*میـاں جی کی ٹـوپی،*

 

ایک میاں جی ٹرین میں سفر کر رہںے تھے، ان کے پاس بیٹھے شاستری جی انہیں غور سے دیکھنے لگے،

 

میاں جی نے وجہ پوچھی تو شاستری جی نے کہا،

 

کہ “کیا یہ وہی ٹوپی نہیں ہںے جو تم نے پہن رکھی ہںے؟ ہمارے دادا بھی یہی ٹوپی پہنا کرتے تھے تمھیں کہاں ملی؟

 

آپ کہاں سے ہیں

میاں جی….. “ایودھیا”

 

یہ جواب سن کر شاستری جی اچھل پڑے اور کہنے لگے،

 

وہ “تو یہ ضرور میرے دادا کی ٹوپی ہںے” وہ بھی کپڑے کی ٹوپی تھی، تم مجھے میرے دادا کی ٹوپی واپس کر دو!

 

“یہ ہمارے ایمان کے بارے میں ہںے”

 

میاں جی کہنے لگے بھائی یہ ٹوپی ہمارے بابا کی آخری نشانی ہںے وہ یہ ٹوپی پہن کر جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے،

 

لیکن شاستری جی نے کہا… “میں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہںے،

 

نماز کے دوران ٹوپی پہننا واجب نہیں، لہٰذا یہ ٹوپی مجھے دے دیں،

میاں جی کنفیوزیا گئے تھے!

 

اب شاستری جی کے ساتھ ڈبّـے میں بیٹھے مشرا، پانڈے، چوبـے جیسے اور بھی کئی لوگ ٹوپی دینے کا زور زور سے مطالبہ کرنے لگے!

 

نہ صرف یہ، بلکہ کونے میں بیٹھے سفید داڑھی میں پگڑی باندھے بزرگ مولانا نے یہ بھی کہا کہ ٹوپی دینے سے کیا نقصان ہوگا؟

 

ڈبّہ میں امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے لئے اپنی یہ ٹوپی دیں،

 

اسی وقت ایک سادھوی اٹھی اور نعرے لگانے لگی،

 

*”ایک دھکا اور دو، ٹوپی اتار دو”*

 

اس پر میاں جی ڈرنے لگے کہ کہیں یہ لوگ زبردستی میری ٹوپی کھینچ کر مار نہ دیں،

 

چنانچہ اس نے ٹرین کی زنجیر کھینچی اور گارڈ کو بلا کر شکایت کی،

 

پھر گارڈ نے کہا…… “تم دونوں کے پاس کیا ثبوت ہںے کہ ٹوپی تمہاری ہںے؟

 

*دونوں خاموش!*

 

پھر گارڈ نے حکم دیا کہ ٹوپی پھاڑ کر دونوں آدھی آدھی لے لو!

 

میاں جی اپنے والد کی ٹوپی پھٹی ہوئی نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور وہ ٹرین ڈبّہ کے خراب ماحول کو بھی محبت میں بدلنا چاہتے تھے،

 

اسی لئے تنگ آکر میاں جی نے ٹوپی اتار کر شاستری جی کو دے دی،

 

اب ڈبـّے میں خوشی اور جوش کا ماحول تھا!

 

کچھ لوگوں نے چیخ کر کہا کہ..

“ٹوپی ایک جھانکی ہںے،

 

*ابھی کرتہ اور پاجامہ آنا باقی ہںے”*

 

اب ایسے نعروں سے جمن میاں کے ہوش اُڑ گئے، کیونکہ یہ نعرے اب حقیقت میں بدل رہںے تھے!

 

سامنے چوبـے جی دعویٰ کر رہںے تھے کہ….

 

اس کا کُرتا اپنے نانا کے کُرتے سے ملتا ہںے،

 

ثبوت کے لئے موبائل کی تصویر میں اس نے اسی رنگ کا کرتہ بھی دکھایا جو نانا جی نے پہنا تھا،

 

جسے ڈبّـے کے سارے مجمع نے سچ مان لیا، یہی نہیں پگڑی والے مولانا نے فتویٰ بھی دے دیا!

 

“کرتا دینے سے کیا نقصان ہو گا،

مجبوری میں بنیان میں بھی نماز پڑھی جاسکتی ہںے،

 

اِس مولوی صاب کا ریزرویشن برتھ کنفرم نہیں تھا، تو شاستری جی نے انہیں انعام کے طور پر اپنے چھوٹے پوتے کا برتھ دیدیاتھا،

 

آخر میاں جی نے اپنی جان بچانے کے لئے کرتہ بھی دے دیا!

 

اس طرح ڈبّے میں سے کوئی ایک کے بعد ایک کپڑے مانگنے لگا اور تنگ آکر میاں جی اپنے کپڑے بھی دے دیتے تھے لیکن جب بات پاجامہ تک پہنچی تو پھر میاں جی کو غصہ آگیا،

 

اپنے تھیلے سے آئین کی کاپی نکال کر وہ چلا کر بولا، ’’مجھے اپنے کپڑے پہننے کا حق ہںے،

 

اگر یہ آپ کے کپڑے ہیں تو آپ عدالت میں جائیں اور ثابت کریں اور عدالت سے لے جائیں،

 

میں تمہیں اپنے کپڑے نہیں دوں گا۔”

 

تب سامنے بیٹھے بجرنگی بابو نے چیخ کر کہا کہ “اگر تم نے نہیں دیا تو ہم تمہاری جان لے لیں گے”،

 

پھر میاں جی نے تھیلے سے قرآن پاک نکالا اور کہا کہ اگر تم ظلم کرو گے تو جواب میں تم پر بھی ظلم کروں گا، ایسا نہیں ہو گا،

 

کیونکہ قرآن ہمیں ظلم کرنا نہیں سکھاتا بلکہ میں تم سے پیار کروں گا! کیونکہ محبت قرآن کا پیغام ہںے،

لیکن ہمارے نرم دل سے فائدہ اٹھا کر اگر آپ اپنی ضد پر ڈٹے رہںے تو میں بھی اپنی جگہ ڈٹا رہوں گا!

میں پاجامہ ہرگز نہیں دوں گا اور آپ کو دیئے گئے اپنے کپڑے بھی واپس لے لوں گا، اگلے اسٹیشن پر میرے بھائی رہتے ہیں،

 

میاں جی کا یہ روپ دیکھ کر شاستری، چوبـے، دوبـے اور پانڈے سب دنگ رہ گئے،

 

تب تک دوسرا اسٹیشن آچکا تھا…. جیسے ہی ٹرین رکی، سب میاں جی کے وہی کپڑے پھینک کر ٹرین سے باہر بھاگے،

 

تب تک میاں جی سمجھ گئے تھے،

کہ اس نے شروع ہی سے اپنی ٹوپی دے کر ظالموں کے حوصلے بلند کئے اور ظلم کے نئے دروازے کھول دیئے!

 

*اگر صرف…..*

*اگر وہ پہلے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے،*

 

یاد رکھیں ظلم کا بدلہ ظلم نہیں بلکہ ظالم کی ہر خواہش کو پورا کرنا ظلم کی حوصلہ افزائی کرنا ہںے۔ ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہونا ہو گا، اپنے پیاروں کی مدد کے لئے آگے آنا ہو گا۔

 

*اس مضمون کو ہر شخص کو پڑھنا چاہیۓ اور آگے پوسٹ کرنا چاہئے..

منقول.*