مرغا یا کتا ایک تہذیبی علامت

✍️ پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی، گجرات (انڈیا)

 

جانور اور انسان کے درمیان کمال کا توافق ہے. جانور بنیادی طور پر انسان کے لیے کاشتکاری میں معاون ہوتا ہے، پھر جب گھر میں پال لیا جائے تو اُنسیت کا سبب بنتا ہے اور آخری مرحلے میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر انسان کی غذائی ضرورت بھی پوری کر سکتا ہے. دوسری طرف انسان بھی اس بے زبان مخلوق کے لیے سراپا رحم و کرم بنا ہوتا ہے، ہر طرح کے موسمی حالات میں اس کی حفاظت اور حسبِ ضرورت چارہ پانی کا انتظام؛ انسان کی ہمدرد طبیعت کا لازمہ ہے. شاید انسان وہ واحد مخلوق ہے جو اپنے بچوں کے علاوہ ایک اجنبی جنس کے جانور کو بھی انتہائی محبت سے پالتا ہے.

 

جدید مغربی تہذیب نے جہاں ہمارے سماجی، معاشی، سیاسی اور جنسی طور طریقوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، وہیں جانوروں کے تئیں ہمارے رویّے کو بھی کافی حد تک بدل کر رکھ دیا ہے. پالتو جانوروں کے حوالے سے ہمارے دور میں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ایک انقلاب تو ان جانوروں کے انتخاب میں آیا ہے، جب کہ دوسرا بڑا بدلاؤ پالنے کے مقصد میں ہوا ہے.

 

مقصد میں بدلاؤ کی بات کریں تو ماضی قریب تک گھروں میں پالتو جانور رکھنا ایک رحم دل انسان کے شوق کا اعلامیہ تھا، اور بے زبان مخلوق کے تئیں اپنی ہمدردی کا اظہار بھی، مگر نصف صدی سے یہ عمل تنہائی اور تشویش سے بچنے کا معروف ذریعہ بن گیا ہے. جدید مغربی سماج میں اقدار کا ڈھانچہ بکھر جانے کے بعد خالی پن اور افسردگی سے جھوجنے والے افراد نے جانور پالنے کا عمل اپنے نفسیاتی علاج کے طور پر شروع کیا، بالفاظ دیگر بیسویں صدی میں حیوانات کی پرورش کا یہ کام جانوروں کی ہمدردی کی وجہ سے نہیں، بلکہ انسانیت سے نفرت کی وجہ سے شروع ہوا. آپ نے مغربی ادیبہ کا وہ مشہور قول تو سنا ہی ہوگا کہ انسانوں کو جتنا قریب سے جاننے لگی ہوں اتنی ہی زیادہ کتوں سے محبت بڑھتی جا رہی ہے. حیوانات کے ساتھ بھی خود غرضی کے سبب اچھا سلوک کرنے والے انسان شاید بیسویں صدی سے قبل دنیا میں نہیں پائے گئے، “بلند اخلاقی” کی یہ اعلیٰ مثال بھی جدید مغربی تہذیب ہی کی دین ہے.

 

جانوروں کے انتخاب میں تبدیلی کا قصہ کچھ یوں ہے کہ کہاں تو مرغ کی بانگ مؤذن کی بانگ کا پیش خیمہ ہوا کرتی تھی اور کہاں آج رات بھر جاگ کر دن بھر جماہی لینے والے کتے نے انسان کی صبح کو سُستی و کوتاہی سے بھر دیا ہے. جو گلیوں کا رکھوالا تھا وہ بستر کی زینت بن چکا ہے. کسی دور میں کبوتروں کا ناچ اور ان کا نخرہ آنگن کے ساتھ ساتھ محلے بھر کی تفریح کا سامان تھا اور آج گھروں کے گرد پالتو خنزیروں کے جھنڈ تلویث و گندگی کا کوڑا دان بنے پھر رہے ہیں. جہاں تک بلّی کی بات ہے تو اس کا ماضی، حال اور شاید مستقبل بھی یکساں ہے، وہ آج بھی گھروں کے چکر کاٹنے ہی کو طواف کوچہ جاناں کی مانند مقدس عمل سمجھ کر دہرا رہی ہے.

 

مذکورہ تبدیلیوں کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے غریب اپنے گزر بسر میں سہولت کے لیے جانور پالتا تھا. دودھ اور گوشت جیسی بنیادی ضروریات اسے اپنے گھر کے جانور سے مہیا ہو جاتی تھیں. اس کے بر عکس آج کل امیروں نے اپنے سرمایہ دارانہ غرور میں شوقیہ جانوروں کو قیدی بنانا شروع کیا ہے. لہٰذا وہ نفع بخش جانوروں کی جگہ وقت گزاری (Time Pass) کے لیے کام میں آنے والے جانوروں کو ترجیح دیتے ہیں. وقت بھی کیا پلٹا کھاتا ہے. حیثیت کب بدل جاتی ہے پتہ بھی نہیں چلتا. گائے، بھینس، بکری نفع بخش تھے اس لیے پالے جاتے تھے. خنزیر اور کتّے ٹائم کِلَر ہیں اس لیے پالے جاتے ہیں.

20.10.1443

22.05.2022