*عید کی خوشیوں پہ سوگ کا اظہار*

 

پچھلے چند سالوں سے سوشل میڈیا پر ایک رجحان متعارف کرایا جا رہا ہے،کہ عید کے موقع پر فوت شدہ حضرات کی تصاویر اور ویڈیوز دکھی میوزک کے بیک گراؤنڈ کے ساتھ ،اور جدائی و صدمے کے اشعار کے ساتھ شئیر کی جاتی ہیں ۔

 

عید سعید کی خوشیوں کی بجائے جانے والے حضرات کا غم والم اور سوگ منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ایک دو آئی ڈیز سے چند تصویریں شئیر ہوجائیں، تو پیچھے لائن لگ جاتی ہے، ہر بندہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے فوت شدگان کی تصاویر لگاتا ہے ۔جن کے پیارے اس سال فوت ہوئے ہیں وہ بھی اور جن کے فوت شدگان کو سالہا سال ہوچکے ہیں وہ بھی تواتر کے ساتھ تصویریں شئیر کرتے ہیں۔

 

سوشل میڈیا پر عید الفطر کی مبارکباد پیش کرنے والا پریشانی سے دو چار ہوتا ہے، کہ میں عید کی مبارکباد پیش کروں ،یا غم مناؤں اور سوگ کا اظہار کروں ۔کئی بے چارے تو عید کا سارا دن ہی فوت شدگان کی مغفرت اور بخشش کی دعائیں مانگتے اوراہل خانہ کو صبرِ جمیل کی دعائیں دینے میں گزار دیتے ہیں۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ عید کے موقع پر اپنے بچھڑے ہوئے شدت سے یاد آتے ہیں ۔ان کی یاد میں آنکھیں چھما چھم برستی ہیں، دل بے قرار اور جگر مضطرب ہوتا ہے مگر یہی یہی وقت امتحان کا ہوتا ہے ،اور اسی وقت صبر پہ بے حد اجر و ثواب ہے ۔

 

جس وقت بچھڑوں کی یاد آئے، ان کو تلاوت قرآن مجید کر کے، درود پاک پڑھ کے، صدقہ وخیرات کر کے ایصال ثواب کریں۔ ان کی یاد پہ کوئی قدغن نہیں نہ آنکھوں سے آنسو بہانے پر کوئی گرفت ہے ۔لیکن جزع فزع کرنا ،واویلا کرنا ،ناشکری اور کفریہ کلمات بولنا شریعت کو ناپسند ہے۔

 

اس معاملے میں بھی ایک ناپسندیدہ روایت یہ بھی ہے کہ ل،وگ نماز پڑھنے مسجد جاتے نہیں ،قرآن پاک پڑھتے نہیں فیس بک پر اپنے دکھ والم کا اظہار کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔

 

شریعت مطہرہ میں سوگ تین دن جائز ہے اور وہ عورت جس کا خاوند فوت ہو جائے چار ماہ دس دن تک سوگ کی حالت میں گزارتی ہے سوگ صرف تین دن تک رہنے میں بے پناہ حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں سوگ کا دورانیہ اگر طویل کردیا جائے تو دنیاوی امور معطل ہو جائیں اور نظام زیست خوشگوار طریقے پر استوار نہ رہ سکے ۔

 

حضور نبی مہربان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں غزوہ بدر ہوا ،جس میں کئی صحابہ کرام علیہم الرضوان شہید ہوئے لیکن اس کے باوجود عید الفطر منائی گئی اور سوگ کا اظہار نہیں کیا گیا۔سیدہ خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال بھی رمضان المبارک میں ہوا ،حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ رمضان المبارک میں شہید ہوئے ، مگر کوئی روایت نظروں سے نہیں گزری کہ عید الفطر کے موقع پر خاندان اہل بیت اطہار کی طرف سے سوگ کا اہتمام کیا گیا ہو ۔

 

یہاں پر ایک باریک سی بات یاد رکھنے کی ہے بلا اختیار کسی کی یاد آ جانا ،اس کے غم میں آنسو بہہ جائیں بالکل جائز ہے ،ان کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا ا،ن کے لیے دعائیں کرنا بالکل جائز اور درست ہے ۔یہاں پر جس چیز سے روکا جا رہا ہے وہ قصداً اور اہتمام سے سوگ منانا اور سوگ کا ماحول پیدا کرنا ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔عید الفطر ہو شب برات ہو یا کوئی بھی موقع ہو ہر تہوار کو اس کی روایت کے ساتھ شریعت مطہرہ کے دائرے میں منانا چاہیے ۔

 

عید الفطر مسلمانوں کے لیے مسرت و شادمانی اور خوشی کا دن ہے ۔اس دن کے موقع خوشی کا اظہار کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی عین اطاعت و فرمانبرداری ہے۔

 

یہ پوسٹ نیک نیتی سے لکھی گئی ہے ،پھر بھی میرے کسی بھائی بہن کے قلبی جذبات مجروح ہوئے ہوں تو میں اس سے معافی کا خواستگار ہوں میرا ایسا ہرگز کوئی ارادہ نہیں تھا ۔اس وقت شریعت مطہرہ کا ایک حکم بیان کرنے کے لیے یہ پوسٹ لکھی گئی ہے ۔ہم نے شریعت کے پیچھے چلنا ہے نہ کہ شریعت نے ہمارے پیچھے چلنا ہے ۔اللہ تبارک و تعالی ہم کو قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات

03-05-2022۔منگل

00923444650892واٹس اپ نمبر

عید مسلمانوں کی خوشی کا دن ہے | Nojoto