کیا کتاب الحیل امام ابو حنیفہ یا انکے اصحاب کی لکھی گئی ہے ؟ یا اصحاب الحدیث کی شرارت تھی
کیا کتاب الحیل امام ابو حنیفہ یا انکے اصحاب کی لکھی گئی ہے ؟ یا اصحاب الحدیث کی شرارت تھی
تحریر: اسد الطحاوی الحنفی
امام ذھبی ؒ مناقب الامام ابی حنیفہ ؓ میں باسند صحیح روایت نقل کرتے ہیں :
الطحاوي، سمعت أحمد بن أبي عمران، يقول: قال محمد بن سماعة سمعت محمد بن الحسن، يقول: «هذا الكتاب يعني كتاب الحيل ليس من كتبنا، إنما ألقي فيها» ،
امام طحاوی امام احمد بن ابی عمران سے وہ محمد بن سماعہ وہ کہتے ہیں میں نے امام محمد بن حسن الشیبانی کو یہ کہتے سنا : یہ کتاب یعنی کتاب الحیل ہماری تصنیف کردہ کتب میں سے نہیں بلکہ (کسی باہر)والے نے اسکو شامل کیا (ہماری کتب میں )
قال ابن أبي عمران: إنما وضعه إسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة
اور امام ابن ابی عمران کہتے ہیں اسکو اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ نے لکھا ہے
[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه، ص ۸۵ وسندہ صحیح]
غیر مقلدین اگر یہ بہانہ بنائیں کہ امام ذھبی سے امام طحاوی تک متصل سند نہیں ہے تو یہ بہانہ بھی انکا بیکار ہے کیونکہ امام ذھبی نے یہ روایت امام ابن ابی العوام کی کتاب سے نقل کی ہے جیسا کہ امام ابن ابی العوام نے اپنی تصنیف میں اسکو روایت کیا ہے :
سمعت أحمد بن محمد بن سلامة يقول: سمعت أحمد بن أبي عمران يقول: قال محمد بن سماعة: سمعت محمد ابن الحسن يقول: هذا الكتاب -يعني كتاب الحيل- ليس من كتبنا، إنما ألقي فيها،۔۔۔الخ
[فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه، برقم:۸۷۲ ، وسندہ صحیح]
تو امام ذھبی جیسے ناقد نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے تو آج کےغیر مقلدین کا اس کتاب پر ایک ٹانگ پر ناچنا انکو کوئی فائدہ نہیں دیگا ۔ نیز امام ذھبی سمیت جمہور ائمہ نے اس کتاب سے اخذ کیا ہے ۔
نیز امام ابن ابی عمران کا یہ دعویٰ کہ یہ کتاب اسماعیل بن حماد نے لکھی یہ بات بھی محل نظر ہے کیونکہ امام یہ کتاب تو امام محمد کےدور میں مشہور ہوگئی احناف کی طرف جسکا رد امام محمد کو کرنا پڑا تو یہ اسماعیل نہیں لکھ سکتا اس دور میں وہ یہ لکھنے کے قابل نہ ہونگے ۔
اور امام عبد القادر نے امام محمد بن حسن شیبانی کے مقدم شاگرد امام ابو سلیمان جوزجانی کا ایک قول نقل کرتے ہیں جو کہ درج ذیل ہے :
وراق له كتاب الحيل قال أبو سليمان الجرجاني كذبوا على محمد ليس له كتاب الحيل إنما كتاب الحيل للوراق
وراق اسکی کتاب الحیل ہے ۔امام ابو سلیمان جوزجانی کہتے یں کہ امام محمد بن الحسن پر جھوٹ گھڑا گیا ہے یہ کتاب الحیل انکی تصانیف میں سے نہیں ۔ بلکہ یہ کتاب الحیل وراق کی ہے ۔
اسکو نقل کرنے کے بعد امام عبدالقادر کہتے ہیں :
قلت ووراق هذا
میں کہتا ہوں یہ(راوی) یہی وراق ہے (جسکا تذکرہ امام جوزجانی نے کیا ہے کتاب الحیل کے حوالے سے)
[الجواهر المضية في طبقات الحنفية ، برقم:۶۵۳]
نیز امام شمس الائمہ سرخسی نے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے امام محمد بن حسن کے حوالے سے اور اس کتاب کا لا تعلق قرار دیا ہے احناف سے تو صاف عیاں ہے کہ جیسا امام محمد بن الحسن نےتصریح کی ہے کہ یہ کتاب باہر والوں کا کام ہے ۔۔ ہو سکا ہے یہ اس دور کے مشہور قدریہ ، معتزلہ کا کام ہو ۔ کہ جس پر امام ابو حنیفہؓ جنہوں نے کوفہ میں پہلی بار ان پر کفر کا فتویٰ دیا تھا ۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اصحاب الحدیث کے کسی کرندے کا کام ہو کیونکہ ایسے گھٹیہ کاموں میں اصحاب الحدیث جیسے نیچ لوگ پیش پیش تھے ۔
خیر جسکا بھی کام ہو یہ سازش بھی کامیاب نہ ہو سکتی ۔ احناف متقدمین سے متاخرین تک اس سے لاتعلقی کا اعلان کرتے آئیں ہیں ۔ ابن مبارک نے اگر اسکو امام ابو حنیفہ کی کتاب کہا ہے تو یہ مسلہ ابن مبارک کا تھا اور نہ ہی ابن مبارک نے اسکا کوئی ثبوت دیا ۔ دوسری طرف ابن مبارک سے فقہ میں اوثق ومقدم اور امام محمد کے مستقل شاگرد امام محمد جنہوں نے احناف کی کتب اصول و فروع میں تصنیف کی ہیں انکی گواہی بالکل واضح ہے
نیز اگر یہ کتاب واقعی احناف کی ہوتی لکھی ہوئی اور اصول پر ہوتی تو ہم احناف کبھی اس کتاب سے لاتعلقی کا اعلان نہ کرتے کیونکہ ٖققہ سے پیدل کئی لوگوں نے امام ابو حنیفہ کے فہم اور کئی فقھاء نے امام محمد کی کتب پر اعتراض کیے لیکن احناف نے ہمیشہ انکا منہ توڑ جواب دیا تو احناف کی کتب پر جرح ہو جانے سے وہ کبھی کتاب سے لا تعلقی کا اعلان نہیں کرتے ۔ لیکن ایسی کفر پر مبنی کتب جو امام ابو حنیفہ اور انکے اصحاب کی طرف منسوب کی گئی ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہ اور انکے اصحاب کی کتب میں متعرض کو کچھ نہ مل سکا تو خود سے گھڑ کے انکی طرف منسوب کر دیا
اللہ امام اعظم اور انکے اصحاب کے درجات بلند کرے ۔
تحقیق:اسدالطحاوی
AsadTahawi.com
اسدالطحاوی کی مزیدتحاریر کوپڑھنے کےلیےاس ویب سائٹ پر کلک کریں : https://asadaltahawi.com/