فقہ حنفی کا اثار کے اختلاف میں راجح موقف تک رسائی کا منہج

تحریر اسد الطحاوی الحنفی

 

جس طرح متقدمین میں فقھاء میں انکے علم کے مطابق طبقات ہوتے تھے ایسے ہی متقدمین میں تابعین نے بھی صحابہ کرام کے فقاہت کے اعتبار سے بھی مراتب بنائے ہوئے تھے

 

فقہ حنفی کے مقبول ہونے کے متعدد اسباب ہیں لیکن جو چند بنیادی اسباب ہے ان میں سے ایک سبب بنیادی یہ تھا کہ امام ابو حنیفہؓ نے

اپنے ہم عصر محدثین کی طرح نہ ہی ہر حدیث کو دلیل بنایا اور نہ ہی اثار میں ہر صحابی کے عمل کو دلیل بنایا

 

جبکہ انکے دور کے عمومی طور پر باقی تمام فقھاء جو مدینہ ، بصرہ ، شام اور مکہ کے تھے وہ ہر ہر روایت کو قبول کرلیتے اور ہر حدیث اور ہر صحابی کے ہر اثرکو دلیل بنالیتے تھے

 

جسکے سبب فقہ حنفی کے علاوہ باقی تین فقہی مذاہب میں انکے اماموں کے اقوال میں تکرار زیادہ ہیں جسکے سبب انکے اقوال کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

یعنی اقوال جدید اور اقوال قدیم

 

جبکہ فقہ حنفی میں یہ تکرار کا سلسلہ بہت نادر ہے

 

اسکا سبب امام اعظم کا مشہور منہج تھا جسکے سبب ان پر تنقید بھی ہوئی لیکن بعد میں ناقدین کو پتہ چلا کے اصل میں تنقید کرنے والے امام اعظم کے فقاہت اور انکے منہج اور اصول سے جہالت کی وجہ سے فقط خود پر ہی ظلم کرتے رہے ۔۔۔

 

متقدمین میں ہر خبر واحد عمومی محدثین عقیدے بھی دلیل سمجھتے تھے ہر قسم کی

 

لیکن امام اعظم عقیدے کے باب میں سخت شرائط کے سبب قرآن اور پھر احادیث متواترہ کو ہی دلیل بناتے تھے

 

اور امام اعظم حدیث رسولﷺ کے امام ہونے کےساتھ ساتھ اپنے وقت میں اثار صحابہ کے سب سے بڑے عالم تھے

 

اور چونکہ جو فقھاء ہوتے ہیں وہ جب اثارصحابہ کو سب سے زیادہ یاد کرتےتھے تو انکوصحابہ کے فتووں اور انکے اجتہاد سے اکثر احادیث مرفوع کے ناسخ اور منسوخ اور راجح اور غیر راجح عمل کا پتہ چل جاتا تھا

 

اس لیے صحیح الاسناد منسوخ اور ناسخ اور راجح اور مرجوع کی پہچان آسان ہو جاتی

 

لیکن اسکے برعکس اصحاب الحدیث قرآن کے بعد حدیث مرفوع میں اختلاف کی صورت بس یہ دیکھتے کہ کونسی مرفوع روایت کو بیان کرنے والے متعدد راویان ہیں یا کونسی روایت میں اوثق راوی ہیں

 

جبکہ اس اصول کے تحت وہ روایات میں تطبیق دینے میں ضعیف ہو گئے اور احادیث رسول کا ایک حصہ انہوں نے چھوڑ دیا اس آڑ میں کہ فلان فلاں روایات اوثق راویان کے خلاف ہیں اور کسی صحابی کا فتویٰ مذکورہ روایت کے تحت ہوتا تو بھی اصحاب الحدیث یہ کہہ کر وہ روایت رد کر دیتے کہ یہ حدیث مرفوع کے خلاف ہے

 

اب اسکو ہم ایک مثال دیکر ثابت کرتے ہیں کہ کس طرح فقہ حنفی میں جید صحابہ اور کبیر تابعین کے فہم کے مطابق روایت لی گئی اور جو مرفوع روایات بظاہر صحیح الاسناد ہوتی تو اسکو منسوخ سمجھ لیتے اس بنیاد پر کہ جب صحابہ اور کبیر تابعین نے ان احادیث پر عمل نہیں کیا تو یقینن یہ روایت قابل عمل نہ ہوگی بلکہ اثار صحابہ کے موافق جو روایت ہوگی بیشک اسکی اسناد کم ہیں لیکن چونکہ ان روایات کو صحابہ کے عمل اور کبیر تابعین کے عمل کی تائید حاصل تو یقینن وہی روایت راجح ہوگی اور بقیہ کثیر الاسناد مرفوع روایات جو پہنچی وہ منسوخ ہونگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آسانی کے لیے ہم مسلہ رفع الیدین ہی کو لیتے ہیں

 

اس مسلہ میں احناف جب دیکھا گیا کہ رفع الیدین کی مرفوع روایات میں اختلاف ہے کہیں کرنے کا حکم ہے کچھ صحابہ سے کہیں نہ کرنے کا حکم ہے

 

اسکے بعد صحابہ میں کچھ اثار اثبات رفع الیدین کے ہیں اور کچھ ترک کے ہیں

پھر اسکے بعد کبیر تابعین میں بھی کچھ اثار اثبات رفع الیدین کے ہیں اور کچھ ترک رفع الیدین کے ہیں

 

جب دونوں طرف معاملہ ایک جیسا آیا تو اہل کوفہ فقھایعنی احناف نے پھر صحابہ کی تخصیص کی کہ ایسے صحابہ جو اپنے زمانے میں تمام صحابہ پر فقاہت میں مقدم تھے انکا اور انکے تلامذہ یعنی کبیر تابعین کا کیا عمل تھا ؟؟

 

ایک کبیر تابعی امام مسلم بن صبیح اپنے شیخ کبیر تابعی امام مسروق بن الاجدع سے ایک روایت بیان کرتے ہیں :

 

حدثنا علي بن عبد العزيز، ثنا أبو نعيم، ثنا القاسم بن معن، عن منصور، عن مسلم، عن مسروق، قال: ” شاممت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فوجدت علمهم انتهى إلى ستة: إلى عمر، وعلي، وعبد الله بن مسعود، وأبي الدرداء، وزيد بن ثابت، ثم شاممت الستة فوجدت علمهم انتهى إلى علي، وعبد الله “

 

حضرت مسروق فرماتے ہیں :

میں نے حضورﷺ کے اصحاب رسولﷺ کو سونگھا(مطلب علم اخذ) کیا ہے میں نے علم 6 افراد میں پایا ہے

 

حضرت عمر بن خطابؓ

حضرت علی بن ابی طالبؓ

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ

حضرت ابو الدرداءؓ

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم،

پھر میں نے ان چھہ کو سونگھا تو میں نے علم کی انتہاء

حضرت علی بن ابی طالبؓ

اور

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ عنہھما میں پائی

[المعجم الکبیر برقم: 8513 وسند صحیح[

 

 

اب یہ قول بیان کرنے والے چونکہ امام مسروق کوفہ کبیر تابعی ہیں انکا بالکل مختصر تعارف اس حد تک پیش کردیتے ہیں کہ یہ کن کن صحابہ کے شاگرد ہیں اور انکے تلامذہ میں کون کون ہیں

 

امام ذھبیؒ سیر اعلام میں انکے بارے فرماتے ہیں :

 

مسروق بن الأجدع بن مالك الوادعي الهمداني

 

الإمام، القدوة، العلم، أبو عائشة الوادعي، الهمداني، الكوفي.

حدث هو عن: أبي بن كعب، وعمر، وعن أبي بكر الصديق – إن صح – وعن أم رومان، ومعاذ بن جبل، وخباب، وعائشة، وابن مسعود، وعثمان ، وعلي، وعبد الله بن عمرو، وابن عمر، وسبيعة، ومعقل بن سنان، والمغيرة بن شعبة، وزيد.

حتى إنه روى عن: عبيد بن عمير؛ قاص مكة.

 

یہ حدیث بیان کرتے ہیں حضرت ابی کعبؓ، حضرت عمر بن خطابؓ، حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت ام رومانؒؓ ، حضرت معاذبن جبلؓ ، حضرت خبابؓ ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت علی بن ابی طالبؓ یہاں تک کہ یہ عبید ابن عمیر سے بھی روایت کرتے ہیں

 

اور انکے تلامذہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

وعنه: الشعبي، وإبراهيم النخعي، ويحيى بن وثاب، وعبد الله بن مرة، وأبو وائل، ويحيى بن الجزار، وأبو الضحى، وعبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود، وعبيد بن نضيلة، ومكحول الشامي – وما أراه لقيه – وأبو إسحاق، ومحمد بن المنتشر، ومحمد بن نشر الهمداني، وأبو الأحوص الجشمي، وأيوب بن هانئ، وعمارة بن عمير، وحبال بن رفيدة، وأنس بن سيرين، وأبو الشعثاء المحاربي، وآخرون.

 

انکے تلامذہ کی تعداد تو بہت زیادہ ہیں اور امام ذھبی نے بھی سیر میں مختصر مشہور تلامذہ کے نام لکھے ہیں جیسا کہ :

 

حضرت امام ابراہیم النخعی ؓ

حضرت امام شعبیؒ (جو کہ خود ۵۰۰ صحابہ کے شاگرد ہیں )

حضرت امام عبد الرحمٰن بن عبداللہ بن مسعودؓ (یہ حضرت ابن مسعودؓ کے بیٹےہیں)

حضرت امام ابو اسحاق السبیعی

حضرت امام ابن سیرین

حضرت امام مکحول شامی

 

اسکے بعد امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں :

وعداده في كبار التابعين، وفي المخضرمين الذين أسلموا في حياة النبي -صلى الله عليه وسلم-.

اور ان میں ایک تعداد ان کبار تابعین کی بھی ہے جو نبی اکرمﷺ کی زندگی میں ہی اسلام قبول کرنے والے تھے

[سیر اعلام النبلاء برقم: 17]

 

امام مسروک واحد ایسی شخصیت نہیں بلکہ اس پر کثیر اثار بلکہ اتفاق ہے ائمہ کا کہ اصحاب رسولﷺ میں مجتہد صاحب فتویٰ صحابہ کرامﷺ میں کوئی بھی مولا علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کے برابر نہ تھا فقہ اور اسکی جزویات میں

اب چونکہ یہ حضرت علیؓ سے بھی علم اخذ کیا لیکن باقائدہ طور پر یہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے چند متقدم تلامذہ میں شمار ہونے والوں میں شامل ہو گئے

اب امام ابراہیم النخعی ، امام شعبی ، امام قیس ، امام ابو اسحاق السبیعی ، امام عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعودؓ

یہ وہ شخصیات تھیں جو نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے

کیونکہ امام ابراہیم النخعی نے اپنے تمام شیوخ جو حضرت ابن مسعودؓ کے مشہور تلامذہ تھے اور فقاہت میں اپنی مثال آپ تھے وہ رفع الیدین نہ کرتے تھے اور بطور دلیل ان فقھاء نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی دلیل کو بنایا ہے

 

یعنی احناف نے جب اصحاب رسولﷺ میں رفع الیدین کی مرفوع و موقوف روایات میں اختلاف دیکھا تو انہوں نے

 

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت علی ؓ کو مقدم کر لیا کہ انکی کیا رائے ہے

تو امام محمد نے موطا محمد میں صحیح سند سے حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت علی سے ترک رفع الیدین کی روایت کو نقل کیا ہے

 

اور یہ صحیح الاسناد روایات مصنف ابن ابی شیبہ و عبدالرزاق میں موجود ہیں

 

بلکہ یہ تصریحات بھی موجود ہیں کہ حضرت علی ؓ و حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحابؓ سوائے شروع کے پھر رفع الیدین نہ کرتے تھے

[مصنف ابن ابی شیبہ واسناد صحیح]

اب چونکہ حضرت علی ؓ و ابن مسعودؓ چونکہ انکی فقاہت تمام صحابہ پر مقدم تھی اور یہ شروعاتی دور سے آخر تک نبی اکرمﷺ کے ساتھ رہے اور وہ نبی اکرمﷺ کے تمام اقوال اور ناسخ و منسوخ اور نبی اکرمﷺ کے آخری ادوار کے اعمال کے سب سے زیادہ حافظ تھے

 

یہی وجہ ہے کہ رفع الیدین نہ کرنے والوں میں جو تابعین آتے ہیں وہ سب کے سب فقہ میں تمام تابعین پر مقدم اور افضل ہیں

جیسا

حضرت قیس بن ابی خازم جنہوں نے نبی اکرمﷺ کا زمانہ میں ہی پیدا ہوگئے تھے اور خلفائے راشدین سمیت تمام تابعین میں سب سے زیادہ صحابہ کی صحبت اختیار کرنے والے تھے یہاں تک کہ اس بات پر اتفاق تھا محدثین کے نزدیک کہ حضرت قیس سے بہتر اسناد کسی کے پاس بھی نہ تھی

 

اسکے بعد امام شعبی ہیں جنکی فقاہت مشہورو معروف ہے اور یہ ۵۰۰ صحابہ کرامؓ کے شاگرد تھے اور انہوں نے ہر ہر صحابی سے انکی مکمل روایات حفظ کر لی تھیں ۔

پھر

امام ابراہیم النخعی ہیں جنکی فقاہت امام شعبی سے بھی زیادہ مشہور و معروف تھی

پھر

حضرت ابو اسحاق السبیعی تھے جو کہ حضرت مولا علی ؓ کے تلامذہ میں سے تھے

پھر

حضرت کلیب جو کہ مولا علی کے ساتھی تھے

پھر

حضرت عاصم بن کلیب تھے

پھر حماد بن ابی سلیمان آئے جو فقہ میں اپنی مثال آپ تھے

پھر

پھر امام اعظم ابو حنیفہ آئے جو امام حماد بن ابی سلیمان کے زریعہ امام ابراہیم النخعی کی فقہ کو حاصل کیا جو کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی فقہ کا نچوڑ تھا

اور

امام ابو حنیفہ کو امام شعبی سے علم حاصل کرنا بھی نصیب ہوا یعنی امام ابو حنیفہ فقط ایک واسطہ یعنی امام شعبی کے زریعہ کم و بیش ۵۰۰ صحابہ کرام کے اثار پر مطلع ہوئے ہونگے۔

 

اب جبکہ دوسری طرف اصحاب الحدیث تھے

انکی سب سے مضبوط دلیل حضرت ابن عمر کی حدیث تھی اور

دوسری حضرت وائل بن حجر کی اور تیسری حمید ساعدی (جبکہ یہ حدیث عند الصحاب الحدیث و ناقدین منقطع و مرسل ضعیف ہے)

جبکہ ان صحابہ کا فقہ میں مقام حضرت علی ؓاور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکے مقابل وہ نہیں کہ اگر ان صحابہ میں اختلاف جب آیا تو احناف نے حضرت ابن مسعود ؓ و حضرت علیؓ کو مقدم کیا اور خود یہ یہ قیاس نہ کیا کہ ہم تک چونکہ حدیث رسولﷺ پہنچ گئی ہے تو ہم حضرت علیؓ اور حضرت ابن مسعودؓ جیسے اصحاب کے عمل ترک رفع الیدین کو نہیں لینگے بلکہ ہم تک کو حدیث رسول ﷺ آگئی تو ہم اپنی سمجھ بوجھ کو مقدم کرینگے ان صحاب رسولﷺ کے عمل پر

لیکن ان اصحاب الحدیث سے ان صحاب رسولﷺ کے عمل کی نفی پر ایک بھی دلیل نہیں تھی نہ ہی یہ لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ اصحاب رسولﷺ فقہ میں ماہر نہ تھے یا ان لوگوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارا بلکہ آ جا کر اصحاب الحدیث کے پاس آخری دلیل یہ تھی کہ ان اصحاب رسولﷺ سے رفع الیدین کے اثبات میں بھی احادیث مرفوع مروی ہیں

 

جبکہ انکا یہ موقف خود احناف کے موقف ہی کی تائید تھی کہ ہم بھی اثبات رفع الیدین کی مروایات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ثابت ہیں لیکن جب ترک کی مروایات آگئی تو انکو ثقہ اوثق کی گیم کرکے ردکرنے کی بجائے ان مرویات میں تطبیق دی جائے

کیونکہ یہی واحد حقیقی راستہ تھا کہ جس سے

مرفوع احادیث ترک رفع الیدین

موقوف احادیث رفع الیدین

اثار صحابہ

اثار تابعین

اثار سلف و فقھاء

اور

اثبات رفع الیدین احادیث رسولﷺ

موقوف ، و ا ثار صحابہ و تابعین کے درمیان بظاہر مختلف موقف پر مبنی آراء میں تطبیق ممکن تھی ۔ کہ جس سے حدیث رسولﷺ اور اثار صحابہ و تابعین کا بڑا حصہ محفوظ ہوتا ہے

 

پھر تابعین کی بات آئی تو احناف نے جن تابعین کو مقدم کیا انکے نام اوپر بیان ہو چکے

 

اثبات رفع الیدین والوں میں جو مشہور و معروف تابعین ہیں انکے نام ہم وابیوں کی ویب سے نقل کر دیتے ہیں :

 

❀ تابعین عظام رحمہم اللہ بھی یہی رفع یدین کرتے تھے، مثلاً

محمد بن سیرین [مصنف ابن ابي شيبه : 235/1 و سنده صحيح]

ابوقلابہ [ايضا و سنده صحيح]

وہب بن منبہ [مصنف عبدالرزاق : 69/2 و سنده صحيح]

سالم بن عبداللہ بن عمر [جزء رفع يدين للبخاري : 62 وسنده حسن]

قاسم بن محمد [ايضا : 62]

مکحول [ايضا : 62] وغیرھم رحمها اللہ اجمعین

 

کوئی بھی رجال اور تاریخ کا بنیادی علم رکھنے والا دیکھ سکتا ہے کہ فقھاء صحابہ میں ان میں کوئی بھی اثبات رفع الیدین کرنے والے تابعین کے نزدیک بھی نہیں ہے

یہ سب کے سب تابعین حفاظ الحدیث میں ثبت اور مشہور ہیں لیکن فقہ میں انکا مقام ویسا نہیں جو ابراہیم نخعی ، شعبی اور قیس وغیرہم کو ملا ۔

 

حضرت امام قیس بن ابی حازم (جنہوں نے نبی اکرمﷺ کا دور پایا اور تمام خلفہ کی صحبت بھی)

حضرت امام شعبی (جنہوں نے خلفاں کا زمانہ پایا)

حضرت علقمہ

حضرت اسود

حضرت امام ابراہیم النخعی

حضرت امام ابو اسحاق سبیعی

حضرت کلیب

حضرت عاصم بن کلیب

 

ان سے نچلے طبقہ میں

امام حماد بن ابی سلیمان

امام ابو حنیفہ ،

امام سفیان ثوری

امام وکیع بن جراح

امام سفیان بن عیینہ

امام ابن ابی لیلیٰ

امام ابو بکر بن عیاش

امام اسماعیل بن ابی عیاش

امام اسحاق بن اسرائیل وغیرہم!

 

اس لیے احناف جس ابن مسعودؓ سے مروی حدیث رسولﷺ کو دلیل بنایا جسکو امام سفیان ثوری بیان کرتے ہیں اور اامام ابو حنیفہ اور حضرت ابراہیم النخعی وغیرہم

 

انکو دیگر اصحاب الحدیث جو دوسری صدی ہجدی کے شرو ع میں پیدا ہوئے انہوں نے جب احادیث کو جمع کرنا شروع کیا تو اثبات رفع الیدین کی قولی روایات زیادہ ہوگئی اور ترک کی کم

اور چونکہ وہ کم تھی تو ان اصحاب الحدیث نے ان روایات میں ثقہ اوثق اور وھم ، وخطاء کا اصول بنا کر ان روایات کو اڑا دیا

 

لیکن آج بھی کوئی وابی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتا کہ اگر ترک رفع الیدین کی روایات اگر ایک بھی صحیح نہ تھیں

تو اتنے بڑے بڑے کبیر تابیعن ، تابع تبعین ، اور مجتہدین کیسے ترک رفع الیدین کو اپنایا جو براہ راست سیکڑوں صحابہ کے شاگرد تھے

 

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی