اصطلاحات کی جنگ
اصطلاحات کی جنگ
✍️ پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی، گجرات (انڈیا)
ممالک کے درمیان سرد جنگ(Cold War) کی طرح تہذیبوں کے ما بین اصطلاحات کی جنگ جاری رہتی ہے. زمینی سطح پر انتہائی قوت رکھنے کے باوجود اگر بیانیہ اور اصطلاح کمزور ہو تو آدھی جنگ آپ خود ہی ہار جاتے ہیں. مقابلہ کے وقت بیانیہ کا دوسرے بیانیہ سے مضبوط ہونا اور اصطلاح کا دوسری اصطلاح سے برتر ہونا لازمی امر ہے. اپنی وضع کردہ اصطلاحات یا اپنے نظریات کے موافق الفاظ و تعبیرات کا استعمال سیکھیں تاکہ آپ کا تحریری یا تقریری مواد مبہم شکل میں بھی کسی باطل نظریہ یا نظام کی غیر شعوری حمایت نہ بن جائے. ذیل میں مذکورہ ضابطہ کو تین مثالوں سے سمجھیں.
الحاد کے خلاف آپ اپنا بیانیہ کمزور کر رہے ہوتے ہیں جب آپ بنو آدم اور آدمیت کی جگہ انسان اور انسانیت کی اصطلاح کو مطلقاً ذریعۂ بیان بناتے ہیں. ایک طرف الحاد ہے جو ارتقا(Evolution) کو کائنات کی بنیاد بتا کر خدا کے وجود سے بری ہونے کا خواب دیکھ رہا ہے جب کہ دوسری طرف اسلامی نقطہ نظر سے آدم تا ایں دم مخلوق کی ایک لڑی ہے جس کا پہلا سرا خالق کی تخلیق اور واجب الوجود کے اثبات سے جا ملتا ہے. ایسے میں جب آپ کائنات کے حقائق یا اس کی اصل پر کلام کرتے ہوئے انسانیت کی تعبیر زیر استعمال لائیں گے تو غیر شعوری طور پر آپ ارتقائی لازمیت اور عالمی انسانی حقوق والی قرار دادوں کی حمایت کر بیٹھیں گے. اس کے بالمقابل بنو آدم یا آدمیت کے الفاظ انسان کے مخلوق ہونے اور اول تا آخر توالد و تناسل سے مربوط ہونے کو بتاتے ہیں. بطور مسلمان الحاد کے خلاف آپ کے دلائل تو بدیہی طور پر مضبوط ہوں گے ہی مگر اپنی عمومی ابحاث میں الفاظ کے معنی خیز انتخاب اور اسلامی نظریات سے قریب ترین تعبیرات کا استعمال کر کے آپ الحاد کے اصطلاحی چیلنج کو بھی کاؤنٹر کر سکتے ہیں.
ایسے ہی مشرکین کے خلاف آپ اپنا بیانیہ کمزور کر رہے ہوتے ہیں جب آپ مدرسہ کی جگہ وِدھیا مندر یا پیدائشی سرزمین کی جگہ مقدس مادرِ وطن کے الفاظ اپنے روزمرہ میں لے کر آتے ہیں یا کم از کم اپنی عام تحریروں میں تفہیم کے لیے ان کو ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں. ایک طرف آپ کے سامنے پیغمبر کی سیرت ہے کہ پیدائشی سرزمین سے منتقل کیا جاتا ہے حتیٰ کہ ہجرت کی سرزمین کو آخری آرام گاہ بنا دیا جاتا ہے. نیز قرآن میں واضح پیغام دیا جاتا ہے کہ “جس سرزمین پر اللہ کے احکام کا نفاذ ممکن نہ ہو وہاں سے ہجرت کر جاؤ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے” اور دوسری طرف مغربی تہذیب کا نیشنلزم ہے جو جدید وطن پرستی کی بنیاد ہے. ان کے تراشے ہوئے وطن کے بُت نے اتنا تقدس حاصل کر لیا ہے کہ اس کے بالمقابل دین کا نکھار پھیکا نظر آ رہا ہے. مغرب کے نیشنلزم کے لیے جلتی پر تیل کا کام؛ مشرق میں مشرکین کا مادر وطن والا مقدس نظریہ کرتا ہے. ایسے میں تفہیم و تبلیغ کے دوران ہمارا ان الفاظ اور تعبیرات کا عادی ہو جانا جو باطل کی توجیہات کا استعارہ ہیں؛ ایسا خطرناک مرحلہ ہے جہاں پہنچ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں اصطلاحی تصادم میں پچھڑ رہے ہیں.
تیسرے نمبر پر ہم الفاظ و تعبیرات کا ایک عمومی تجزیہ بھی کر سکتے ہیں. مثلاً مذہبی اسکالر(Theologian) کی جگہ عالم دین کی تعبیر. مذہبی اسکالر میں جدید تعلیم یافتہ کا تصور تو ہوگا مگر یہ تعبیر بہر حال عالم دین کے تقدس اور احترام سے خالی ہوگی.
رفاہ عامہ یا انسانیت کی خدمت کی جگہ خدمت خلق کی تعبیر لا کر دیکھیں. کیا رفاہ عامہ یا انسانیت(Humanity) کے نام پر کی جانے والی مدد میں خدا کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے کا عظیم تصور پیدا ہونے کا امکان ہے؟ قطعی نہیں. بلکہ جب آپ خدمت خلق کے نام پر مخلوق کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں تو خود بہ خود خالق کی بارگاہ میں قبولیت کی امید؛ شکر گزاری کا جذبہ بن کر پورے وجود میں سرایت کر جاتی ہے.
ماضی میں فلاسفہ؛ علۃُ العِلَل یا سببِ اوّل کے لیے جوہرِ مطلق کی تعبیر لائے ہیں، اس کے بالمقابل متکلمینِ اسلام نے ازلی ابدی ذات کے لیے واجب الوجود کی تعبیر وضع کی. نتیجتاً فلاسفہ اصطلاحی جنگ میں شکست کھا گئے اور واجب الوجود کی مقدس تعبیر نے اہل اسلام کے نظریاتی قبلہ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا.
ایسے ہی موجودہ دور میں انسانی حقوق کی جگہ حقوق العباد کی تعبیر. آزادی نسواں کی جگہ تحفظ محرمات اور احترام غیر محرمات کی تعبیر. وغیرہ وغیرہ.
حاصل یہ کہ ہم اصطلاحی تصادم سے ناواقف ہونے کے سبب ایسے الفاظ و تعبیرات بے جھجک استعمال کرتے ہیں جو براہ راست باطل کی نمائندہ اصطلاحات کی علامت یا ان کے بیانیہ کی بنیادی کڑی ہیں، نتیجتاً اصطلاحی تصادم میں ٹھوکر کھا کر گر پڑتے ہیں یا کم از کم اپنی صحیح سمت کا تعین کرنے سے چوک جاتے ہیں. اسلام و سنیت کی نمائندگی کرنے والے افراد کو اتنا باشعور ہونا چاہیے کہ اصطلاح اور اصطلاح کے ما بین فرق کر سکیں اور اسلامی نقطہ نظر کے مطابق الفاظ و تعبیرات کا انتخاب کر کے اپنے نظریات و معتقدات کے تحفظ کے لیے ٹھوس کام کر سکیں. ورنہ لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا بیانیہ اور لغت کے قارون کی طرح لفظوں کی بوچھاڑ وقتی طور پر مسرور کن تو ہوگی مگر یہ عمل اصطلاحات کی جنگ میں اپنی شکست آپ تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا.
اہل اسلام کے لیے یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں. دنیا اگر چہ ماضی قریب میں “اصطلاحی تصادم” کے نظریہ سے واقف ہوئی ہے مگر ہمارے اسلاف دفاع اسلام میں ایسے بہت سارے نظریاتی حربے کامیابی کے ساتھ استعمال کرتے چلے آئے ہیں. اصول فقہ کی اولین کتابوں میں قرآنی آیات کے لیے “لفظ” کی جگہ “نظم” کی تعبیر سے لے کر آخری دور میں امام احمد رضا کے رسالہ “دوام العیش” میں خلافت اسلامیہ کی جگہ سلطنت اسلامیہ کی تعبیر اور آزادی کی جد و جہد کے ہنگامی ماحول میں ہجرت کی جگہ نقل مکانی کی تعبیر؛ تک، علمائے اسلام کی تمام تر کاوشوں کو اصطلاحی تصادم کے پس منظر میں دیکھا، سمجھا اور اپنایا جا سکتا ہے.
15.10.1443
17.05.2022