شَرْح مائۃ عامل

۔

دینی مدارس میں تعلیمی سال کا آغاز ہوچکا ہے ۔تقریباً تمام مدارس کے اندر درجات (کلاسز) میں اسباق کا سلسلہ بھی یقیناً شروع ہوچکا ہوگا ۔

۔

درسِ نظامی کی پہلی کلاس درجہ اولٰی مکمل کرنے کے بعد طلباء علمِ دین نحوی تراکیب (عربک سینٹینسز) کی پہچان کےلئے شرح مائۃ عامل پڑھتے ہیں ۔

۔

علومِ دینیہ کے طالبعلم کی علمی پختگی یا کمزوری کا دارومدار ابتدائی دوکلاسز یعنی اولٰی اور ثانیہ میں اچھی طرح پڑھنے یا نہ پڑھنے پر ہے ۔

۔

جو طالبعلم اِن درجات (کلاسز) میں بالخصوص تین فنون نحو، صرف، اور فنِ ترجمہ کو خوب اچھی طرح محنت سے پڑھنے میں کامیاب ہوگیا اور بعد میں محنت کا عادی بھی رہا تو ان شاء الله وہ ایک بہترین راسخُ الْعلم عالم دین بننے میں کامیاب ہوجائے گا۔

۔

طالبعلم عموماً نادان ہوتے ہیں ۔وہ یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ علوم کے اعتبار سے کونسی شئ اُن کےلئے فائدہ مند اور کونسی شئ نقصان دہ ہے ۔۔۔۔۔ نیز وہ اِس بات کے پرکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے کہ دینی علوم میں رسوخ کےلئے کس طرح کا اُستاد منتخب کیا جائے۔حالانکہ صحیح حدیث میں ہے حضور جانِ عَالَمْ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا” اِنَّ ھَذاالْعِلْمَ دِیْنٌ فَانَظُرُوْا عَمّنْ تاخذون دینکم”

۔

دینی علوم میں کسی کو استاد منتخب کرتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے امتیوں کو خبردار فرما رہے ہیں کہ کسی استاد کو منتخب کرتے وقت غور کیا کریں کہ کِسے دینی استاد منتخب کررہے ہیں ۔

۔

بعض اسلافِ اھل سنت نے اِس حدیث پاک کو باب عقائد میں کوڈ کرکے اپنے متوسلین کو بتایا کہ بدمذہب کو استاد نہ بنایا جائے ۔۔

۔

موجودہ زمانے میں بھینگی نظر رکھنے والوں نے یہ سمجھا کہ اِس حدیث پاک کا مرادی معنی بس وہی ہے جو بعض اسلاف نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ اسلاف اھل سنت نے اپنے زمانے کے مطابق اِس مبارک جَوَامِعُ الْکَلِمْ حدیث کا صرف ایک مصداق بیان کیا ہے ۔

۔

اِس مبارک جَوَامِعُ الْکَلِمْ حدیث کی جو تشریح اسلافِ اھل سنت نے بیان کی اُس کے مطابق جس طرح بذھب کو استاد بنانا گمراہی کا پیشِ خیمہ ثابت ہوسکتا ہے ایسے ہی آدھے تیتر آدھے بٹیر نما فارغ التحصیل جو علم میں بالکل ناپختہ، اصول سے نابلد، محنت سے جی چرانے والے، موبائل سے قربت اور کتاب سے دور رہنے والے صاحبان کو دینی استاد بنانا بھی جھلِ مُرَکّب میں پڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔ایسوں سے پڑھنے کے بعد بندہ جاھل بھی نہیں رہتا اور عالم بھی نہیں بنتا بس ” مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذالک لاالی ھؤلآء ولاالی ھؤلآء ” والی صورت بن جاتی ہے ۔۔۔۔

۔

واضح رہے جاھل بننا بےشک گناہ ہے لیکن جاھل مرکب بننا مطلق جاھل رہنے سے بھی بڑا گناہ ہے. ” اِعْتِقَاد جازِمٌ خِلَافٌ للواقع ” بندہ سمجھتا ہے میں فارغ التحصیل عالم ہوں، دین کی سمجھ رکھتا ہوں جبکہ حقیقت اِس برعکس ہوتی ہے ۔

۔

شرح مائۃ عامل کی تراکیب جس طرح ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں اگر بزرگان دین، اسلاف اھل سنت اِس طرز کو ملاحظہ فرماتے تو سخت ناراض ہوکر ہم پر مرتکبِ بدعت قبیحہ ضالہ مضلہ فِیْ النحو کا فتویٰ صادر فرماتے ۔

۔

تراکیبِ نحویہ پڑھنے پڑھانے کا بہترین اور علمی پختگی والا انداز وہی ہے جو البشیر شرح نحو میر میں امام النحو علامہ غلام جیلانی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنائ ۔

۔

باقی ہم جیسے لوگ جاء زید کی ترکیب میں جاء فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب زید فاعل ۔۔۔۔۔فعل اپنے فاعل سے ملکر جملہ فعلیہ خبریہ ہوا ،،، کہتے رہیں اِس سے علمی پختگی ہرگز حاصل نہیں ہوگی ۔۔۔۔

۔

شرح مائۃ عامل تراکیب پڑھنے کی غرض وغایت ہی نحوی قواعد کا اجراء اور کلمہ کی اعرابی ،بنائ حالت کی پہچان ہے ۔

۔

غور کیجئے جیسے جاء زید کی ترکیب ہم جیسے لوگ جس طرح پڑھتے ہیں ، یہ طریقہ شرح مائۃ عامل میں تراکیب پڑھنے کی غرض کو پانا تو دور کی بات کہیں ٹچ بھی کررہا ہے؟؟؟؟

۔

خِشتِ اوّل چوں نِہَدْ مِعمار کَجْ

تاثُریا مِی رَوَدْ دیوا کج

۔

شعر کا ترجمہ تو کچھ اور ہے، البتہ میرے مطابق شاعر کہہ رہا ہے ” بدعت فی التراکیب النحویہ میں مبتلا شخص سے نحو پڑھنے والا شخص کبھی بھی راسخ العلم نہیں بن سکتا ۔وہ ہمیشہ علمی کسمپرسی میں ہی مبتلا رہے گا ۔

✍️ ابو حاتم

23/05/2022/

۔

دو اہم وضاحتیں

۔

پہلی وضاحت ۔۔

۔

شرح مائۃ عامل پڑھے بارہ سال ہوچکے ہیں ۔نصابی طور پر پڑھنے کے علاوہ کبھی کبھی پڑھنے کی سعادت تو حاصل ہوئی ہے البتہ پڑھانے کی سعادت اب تک نہیں حاصل نہیں لہذا مضمون کے مندرجات سے اگر کوئ صاحب اختلاف رکھے تو چشم ما روشن دل ماشاد ۔۔۔

۔

دوسری وضاحت

۔

مکمل مضمون پڑھ لینے کے بعد اگر کسی صاحب کو بخار چڑھے تو وہ ہمیں معاف فرما دے ۔