جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے
جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے۔
ازقلم محمد ثاقب نجم
پٹرول بجلی اور اشیائے خوردو نوش میں ہونیوالے ہوشربا اضافے نے تمام پاکستانیوں بالخصوص تنخواہ دار طبقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا کی محفلیں ہوں یا فیس ٹو فیس گفتگو، ہر طرف ‘مہنگائی ڈائن کھائے جات ہے’ کا ترانہ بج رہا ہے ایسے میں صرف باتوں سے تو یہ جن قابو میں نہ آئے گا۔ کچھ نہ کچھ تو عملی طور پر کرنا ہی پڑے گا۔
سب سےاہم ترین کرنے کا کام یہ کہ ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم میں سے کوئی پٹواری، یوتھیا، جیالا، فلانہ، ٹمکانہ کچھ نہیں ہے۔ ہم سارے بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب غریب یا زیادہ سے زیادہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، جن کی ہمارے فیصلہ ساز سیاسی ایلیٹ کی نظر میں گھنٹ۔۔۔۔۔۔ اہمیت نہیں۔ سو کبھی کسی فیملی ممبر، کولیگ، ہمسائے، دوست سے سیاسی بحث مباحثے میں الجھ کر تعلقات خراب نہ کریں۔ آپ کے اچھے برے وقت میں کوئی اپنا ہی آپ کی دلجوئی کرے گا۔ کسی عمران خان، نواز شریف، یا زرداری کو آپ کی خبر تک نہ ہو گی۔
دوسرا، ذہنی طور پر خود کو اور اپنے اہل خانہ کو اگلے کم از کم چھے ماہ کے مشکل معاشی حالات کیلیے تیار کریں۔ اپنے عمل سے اور وقتا فوقتا نصیحت آموز انداز میں بچوں میں بچت اور اشیا کے ضیاع کی روک تھام کی اہمیت اجاگر کریں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود Buying and Selling گروپس اور مختلف برانڈز کے پیجز کو ان فالو کر دیں۔ ٹک ٹاک سٹارز اور یوٹیوبرز جیسے کنویں کے مینڈکوں کی چھچھوری حرکتوں سے ہرگز متاثر نہ ہوں۔ ٹیلی ویژن کم سے کم دیکھیں۔ خاص طور پر فیشن، ملبوسات، celebrity lifestyle اور اس سے جڑے دیگر پروگرامز کا مکمل بائیکاٹ نہایت ضروری ہے۔ خواتین کو اس ضمن میں خصوصی طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے۔ Show off کرنے والے اپنے محبین سے جس حد تک ہو سکے گریز کرنے کی کوشش کریں۔ وہ انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہ You have a family to feed, not a community to impress. ہمیں اپنے سوچ اور عمل سے اس کو درست ثابت کرنا ہے۔
ہم نے اپنی زندگی میں بےشمار اخراجات اور تکلفات کو بلا وجہ اپنے گلے کا طوق بنا لیا ہے۔ شادی، بیاہ،خوشی، غمی کا تو ذکر ہی کیا،کہ یہ ان پر پانی کی طرح پیسہ بہانہ تو سو برس سے ہمارا آبا کا خاصہ رہا ہے، اب تو ہم نے برتھ ڈے، منگنی شاندار تقریب، عقیقہ ختنہ، Annual Tour جیسے چونچلے بھی بنا سوچے سمجھے اپنا لیے ہیں۔ پچھلے برس دوران ڈیوٹی اپنے کالج کے بیلدار سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ موصوف مجھے بتا رہے تھے کہ دن میں کالج میں ڈیوٹی کرتا ہوں اور رات کو پانچ چھے گھنٹے کسی ہوزری میں نائٹ شفٹ لگاتا ہوں۔ میں نے پوچھا نیند کب پوری کرتے ہو تو کہنے لگا “جب پرنسپل صاحب راونڈ کر کے واپس دفتر چلے جاتے ہیں تو کسی خالی کلاس روم کے بینچ پر دو ، تین گھنٹے سو لیتا ہوں۔ سر! اس کے بنا کوئی حل نہیں۔ اس سے گھر کا اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے میں نے اپنے بڑے بیٹے کی سالگرہ منائی ہے۔ سارے بھائی بہنوں کو بچوں سمیت بلایا تھا۔۔۔۔” اور میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ یہ بے چارہ قسمت کا مارا کلاس رومز کے بینچوں پر نیند پوری کر کر کے پورے خاندان سالگرہ کے کھانے کھلا رہا تھا۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب فیصل آباد سے لاہور جانے کیلیے کوہستان کی ائیر کنڈیشنڈ سروس بھی بڑی عیاشی تصور ہوتی تھی۔ پھر ڈائیوو سروس متعارف کروا دی گئی اور اب کوئی Volvo بس سے کم پر سفر کرنے کو ہی تیار نہیں۔ یہ صرف چند ایک مثالیں ہیں۔سمجھنے کی بات یہ ہے اگلے کم از کم چھے ماہ کیلیے مہنگا موبائل فون، سیر و تفریح، بلا وجہ کی شاپنگ ہمارے آپ کیلیے نہیں ہے۔
ابھی ایک ماہ بعد بڑی عید آئے گی اور نمودو نمائش کا ایک اور لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یاد رکھئیے۔ ہمیں بہت واضح طور پر بتا دیا گیا کہ اللہ پاک کو ان جانوروں کے خون، گوشت کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اللہ کے ہاں آپ کی نیت، آپ کا جذبہ ہی مقبول و منظور ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اس بار ہم ایک سے زیادہ جانوروں کی بجائے ایک پر اکتفا کر لیں یا مشترکہ قربانی کی شکل میں ایک نسبتا جیب پر کم بھاری پڑنے والے آپشن کو اختیار کریں۔
پٹرول کی قیمت میں اضافے کے پیشِ نظر گاڑی کا استعمال کم کیا جا سکتا ہے۔ گھر سے باہر نکلنے کیلیے صبح یا شام کے اوقات کا استعمال کریں تاکہ موسم کی شدت سے بچا جا سکے۔ سر پر گیلا کپڑا یا رومال رکھ کر موٹر سائیکل پر سفر کرنا بھی کسی درمیانے درجے کی گاڑی کے اے سی جتنا ہی مزا دیتا ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
اپنی بجلی کی کھپت کو کم کرنے کیلیے بھی ایسے کئی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اے سی کا استعمال کم سے کم کردیں۔ زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے دوپہر میں اور تین گھنٹے رات کو۔ اس کے بعد پنکھے کی ہوا بھی آپ کو نسیمِ سحری کا مزا دے گی۔ اے سی کے متبادل کے طور پر روم ائیر کولر بھی کارآمد ہو سکتا ہے بشرطیکہ صحیح سمت اور ہوا کے مناسب گزر کو دیکھ کر استعمال کیا جائے۔
گھر سے باہر جاتے ہوئے ٹھنڈے صاف پانی کی بوتل اگر ہم ساتھ رکھ لیں گے تو راستے میں کہیں رک کر پچاس ساٹھ روپے خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔
بعینہ گراسری کیلیے جاتے وقت گھر سے کپڑے کا تھیلا لے کر جانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ورنہ میٹرو، چیز اپ یا امتیاز مارٹ والے تو پچاس ساٹھ روپے کا تھما ہی دیں گے۔ گراسری سے یاد آیا کہ ان شیطان کی آنت کی طرح پھیلے ریٹیل سٹورز پر جاکر بے ہنگم اور بلا ضرورت خریداری کرنے کے بجائے گھر سے لسٹ بنا کر جائیں اور اس کے مطابق چیزیں خرید کر لائیں۔ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ تھوک مارکیٹ سے ایک ہی بار جا کر پورے مہینے کا راشن خرید لائیں۔ اس میں تھوڑی محنت تو پڑے گی پر بہتر کوالٹی اور مناسب دام بھی میسّر ہوں گے۔
اور ہاں۔۔۔اس معاشی تنگ دستی کے دور میں اپنے ارد گرد، ہمسائیگی میں، خاندان میں مشکلات کا شکار گھرانوں کی چپکے سے، غیر محسوس انداز میں مدد کرکے اپنے لیے خیرو برکت کے در کھولتے رہیں۔
اس سلسلے میں مزید آرا و تجاویز کا خیرمقدم کیا جائے گا۔