یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ایکسپائرڈ ہی بکتا ہے
یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ایکسپائرڈ ہی بکتا ہے
کل شام مؤرخہ 14 مئی 2022 سرساوا کے ایک ہوٹل پر کچھ دوستوں کے ہمراہ چائے پینے کا اتفاق ہوا۔ ہوٹل کے بلکل سامنے ایک جنرل سٹور تھا جس کا نام پروانہ جنرل سٹور تھا۔ ہوٹل کے ایک ملازم کو ہم نے اس سٹور پر کچھ بسکٹس وغیرہ لانے کے لیے بھیجا ۔ بسکٹس کے دو پیکٹ تھے جن میں سے ایک پیکٹ کو کھول کر ہم نے بسکٹس کھانا شروع کیے۔ ایک دوست کو بسکٹس کا ذائقہ کچھ عجیب سا لگا اس نے کہا کہ اس بسکٹ کے پیکٹ کی ایکسپائری ڈیٹ چیک کریں ۔ ہم نے اس پیکٹ کی ایکسپائری ڈیٹ چیک کی تو وہ پیکٹ 6 دن قبل ہی مؤرخہ 8 مئی 2022 کو ایکسپائر ہو چکا تھا ۔ ہم سٹور کے مالک کے پاس گئے اس سے اس کے متعلق بات کی کہ آپ نے ہمیں ایکسپائرڈ بسکٹس کیوں دیے؟ کیا آپ اشیائے خورد و نوش کی ایکسپائر ی ڈیٹ چیک نہیں کرتے ؟ کیا آپ کو معلوم نہ تھا کہ یہ پیکٹ ایکسپائر ہو چکا ہے؟
اس پر موصوف انتہائی بدتمیزی اور ڈھٹائی سے فرمانے لگے کہ یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ایکسپائرڈ ہی بکتا ہے ۔ اس سے قبل کہ وہ مزید بدتمیزی سے پیش آتا ہم نے عافیت اسی میں جانی کہ خاموشی سے وہاں سے نکل آئے۔ ہوٹل کے ایک ملازم کی زبانی یہ بھی معلوم ہوا کہ موصوف سے اکثر خریدی گئی اشیاء ایکسپائر ہی نکلتی ہیں ۔ اس قدر دیدہ دلیری کے ساتھ ایکسپائر اشیاء کی فروخت کھلے عام جاری ہے اور کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ۔ واضح رہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی ایکٹ 2011 شق نمبر 24 اے کے مطابق اگر کوئی فرد ایسی فوڈ پروڈکٹ بیچتا ہے جو محفوظ نہیں ہے یعنی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں بھی پہنچتا تو اس کی سزا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ جیل دس لاکھ جرمانہ اور کم سے کم ایک ماہ جیل اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
المیہ یہ ہے کہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ یہ ایکسپائر اشیاء فروخت کر کے دوسروں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں ۔ اور ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ لاکھوں افراد فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے مر جاتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ چند ٹکوں کے فائدے کے لیے انسانی جانوں سے یوں کھیلنا انہیں کس قدر آسان لگتا ہے۔ ضلع کوٹلی کی انتظامیہ، فوڈ اتھارٹی اور متعلقہ اداروں سے میری گزارش ہے کہ اس بات کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور ایکسپائر اشیاء کی خرید و فروخت پر سختی سے پابندی عائد کی جائے
محمد إسحٰق قریشي ألسلطاني