انجمن طلبہ اسلام کے ثمرا ت کی جھلک
انجمن طلبہ اسلام کے ثمرا ت کی جھلک
٭ پاکستان میں انجمن طلبہ اسلام پہلی طلبہ تنظیم ہے جس نے طلبہ کو دین کی دعوت کے ساتھ خوف ِ خدا اور محبت ِ رسول کی تعلیم دی۔
٭ انجمن سے قبل کسی بھی طلبہ تنظیم کے لٹریچر میں عشق رسول اور غلامی رسول کا تذکرہ نہ تھا، انجمن کی کوششوں سے عام لوگوں اور مختلف تنظیموں نے اِس کے متعارف کردہ نعروں کو اپنا یا۔
٭ انجمن نے نیکی کے متلاشیوں کو روشنی دکھائی اور بھٹکے ہوؤں کو دین کا سیدھا راستہ بتلا یا۔ ا س نے طلبہ میں صحیح اسلامی روح بیدار کرنے کے لیے محبتِ الٰہی اور عظمت رسول ﷺ پر مبنی جس فکر کو متعارف کیا،اس سے بے شمار طلبہ کی زندگیاں انقلاب آشنا ہوئیں۔ اس نے مسلمان طلبہ کو اپنے نبی سے محبت کرنا اور اُن کے نام ِ پاک پر جینا اور مر نا سکھایا
* تعلیمی اداروں میں رسولِ پاک کی عظمتوں کا بیان، محا فل میلاد، محافل ِ نعت اورنعتیہ مشاعروں کی روایت شروع کرنے میں انجمن کا اہم کردار رہا ہے۔ اس سے قبل تعلیمی اداروں کے در و دیوار اس طر ح کے پرو گراموں سے نا آشنا تھے۔
٭ انجمن نے”سوشلزم کا پو سٹمارٹم“، ”فیصلے کی گھڑی“، ”اشتراکت اور اسلام“اور ”نظام مصطفی“ کے عنوان کے تحت ہزاروں کتابچے شائع کرکے اور اس ضمن میں دیگر سرگرمیاں کرکے ملک میں کمیونزم اور سوشلزم کی یلغار روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
٭ اس تنظیم نے طلبہ کو مقصد ِزندگی کا شعور، دین کو سمجھنے کا شوق اور سیاست کا اسلوب عطا کیا۔
٭ انجمن نے طلبہ میں شرافت، دیا نتداری، اللہ کے سامنے جواب دہی، فکر آخرت اور تعمیر ِسیرت کے جواہر پیدا کیے۔
٭
انجمن نے طلبہ کو قلوب کی صفائی کرنے والی مردم شناس اورکردار ساز عظیم شخصیات کی محافل میں بیٹھنے کا مو قعہ فراہم کیا۔
٭ ا س تنظیم نے طلبہ کو بتایا کہ مملکت ِ پاکستان کن شخصیا ت کا فیضان اور کن بزرگوں کی قر با نیوں کا ثمر ہے، اس ملک کو کس نے بنایا، کیوں بنایاا وراس ضمن میں طلبہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
٭ انجمن نے طلبہ کو اُن اولیاء عظام کی خدمات سے آگاہ کیا جنہوں نے ایک عَالم کو اسلام کے دامن ِ محبت سے وا بستہ کیا۔ اس کی کوششوں سے اولیاء کرام کی حیات و خدمات کے اسباق نصابِ تعلیم میں شامل کئے گئے۔
انجمن نے امام احمد رضا محدث بریلوی پر مذاکروں اور پروگراموں کا آغاز کیا اور اُن کی ہمہ جہت علمی، فقہی، ادبی اور فکری شخصیت سے عوام کو متعارف کرایا۔ حکیم محمد موسیٰ امرتسری (متوفی 17نومبر1999ء)
نے نوری مسجد لاہور میں یوم رضا کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس میں اے ٹی آئی کا نمایاں تعاون رہا۔ اخبارات کے اعلٰحضر ت ایڈیشن اور مختلف شہروں میں ”یوم ِ رضا“ کے عنوان سے تقریبات، انجمن کی کوششوں سے شروع ہو ئیں۔
٭ انجمن کے کارکنان نے کئی شہروں میں مساجد کو فرقہ پرستوں کی دسترس سے محفوظ رکھااور کئی مساجد کو ناجائز قابضین سے آزادکرانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔
٭ انجمن کے پروگراموں میں شرکت کے لیے طلبہ اپنے گھروں،علاقوں اور شہروں سے با ہر نکلے۔مختلف علاقو ں کے مختلف زبان اور مسائل رکھنے والے طلبہ کا باہم رابطہ ہوا، ایک دوسرے کے دکھ سکھ سے آگاہی ہوئی، محبتوں کا سلسلہ دراز ہوا، بھائی چارے کا ماحول پیدا ہوا اور نفرت و تعصبات کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی۔
٭ طلبہ میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنے اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں انجمن کی سرگرمیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
٭ انجمن طلبہ اسلام نے نصا بِ تعلیم کو اسلامی اقدار اور نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ بنانے کی کوششوں میں اپنا کردارادا کیا۔
٭ انجمن نے کئی مرتبہ نصاب تعلیم میں پائی جانے والی اغلاط کی نشاندہی کی اور پھر اپنی جدوجہد سے انہیں درست کرایا۔
* انجمن، طلبہ کی اپنی تعلیم سے غفلت برتنے کے سخت خلاف ہے،یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم سے وابستہ مختلف مرکزی عہدیداروں تک نے تعلیمی میدان میں قابلِ فخر کارگزاری کا مظاہرہ کیا اور اس سلسلے میں نمایاں پوزیشن، اسکالر شپ اور گولڈ میڈل حاصل کئے۔
٭ طلبہ بہبود کے لیے انجمن کی سرگرمیاں جہاں غریب طلبہ کے لیے ایک سہارا بنتی رہی ہیں وہاں اِن خدمات سے معاشرے میں طلبہ کے وقار کی بحالی میں بھی مدد ملی ہے۔
٭ اس نے ہمیشہ نبی کریم اور اسلامی شعائر کی
حرمت کے لیے اُٹھنے والی آواز پر لبیک کہا۔
٭ انجمن نے علاقائی،لسانی عصبیتوں اور تعصبات کے خلاف آواز بلند کی اور وطن دشمن عناصر کے خلاف کئی مرتبہ جواں جذبوں کا اظہار کیا۔
٭ انجمن نے کئی مرتبہ دین اور وطن کے خلاف کی جانے والی سازشوں پر احتجاج کرکے، اُن سازشوں کو انھیں ناکام بنایا۔
٭ انجمن نے روشن خیالی، جمہوریت، کلچر اور سافٹ امیج کے نام پر اسلامی اقدار اور نظریہئ پاکستان کو پامال کرنے کی سازشوں کو بے نقاب کیا۔
٭ انسانی حقوق، آزادیئ اظہار، برداشت اور روا داری کے نام پر نامو سِ رسالت، شر عی قوانین اور شعائر ِ اسلام پر حملوں کا فوری نوٹس لیا اور اپنا ردِّعمل ظاہر کیا۔
٭ انجمن نے مختلف مواقع پر علماء کرام میں یکجہتی پیدا کرنے کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ 1994-1993ء میں انجمن کی کوششوں سے علماء کرام ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔
٭ انجمن نے 1974ء کی تحریک ِختم نبوت، 1977ء کی تحریک نظام مصطفی اور دیگر ملی و قومی تحریکوں میں علماء و مشائخ کی شمولیت کے لیے اُن سے رابطے کیے۔
٭ انجمن طلبہ اسلام نے مختلف مواقع پر اپنی سماجی خدمات پر فوج کے سربراہ سمیت اعلیٰ حکام، سیاسی راہ نماؤں،اقوام متحدہ کے نمائندوں، سول سوسائٹی کے ارکان اور دیگر مبصرین سے خراج تحسین وصول کیا ہے۔
٭ انجمن طلبہ اسلام کی سماجی خدمات پر مبنی مہمات کے دوران کارکنان نے دوسرے صوبوں میں جاکر بھی خون کے عطیات دیئے اور فلاحی خدمات کے دیگر کام سر انجام دیئے۔ اور قومی یکجہتی کو پروان چڑھایا
٭ 1992ء میں انجمن طلبہ اسلام کو ”انجمن ہلال احمر پاکستان“ کی جانب سے ”سماجی خدمات ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔
٭ انجمن نے تعلیمی اداروں میں امن کے قیام اور علم پرور ماحول کے لیے جو جدوجہد کی، اس کا اعتراف متعدد مواقع پر کئی تعلیمی اداروں کے سربراہوں نے کیا۔
٭ اس تنظیم کی کوششوں سے طلبہ اور تعلیمی ادارے امن کی ضرورت، اہمیت اور طریقہ کار سے آگاہ ہوئے۔
٭ انجمن کی بدولت مختلف مواقع پر تعلیمی اداروں میں ہنگامہ آرائی کی روک تھا م ہوئی اور کئی مرتبہ انجمن کے کارکنان کے مصالحتی کردار سے طلبہ کے مابین جھگڑے اور خون ریز تصادم ہوتے ہوتے رہ گئی
* انجمن کے تنظیمی و دستوری نظام سے تنظیموں نے راہ نمائی حاصل کی۔ کئی تنظیموں کو دستور سازی میں مدد فراہم کی۔
٭ انجمن کی آغوش میں طلبہ تکنیکی طور پر بہترین منصوبہ ساز،پالیسی ساز، تقسیم کار، منتظم اور اچھے راہ نمابنے۔اس نے مختلف وسائل کو مناسب انداز میں استعمال کرنے،انتظامیہ کی تبدیلی اور ٹائم مینجمنٹ کے ساتھ اچھا فیصلہ کرنے کی صلاحیت، طلبہ میں تخلیق کی۔
٭ طلباء میں مشاہدہ، تجزیہ اور مختلف معاملات کے ادراک کا فہم و شعور پیدا ہوا۔
٭ انجمن کے ذریعے طلبہ دوست نما دشمنوں او ر منافقین کے طریقہ واردات سے آگاہ ہوئے۔
٭ انجمن نے کلف لگے نفیس لباس زیب تن کئے نازک مزاجوں کے ہاتھوں میں لئی، پوسٹر،چاکنگ برش او رنگ دے کر نفس مارنے کا ڈھب سکھایااورتکبر،گھمنڈ اور انا کی بیماری میں مبتلا نوجوانوں کے ہاتھوں میں رسیدیں تھما کر انہیں چندہ مانگنے کا حوصلہ اور عاجزی و انکساری کا عملی درس دیا۔
٭ بڑے بڑے آرام طلب نوجوانوں کو تنظیمی کام کے دوران فاقہ کشی اور محنت و مشقت پر آمادہ کرکے انھیں زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کیا۔
٭ تربیتی نشستوں میں طلبا ء کو شب بیداری کی لذتوں سے آشنا کیا اور انھیں تزکیہ نفس کا سلیقہ سکھایا۔
٭ انجمن نے مختلف تنظیموں کو نہ صرف توانائیاں فراہم کیں بلکہ اس نے کئی تنظیموں کے قیام اور فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس ضمن میں انجمن کے کارکنان نے دریاں بچھانے اور پوسٹر لگانے سے لے کر گولیاں کھانے تک ہر کام کیا۔انجمن کے سابقین اب بھی مختلف تنظیموں اور اداروں میں اہم ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔
٭ انجمن نے وطنِ عزیز کو، بہترین افراد ی قوّت کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
٭ انجمن کے ماحول میں طلبہ نے جملہ بندی، مضمون نویسی اور تقریر و گفتگو کرنے کا فن سیکھا۔
٭ انجمن میں طلباء کو اپنی صلاحیتوں کے زیادہ سے زیادہ استعمال کا موقع ملا،جس سے ان کی صلاحیتوں نے جلا پائی۔
٭ انجمن نے اُن طلبہ کوایک بہتر پلیٹ فارم مہیا کیا جواپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے لادین، بد عقیدہ، وطن دشمن، دہشت گرد اور معاشر تی برائیوں میں مبتلا گروہوں کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے۔
٭ انجمن کے نصاب، لٹریچر اور علمی ماحول سے طلبہ میں مطالعہ کرنے کی عادت پیدا ہوئی۔
٭ طلباء کو شعبہ صحافت، تعلیم، اُمور داخلہ، انتظامی اُمور،سیاست، تربیت، طباعت اور دیگر شعبہ جات کو سمجھنے کا موقعہ ملا۔
٭ انجمن کی جدوجہد سے نومبر1979ء میں ملتان یونیورسٹی کا نام ”بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی“ رکھا گیا۔
٭ انجمن کی جدوجہد سے بارانی یونیورسٹی راولپنڈی کا نام ”پیر مہر علی شاہ بارانی زرعی یونیورسٹی“ رکھا گیا۔
٭ انجمن کی جدوجہد سے مختلف جامعات میں صوفیائے عظام کے نام پر چیئر قائم کی گئیں۔
٭ انجمن نے کئی مرتبہ تعلیم دشمن سرکاری فیصلوں پر آواز بلند کرکے، ان فیصلوں کو منسوخ کرایا یا ان میں مناسب ترامیم منظور کروائیں۔
٭ طلبا میں ایثار و قربانی اور محنت کا جذبہ پیدا ہوا اوروہ اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے اور ہر طرح کے حالات کا سامناکرنے کی ہمت اور جرأت کے حامل ہوئے۔
٭ انجمن کے تنظیمی رابطوں سے جو سماجی سرکل تشکیل پایا، اس سے بہت سے رفقاء کو روزگار کے مواقع حاصل ہوئے اور اُن کے دیگر نجی و سماجی مسائل کے حل میں مدد ملی۔
٭ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تلاوت قرآن پاک کے بعد نعتِ رسولِ مقبول ﷺ کا آغاز، متعلقہ اسمبلیوں کے اُن منتخب ارکان نے اپنی جدوجہد سے کرایا جو اپنے زمانہ طالب علمی میں انجمن سے وابستہ رہے۔
اسی طرح انجمن کے ہزاروں رفقاء نے اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں، انجمن سے ملنے والی فکر اور تربیت کے نقوش ثبت کیے۔ بلکہ انجمن کے رفقاء نے پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی اس کے نصب العین کے چراغ روشن کیے ہیں
تحریر معین نوری