*پدر، مادر، برادر، مال و جاں اُن(ﷺ)پر فِدا کر دیں*

_تحفظ ناموس رسالت ﷺ سے غفلت موت کے مترادف_

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=443284707626722&id=107640804524449

غلام مصطفیٰ رضوی

(نوری مشن مالیگاؤں)

 

رحمۃ للعالمین ﷺ کی آمد آمد سے انسانیت کی زُلفِ برہم سنور گئی…صبحِ اُمید طلوع ہوگئی…انسانی قدروں کو زندگی ملی…دہشت گردی کا خاتمہ ہوا…سیرتیں چمکنے لگیں…صورتیں دَمکنے لگیں…بقول پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد:

 

ذکر مصطفیٰ (ﷺ)کہاں نہیں؟… کوئی جگہ نہیں، جہاں نہیں… اللہ اللہ … اُن کے کرم سے موجودات نے لباسِ وجود پہنا… اُن کا چرچا آسمانوں میں… اُن کا چرچا زمینوں میں… اُن کا چرچا سمندروں میں… اَنبیا و رُسل، فلک و ملک، جن و انس سب اُن کی آمد آمد کے منتظر… اُن کا نامِ نامی، بہارِ زندگی… اُن کا وجودِ گرامی، شبابِ زندگی… اُن کی راتیں، مغفرت کی برسات… اُن کے دن، رَحمت کی پھوار… اُن کا تبسم، طلوعِ فجر… اُن کا غم، غروبِ سحر… اُن کی عنایت، دلوں کی ٹھنڈک… اُن کا کرم، روحوں کی فرحت… اُن کا دیدار، آنکھوں کی روشنی… اُن کا کردار، انسانوں کی معراج… ذکرِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم)بڑی سعادت ہے… وہ دل، دل نہیں جو اُن کے لیے نہ سلگے… وہ آنکھ، آنکھ نہیں جو اُن کی یاد میں نہ برسے… وہ سینہ، سینہ نہیں جو اُن کی محبت میں نہ پھکے… وہ زباں، زباں نہیں جو اُن کی مدح و ثنا میں نہ کھلے… ہاں، رَگوں میں خون دوڑ رہا ہے… دل میں جذبات اُمنڈ رہے ہیں؛ دماغ میں خیالات پھوٗٹ رہے ہیں… زباں پر الفاظ مچل رہے ہیں… جسم میں ہلچل مچی ہے… پھر کیوں نہ اُس جانِ جاں(ﷺ) کا ذکر کریں!… ہاں ربّ العالمین خود اُن کا ذکر فرمارہا ہے… اللہ اللہ! وہ ذکر کی کن بلندیوں پر فائز ہیں… اس سے بڑھ کر بلندی اور کیا ہوگی کہ نامِ نامی؛ رب کریم کے حضور اس طرح سرفراز ہوا کہ ہر سرفرازی، اُس سرفرازی کے قدم چومنے لگی… ہمارا کیا منہ؟ ہماری کیا اَوقات، ہماری کیا بساط جو اُن کا ذکر کریں… عقل نہیں جو اُن کی بلندیوں کو پاسکے… دماغ نہیں جو اُس جوامع الکلم کی بات سمجھ سکے… آنکھ نہیں جو اُن کے جلوؤں کو دیکھ سکے… کیا کریں اور کیا نہ کریں؟… دل بے قرار ہے… آنکھیں اَشکبار ہیں… اللہ اللہ! مگر وہ تو غریب نواز ہیں، ہاں ؎

 

اک ننگ غم عشق بھی ہے منتظر دید

صدقے ترے اے صورت سلطان مدینہ

(آمدِ بہار، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں ٢٠٢٠،ص ٦-٧)

 

مصطفوی انقلاب کی برکتوں نے بجھی ہوئی طبیعتوں کو کھِلا دیا…باطل پر لرزہ طاری ہو گیا…وہ حواس باختہ ہو گئے… توہینِ رسالت کی جرأت کر بیٹھے…گستاخی سے اپنی گندی زبان کا اظہار کرنے لگے…گستاخوں کی تاریخ رہی ہے… اُن کی بربادی کی بھی تاریخ رقم ہوئی ہے…ایسے گستاخ مِٹ گئے…اُن کا وجود عبرت کا نشاں بن گیا…

خاکے بنانے والے برباد ہوئے…اُن کی معیشت تباہ ہوئی…نامِ نامی ﷺ دَمَکتا، چمکتا، مہکتا رہا…مستشرقین و مصنفینِ یورپ نے سیرتِ پاک میں جرأت کی، انھیں منہ کی کھانی پڑی… صاحبانِ اقتدار نے گستاخی کی تو بساطِ اقتدار اُلٹ گئی…شوکت پر زوال آگیا…بعض اُن عناصر نے توہین کی جو اسلامی پوشاک میں تھے…کتابیں لکھیں…اور وہ انجام کو پہنچ گئے…علماے حرمین نے ان پر فتوے جاری کیے…مثلِ قادیانیت وغیرہ…جن کی تردید میں “حسام الحرمین” دال…

ہند میں جرأتیں بڑھتی جا رہی ہیں…وہ! جن کی تہذیبیں آلودہ ہیں…جن کے دل گندے ہیں…جن کے عقائد نجس ہیں…وہ ٹی وی مباحثہ میں رسول اللہ ﷺکی توہین کر رہے ہیں…ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بے اَدبی کر رہے ہیں…یہ سلسلہ ایک مدت سے جاری ہے…ابھی اِس میں یکایک تیزی آ گئی…گستاخی سے آلودہ تحریریں چھاپی گئیں… مسلمانوں کی غیرتوں کو ناپا جا رہا ہے… یک بہ یک توہین کی فضا ہموار کی جا رہی ہے…حمیت کا امتحان لیا جا رہا ہے…

عالمی سطح پر بھارت کی امیج مسلسل گِر رہی ہے…عرب ممالک جہاں سے ہند کا معاشی سطح پر زبردست تعلق ہے؛ کے سربراہانِ مملکت نے ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے بھارت سے مطالبات کیے اورگستاخوں پر کارروائی کی مانگ کی…دیگر ممالک نے بھی اِس معاملے کو سنجیدگی سے لیا…ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے دو ٹوک موقف اختیار کیا…اِس کے باوجود اب تک اطمینان بخش کارروائی نہیں ہوئی…ملک کے مختلف شہروں میں ایف آئی آر درج کی گئی…پھر بھی گستاخ آزاد ہے…جمعہ کو ملک کے مختلف مقامات پر پُر امن احتجاج بھی دیکھے گئے… مظاہرے ہوئے…مطالبات کیے گئے…انھیں فی الفور گرفتار کیا جائے…عالمی دباؤ کے نتیجے میں محض پارٹی سے گستاخوں کا اخراج کافی نہیں…لیکن! حکومت ایسے شرپسندوں پر کوئی کارروائی نہیں کر رہی…احتجاج کرنے والے نہتوں کو کچل رہی ہے…یہ اَلمیہ ہے…یہ ٹریجڈی ہے…ایسے حالات میں بعض بڑی جماعتوں اور تحریکوں کی مفاد پرستی اور خاموشی افسوس ناک ہے…یہ تحریکیں اور جماعتیں عوام سے چندہ وصولتی ہیں، اور ناموسِ رسالت ﷺ کے مسئلے میں چپ رہتی ہیں، حکومت کی ناراضی سے بچنے کے حیلے ڈھونڈتی ہیں، شاید اس خوش فہمی میں ہیں کہ ہمیں حکومت مراعات سے نوازے گی، اُن کا یہ بھرم یقیناً ٹوٹ جائے گا، کیوں کہ عزتیں تو بارگاہِ الٰہی سے ملتی ہیں،وفاداریِ مصطفیٰ سے ملتی ہیں، اُن کے دامنِ اقدس سے مخلصانہ وابستگی کا تقاضا ہے کہ ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے جمہوری و دَستوری اختیارات استعمال میں لائے جائیں…آواز اُٹھائی جائے…یہی اِس وقت کی اہم ضرورت ہے…توہین و جسارت ہو رہی ہو اور ہم عاشقِ رسول ہونے کا دعویٰ کرتے رہیں تو یہ یقینی طور پر خود فریبی ہے…متاعِ عشقِ رسول کی حفاظت کے لیے عشرت کدوں سے نکلنا پڑتا ہے…سنگلاخ زمینوں کی مسافرت کرنی پڑتی ہے…منافقت اور ابن الوقتی سے دُنیا تو مل سکتی ہے؛ آخرت نہیں بنتی…روزِ محشر ایسے اصحابِ جبہ و دستار بھی یقیناً ماخوذ ہوں گے جنھوں نے بے پناہ مال و قوت اور افرادی کثرت کے باوجود ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے آواز بلند نہیں کی، اقتدار کی خوشنودی کے لیے چُپی سادھے رہے…یاد رکھیں! وفاداری بارگاہِ رسالت ﷺ سے ہو گی تو زندگی کامیاب ہوگی ؎

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے

٭ ٭ ٭

١١ جون ٢٠٢٢ء