حلم، علم، حکم اور فہم و فراست
حلم، علم، حکم اور فہم و فراست کا درجہ سمجھنا ہو تو اس سے اندازہ کر لیں کہ جنگِ جمل میں سیدنا محمد بن ابو بکر اپنی بہن سیدہ عائشہ صدیقہ کے مخالف کیمپ میں مولا علی کے ساتھ تھے۔ دوران جنگ مولا علی نے محمد بن ابو بکر کو بہن کے خلاف نہیں اکسایا بلکہ انہیں اپنی بہن کی خبر گیری کا حکم خود مولائے کائنات نے دیا۔ جنگ کے اختتام پر مولا علی نے محمد بن ابو بکر کے ساتھ ام المؤمنین کی خدمت میں حاضری دی۔ مال غنیمت واپس کیا، مزاج پریس کی، بصرہ میں رہائش فراہم کی، وقت رخصت مکمل پروٹوکول دیا، شہر سے باہر کچھ میل تک ساتھ چلتے رہے اور بصرہ کی چالیس شریف و معزز خواتین کو ان کے ساتھ بطور پروٹوکول روانہ کیا اور فرمایا سیدہ عائشہ پاک ہمارے آقا کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی حرم محترم اورہماری ماں ہیں، ان کی تعظیم وتوقیر ضروری ہے ۔
یہ ظرف، برداشت یقیناً مولا علی ہی کا ہو سکتا ہے جن کی عقل و قلب پر ذاتی عناد حاوی نہیں ہوتا بلکہ ہر ہر عمل میں اللہ تعالی اور رسول اللہ علیہ السلام کی رضا ہی مقدم و مقصود ہے۔
لاکھوں سلام میرے مولا و آقا کی تربت اقدس پر۔
اللهم صل وسلم وبارك على سيدنا وحبيبنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۲۲ رمضان المبارک ۱۴۴۳