مفتی راشد محمود رضوی اور مرزا محمد علی انجینئر!

 

ابھی چند سال قبل کی بات ہےہر دردِدل رکھنے والا سنی یہی کہتا سنائی دیتا تھا کہ اس مرزے کا کچھ کرو کوئی اس کو لگام ڈالے، کوئی اس کے رد کی ذمہ داری لے یہ بہت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے.

 

مرزے کو غرور بھی تھا کہ مجھے کوئی لاجواب نہیں کر سکتا.

 

اسی دوران کئی علما بالخصوص مفتی علی نواز صاحب نے مرزا انجینئر کا خوب رد کیا لیکن پھر بھی مرزا ہاتھ میں نہیں آیا.

پھر مفتی راشد محمود رضوی صاحب حفظہ اللہ نے مرزے کے رد کو باقاعدہ شروع کیا.

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرزا محمد علی انجینئر صاحب کی دوکانداری اور دھوکہ دہی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے.

 

اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے فالوور ختم ہو جائیں گے ہاں ان کا گھمنڈ ضرور ٹوٹا. اب صرف ضد و انا کی کیفیت باقی رہ گئی ہے. طالبین حق نوجوانوں کی تسلی کا سامان ہوا..

 

مفتی صاحب کی اس کامیابی کے پیچھے چند اہم پہلو ہیں جن ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں

 

اول اللہ تعالیٰ کا مفتی صاحب پر خصوصی کرم اور توفیق ہے.

 

دوم مفتی صاحب کا ثقاہت فی العلوم و الدینیات پھر اپنے عقائد، مروجہ درس نظامی میں پڑھائے جانے علوم پر دسترس ہونے کے ساتھ ساتھ اصول حدیث میں میں مضبوط ہونا بھی پایا جاتا ہے اور پھر مناظر ہونا سونے پر سہاگہ….

 

سوم : مفتی صاحب قبلہ کی گفتگو انتہائی آسان فہم اور سلیس اردو میں ہوتی ہے.

 

سب سے اہم بات یہ کہ مفتی صاحب مد مخالف کے لیے نہ تو غصے میں دکھائی دیتے اور نا ہی بازاری زبان استعمال کرتے ہیں.

ورنہ ہوتا تو یہی آیا ہے کہ مد مخالف کے خلاف سخت جملے بولنے کی وجہ سے مقدمہ کمزور پڑ جاتا ہے اور توجہ صاحب الفاظ پر چلی جاتی ہے.

 

چہارم : مفتی صاحب مرزے کی غلیظ زبان کا جواب بالکل نہیں دیتے بلکہ اس کو موضوع کے شکنجے میں رکھتے ہیں مرزے کی جانب سے بازاری زبان اسی وجہ سے استعمال کی جاتی کہ شاید تحمل ٹوٹ کر جذبات کا اظہار ہو. موضوع سے پھیرا جا سکے جب کہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا.

 

مفتی صاحب کی شخصیت میں نوجوان علما کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے.

 

ایک بات قابل افسوس ہے کہ جب رد نہیں ہوتا تھا تب ہر طرف شور تھا لیکن جب معلوم پڑا کہ رد ہو چکا تو اب مفتی صاحب کو اس طرح پذیرائی نہیں دی گئی جس طرح دی جانی چاہیے تھی دوسرے لفظوں میں ہمارا یہ وطیرہ ہے کہ رد نہیں تو شور جب ہو گیا تو چلو اپنا کام کریں.

 

کام نہ ہونے کا شکوہ تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن کام ہونے پر شکر گزاری کوئی کوئی…..

 

فرحان رفیق قادری عفی عنہ

17 / 5 / 2022