حُسن کے لئے اعضاء کی سرجری
{حُسن کے لئے اعضاء کی سرجری}
اسلام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ جسم اﷲ کی امانت اور اس کا پیکر اﷲ کی تخلیق کا مظہر ہے جس میں کسی شرعی اور فطری ضرورت کے بغیر کوئی خود ساختہ تبدیلی درست نہیں۔اسی وجہ سے رسول اﷲ ﷺ نے مصنوعی طور پر بال لگانے خوبصورتی کیلئے دانتوں کے درمیان فصل پیدا کرنے کو ناجائز ،قابلِ لعنت اور اﷲ کی خِلقت میں تغیر قرار دیا ہے ۔اس لیے ظاہر ہے کہ محض زینت اور فیشن کی غرض سے اس قسم کا کوئی آپریشن اور جسم میں کوئی تغیر قطعاً درست نہ ہوگاجیسا کہ آج کل ناک پستان وغیرہ کے سلسلہ میں کیا جاتا ہے ۔
ہاں اگر عام فطرت کے خلاف کوئی عضو زیادہ ہوگیا مثلاً پانچ کی بجائے چھ انگلیاں ہوگئیں تو آپریشن کے ذریعہ ان کو علیحدہ کیا جاسکتا ہے :
اذا أراد الرجل أن یقطع اصبعاً زائدۃً أوشیئاًاٰخر…ان کان الغالب علیٰ من قطع مثل ذالک الھلاک فانہ لایفعل وان کا ن الغالب ھو النجاۃ فھوفی سعۃ من ذالک۔
ترجمہ:جب آدمی زائد انگلی یا کسی دوسری چیز کو کاٹ دینا چاہے تو اگر غالب امکان اس کے کاٹنے کی وجہ سے ہلاکت کا ہو تو ایسا نہ کرے،اور اگر غالب امکان بچ جانے کا ہو تو اس کی گنجائش ہے۔(الفتاوی الہندیہ :ج۱۴،ص ۱۱۴)
حدیث شریف میں ہے: لَعَنَ الرَّسُوْل ﷺالوَاشِمَۃَ وَالْمُسْتَوْشِمَۃَ وَالْوَاشِرَۃَ وَالْمُسْتَوْشِرَۃَ۔
رسول اﷲ ﷺ نے گودنے اورگودوانے والی نیز دانتوں کو نوکدار بنانے اور بنوانے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔(مسلم شریف)
دانتوں کے درمیان تھوڑے فاصلے کو حسن سمجھا جاتا ہے ۔اسلام سے پہلے خواتین مصنوعی طور پر ایسا کیا کرتی تھیں،اس کی ممانعت کی گئی،روایت میں ہے: لَعَنَ الْمُتَغَلّجَاتِ لِلْحُسْنِ المُغَیِرَاتِ خَلْقِ اللّٰہِ ۔
حسن و جمال کے لئے دانتوں کے درمیان مصنوعی فاصلہ پیدا کرنے والی خدا کی تخلیق میں تغیر پیدا کرنے والی عورتوں پر لعنت ہو۔(بخاری ومسلم )