مولوی جی کے انگلینڈ پہنچنے کا قصہ
مولوی جی کے انگلینڈ پہنچنے کا قصہ
افتخار الحسن رضوی
گئے وقتوں کی بات ہے، میں تیسری جماعت گورنمنٹ ہائی سکول بلوح (تحصیل ڈڈیال، ضلع میرپور، آزاد کشمیر) میں زیر تعلیم تھا۔ ہمارے اسلامیات کے ماسٹر صاحب قرآن بہت مجہول پڑھتے تھے، دیسی جٹ تھے اور حادثاتی طور پر قاری بھرتی ہو گئے تھے۔ صفات، مخارج، لہجہ اور تلفظ وغیرہ سے نہ صرف غیر واقف تھے بلکہ مطلق مجہول انداز تھا۔ وہ جب “یسرنا القرآن”پڑھاتے تو متعدد غلطیاں کرتے، میں انہیں روک دیتا کہ ماسٹر جی یا قاری جی آپ یہ غلط پڑھا رہے ہیں۔ بالآخر وہ تنگ آ گئے اور کلاس میں آکر کرسی پر بیٹھ جاتے اور مجھے بچوں کی تدریس پر لگا دیتے۔ یہ تو خدا تعالٰی کا خاص کرم تھا کہ انتہائی بچپن میں چچا جی حفظہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم درست تلفظ کے ساتھ سکھانے کے علاوہ مسنون دعائیں، نماز جنازہ، فرائض وغیرہ از بر کروا دیے تھے۔ ایک روز قاری صاحب چچا جی کے پاس آئے اور شکوہ کرتے ہوئے کہا، میں عموماً غلطی تسلیم نہیں کرتا، لیکن یہ آپ کا بھتیجا ہے، اس لیے میں نے سرنڈر کر دیا 😊 ۔
یہ والے قاری صاحب گزشتہ پچیس سالوں سے برطانیہ میں مبلغ، امام اور مدرس ہیں۔
ہمارے ڈڈیال ہی سے ایک اور شاہ جی تھے۔ ان کے والد اللہ لوک تھے، سید زادے تھے، مریدین بھی تھے اور اہل علاقہ ان کی عزت کرتے تھے۔ شاہ جی بھی سکول ماسٹر لگ گئے، حادثاتی ماسٹر تھے۔ دین سے صرف اتنے ہی واقف تھے کہ پیر کا پتر پیر فقط۔ جماعت تک کروانے سے ہچکچاتے تھے، قرآن بالکل غلط پڑھتے تھے اور احکام و فرائض سے تو قطعی پرہیز فرماتے تھے۔ یہ والے شاہ جی بھی پچیس سال سے برطانیہ میں مبلغ و مدرس اور امام ہیں۔
آزاد کشمیر کی بہت بڑی گدی کے سجادہ نشین مرحوم پیر صاحب کے ایک خلیفہ میرپور شہر کی ایک مسجد میں خطیب تھے۔ غریب خاندان سے تعلق تھا لیکن جب پیر جی سرکار میرپور تشریف لاتے تو یہ خطیب صاحب اپنے گردے کپورے بیچ کر پیر جی کے استقبال کا سامان کرتے۔ راہوں میں گلابوں کے انبار لگ جاتے، ہر طرف جی آیاں نوں اور اللہ اللہ کی صدائیں۔ نعرے، خطبے، استقبالیے، اشتہار، بینر، کیبل پر اشتہار، سو دو سو رضا کاروں کو پیر جی کے رنگ والی پگڑیاں، قمیصیں، واسکٹیں وغیرہ پہنا دی جاتیں۔ پیر جی کے لیے بکرے قربان کرتے، دیسی گھی میں مونگ کی دال بناتے، تازہ مکھن ملائیاں اور دیگر سامانِ “حرب” بہم پہنچایا جاتا۔ دروغ بر گردن راوی، اس دورے کے دوران پیش کیے جانے والے نذرانوں کا ۱۱ فیصد پیر جی ان خلیفہ جی کو عطا فرماتے۔
ایک روز ہم استاذ پروفیسر عبد المجید جلالی نقشبندی صاحب علیہ الرحمہ کے پاس بیٹھے عقائد نسفی کی شرح پڑھ رہے تھے، یہ صاحب پیر جی کے دورہ میرپور کی دعوت دینے آئے اور استاذ جی علیہ الرحمہ سبق پڑھا رہے تھے۔ سبق ختم ہوا تو خلیفہ جی کہنے لگے ، “یہ قادیانیوں کے بعد اب کوئی ۔۔۔۔۔۔نسفی۔۔۔۔۔ نیا فتنہ نکل آیا ہے جس کے عقائد سے متعلق آپ طلباء کو بتا رہے ہیں؟
یہ خلیفہ جی پچھلے پندرہ سالوں سے برطانیہ میں منجھی توڑ خطیب ہیں اور دوران تقریر کرسی، منبر، پھٹے شٹے توڑنا ان کا معمول ہے۔ ان کے نام کے ساتھ باقاعدہ فیض یابِ حضور۔۔۔۔ قاسمِ فیضانِ حضور۔۔۔۔۔۔۔۔ لکھا جاتا ہے۔
کشمیریو، پاکستانیو اور ہندوستانیو!
تم نے گزشتہ نصف صدی سے برطانیہ میں اسلام کے نام پر علم کم اور جہالت زیادہ امپورٹ کی ہے۔ یہ دو دو عیدیں ایویں ای نئیں ہو ریاں۔ اپنا احتساب کرو، تم نے پیر خانے بچائے ہیں، نسبتیں بچائی ہیں، مسلک بچائے ہیں، مسجدیں بچائیں ہیں۔۔۔۔ اسلام ہرگز نہیں بچایا۔ اور یہ بچانے والے وہ لپاڑے ہیں جنہیں آج بھی مسائل سمجھنے کے لیے اردو زبان میں بہار شریعت ہی کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں موجودہ مسلمان نسل میں دین سے دوری، کم علمی، جہالت، ان کا دوسرے مذاہب کی طرف جھکاو، مسلمانوں میں تقسیم اور فرقہ واریت کی وجہ تمہارے غلط فیصلے اور سیپی مولویوں کی امپورٹ ہے۔ تم نے پیر پالے ہیں، صاحبزادے پالے ہیں، تم نے جٹ، گجر، شاہ، ملک ، راجے اور سردار قومیں بچائیں ہیں، دین نہیں بچایا۔ الا ماشاء اللہ
افتخار الحسن رضوی