*امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ*

آهنگ ولادت امام حسن مجتبی ع شاد حامد زمانی تولد میلاد - بامتن

 

نام و نسب:

اسمِ گرامی: حسن۔ کنیت: ابو محمد

القاب: تقی، نقی، زکی، سیّد شباب اہل الجنّۃ، سبطِ رسول، مجتبیٰ، جواد، کریم، شبیہ الرسول، ریحانۃ النبی۔

 

سلسلۂ نسب اس طرح ہے:

امام حسن مجتبیٰ بن علی المرتضیٰ بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدِ مناف اِلٰٓی اٰخِرِہٖ۔

 

والد: سیّد الاولیاء حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا حیدر کرار رضی اللہ تعالٰی عنہ

 

والدہ: سیّدۃ النسآء، خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

 

نانا: سیّد الانبیاء جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔

 

تاریخِ ولادت: بروز منگل 15؍رمضان المبارک سنہ 3ھ، مطابق فروری سنہ 625ء کو مدینۂ منوّرہ میں پیدا ہوئے۔

 

سرورِ کونین ﷺ کو خوش خبری دی گئی۔آپ فوراً تشریف لائے، داہنے کان میں اَذان، اور بائیں کان میں اقامت کہی، گھٹی میں لعابِ دہن عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہزادہ جنّت کے نوجوانوں کا سردار ہوا۔

 

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنھما فرمایا کرتے تھے: ’’واللہ ما قامت النسآء عن مثلِ الحسن بن علی۔‘‘ اللہ کی قسم کسی عورت نے حسن بن علی کی مثل بچہ نہیں جنا۔ (البدایۃ والنہایۃ)

 

سیرت و خصائص: سیّد الاسخیا، امام الاولیا، صاحبِ جود و سخا، نورِ نظرِ سیّدۃ النسا، جگر گوشۂ علی المرتضیٰ، راکبِ دوشِ مصطفیٰ ﷺ، امام المسلمین حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ بڑے حلیم، سلیم، رحیم، کریم، متواضع، منکسر، صابر، متوکل اور با وقار تھے، زہد و مجاہدۂ نفس میں مشغول رہتے تھے۔ آپ سرورِ عالم ﷺ کے فرمان کے مطابق، آخری خلیفۂ راشد ہیں۔

 

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر سے سینے تک رسول اللہ ﷺ کے بہت زیادہ مشابہ تھے، اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سینے سے پاؤں مبارک تک بہت زیادہ مشابہ تھے۔

 

حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: سیّدہ فاطمۃ الزہرا سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا اور امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے کوئی بھی مشابہ نہ تھا۔

 

آپ نے پچیس حج پیدل کیے حالاں کہ اعلیٰ نسل کے اونٹ اور گھوڑے دروازے پر موجود ہوتے تھے۔ آپ بہت سخی تھے، کئی مرتبہ اپنے گھر کاسارا سامان اللہ کی راہ میں تصدق کردیا۔یتیموں، مسکینوں ، اور بیواؤں کی کفالت نصب العین تھا۔

 

سیّدنا صدّیقِ اکبر کی امام حسن (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے محبّت: حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے امام حسن کو اٹھایا ہوا ہے۔ ”وھو یقول بابی، شبیہ بالنبی لیس شبیہ بعلی وعلی یضحک“۔ ترجمہ: آپ فرما رہے تھے۔میرے ماں باپ قربان۔ (اے حسن!) تم رسولِ خدا کے مشابہ ہو، اور علی کے مشابہ نہیں، اور یہ (سن کر )حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہنس پڑے (صحیح البخاری، فی مناقبِ حسن و حسین:187)۔

 

عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَّضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ:اُرْقُبُوْا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِ بَيْتِهٖ۔ ترجمہ: حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سرورِ عالم ﷺ کی خوشنودی آپ کی اہلِ بیت کی محبّت میں ہے۔ (اَیْضًا)

 

سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امام حسن سے محبّت: حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرات حسنین کریمین کا بـے حد احترام کرتے تھے۔ اُن کا وظیفہ تمام صحابۂ کرام کے فرزندوں سے زیادہ مقرر کیا تھا۔ بدری صحابہ کے فرزندوں کا وظیفہ دو ہزار تھا، مگر حسنین کریمین کا وظیفہ پانچ ہزار تھا۔ (مناقبِ اہلِ بیت:406)

 

ایک مرتبہ سیّدۃ النساء حضرات حسنین کریمین کو سرورِ عالم ﷺ کے پاس لے کر آئیں، اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! میرے ان دونوں بچوں کو کچھ عطا فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اما الحسین فلہ ھیبتی وسوددی، واماالحسین فلہ جرأتی وجودی“۔ یعنی: حسن کو ہیبت اور سرداری عطا کی ہے، اور حسین کو شجاعت اور فیاضی عطا کی ہے (مناقبِ اہلِ بیت:404)۔

 

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”من احبنی فلیحبہ، فلیبلغ الشاہد منکم الغائب“ (ذخائرالعقبٰی: 123)۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: من سرہ ان ینظر الٰی سیّد شباب اہل الجنۃ ،فلینظر الی الحسن۔ (الصواعق المحرقۃ:192)

 

حضرت امام حسن کی خلافت:

حضرت مولا علی کی شہادت کے بعد رمضان المبارک 40ھ میں مسلمانوں نے حضرت امام حسن کے دستِ حق پرست پر بیعت کی ۔ جب یہ خبر والیِ شام تک پہنچی انھوں نے لشکر کشی کا ارادہ کیا اور ساٹھ ہزار افراد کا لشکر لے کر عراق فتح کرنے کے لیے نکلے، اور ادھر حضرت امام حسن کو جب یہ خبر پہنچی کہ شام سے ایک لشکر آ رہا ہے، تو آپ دفاع کے لیے ایک لشکر لے کر روانہ ہوئے ،اور مقامِ مسقف، مدائن میں لشکر ٹھہر گیا، فوج نے یہ گمان کر لیا تھا کہ آپ جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جب آپ سے اس امر کی تصدیق کی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’مجھے مسلمانوں کا اتحاد، اور ان کی خوش حالی، اور ان کی جان و اموال، اور ان اکی آپس میں صلح پسندی بہت محبوب ہے۔‘‘ آپ کے ان ارشادات سے آپ کی فوج میں اختلافات

 

ہو گئے۔ آپ بہت با وقار اور نہایت ہی بردبار شخصیت کے مالک تھے۔ جذباتیت و انانیت نام کی کوئی چیز آپ کے پاس بھٹکتی بھی نہ تھی۔ آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کر لی اور خلافت سے دست بردار ہو گئے۔ ہزاروں مسلمانوں کی قیمتی جانیں بچالیں، اور اپنے نانا جان کے فرمانِ عالیشان کے مُصدّق ہوئے۔

 

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”انّ ابنی ھٰذا سیّد ولعلّ اللہ ان یصلح بہٖ بین فئتین عظیمتین من المسلمین“ (بخاری۔ حدیث:2704) ترجمہ: یہ میرا فرزند سیّد ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں کے مابین صلح کرادے گا۔

 

جب آپ خلافت سے دست بردار ہو گئے تو آپ کے بعض (جذباتی) ساتھی کہنے لگے: ’’یا عار المسلمین!‘‘۔ آپ نے برجستہ جواب دیا: ’’العار خیر من النار‘‘۔ ان جملوں میں آج امّتِ مسلمہ کے قائدین کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ اقتدار کی جنگ میں لاکھوں مسلمانوں کا خون ضائع ہو رہا ہے۔ عدمِ اتفاق کی وجہ سے آج امّتِ مسلمہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ شاطر دشمن انتشار کے ذریعے امّتِ مسلمہ کو تباہ و برباد کر رہا ہے، اور مسلم حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ کاش! یہ حکمران حضرت امام حسن کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اتحاد و امن کے داعی بن جائیں، اور ہمیشہ کے لیے امر ہو جائیں۔

 

تاریخِ شہادت:

شہادت کے سن اور تاریخ میں بڑا اختلاف ہے۔ صحیح قول کے مطابق 28؍ صفر المظفر سنہ 49ھ ہے۔

 

آپ کی شہادت زہر خورانی سے ہوئی۔ زہر کس نے دیا تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔ باقی سب قیاس آرائیاں اور روافض کی ملمع سازیاں ہیں۔

 

مزار: آپ کی قبرِ انور جنّت البقیع میں ہے

 

ماخذ و مراجع:

البدایہ والنہایہ۔ الصواعق المحرقہ۔ مناقبِ اہلِ بیت۔ آلِ رسول۔ بارہ امام۔