طوطی ہند حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ،شخصیت وتعارف
*🕯️📚✍🏻.. طوطی ہند حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ،شخصیت وتعارف…🕯️*
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
*نمی دانم چہ منزل بود،شب جای کہ من بودم*
*بہر سو رقصِ بسمل بود،شب جای کہ من بودم*
✍🏻 حضر ت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کا نام آتے ہی ایک ایسی منفرد ، باکمال اور عدیم النظیر شخصیت کی تصویر سامنے آ جاتی ہے جس نے مختلف فنون کمالات میں وہ انفرادیت پائی اور ایسی جدتیں تخلیق کیں جو متقدمین و متاخرین میں ان کو ایک ممتاز شخصیت کا مقام عطا کرتی ہیں۔۔
⬅️حضر ت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ 1253 عیسوی میں ’پٹیالی آگرہ‘میں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد امیر سیف الدین’لاچین‘ قوم کے سر براہ تھے لیکن منگولوں کے حملے کے وقت ہندوستان تشریف لائے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی حضر ت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ہندوستانی تھیں ابھی آپ چند برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا بعد ازیں آپ کی تمام تر تعلیم و تربیت آپ کے ماموں نے کی آپ نے مختلف مدارس میں امتیازی حیثیت کے ساتھ تعلیم حاصل کی اسی دوران آپ کی ملاقات *محبوب الہٰی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی یہ ملاقات کیا تھی کہ آپ ہمیشہ کے لیے ہی محبوب الہٰی کے ہو کر رہے گئے اور بارگاہِ شیخ سے بھی آپ کو ایسا قرب اور روحانی نعمتیں ملیں کہ تصوف کی تاریخ آج تک ایسے شیخ اور ایسے سالک پہ رشک کرتی ہے آپ باقاعدہ طور پر حضرت محبوب الہٰی قدس سرہٗ سے بیعت ہوئے اور پوری عمر دہلی میں اپنے عظیم المرتبت شیخ کی رفاقت میں بسر کردی.*
⬅️ آپ کا اصل نام *’یمین الدولہ‘* تھا جب کہ عرف میں آپ ’امیر خسرو‘ کے نام سے مشہور تھے اور آپ کا تخلص بھی’ خسرو‘ ہے ۔بار گاہ ِسلطان المشائخ میں آپ کے مقام و مرتبے کا یہ عالم تھا کہ سماع کی ابتدا آپ سے ہوتی اسی لیے سلطان المشائخ اکثر آپ کو ’مفتا ح السماع‘ کہتے تھے ایک روز آپ نے اپنے شیخ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں چاہتاہوں کے مجھے روز قیامت خسرو کے نام سے نہ پکارا جائے کیوں کہ اس سے تفاخر ظاہر ہوتا ہے ۔ سلطان المشائخ نے جواب میں فرمایا کہ روزمحشر آپ کو بنام’ محمد کاسہ لیس‘ سے پکار اجائے گا ۔سفینۃ الاولیاء میں مذکور ہے کہ حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ کے قلب وسینے کے نور کی آتش اس قدر تھی کہ آپ کا پیراہن قلب کے اوپر ہمیشہ سوختہ رہتا تھا۔ حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ کو قدرت کی طرف سے جو جامعیت عطا ہوئی تھی اس طرح کی عنایات و نوازشات تاریخ میں بہت کم یاب و نادر رہی ہیں بالخصوص سرزمین ہندوپاک کے لیے ان کی ذات باکمالوں کی صف میں صدر نشین پائی جاتی ہے اگر آپ کو صوفی کی حیثیت سے دیکھا جائے تو فانی فی اﷲ اگر فلسفی کی حیثیت سے دیکھا جائے توابن رُشد اگر ایک عالم کی حیثیت سے دیکھا جائے تو متبحر عالم اور اگر مؤرخ کی حیثیت سے دیکھا جائے تو بے نظیر محقق اور شاعری کی دنیا میں آپ بلاشبہ ملک الشعراء ہیں.
⬅️ ع اے کہ مجموعۂ خوبی بچہ نامت خوانم حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ فارسی میں تو اپنی مثال آپ تھے ہی لیکن اردو میں بھی شاعری کی بنیاد رکھنے والے حضرت امیر خسرو ہی ہیں آپ نے ہندوستان کی علمی زبان سنسکرت میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی فارسی نثر میں آپ کی معرکۃ الآراء کتاب ’اعجازِ خسروی‘ بلاغت ومعانی میں بے مثل تصنیف ہے اسی طرح تاریخ کے موضوع پر آپ کی مایۂ ناز تصنیف ’خزائن الفتوح‘ کی اہمیت کا کون انکار کرسکتا ہے ۔ آپ نے مثنوی ، قصیدہ ،غزل اور نظم میں سے جس صنف کو بھی ہاتھ ڈالا اس کو چار چاند لگا دیئے آپ کے کمال کا عالم یہ ہے کہ نظم کی کوئی ایسی قسم نہیں جس میں آپ کے قلم کی روانی دریا کی موجوں کی طرح لہریں نہ مارتی ہو آپ کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ہردور کے محاسن ان کے کلام میں موجود ہیں تصوف کے اہم مسائل کو جس عمدگی اور وضاحت سے آپ نے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کلام راہ ِمعرفت کے ناآشنا مسافر کا نہیں بلکہ اس منزل شناس شخص کا ہے جو اس راہ کے تمام اسرار و رموزسے واقف ہے.
⬅️ حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ نے جہاں بھی تصوف کی بات کی ہے اور اسرار تصوف بیان کیے ہیں وہ ان کی حالت کا آئینہ دار ہیں ان کا بیان ایک خاص زور اور وضاحت کلام کا ایک لطیف انداز ہوتا ہے اور ایسا لطیف انداز کہ اس پر فصاحت وبلاغت کی ہزار شیرینی قربان کرنے کو جی چاہتا ہے مسائل تصوف میں الٰہیات کو ہمیشہ بنیادی اہمیت رہی ہے اگرچہ امیر خسرو سے قبل دیگر شعراء بالخصوص حضرت خواجہ فریدالدین عطار ، حکیم سنائی اور مولانا روم علیہم الرحمہ ایسے مسائل بیان کرچکے تھے اور امیر خسرو کے معاصرین میں حضرت شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ نے بھی ان مسائل کو بڑی وضاحت سے بیان کیاتھا لیکن وقت کا تقاضا تھا کہ ان سارے موضوعات کو کوئی جدید عنوان دیا جائے اور اس کام کے لیے قدرت نے امیر خسرو کو چن لیاتھا فارسی کے مبتدی طلبا بھی جانتے ہیں کہ ان شعراء کے تخیل اور ان کی فکر کو حضرت امیر خسرو نے کس طرح جدید پیرائے میں بیان کیا ہے
🌸 نعت رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم میں تمام شعراء کرام بالخصوص اہل فارس نے جو نفیس نکات ولطائف بیان کیے ہیں اس کی مثال ہمیں کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی لیکن امیر خسرو علیہ الرحمہ نے فارسی نعت کو اس وقت اَوج کمال پہ پہنچا دیا جب بالکل تخیل ہی نیا پیش کیا اپنی ایک نعت میں میم کا نکتہ بیان کرے ہوئے فرماتے ہیں : میم احمد در احد غرق است کمر خدمت از پئے فرق است احمد اندر احد کمر بند است یعنی ایں بندہ آں خداوند است ایک مرتبہ سلطان المشائخ کے حضور امیر خسرو کے فرزند اپنے والد کی غزل کے اس شعر پر جب پہنچے خسرو تو کیستی کہ در آئی دریں شمار گیں عشق تیغ برسرِمردانِ دیں زدہ است تو سلطان المشائخ کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔
مختصر طور پر یوں سمجھیۓ کی۔۔ حضرت امیر خسرو صرف اپنے عہد کے ہی نہیں بلکہ متقدمین سے لیکر متاخرین کے ہر دور تک ایک مثالی شخصیت ہیں امیر خسرو کے بغیر نہ تو ہماری فارسی کی تاریخ مکمل ہوتی ہے نہ اردو کی تاریخ مکمل ہوتی ہے نہ تصوف کی تاریخ مکمل ہوتی ہے۔
✍🏻 آپ سفر میں تھے کہ آپ کو اپنے شیخ کے وصال کی خبر ملی فوراً دہلی تشریف لا کر مزار مبارک پہ حاضر ہوئے اور حیات مستعار کے وہ چھ ماہ گریہ و زاری کرتے کرتے وہیں بسر کردیے۔
⬅️ 18 شوال المکرم 1324ء کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور جاتے جاتے کہہ گئے کہ بازیچہ ایست طفلِ متاع فریب دہر بے عقل مردماں کہ بریں مبتلا شدند (اس عارضی جہان کاسارا مال ومتاع بچوں کا کھیل ہے لیکن حیف کہ بے عقل لوگ اس میں ہی لگ گئے )
*خدا خود میرِ مجلس بود،اندر لامکاں خسرو*
*محمد(صلی اللہ علیہ وسلّم) شمع محفل بود ،شب جای کہ من بودم*
*(📚📖: مآخد ومراجع: مرأۃ الکونین، سفینۃ الاولیا، سیرالاولیائ، مقدمہ فوائد الفواد، سعدی وخسرو)*
*✍🏻 اے رضویہ ممبئی۔*
*مرکز: جامعہ نظامیہ صالحات کرلا ممبئی۔*