں میرے علاوہ کون شیر کہاں سے آ گیا ہے اور اپنی بادشاہت کا دعوی کر رہا ہے۔وہ لومڑی سے کہا کہ چلو,مجھے بتاؤ کہ وہ شیر کہاں ہے؟لومڑی شیر کو لے کر کنواں کے پاس گئی اور شیر کو بتائی کہ وہ شیر اس کنواں میں چھپ گیا ہے۔شیر نے کنواں میں جھانکا تو پانی میں اس کا عکس نظر آیا۔اس نے اپنا عکس دیکھ کر سمجھا کہ یہ وہی شیر ہے جس کا ذکر لومڑی کر رہی تھی۔شیر اس کو ہلاک کرنے کے واسطے کنواں میں چھلانگ لگا دیا اور پھر پانی میں ڈوب کر چند لمحوں میں ہلاک ہو گیا۔لومڑی مسرت وشادمانی کے ساتھ اچھل کود کرتی ہوئی جنگلی جانوروں کو خوش خبری سنانے چلی گئی کہ آج ہم نے سب کی مصیبت دور کر دی ہے۔
تمام کلمہ گو جماعتوں کے عوام وخواص باہم شیر وشکر ہو جائیں اور سب لوگ ہم نوالہ وہم پیالہ ہو جائیں تو اس میل جول کے سبب ظالموں کا ظلم وستم بند نہیں ہو سکتا۔ہاں,دفاع کے سبب ظلم وستم ضرور بند ہو جاتا ہے۔
بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔یہاں کے شرپسندوں کے مظالم کو روکنے کے لئے قانونی دائرہ میں جو حکمت عملی موثر ہو۔اس پر عمل کیا جائے۔اس عملی کوشش کے لئے تمام عوام وخواص کا شیر وشکر ہونا ضروری نہیں,بلکہ ایک مستحکم مجلس عاملہ کی ضرورت ہے۔اس قسم کی ایک جماعت”مسلم پرسنل لا بورڈ”کی شکل میں پہلے ہی سے موجود ہے۔اگر یہ بورڈ نا کام ہے تو دوسری مشترکہ تحریک کی کامیابی کی کیا ضمانت ہے؟
مسلم پرسنل لا بورڈ کے علاوہ متعدد آل انڈیا تنظیمیں موجود ہیں,پھر بھی ظلم وستم کا خاتمہ نہیں ہو پا رہا ہے,کیوں کہ مضبوط حکمت عملی مفقود ہے۔
پہلے ان صورتوں پر غور کیا جائے کہ بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو کس طرح ختم کیا جائے۔ہر کس وناکس کو معلوم ہے کہ جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے,وہ پارٹی اپنے ایجنڈا پر عمل کرتی ہے۔عدلیہ اور انتظامیہ پر بھی حکمراں پارٹی کے اثرات ہوتے ہیں۔مشہور مقولہ ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس
اگر کنواں میں کتا گر جائے۔کتے کو کنواں میں چھوڑ دیا جائے اور کنواں کا سارا پانی نکال دیا جائے,پھر بھی کنواں ناپاک رہے گا,لہذا کنواں پاک کرنا ہے تو پہلے کتے کو کنواں سے باہر کیا جائے۔
مسلمانوں پر ظلم وستم کا سبب یہ ہے کہ ایسی سیاسی پارٹی برسر اقتدار ہے جو مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتی ہے,بلکہ وہ چاہتی ہے کہ بھارت کی تمام اقلیتیں ہندو نما بن جائیں۔
حکومت کی تبدیلی کے لئے تمام سیکولر پارٹیوں کا متحد ومتفق ہونا ضروری ہے,تاکہ اعتدال پسند بھارتی عوام کا ووٹ منتشر نہ ہو سکے۔تمام کلمہ گو جماعتوں کے میل جول اور باہم شیر وشکر ہو جانے کے سبب حکومت کی تبدیلی ممکن نہیں۔نہ دنیا میں کبھی تمام اہل حق واہل باطل شیر وشکر ہوئے ہیں,نہ ایسا ہونے کی امید ہے,نہ ہی شریعت اسلامیہ ایسی اجازت دیتی ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ ہر عروج کو زوال لاحق ہوتا ہے۔یہ نظام خداوندی ہے۔بھارتی مسلمان شرعی دائرہ میں رہ کر اپنی بھلائی کی کوشش کرتے رہیں۔
غیر مسلم عوام کو اسلام ومسلمین کے خلاف مسلسل ورغلایا جا رہا ہے۔غیر مسلموں کے قلوب واذیان میں مسلمانوں کی دشمنی کا زہر انڈیلا جا رہا ہے۔اس زہر کو ختم کرنے کی تدبیر کی جائے۔مروجہ طریق کار غیر مفید ہے کہ چند مقررین کو بلا کر جلسہ کر دیا جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کام کر دیا ہے۔بیمار کوئی اور ہے اور دوا کسی اور کو دی جاتی ہے۔
جب غیر مسلموں کو ہمارے خلاف ورغلایا جاتا ہے تو مشترکہ اجلاس ہونا چاہئے جس میں خاص طور پر غیر مسلم نوجوانوں کو مدعو کیا جائے اور امن پسند ہندو لیڈروں کے بیانات ہوں۔اسی طرح ہندی وانگلش میں کتب ورسائل شائع کئے جائیں اور اسلام ومسلمین کے خلاف پھیلائی گئی بدگمانیوں کا جواب دیا جائے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:16:اپریل 2022