{طلاق بذیعہ ٹیلیفون یا ٹیلی گرام}
{طلاق بذیعہ ٹیلیفون یا ٹیلی گرام}
طلاق کے لئے بیوی کی موجودگی ضروری نہیں ۔وہ جس وقت اور جہاں بھی بیوی کی طرف نسبت کرکے طلاق کے الفاظ کہہ دے یا لکھ دے ،طلاق واقع ہوجائے گی اس لئے اگر کوئی شخص ٹیلیفون سے یا تار کی وساطت سے طلاق دے دے،تب بھی طلاق واقع ہوجائے گی،البتہ محض فون کی آواز یا ٹیلی گرام کی تحریر اس کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔اس لئے کہ دو آوازوں میں کافی مماثلت اور یکسانیت پائی جاتی ہے ۔تار میں تو خود اس شخص کی تحریر بھی نہیں ہوتی بلکہ ایک تیسرے ہی شخص کی تحریر ہوتی ہے اور اس کا کوئی یقین بھی نہیں ہوتا کہ جس کی طرف یہ تحریر منسوب ہے،واقعی اس کے حکم سے لکھی گئی ہے نہ محکمۂ پوسٹ و ٹیلیگراف اس کی تحقیق ہی کرتا ہے کہ جو شخص یہ ٹیلی گرام کررہا ہے کیا واقعی اس کا ہی نام ہے ۔
اس لئے محض فون یا ٹیلی گرام سے طلا ق ثابت نہیں ہوسکتی۔اگر شوہر کو انکار ہو کہ اس نے فون نہیں کیا تھا یا تار نہیں دیا تھا تو اب طلاق واقع نہ ہوگی۔عورت کیلئے جائز ہوگا کہ وہ اپنا نفس مرد کے حوالے کردے۔مرد اگر جھوٹ بول رہا ہے تو عنداﷲ سخت گنہگار ہوگا اور زانی قرار پائے گا۔ہاں اگر مرد کو خود ہی اقرار ہو یا دومرد یا ایک مرد اور دو عورتیں موجود ہوں جو اس بات کی شہادت دیں کہ انہوں نے خود مرد کوفون کرتے ہوئے دیکھا اور سُنا ہے یا ٹیلی گرام کراتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے تو اب شرعی اصول کے مطابق طلاق ثابت ہوجائے گی۔(واﷲ اعلم)
٭٭٭٭٭