کیا قبر کو مس کرنا یعنی تبرک حاصل کرنا غیر مقلدین کے نزدیک شرک نہیں ؟
کیا قبر کو مس کرنا یعنی تبرک حاصل کرنا غیر مقلدین کے نزدیک شرک نہیں ؟
غیر مقلدین کے مجتہد علامہ ابن تیمیہ صاحب لکھتے ہیں :
وأما التمسح بالقبر أو الصلاة عنده أو قصده لأجل الدعاء عنده معتقدا أن الدعاء هناك أفضل من الدعاء في غيره أو النذر له ونحو ذلك فليس هذا من دين المسلمين بل هو مما أحدث من البدع القبيحة التي هي من شعب الشرك والله أعلم وأحكم.
قبر کو مس یعنی ہاتھ لگانا (تبرک کرنا) اس کے پاس نماز پڑھنا ، یا دعا مانگنے کے غرض سے اسکی طرف سفر کا قصد کرنا اس نیت سے کہ کہ وہاں عمومی جگہوں کی بانسبت دعا قبول ہوگی ، قبر پر نزر نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ اس جیسے سارے اعمال کا دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بری بدعات میں سے ہیں کہ جنکا تعلق شرک کی مختلف اقسام سے ہے
[ مجموع الفتاوى،ج24،ص321]
یعنی موصوف کے نزدیک یہ سب عمال قبیح بدعات کے ساتھ شرک کی اقسام سے ہیں ۔
نیز ایک جگہ لکھتےہیں :
وأما التمسح بالقبر – أي قبر كان – وتقبيله وتمريغ الخد عليه فمنهي عنه باتفاق المسلمين ولو كان ذلك من قبور الأنبياء ولم يفعل هذا أحد من سلف الأمة وأئمتها بل هذا من الشرك
اور قبر کو ہاتھ لگانا (یعنی تبرک لینا) جسکی بھی قبر ہو ، اسکو چومنا اور اس پر گال پھیرنا (تبرکا) یہ متفقہ طور پر مسلمین سے منع ہے ، اگر یہ قبور انبیاء کرام کی بھی ہو ایسا فعل سلف میں کسی ایک سے وارد نہیں اور نہ ہی ائمہ سے بلکہ یہ (سب افعال) شرک میں سے ہیں
[مجموع الفتاوى،ج27،ص92]
یہاں تک یہ ثابت ہو گیا کہ ابن تیمیہ کے نزدیک قبور سے تبرک لینا ، انکو چومنا ، یا نکو مس کرنا ان پر گال پھیرنا شفاء لینا یہ سب امور اسکے نزدیک شرکیہ اعمال ہیں
لیکن چونکہ ہم جمہور ائمہ سلف سے اسکا ثبوت پیش کرتے ہیں تو اب کچھ لوگ اس پر پلٹی کھا کر اسکو شرک ہی نہیں کہتے
جبکہ تبرک کی نیت سے قبر کی طرف جانا اور اس سے چاہے روحانی فیض لینا ، شفاء لینا یہ سب استغاثہ کے باب سےہے کیونکہ شفاء دینے والا ، روحانی تسکین دینے والا یہ سب کام ما فوق الاسباب میں سےہیں جو کہ اللہ کے علاوہ کوئی مخلوق نہیں دے سکتے ۔۔۔
ابن تیمیہ کے اس صریح جھوٹ پر امام ذھبی نے انکی پکڑ کی اور فرمایا :
قلت: أين المتنطع المنكر على أحمد، وقد ثبت أن عبد الله سأل أباه عمن يلمس رمانة منبر النبي -صلى الله عليه وسلم- ويمس الحجرة النبوية، فقال: لا أرى بذلك بأسا.
أعاذنا الله وإياكم من رأي الخوارج ومن البدع.
میں (ذھبی) کہتا ہوں کہاں ہے مغرور(ابن تیمیہ) جو امام احمد (کے اس عمل )پر انکار کرتا ہو، اور یہ بات ثابت ہے کہ امام عبداللہ نے اپنے والد سے اس بارے پوچھا کہ جو بندہ نبی اکرمﷺ کے منبر رسولﷺ سے مس کرتا ہے اور نبی اکرم کا حجرہ مبارک سے مس کرتا ہے توامام حمد بن حنبل نے کہا میں اس میں کوئی حرج نہیں جانتا
میں اللہ کی پناہ چاہتاہوں خوارج اور بدعت کی رائے سے ۔
[سیر اعلام النبلاء ، ج11،ص212]
نیز اپنا مسلک بیان کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں :
قلت: والدعاء مستجاب عند قبور الأنبياء والأولياء،
میں ( الذھبی) کہتاہوں کہ انبیاء اور اولیاء اللہ کی قبور کے نزدیک دعا مقبول ہوتی ہے
[سیر اعلام النبلاء، ج۱۷، ص ۷۷]
نیز تاریخ الاسلام میں امام بن بشکوال [المتوفى: 533 هـ] سے ایک ولی کے بارے نقل کرتے ہیں :
قال ابن بشكوال: وقبره يتبرك به، ويعرف بإجابة الدعوة. جربت ذلك مرارا.
امام ابن بشکوال فرماتے ہیں انکی قبر سے تبرک (مدد و شفاء) حاصل کی جاتی ہے اور یہ دعاوں کے قبول ہونے کے لحاظ سے معروف ہے اور میں نے متعدد بار اسکا تجربہ کیا ہے
[تاریخ الاسلام ، برقم :462]
نیز متقدمین کےدور میں ایک مشہور ناقد امام ابن ماکولا (المتوفى: 475هـ) بھی ہیں جنکی رجال پر معروف کتاب ہے
تو وہ فرماتے ہیں :
أبو علي بن بيان الزاهد من أهل دير العاقول، له كرامات وقبره في ظاهرها يتبرك به، قد زرته.
ابو علی بن بیان زاھد یہ دیر عاقول(علاقہ)کے لوگوں میں سے ہیں اور انکی قبر وہی ہے انکی کرامات ہیں ، انکی قبر سے تبرک حاصل کیا جاتا ہے میں نے انکی قبر کی زیارت کی ہے
[ الإكمال في رفع الارتياب،ص367]
امام خطیب بغدادی ایک صوفی امام علي بن محمد بن بشار الزاهد أبو الحسن
کے ترجمہ میں انکے بارے روایات نقل کرتے ہیں :
، وكان له كرامات ظاهرة، وانتشار ذكر في الناس،
ان سے کرامات ظاہر ہوئی اور لوگوں میں اس چیز کا ذکر پھیل گیا
اسکے بعد امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
قلت: ودفن بالعقبة قريبا من النجمي، وقبره إلى الآن ظاهر معروف، يتبرك الناس بزيارته.
میں (خطیب بغدادی) کہتا ہوں آپ کو النجم کے قریب عقبہ میں دفن کیا گیا۔ ، اور انکی قبر لوگوں میں معروف ہے اور لوگ انکی قبر کی زیارت اور ان سے تبرک (مدد و شفاء) لیتے ہیں
[تاریخ الاسلام ، برقم:6415]
نیز ایک اور صوفی ولی امام أبو علي بن بيان العاقول،
انکے بارے فرماتے ہیں:
كان عابدا زاهدا، يتبرك أهل بلده بزيارة قبره، ويذكرون عنه أنه كان له كرامات.
یہ نیک و زاھد تھے اور انکے اہل علاقہ انکی قبر کی زیارت کرتے ہیں اور تبرک(مدد،شفاء) حاصل کرتے ہیں (قبر سے) اور وہ لوگ انکے بارے میں یہ ذکر کرتے ہیں کہ ان سے کرامات کو ظہور ہوا
[تاریخ بغداد ، برقم: 7739]
یہ ابھی ہم نے چند متقدمین اور متاخرین کے ادوار کے ان مشہور و معروف ائمہ کا مسلک پیش کیا ہے جن کے رجال پر حکم پیش کرتے نہیں تھکتے غیر کے مقلدین لیکن منافقت کا حال یہ ہے کہ قبور سے توسل و تبرک کے حوالے ےس انکو سلف سے نکال باہر کرتے ہیں
الغرض امام احمد بن حنبل سے لیکر امام ذھبی تک یہ لوگ گویہ مشر*ک ہیں ابن تیمیہ کے فتویٰ کے مطابق
دوسرا غیر مقلدین کا نمونہ محقق العصر امن پوری لکھتا ہے :
۔باقی جن اہل علم نے یہ لکھا ہے کہ فلاں کی قبر سے تبرک و توسل حاصل کیا جاتا ہے،تو یہ عام گمراہ یا جاہل عوام کی عادت کا ذکر ہے،جس پر کوئی دلیل نہیں،اگر بعض متاخرین اہل علم کا ایسا نظریہ ہو بھی، تو یہ حجت نہیں
[اجساد اولیاء سے منسوب تبرکات،]
یہ حال ہے ان گھامڑوں کا متقدمین سمیت ائمہ سلف کو ہڑپ کر لیتے ہیں پھر کہتے ہیں یہ عمل و عام گمراہ جاہلوں کا ہے اور پھر ایک چور دروازہ یوں کھول دیتے ہیں کہ بعض متاخرین نے کہا ہو تو ۔۔۔۔
یعنی امام احمد بن متاخر بن جاتے ہیں ، امام خطیب بھی اور امام ابن ماکولا بھی انکے علاوہ بھی متقدمین کی ایک جماعت نے یہ عمل بیان کیا ہے اور متاخرین متفقہ علیہ جنکی امامت متفقہ علیہ ہے انکی نا ختم ہونے والی ایک جماعت ہے
تحقیق:اسد الطحاوی