مسلمان بھائی کے عیب کی پردہ پوشی

 

اخلاقی انحطاط کی صورتحال ہر آئے روز بد سے بد تر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے دین نے جس نوع کی گفتگو کو نجی انداز میں بھی موضوع بحث بنانے سے منع کیا ہے ، اسے بڑے اہتمام سے اور بھرپور وسائل سے پھیلایا جاتا ہے۔ جس کو کریدنے سے منع کیا ہے اس کی پوری جاسوسی کر کے برآمد کیا جاتا ہے ، حسب منشاء کچھ اس میں زائد بھی ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اپنے دائرہء کار کے مطابق معاشرے میں پھیلا کر ایسے کا جینا دوبھر کر دینے کے ساتھ ، مزید کئی نفوس کو بھڑکا دیا جاتا ہے ۔

فقیر صرف اپنے ایمانی جذبہء خلوص کی بنیاد پر چند معروضات کی طرف توجہ اور ان سے حاصل ہونے والے اسوہ نبویہ کو حتی الامکان رواج دینے کی آپ کی مساعی کا طالب ہے کہ سعادت دارین کا راز ہے ۔

اللّٰہ تبارک و تعالٰی نے زنا کو بڑی فحاشی اور بد ترین گناہ کہا ہے ، اور اس کی سزا اپنی حد قرار دی ہے ۔

اتنی زیادہ قباحت والے اس گناہ کے بارے میں پورے دھیان کے ساتھ عھد نبوی کا درج ذیل واقعہ پڑھئیے ۔

 

سیدنا حضرت ماعز بن مالك الأسلمي جنہیں اللہ کی ایک حد توڑنے پر رجم کیا گیا تھا ۔ ان کا قصہ متعدد مستند کتب میں کچھ یوں ہے ۔

– حضرت ماعز سے گناہ ہو گیا تو اب احساس گناہ انہیں چین نہیں لینے دے رہا تھا ، سو اس کی تلافی کی تمنا لیئے أبو بكر الصِّديق کے پاس آ کر واقعہ بتایا ۔

حضرت أبو بكر نے استفسار کیا ! میرے علاوہ کسی اور سے ذکر کیا ہے ؟

جناب ماعز نے نفی میں جواب دیا تو أبو بكر نے انہیں کہا: الله کی جناب میں توبہ کریں اور اس نے اب تک جو پردہ رکھا ہے ، اسے اختیار کریں ، الله اپنے بندوں کی توبہ یقینا قبول کرتا ہے لیکن ماعز کو تسلی نہ ہوئی تو حضرت سیدنا عمر بن الخطَّاب کے پاس پہنچ کر وہی سب کچھ کہا جو ابوبکر صدیق کو کہا تھا ، جناب عمر نے بھی وہی کہا جو أبو بكر نے کہا تھا لیکن ماعز کو اطمینان قلب نہ ہوا تو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور اپنے گناہ کا اعتراف کیا .

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے چہرہ اقدس دوسری جانب فرما لیا ، اب اس طرف سے آن کر اپنے گناہ کا تذکرہ کر کے اس کی معافی چاہی ۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے رخ انور پھیر لیا ، جب چوتھی بار اپنے گناہ کا اقرار کیا تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے کچھ سوالات کرکے تصدیق چاہی۔

راوی کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی یہ الفاظ نہ پہلے کبھی کہے نہ بعد میں۔

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے گھر والوں کی طرف بندہ بھیج کر ان کی دماغی صحت یا اس طرح کے کسی اور عارضے جن آسیب وغیرہ کا پوچھا ۔ اہل خانہ نے مکمل بحالی صحت کا بتایا .

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ، کنوارا ہے یا شادی شدہ ؟۔

حاضرین نے شادی شدہ ہونے کا بتایا ۔

 

تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، لے جاؤ اسے اور رجم کر دو ۔

– اس حدیث سے صاف پتا چل رہا ہے کہ آدمی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ خلوص دل سے توبہ کرے ، دوبارہ نہ کرنے کا عزم مصمم کر لے تو اپنے گناہ کو چھپانا اس کے لیئے زیادہ بہتر ہے بمقابلہ اس کے کہ کسی مقتدرہ کے سامنے جا کر اعتراف کرے ۔

– واضح رہے کہ کاتب تحریر کو اب تک کہیں کوئی ایسا تذکرہ نہیں ملا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ماعز سے پوچھا ہو کہ اس گناہ میں تمھارے ساتھ دوسرا شریک کون تھا ؟ ،

اور اسی طرح غامدی قبیلہ کی جس عورت نے حاضر ہو کر اسی گناہ سے پاک کرنے کی باصرار خواہش کی اس سے بھی آپ صلى الله تبارك و تعالى عليه و على آله و اصحابه و بارك و سلم نے فریق ثانی کا نہیں پوچھا ۔

جبکہ دونوں مواقع پر فریق ثانی یقیناً تھا اور اس کا مجرم ہونا بھی یقینی تھا ، لیکن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان پر پڑا پردہ کھولا نہیں۔

نبی سے بڑھ کر نہ کوئی متقی ہو سکتا ہے نہ غیرت مند اور احکام الہیہ کا محافظ ۔

سو اپنی حدود میں ہی رہنا بہتر ہے ۔

– متعدد کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ جناب سیدنا ماعز کو آپ ہی کے قبیلہ کے ایک فرد هَزَّال بن رئاب بن زيد بن كليب الأسلمي نے نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے اور سارا ماجرا عرض کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔

نبي صلى الله عليه وسلم نے انہیں فرمایا۔

يا هَزَّال، لو سَتَرْته بردائك، لكان خيرًا لك ))

امام أحمد نے مسند میں وأبو داود نے اپنی سنن میں اور النسائي نے السنن الكبرى میں

مالك نے الموطأ میں اور دیگر کئی ائمہ نے اسے روایت کیا ہے .

میرے قارئین ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ھزَّال کو فرمایا

((يا هَزَّال، لو سَتَــرْته بردائك، لكان خيرًا لك))

اے ھزال اگر تم اپنی چادر سے اور دوسری روایت کے مطابق اپنے کپڑے سے ڈھانپ دیتے تو تیرے حق میں بہتر تھا ۔

پیارے قارئین ، انسان اپنی چادر کس پر ڈالتا ہے اور کن احساسات کے تحت ؟

انسان اپنے کپڑے سے کس کو ڈھانپتا ہے اور کن جذبات کی وجہ سے ؟

یہ احساسات وجذبات ہم میں موجود ہیں کیا اور وہ بھی ایسے گناہ گار کے ساتھ ؟؟۔

 

اور پھر فرمایا کہ تیرے اپنے ہی حق میں بہتر تھا ( بجائے تیرے اس طرح کا مصلح بننے کے )

تو کیا اپنے حق میں بہتر کو ہم اختیار نہیں کر سکتے؟؟

 

چلئیے اب اس ارشاد کے متعلق مشہور مالکی محدث أبو الوليد الباجي کی تحریر کا خلاصہ پڑھئیے

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ((لو سَتَــرْته بردائك، لكان خيرًا لك)) فرما کر یہ بتایا کہ تو نے اسے میرے گوش گذار کرنے کا جو مشورہ دیا اس سے بہتر تھا کہ( پڑا ہوا پردہ پڑا رہنے دیتا اور ) اسے پکی توبہ کرنے اور اپنے اس گناہ کو چھپائے رکھنے کا مشورہ دیتا ۔

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہاں چادر کا ذكر اس معنی میں زور پیدا کرنے کے لیئے کیا ہے کہ اگر تو اسے ایسا کرتے دیکھ لیتا تو اسے اوروں کی نظر سے بچانے کے لئے تاکہ وہ اس کے خلاف گواہ نہ بن سکیں، تیرے پاس اس پر اپنی چادر ڈالنے کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہ ہوتا تو ایسا کرنا ہی تیرے حق میں اس سے بہتر تھا اس لیئے کہ اب اس پر حد جاری ہونے کا سبب تو بنا ہے

📗 المنتقى شرح الموطأ لأبي الوليد الباجي

 

جناب ابن الأثير نے اس جملہ کی توضیح یوں کی ہے ۔

إنما قال ذلك حبًّا لإخفاء الفضيحة، وكراهيةً لإشاعتها

📗النِّهاية في غريب الحديث والأثر)) لابن الأثير

اللّٰہ تبارک و تعالٰی کے رسول نے ھزال کو یہ اس لیئے فرمایا کہ

اللہ تبارک وتعالیٰ برائی پر کسی کو نادم کرنے کے اخفاء کو محبوب رکھتا ہے اور اس کی اشاعت و اظہار کو ناپسند کرتا ہے ۔

🤲 اللّٰہ تبارک و تعالٰی محمد ( صلى الله عليه و على آله و اصحابه و بارك و سلم) کے نام لیواؤں کو وہی اطوار محبوب بنا دے جو اس کے حبیب کو محبوب ہیں اور جو آنجناب کو مکروہ و مبغوض ہیں وہ ان سب کو بھی مکروہ و مبغوض بنا دے ۔

✒️ فقیر خالد محمود

ادارہ معارف القرآن کشمیر کالونی کراچی

جمعرات

3شوال المکرم 1443 ھ

5 مئی 2022