بچوں سے صاف لفظوں میں مطالبے کیجیے!

 

پچھلے کچھ دنوں سے کتاب how to get your children to be good students

How to get your students to be a good children

کا مطالعہ جاری تھا برنارڈشواز اور جیمس پاو کی یہ کتاب اتنی ضخیم تو نہیں البتہ کتاب کا مغز سمجھنے میں کافی مغز کھپائی کرنی پڑی

شروع میں مصنفین کے منشاءِ گفتگو کو سمجھنے میں کافی دشواری کا سامنا رہا لیکن پھر سمجھ آنا شروع ہو ہی گئی.

 

اصل میں یہ کتاب والدین یا اساتذہ کی بچوں کے ساتھ انداز گفتگو کے متعلق ہے

 

مصنفین کے نزدیک بچوں کے ساتھ نرمی سے لے سختی تک ہر طرح کا معاملہ برتا جا سکتا ہے لیکن ان معاملات میں سب سے اہم آپ کے مطالبے کے وہ الفاظ ہیں جو آپ بچوں سے بولتے ہیں.

 

چند نکات ملاحظہ کیجیے!

 

What you say is what you get

جو آپ کہتے ہیں وہی حاصل کرتے ہیں

 

*بچہ شرارتی ہو یا بدتمیز والدین اور اساتذہ کے چیخنے چلانے سختی کرنے کے باوجود بھی سیدھی لائن پر نہ آنے کی وجہ سرپرستوں کا بچے سے غلط الفاظ میں مطالبہ کرنا بھی ہوتا ہے.

 

مثال کے طور پر

 

ایک بچہ نقل کرتا ہے تو ٹیچر اگر اسے یہ کہیں کہ دوبارہ مجھے تم نقل کرتے نظر نہ آو

 

یہ جملہ بچے کی سمجھ میں اور معنی رکھتا ہے.

بچے کے نزدیک اس کا مطلب ٹیچر کے سامنے نقل کرتے پکڑا نہ جانا ہے. چھپ کر دھیان سے نقل کرنی چاہیے.

 

جبکہ اس کا واضح لفظوں میں یوں مطالبہ کیا جائے.

بیٹا آپ نے آئندہ نقل نہیں کرنی.

 

اسی طرح والدین جب بچے کو کسی کام سے روکنا چاہتے ہیں تو مبہم اور لمبی نصیحتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں جو بچے کے پلے نہیں پڑتیں .

 

بچہ جھوٹ بولتا ہے تو لمبی بات کرنے کی بجائے صاف مطالبہ کیا جائے بیٹا آپ نے آئندہ جھوٹ نہیں بولنا.

 

وہ بچے جو اپنی ضد اور انا میں پکے ہوتے ہیں ان کو راہ راست پر لانے کے لیے والدین کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مطالبات ہر ڈٹ جائیں.

بچہ ہمیشہ اس کمزوری کو استعمال کرتا ہے جس سے اس کی خواہش پوری ہو جاتی ہے رونا دھونا مارنا، ضدیں کرنا باہر شور شرابا کرنا. جب بچے کو یہ پتا چل جائے کہ میری ایسی حرکتوں سے والدین پر کوئی اثر نہ ہو گا تو وہ یہ کام چھوڑ دے گا.

یا آپ ہار مان جائیں گے یا بچہ…

 

*مصنفین کے نزدیک بچہ جب آپ کا مطالبہ مان جائے تو اس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ وہ دل سے مان رہا ہے. کیونکہ یہ ایک غیر حقیقی امید ہے ہم رویہ تو بدل سکتے ہیں لیکن جذبات نہیں. اس لیے جتنا ملے اسی پر خوش رہیں.

 

* بچے کو جتنا برا کہا جائے گا وہ جلد ویسا بن کر دکھائے گا، کام چور نکما، جھوٹا، بدتمیز جیسے الفاظ بچے کو مزید ایسا بننے پر مجبور کرتے ہیں بچے سمجھتے ہیں ہمارے والدین ہم سے یہی امید رکھتے ہیں لہذا انہیں یہی بن کر دکھایا جائے.

تو یاد رکھیے

 

جو آپ کہتے ہیں وہی حاصل کرتے ہیں.

مثبت اور صاف انداز میں کہیے وہی حاصل کیجیے

 

* بہت سے بچوں کے برے کاموں کے پیچھے ان کے دوستوں کا ہاتھ ہوتا ہے. بچے نے چوری کی، گالی دی برا کام کیا جب پوچھ گچھ ہوتی ہے تو بچے کہتے ہیں فلاں نے کہا تھا اس لیے کیا،

ایسے بچوں میں communication skill کم ہوتے ہیں اسی وجہ سے وہ کسی کے غلط مشورے کو رد نہیں کر پاتے لہذا بچوں کے اندر خود اعتمادی، اچھے انداز سے اگلے کو انکار کرنے اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی مشقیں سکولز اور گھروں میں کروانی چاہیے جو کہ اسبقا کی صورت اس کتاب میں موجود ہیں.

 

فرحان رفیق قادری عفی عنہ

ڈائریکٹر دارالنور سکول سسٹم

24/6/2022