مقاصد میں کامیابی کے زریں اصول
*مقاصد میں کامیابی کے زریں اصول*
از قلم محمد سلیم رضوی۔
ہم بہت سے مقاصد بناتے ہیں، کام شروع کرتے ہیں پھر اس کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرا مقصد بنالیتے ہیں۔ مثلاً خیال آیا کہ تفسیر قرآن مکمل پڑھنی ہے، دل کو بہت بھلا لگا، تھڑی دیر غور و فکر کے بعد ارادہ مزید پختہ ہوگیا۔ اب ایک دو دن بڑی رغبت سے تفسیر کا مطالعہ کیا پھر دوسرا خیال آگیا اور ہم دوسرے کام میں لگ گئے۔ اب یہ تفسیر کا مطالعہ بالکل ذہن سے اُتر گیا، کچھ دن بعد تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ تفسیر پڑھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ بالکل اسی طرح بہت سے لوگ عالم بننے کا منصوبہ بناتے ہیں چند دن پڑھنے کے بعد مدرسہ کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔۔ بعض لوگ کاروبار شروع کرتے ہیں چند دن بڑی محنت کرتے ہیں لیکن پھر اپنے کاروبار کو توجہ اور وقت نہیں دیتے۔
روز مرہ کی زندگی میں ہم بھی بارہا اس تجربہ سے گزرتے ہیں۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے عمل کا ایک پہلو تو عدمِ استقامت ہے یعنی ایسا اس لیے ہوا کہ ہماری طبیعت میں مستقل مزاجی نہیں تھی۔
ایک دوسرا سبب یہ ہے کہ ہم نے جو مقصد بنایا تھا وہ صرف ہماری دلچسپی کی حد تک تھا، ہمارا اپنے مقصد کے ساتھ تعلق مضبوط نہیں تھا اور بات جب بنتی ہے جب کسی کام کے ساتھ محض دلچسپی نہ ہو بلکہ گہری وابستگی ہو۔
یاد رکھیں اگر آپ اپنے مقصد کو پانے کی شدید تڑپ رکھتے ہیں تو پھر آپ سخت محنت کرتے ہیں اور اپنے کام کو انجام دے کر ہی دم لیتے ہیں، چاہے آپ کو کیسے ہی مشکل حالات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے اور جس انسان کو اپنے مقصد کے حصول کی دُھن نہ ہو وہ محنت نہیں کرسکتا وہ اپنے موڈ پر چلتا ہے موڈ ہوا کام کیا ورنہ نہیں کیا۔
محترم قارئین! میں جو نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کسی بھی کام میں بہترین نتائج اس وقت ملتے ہیں اور آپ اپنی منزل کو اسی صورت میں پاتے ہیں جب آپ میں اس کام سے متعلق شدید تڑپ ہو اور یہ تڑپ وقتی نہ ہو۔
اس اصول کو ایک بہت زبردست مثال کے ذریعے سمجھیں۔
بھاپ سے چلنے والی ٹرین جو کہ پرانے دور میں چلا کرتی تھی اگر اس میں نیم گرم پانی ڈال دیا جائے تو ظاہر ہے ٹرین نہیں چل سکتی۔ کیونکہ ٹرین شدید گرم پانی سے ہی چل سکتی ہے جو بھاپ میں تبدیل ہوکر انجن کو چلنے کی قوت فراہم کر سکتا ہو۔۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے مقاصد کی ٹرین کو محض نیم گرم پانی کے ذریعے چلانا چاہتے ہیں جبکہ اُس کے لئے بھاپ میں تبدیل ہونے والا پانی درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نتائج مایوس کُن نکلتے ہیں۔
کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آپ اپنے کام کو گرم جوشی سے انجام دیں نہ کہ نیم دلی سے۔
دوسری اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ ہم اپنے مقاصد کو ترتیب دینے اور انہیں پانے کے لئے کن اصول و ضوابط کو اختیار کرتے ہیں۔
ذیل میں ایک طریقہ درج کیا جارہا ہے ان شاء اللہ اس کو اختیار کرکے آپ اپنی منازل کو پانے میں کامیابی پاسکیں گے۔
پہلا قدم: غور و فکر کے بعد اپنے مقاصد کو تحریر کریں۔
دوسرا قدم: خود سے سوال کریں ان مقاصد کے حصول کے لیے آپ کو کونسے وسائل درکار ہیں۔ کونسی صلاحیتیں آپ کو حاصل کرنی ہیں۔ اب ان وسائل کو تحریر کرکے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ممکن ہو تو اس کا طریقہ بھی لکھ لیں۔
تیسرا قدم: اپنے مقاصد کو پانے کے لئے آپ نے کونسا روٹ سوچا ہے۔ پورا پلان تحریر کریں کہ ان مقاصد میں کامیابی آپ کس طرح حاصل کریں گے۔
چوتھا قدم: ان مقاصد کے حصول میں آپ کے اندازے کے مطابق کتنا وقت صرف ہوگا یا آپ کتنے وقت میں اس کام کو مکمل کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی لکھ لیں۔
اب اس پیپر پر دستخط کردیں۔ اور وقتا فوقتا اسے دیکھتے رہیں۔ بلکہ ممکن ہو تو کسی نمایاں مقام پر آویزاں کردیں جہاں آپ کی دن میں کئی بار نظر پڑتی رہے۔
یقین جانیں اگر آپ نے یہ چند کام کرلیے تو آپ اپنے اندر حیرت انگیز قوت محسوس کریں گے۔ اور یوں سمجھ لیں کہ فضلِ رب شاملِ حال ہوا تو آپ کی کامیابی سو فیصد یقینی ہے۔
اٹھیں! پختہ عزم اور کامل اخلاص کے ساتھ اور آگے بڑھ کر اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دے دیں۔