أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مُتَّكِـئِيۡنَ عَلٰى رَفۡرَفٍ خُضۡرٍ وَّعَبۡقَرِىٍّ حِسَانٍ‌ۚ ۞

ترجمہ:

(متقین) سبز قالینوں اور نفیس بستروں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے

” رفرف “ اور ” عبقری “ کے معانی

اس کی تفسیر الرحمن :56 میں گزر چکی ہے

الرحمن :76-77 میں فرمایا : (متقین) سبز قالینوں اور نفیس بستروں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔

اس آیت میں ” رفرف “ کا لفظ ہے علامہ المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں :

” زفرف “ کا معنی بستر یا پردہ ہے، معراج کی شب جو آپ نے ” رفرف “ دیکھا وہ سبز رنگ کا قالین تھا، زمحشری نے کہا ہے کہ ریشم وغیرہ کے خوبصورت اور باریک کپڑے کو ” رفرف “ کہا جاتا ہے۔ (النہایۃ ج 2 ص 221، الفائق ج 2 ص 50)

علامہ راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں۔

” رفرف “ بکھرے ہوئے پتوں کو کہتے ہیں، قرآن مجید میں ہے : علی رفرف خضر “ اس سے مراد خاص قسم کا سبز کپڑا (قالین) ہے جس کو سبز رنگ کی وجہ سے قالین کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، ایک قول یہ ہے کہ خیمہ کی ایک جانب جو کپڑا لٹکا ہوا ہوتا ہے اس کو ” رفرف “ کہتے ہیں۔ (المفرداتج 1 ص 263، مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1418 ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں

حضرت علی اور حضرت ابن عباس (رض) نے کہا ہے کہ بستر کے اوپر سونے کے لئے جو کپڑا بچھایا جاتا ہے اس کو محابس کہتے ہیں۔ جوہری نے کہا : سبز کپڑوں کو ” رفرف “ کہتے ہیں۔ حسن بصری نے کہا : اس سے مراد بچھونا ہے : جبائی نے کہا : اس کے معنی بلند بستر ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : اس سے مراد جنت کے باغات ہیں، لمبے چوڑے کپڑے کو بھی ” رفرف “ کہتے ہیں۔ (روح المعانی جز 27 ص 190 دارالفکر بیروت 1417 ھ)

خلاصہ یہ ہے کہ عمدہ قسم کے کپڑے کو ” رفرف “ کہتے ہیں خواہ وہ قالین ہو یا چاندنی ہو یا غالیچہ ہو۔

اس آیت میں ” رفرف خضر “ کے بعد ” عبقری حسان “ کے الفاظ ہیں علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں۔

ایک قول یہ ہے کہ یہ جنات کی جگہ ہے، ہر وہ چیز جو غیر معمولی ہو انسان ہو یا حیوان ہو یا کپڑا ہو اس کو غیر معمولی ہونے کی وجہ سے عبقر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس وجہ سے حضرت عمر (رض) کے متعلق آپ نے فرمایا : میں نے عمر کی طرح ” عبقری “ کوئی نہیں دیکھا، جس نے ان کی طرح حیرت انگیز کام کیا ہو۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث 3682 صحیح مسلم رقم الحدیث 2393)

” عبقری حسان “ کا معنی ہے، جنت کے بچھونے غیر معمولی خوبصورت تھے۔

(المفردات ج 2 ص 416، مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1418 ھ)

علامہ ابن اثیر الجزری المتوفی 606 لکھتے ہیں۔

” عبقری کی اصل یہ ہے کہ عربوں کا گھمان تھا کہ عبقر ایک بستی ہے، جس میں جن رہتے تھے پس جب عرب کوئی غیر معمولی چیز دیکھتے یا کوئی ایسا کام دیکھتے جس کا کرنا بہت مشکل اور دشوار ہو یا بہت دقیق ہو تو وہ کہتے تھے کہ یہ کسی ” عبقری “ کا کام ہے، پھر وہ قوم کے سردار کو ” عبقری “ کہنے لگے۔ (النہایہ ج 3 ص 158-157، دارالکتب العلمیہ بیروت 1418 ھ)

علامہ محمد بن ابوبکر رازی متوفی 660 لکھتے ہیں

عبقر، عنبر کے وزن پر ہے، یہ وہ جگہ ہے جس کے متعلق عربوں کا گمان تھا کہ یہ جنات کی سرزمین ہے پھر وہ عبقر کی طرف ہر اس چیز کو منسوب کرتے تھے جو بہت قوت والا بہت مہارت والا اور بہت حیرت انگیز کام کرے اور اوہ اس شخص کو عبقری کہتے تھے۔

علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی 817 ھ لکھتے ہیں

ہر وہ چیز جو سب سے کامل ہو اس کو ” عبقری “ کہتے ہیں اور سردار کو اور ہر اس چیز کو جس سے اوپر اور برتر کوئی چیز نہ ہو اور بہت طاقتور کو اور بچھونے کو ایک قسم کو (القاموس المحیط ص 435، موسسۃ الرسالۃ بیروت 1424 ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 76

سورة  الرحمن الآية رقم 76