مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

حالات حاضرہ پر قابو کرنے کی ممکنہ صورتیں

 

آر ایس ایس کا قیام 1925 میں ہوا تھا۔سخت جد وجہد اور سر توڑ کوششوں کے بعد بھارتی ماحول کو اس نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ملک بھر میں اس کے ہزاروں اسکول ہیں۔وہاں کے تعلیم یافتگان اعلی حکومتی مناصب حاصل کرنے کے بعد آر ایس ایس کے ایجنڈا کو قوت پہنچاتے ہیں۔ملک بھر میں آر ایس ایس کے بے شمار برانچ اور بہت سی ذیلی تنظیمیں ہیں جو ہندو عوام کے درمیان آر ایس ایس کے ایجنڈا کو فروغ دیتی ہیں۔

 

مسلمانوں نے آزادی ہند سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے دینی مدارس تعمیر کئے۔ان مدارس اسلامیہ کی سندوں سے حکومتی مناصب حاصل نہیں ہو سکتے۔علمائے کرام قوم مسلم کے مذہبی رہنما ہیں۔جماعت علما نے عوام مسلمین کو دنیاوی علوم کے حصول کی ترغیب نہیں دی۔غریب گھرانوں کے بچے نوعمری میں حصول معاش کی فکر میں لگ جاتے۔جب ہمارے بچوں میں تعلیم ہی کی کمی ہے تو وہ حکومتی ملازمت اور حکومتی مناصب کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔

 

علمائے کرام نہ خود سیاست کی طرف متوجہ ہو سکے,نہ ہی کبھی قوم کو اس جانب متوجہ کرنے کی وسیع پیمانے پر کوشش ہوئی ہے,لہذا قوم بھی سیاست وحکومت کی جانب متوجہ نہ ہو سکی۔

 

آج بھی تمام ہنود آر ایس ایس کے ساتھ نہیں-تمام ہنود متحد نہیں,لیکن تخت وتاج پر آر ایس ایس کا قبضہ ہے۔مسلمانوں کو جب کبھی عملی کوشش کی بات کہی جائے تو سب سے پہلے بدمذہبوں سے اتحاد اور ان سے میل جول کی بات سامنے آتی ہے,حالاں کہ اس کی شرعی حاجت متحقق نہیں۔نہ تمام ہنود آر ایس ایس کے ساتھ ہیں,نہ ماضی میں ساتھ تھے,لیکن ج وہی جماعت ملک کو اپنے کنٹرول میں لے چکی ہے۔

 

دیوبندی جمعیۃ العلما مسلمانوں کی جانب سے سیاسی نمائندگی کرتی رہی ہے,لیکن دراصل یہ جمعیت آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی کانگریس کی کاسہ لیسی میں مبتلا رہی ہے۔

 

آزادی ہند کے بعد مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے کمزور کرنے کی مستحکم کوشش کی گئی۔آج بھارت کا مسلمان معاشی اعتبار سے دلتوں سے بھی بدتر ہو چکا ہے۔معاشی اعتبار سے کمزور کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ جب مسلمان مالی اعتبار سے کمزور ہوں گے تو نہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں گے,نہ ان کے اندر سیاسی شعور بیدار ہوگا,نہ وہ حکومتی ملازمت اور حکومتی مناصب حاصل کر سکیں گے۔اس طرح وہ برہمنوں کی غلامی میں مبتلا رہیں گے,جیسے ساڑھے تین ہزار سال سے مول نواسی اقوام(شودر اقوام)کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔یہ برہمنی سیاست ہے۔

 

عظیم اقامتی مدارس کا قیام بھی ضروری ہے,تاکہ دین کے محافظین کی ایک جماعت ہمیشہ ملک میں رونق افروز رہے۔اسی طرح جا بجا غیر اقامتی مکتب کھولے جائیں۔مسلم بچوں کو ضرورت کی مقدار میں دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ساتھ ہی یہ بچے اسکولی تعلیم بھی حاصل کریں۔

 

مکتب کا موجودہ نظام بالکل چوپٹ ہے۔محلے میں پانچ بچے ہوں,یا پانچ سو بچے۔ساری ذمہ داری امام مسجد پر ہوتی ہے۔ایک معلم بمشکل چالیس بچوں کو سنبھال سکتا ہے,ورنہ تعلیمی نظام تباہ وبرباد ہو گا۔مکتب میں قانون شریعت,بہار شریعت اور ابتدائی تجوید وقرأت کی تعلیم لازمی ہو۔

 

بہت سے علاقوں میں مکتب کی تعلیم کی بہتری کے لئے کوشش کی جا چکی ہے اور کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے۔اسی طرح ملک بھر میں ماحول سازی کی جائے۔

 

طارق انور مصباحی

 

جاری کردہ:04:مئی 2022