آئیں ، مسلمانی سیکھیں

 

حضرت سیدنا عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما و ارضاهما عنا راوى ہیں کہ نبي صلى الله عليه وسلم نے فرمایا

: ” المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ، وَالمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ “

صحیح البخاری

اصل مسلمان تو وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان محفوظ رہیں اور حقیقی مہاجر تو وہ ہے جو اللّٰہ کی منع کردہ حرکتوں کو چھوڑ دے ۔

اس حدیث کا پہلا جملہ حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضى الله تبارك و تعالى عنهما و ارضاهما عنا کی روایت سے صحیح مسلم میں بھی ہے ۔۔

اپنی تعلیمات کی جامعیت کی وجہ سے اس حدیث کو جوامع الکلم میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔۔

 

نبی کریم عليه افضل الصلوات و التسليم نے کامل و حقیقی مسلمان کے تعارف میں حقوق اللّٰہ یا خالص عبادات کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ فرد کے اپنے دو اعضاء پر کنٹرول کا ذکر کیا ہے جو ساری معاشرتی اخلاقیات کے رواج اور مکمل امن و امان کے قیام کی گارنٹی دینے والی ایک صفت کا ذکر فرمایا ۔

دوسرے مسلمان محفوظ رہیں

(أ) اس کی زبان سے !

یعنی

نہ سب و شتم کرے نہ لعنت و ملامت ، نہ برا کہے ، نہ منفی سوچے ، نہ غیبت کرے نہ بہتان سازی ، نہ چغل خوری کرے نہ لگائی بجھائی ۔

شر ، فتنہ وفساد کی کوئی بھی صورت ہو وہ اسے معاشرے میں پیدا نہیں کرتا ۔

 

اور اسی طرح کسی اور کی کوئی بری بات اس تک پہنچتی ہے تو اپنی زبان کی حفاظت کرتا ہے۔ اسے بے جا آگے پھیلاتا نہیں ۔

(ب) :

اس کے ہاتھ سے

یعنی

وہ مار پیٹ نہیں کرتا ، زخمی نہیں کرتا ، مال و دولت اور آبرو نہیں چھینتا، چوری چکاری نہیں کرتا ، راہ کھوٹی نہیں کرتا ۔ اپنے ہاتھ کو ہر اس حرکت سے روک کر رکھتا ہے جو اوروں کو کسی بھی طرح گزند پہنچائے ، جو معاشرے میں ، کج خلقی ، بد امنی ، بے راہ روی ، ظلم و زیادتی پیدا کرے ۔

ہاتھ سے دوسروں کو سلامت رہنے دینے میں یہ کیفیت بھی موجود ہے کہ اگر اس پر ظلم و تعدی ، بلا جواز دست درازی ہوتے دیکھے تو اپنے ہاتھ ( طاقت ) سے اسے اس سے محفوظ بنائے ۔

دوسرا جملہ انسانی کردار کو معراج کمال تک پہنچانے کا ضامن ہے ۔ فرمایا۔

وَالمُهَاجِرُ مَن هجَرَ ما نهى اللهُ عنه؛

 

قابل قدر مُهاجر اور اصل مہاجر تو وہ ہے جو وطن ، خویش قبیلہ کو بغرض اسلام چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اللّٰہ کی محرمات کو بھی چھوڑ دے ۔

شرک و کفر کے علاقے سے ترک مکانی تو کرے لیکن معاصی پر اصرار کو ترک نہ کرے تو یہ ہجرت تامہ نہیں۔

ترک معاصی کے ارشاد میں اہل اسلام کو ایذائیں پہنچانے کا ترک بھی موجود ہے ۔

یہ سبق بھی ملا کہ اعمال صالحہ میں صدق و خلوص کو شعار بنایا جائے ، ان کی بجا آوری کی کیفیات للہیت کو بتا رہی ہوں ، ان کے ظواہر و مظاہر پر اعتماد کافی نہیں بلکہ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

اس ارشاد کا پہلا حصہ

من سلِمَ المسلمونَ من لسانِهِ ويدِهِ ( ترجمہ گذر چکا ہے)

بخاری و ترمذی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ تبارک و تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وبارک وسلم سے پوچھا گیا کہ

اسلامی اخلاق میں سے افضل خلق کون سا ہے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وبارک وسلم نے جواباً یہ ارشاد فرمایا تھا ۔

یا اللّٰہ ، اپنے فضل وکرم سے مجھ فقیر کو اور میری تا قیامت نسلوں کو ہر کج روی ، بد تہذیبی اور بد اخلاقی سے محفوظ رکھنا کہ تیرے ہی بندے ہیں ۔