اجساد اولیاء سے منسوب تبرکات پر ظہیر امن پوری صاحب کی تحریر کا تحقیقی جائزہ
اجساد اولیاء سے منسوب تبرکات پر ظہیر امن پوری صاحب کی تحریر کا تحقیقی جائزہ!
ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
تمہید!
ہم اس تحریر میں موصوف کی طرف سے فقط ان روایات کا تذکرہ اور موصوف کی تحقیق پیش کرینگے جس میں ہمارے نزدیک موصوف نے کذب بیانی سے کام لیا ہے اور تحقیق کے نام پر اپنے مقلدین حضرات کو دھوکا دیا ہے ۔ موصوف اپنی تحریر کا آغاز ایک جھوٹ سے کیا ہے اور یہ دعویٰ لکھ مارا!
(امن پوری صاحب)
اجساد اولیا سے منسوب اشیا سے تبرک جائز نہیں،بلکہ بدعت ہے،سلف صالحین سے قطعاً اس کا ثبوت نہیں،اس بارے میں بعض الناس کے دلائل کا جائزہ پیش خدمت ہے:
(الجواب : اسد الطحاوی)
موصوف نے یہ دعویٰ کیا ”کہ اشیاء سے تبرک جائز نہیں ہے بلکہ بدعت ہے سلف صالحین سے قطعا اسکا ثبوت نہیں ہے ”
جبکہ موصوف نے یہاں مطلق اشیاء سے تبرک کی نفی کرتے ہوئے اس کم علمی کا ثبوت دیا کہ اس بات کا بھی رد کر دیا کہ صحابہ کرامﷺ نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد انکی استعمال کردہ اشیاء اور انکے موئے مبارک سے تبرک بھی حاصل کرتے اورشفاء بھی حاصل کرتےتھے ۔
جیسا کہ صحیح مسلم میں روایت موجود ہے!
عن عبداللہ مولی اسماء بنت أبی بکر رضی اللہ عنها أنھا أخرجت إلیّ جبۃ طیالسۃ کسروانیۃ لھا لبنۃ دیباج، وفرجیھا مکفوفین بالدیباج، فقالت : ھذہ کانت عند عائشۃ حتی قُبضتْ، فلما قُبضتْ قبضتھا وکان النبیﷺ یلبسھا، فنحن نغلسلھا للمرضی لنستشفی بھا۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے مولی عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں : یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا جب وہ فوت ہوئیں تو میں نے لے لیا اور نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ ہم بیماروں کیلئے اس کو دھوتے اور اس کے ساتھ بیماروں کیلئے شفاء طلب کرتے ہیں
[صحیح مسلم ، برقم:2069]
نیز اس روایت کی شرح کے تحت شارح مسلم امام نووی الشافعی فرماتے ہیں :
هذا الحديث دليل على استحباب التبرك بآثار الصالحين وثيابهم
یہ حدیث دلیل ہے صالحین کی اشیاء اور کپڑوں سے تبرک حاصل کرنے پر
[شرح مسلم للنووی ، ج14و14]
معلوم ہوا اس روایت کے تحت بھی محدثین و مفسرین اور شارحین نےاولیاء اللہ اور صالحین سے تبرک کی عمومی دلیل اخذ کی ہے کیونکہ اگر یہ بدعت و شرک ہوتا تو نبی اکرمﷺ کی اشیاء مبارک کے ساتھ بھی یہ فعل نہ کیا جاتا صحابہ کرام ؓ کی طرف سے !
جیسا کہ امام بخاری علیہ رحمہ اپنی صحیح میں روایت لاتے ہیں :
حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا محمد بن عبد الله الأسدي، حدثنا عيسى بن طهمان، قال: أخرج إلينا أنس «نعلين جرداوين لهما قبالان ، فحدثني ثابت البناني بعد، عن أنس أنهما «نعلا النبي صلى الله عليه وسلم
حضرت عیسیٰ بن طھمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں دو پرانے نعلین مبارک نکال کر دکھائے ان میں سے ایک ایک کے دو تسمے تھے۔ پھر ثابت بُنانی نے اس کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ دونوں حضورﷺ کے نعلین مبارک ہیں۔
[صحیح بخاری ، برقم: 3107]
اس روایت کے تحت امام قسطلانی المالکی علیہ رحمہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛
ومن بعض ما ذكر من فضلها وجرب من نفعها وبركتها، ما ذكره أبو جعفر أحمد بن عبد المجيد، وكان شيخا صالحا قال: حذوت هذا المثال لبعض الطلبة فجاءنى يوما فقال لى رأيت البارحة من بركة هذا النعل عجبا.
أصاب زوجى وجع شديد كاد يهلكها فجعلت النعل على موضع الوجع وقلت: اللهم أرنى بركة صاحب هذا النعل، فشفاها الله للحين.
نعلین پاک کی فضیلت، منفعت اور برکت جو بیان کی گئی ہے، اس میں سے ایک وہ ہے جو صالح شیخ ابو جعفر بن عبدالمجید نے بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نعلین پاک کا نمونہ اپنے ایک طالب علم کو دیا۔ ایک دن وہ میرے پاس آکر کہنے لگا : کل میں نے نعلین پاک کی عجیب برکت دیکھی۔ میری بیوی شدید درد کی وجہ سے قریب المرگ تھی۔ میں نے نعلین پاک کو درد کی جگہ پر رکھا اور کہا : اے اللہ! مجھے اس نعلین کے مالکﷺ کی کرامت دکھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور میری بیوی فوراً صحت یاب ہوگئی
[المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج2، ص215]
اور بھی بہت سے حوالاجات اصحاب رسوﷺ سے مروی ہیں کہ وہ کیسے نبی اکرمﷺ کی استعمال کردہ اشیاء کو بطور تبرک سنبھال کر رکھتے تھے جن میں نبی اکرمﷺ کے موئے مبارک کا تذکرہ بھی ملتا ہےصحیح بخاری میں ہے کہ اس کو پانی میں ڈبو کر مریضوں کی شفاء کے لیے استعمال کیا جاتا تھا
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الغداة جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء، فما يؤتى بإناء إلا غمس يده فيها، فربما جاءوه في الغداة الباردة، فيغمس يده فيها
أرسلني أهلي إلى أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم بقدح من ماء – وقبض إسرائيل ثلاث أصابع من قصة – فيه شعر من شعر النبي صلى الله عليه وسلم، وكان إذا أصاب الإنسان عين أو شيء بعث إليها مخضبه، فاطلعت في الجلجل، فرأيت شعرات حمرا
مجھے میرے گھر والوں نے حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا کے پاس پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں جس میں نبی اکرمﷺ کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف پہنچتی تو وہ حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے
[صحیح بخاری ، برقم: 5896]
یہاں تک موصوف کی اس غلط بیانی کا رد ہو اکہ جو دعویٰ کیا گیا کہ تبر کا مطلقا قطعا ثبوت نہیں سلف سے تو یہ موصوف کا سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آتے اولیاء اللہ کی قبور سے تبرک کے حوالے سے جس پر موصوف نے سند سند کھیل کر خیانتیں کی ہیں
(ظہری امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 1 :
علامہ سخاوی(831۔902ھ)نے سیدنا حمزہ کے حالات میں لکھا ہے:
وَجُعِلَ عَلٰی قَبْرِہٖ قُبَّۃٌ، فُہُوَ مَزَارٌ وَّیُتَبَرَّکُ بِہٖ ۔
’’سیدنا حمزہ کی قبر پر ایک قبہ بنایا گیا،جو ان کا مزار ہے،اس سے(لوگ) تبرک حاصل کرتے ہیں۔‘‘
(التحفۃ اللطیفۃ في تاریخ المدینۃ الشریفۃ : 307/1)
تبصرہ :
قبروں پر قبے بنانا رافضیوں کی بدعت اور ایجاد ہے۔ظاہر ہے جو قبے بناتے ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ قبروں سے تبرک اور فیض حاصل کیا جائے۔
مذکورہ نا معلوم رافضیوں اور بدعتیوں کا عمل پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اہل سنت کے ائمہ کا عمل پیش کیا جائے۔اہل سنت والجماعت کے نزدیک قبروں پر قبے بنانا بالاتفاق حرام اور معصیت ہے۔یہ اہل بدعت کی کاررائی ہے، جیسا کہ بعض بدعتیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر پر سبز گنبد بنا دیا،حالانکہ خیر القرون میں ایسا کچھ نہیں تھا۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
موصوف نے یہاں یہ کہانی شریف کرا دی کہ گنبد و قبے بنانا تو روافض کا کام تھا اور چونکہ قبروں سے تبرک اور فیض حاصل کیا جاتا ہے اسی مقصد کے لیے یہ بنائے جاتے ہیں تو اب ہم اہلسنت کے ائمہ سے قبر پر قبے بنوانے اور گنبد کی تعریف کی تصریحات پیش کرتا ہو ں
متقدمین سے گنبد کا ثبوت
امام ابن عبد البر (المتوفی 463ھ)
عبد الله بن عبد الحكم
ابن أعين بن الليث مولى عثمان بن عفان رضي الله عنه يكنى أبا محمد روى عن الشافعي وأخذ عنه وكتب كتبه لنفسه ولابنه محمد وكان متحققا بقول مالك وكان صديقا للشافعي وعليه نزل إذ جاء من بغداد إلى مصر وعنده مات الشافعي ودفن في وسط قبور بني عبد الحكم بمصر وبنوا على قبره قبة وتوفي عبد الله بن عبد الحكم في شهر رمضان سنة أربع عشرة ومائتين ومنهم
امام شافعی کے شاگردوں میں عبداللہ بن الحکم تھے پھر انکے بارے مختصر تعارف بیان کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :
جب امام شافعی بغداد سے مصر تشریف لائے تو انہوں نے ان کے ہاں قیام کیا تھا ، امام شافعی کا انتقال بھی ان کے ہاں ہوا تھا ، انہیں بنو عبدالحکم ی قبر کے درمیان میں دفن کی گیا
، ان لوگوں نے امام شافعی کی قبر پر ایک قبہ بھی بنوایا دیا تھا ، شیخ عبداللہ بن عبدالحکم کا انتقال رمضان کے مہینہ ۲۱۴ھ میں ہوا
[الانتقاء للابن عبد البر ، ص113]
معلوم ہوا امام شافعی کے تلامذہ میں امام ابن عبد الحکم جو امام مالک کے بھی شاگرد تھے انہوں نے امام شافعی کی قبر پر قبہ بنوایا تھا اور یہ ثقہ امام ہیں تو ان پر بھی فتویٰ رافصیت ٹھو ک دیا جائے!!!!
نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قبور پر قبہ و گنبد بنانا متقدمین سے ثابت ہے تو یہ بدعت والی کہانی بھی جھوٹی ثابت ہوئی اور بقول موصوف کے گنبد و قبے بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ان سے تبرک و فیض حاصل ہو تو یہ موقف بھی موصوف کے مطابق متقدمین سے ثابت ہوگیا ۔
آگے چلتے ہیں:
امام نووی رحمتہ اللہ
حضرت محمد ﷺ کے پیارے بیٹے حضرت ابراہیم بن محمد ﷺ کے بارے تفصیلی ذکر بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں:
ودفن بالبقيع، وقبره مشهور عليه قبة،
وصلى عليه رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وكبر أربع تكبيرات،
هذا قول جمهور العلماء، وهو الصحيح.
اور یہ (ابراہیم رضہ اللہ ) جنت البقیع میں دفن ہیں ، اور انکی قبر مبارکہ مشہور ہے اس پر قبہ (گنبد) بنا ہوا ہے اور نبی کریمﷺ نے ان پر چار تکبیرات پڑھیں اور یہی جمہور کا قول ہے اور یہی صحیح ہے
[تهذيب الأسماء واللغات ،ص ۱۰۳، النووی]
سوال یہ ہے کہ جنت البقیع پر کب رافضیوں کا قبضہ ہوا اور کب یہ چیزیں بنیں ؟ اور امام نووی اس بات کو بطور تحسین بیان کرکے اس بدعت کے کرتکب ہوئے یا نہیں ؟
آگے چلتےہیں :
امام نووی رحمتہ اللہ
حضرت محمد ﷺ کے پیارے بیٹے حضرت ابراہیم بن محمد ﷺ کے بارے تفصیلی ذکر بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں:
ودفن بالبقيع، وقبره مشهور عليه قبة،
وصلى عليه رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وكبر أربع تكبيرات،
هذا قول جمهور العلماء، وهو الصحيح.
اور یہ (ابراہیم رضہ اللہ ) جنت البقیع میں دفن ہیں ، اور انکی قبر مبارکہ مشہور ہے اس پر قبہ (گنبد) بنا ہوا ہے اور نبی کریمﷺ نے ان پر چار تکبیرات پڑھیں اور یہی جمہور کا قول ہے اور یہی صحیح ہے
[ تهذيب الأسماء واللغات ،ص ۱۰۳، النووی]
امام ابن ابی یعلیؒ مصنف صاحب طبقات حنابلہ
اپنے شیخ ابو جعفر کے تعارف میں لکھتے ہیں :
انکا مکمل نسب :
أَبُو جَعْفَر عبد الخالق بْن عيسى بْن أَحْمَد بن محمد بْنِ عِيسَى بْن أَحْمَد بْن موسى بْن مُحَمَّد بن إبراهيم بْن عَبْدِ اللَّهِ بْن معبد بْن العباس بْن عبد المطلب
پھر تفصیل ذکر کرنے کے بعد مام ابن ابی یعلی فرماتے ہیں :
وتقدم للصلاة عَلَيْهِ أخوه أَبُو الفضل بجامع المدينة وحفر لَهُ بجنب قبر إمامنا أَحْمَد فدفن فِيهِ
وأخذ الناس من تراب قبره الكثير تبركا به.
ان پر انکے بھائی ابو الفضل نے نماز جنازہ پڑھا مدینہ کی مسجد میں
اور ان کے لیے امام احمد بن حنبل کی قبر مبارک کے نزدیک زمین کھودی گئی قبر کے لیے
اور انکی قبر سے بہت سے لوگ مٹی تبرک کے لیے لے جاتے
اسکے بعد آگے امام ابن ابی یعلی فرماتے ہیں :
ولزم الناس قبره ليلا ونهارا مدة طويلة ويقرأون ختمات ويكثرون الدعاء.
اور لوگوں نے اس کی قبر پر دن رات طویل عرصے تک قرآن کے بہت زیادہ ختم کیے اور بہت زیادہ دعا کی (انکی مزار پر)
ولقد بلغني أنه ختم عَلَى قبره فِي مدة شهور ألوف ختمات.
امام ابن ابی یعلی کہتے ہیں اور مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ انکی قبر مبارک پر ایک مہینے میں قرآن کے ہزاروں ختم ہوئے تھے
[طبقات حنابلہ، جلد 2 ص 241 ، امام ابن ابی یعلی ]
امام سمعانی اپنی تصنیف الانساب میں ایک راوی ابو مذاحم کے ترجمہ میں انکا مکمل نسب نقل کرتے ہیں
أبو مزاحم سباع بن النضر بن مسعدة بن بحر بن النضر بن حبيب ابن عبد الله بن قطن بن المنذر بن حذافة بن حبيب بن ثعلبة بن سعد بن قيس بن ثعلبة بن عكابة بن صعب بن على بن بكر بن وائل ابن قاسط، البكري الوذارى،
پھر فرماتے ہیں
كان بنى بها الجامع، وكان من قواد سمرقند وأجلائها وثنائها وأفاضلها ووجوهها ورؤسائها، معروفا بالفضل والديانة والصيانة، له آثار جميلة وأوقاف جليلة على وجوه الخيرات، جالس على بن عبد الله المديني ويحيى بن معين وأخذ عنهما العلم،
کہ انہوں نے جامع (مسجد) تعمیر کرائی ، یہ سمرقند کے قائدین میں سے ایک تھے یہ قابل تعریف ہیں فاضلین میں سے ایک تھے اچھے چہرے والے اور فضل کی معرفت سے موصوف ہیں اور اچھے عادات والے تھے
یہ امام علی بن مدینی اور امام یحییٰ بن معین کی مجلس میں بیٹھتے اور ان سے علم حاصل کیا
پھر انکے تلامذہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
روى عنه أبو عيسى الترمذي ومحمد بن إسحاق الحافظ السمرقندي والحسن بن على بن نصر الطوسي ومحمد بن المنذر الهروي الملقب بشكّر وغيرهم،
رجع أبو مزاحم من العراق سنة ثلاث وثلاثين ومائتين، ومات في جمادى الأولى سنة تسع وستين ومائتين،
ان سے امام ترمذی ، محمد بن اسحاق سمرقندی ، حسن بن علی بن نصر الطوس ی، اور محمد بن منذر الھروی وغیرہ ہم نے روایت کیا ہے
یہ جمادی الاول میں ۱۶۹ھ میں فوت ہوئے
پھر امام سمعانی آخر میں فرماتے ہیں :
قلت: وزرت قبره في قبة بأسفل قرية وذار وصلينا في المسجد بقربة
میں (السمعانی) کہتا ہوں : میں نے ایک گاوں میں انکے قبر کی زیارت کی ہے ایک قبہ( گنبد) کے نیچے اور (مزار) کے قرب میں مسجد میں نماز بھی ادا کی ہے
[الانساب السمعانی ، جلد جلد ۱۳ ، ص ۲۹۵]
امام ذھبی علیہ رحمہ سے ثبوت!
حدیث میں قبہ گنبد عمارت علی قبر یعنی عین قبر پر بنانے کی ممانعت ہے
نہ کہ فوق قبر یعنی قبر کے کے گرد چھت بنانا
جیسا کہ امام حافظ الحدیث و ناقد الرجال الذھبیؒ اپنی تصنیف تاریخ الاسلام میں باب قائم کرتے ہیں
بناء قبة فوق قبر أبي حنيفة
امام ابی حنیفہ کی قبر مبارک کے گرد قبہ یعن گنبد بنانا
پھر اسکے تحت لکھتے ہیں :
وفيها بنى عميد بغداد على قبر أبي حنيفة قبة عظيمة وأنفق عليها الأموال
اور اس سن میں بنی عمید نے بغداد میں امام ابی حنیفہ کی قبر پر اعظیم الشان گنبد تعمیر کرایا اور اس پر کافی پیسہ خرچ کیا
[تاریخ الاسلام ]
حدیث میں جو ممانعت ہے وہ عین قبر پر عمارت بنانا صاحب قبر والے کے لیے
جبکہ زائرین کے لیے گنبد و قبر پر عمارت بنانے پر اہلسنت کا اتفاق ہے کہ لوگ چھاو میں بیٹھ کر قرآن و تلاوت اور دعا کر سکیں
حضرت عباسؓ جو کہ نبی کریمﷺ کے چچا تھے
انکا تفصیلی ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ومات: سنة اثنتين وثلاثين، فصلى عليه عثمان، ودفن بالبقيع.
وعلى قبره اليوم قبة عظيمة من بناء خلفاء آل العباس
اور انکی وفات ۳۲ہ میں ہوئی ، اور ان پر حضرت عثمانؓ نے نماز جنازہ پڑھی اور انکو جنت البقیع میں دفن کیا گیا
اور انکی قبر مبارک پرآج ایک اعظیم قبہ (گنبد) ہے جو کہ آل عباس کےخاندان کی طرف سے بنایا گیا
[سیر اعلام النبلاء جلد ۲ ، ص ۹۷]
تو موصوف کے لیے اتنے حوالے بطور مثال کافی ہونگے کہ ائمہ اہلسنت کے نزدیک متقدمین سے متاخرین تک قبور اولیاء اللہ پر قبے بنانے اور انکے جوار میں نماز پڑھنے و تبرک حاصل کرنے میں اختلاف نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 2 :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک واقعہ یوں نقل کرتے ہیں:
وَرُوِيَ عَنْ أَبِي بَکْرِ بنِ أَبِي عَلِيٍّ، قَالَ : کَانَ ابْنُ المُقْرِیئِ یَقُوْلُ : کُنْتُ أَنَا وَالطَّبَرَانِيُّ، وَأَبُو الشَّیْخِ بِالْمَدِیْنَۃِ، فَضَاقَ بِنَا الْوَقْتُ، فَوَاصَلْنَا ذٰلِکَ الْیَوْمَ، فَلَمَّا کَانَ وَقْتُ الْعشَائِ حَضَرْتُ الْقَبْرَ، وَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ الْجُوْعُ، فَقَالَ لِيَ الطَّبَرَانِيُّ : اِجْلِسْ، فَإِمَّا أَنْ یَّکُونَ الرِّزْقُ أَوِ الْمَوْتُ، فَقُمْتُ أَنَا وَأَبُو الشَّیْخِ، فَحَضَرَ الْبَابَ عَلَوِيٌّ، فَفَتَحْنَا لَہٗ، فَإِذَا مَعَہٗ غُلاَمَانِ بِقَفَّتَیْنِ، فِیْہِمَا شَيْئٌ کَثِیْرٌ، وَقَالَ : شَکَوْتُمُونِي إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ رَأَیْتُہٗ فِي النَّوْمِ، فَأَمَرَنِي بِحَمْلِ شَيْئٍ إِلَیْکُمْ ۔
’’ابوبکر بن ابو علی بیان کرتے ہیں کہ ابن مقری کہا کرتے تھے:میں،امام طبرانی اور امام ابو الشیخ مدینہ منورہ میں تھے،ہم تنگ دستی کا شکار ہو گئے۔ہم نے وصال(مسلسل روزے رکھنا شروع) کیا۔ عشا کے وقت میں قبر رسول کے پاس آکر میں نے کہا: یارسول اللہ! بھوک؟مجھے امام طبرانی نے کہا:بیٹھ جائو،اب یا تو رزق آئے گا یا پھر موت۔۔۔ میں اور ابوالشیخ نے کھڑے ہوئے اور باب ِعلوی کے پاس آکر ان کے لیے دروازہ کھولا:اچانک دیکھا کہ ان کے ساتھ دو نوجوان تھے،جن کے پاس دو ٹوکرے تھے، جن میں بہت کچھ تھا۔امام طبرانی نے کہا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تم لوگوں نے مجھ سے شکایت کی۔میں نے آپ کو خواب میں دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہارے لیے کچھ اٹھا لائوں۔‘‘
(تذکرۃ الحفّاظ : 122/3، سیر أعلام النبلاء : 400/16، 401، مصباح الظلام لأبي عبد اللّٰہ محمّد بن موسی بن النعمان (م : 683ھ)، ص : 61)
تبصرہ :
یہ بے سند اور جھوٹا واقعہ ہے۔کسی گمراہ نے محدثین کرام کو شرک میں مبتلا ثابت کرنے کی بے ہودہ اور ناکام کوشش کی ہے۔بے سند اقوال پیش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔ویسے بھی بے سند مذہب کا کوئی اعتبار نہیں۔
(الجواب: اسد الطحاوی)
ما شاءاللہ موصوف کے ذھنی توازن کا اندازہ اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے ”کسی گمراہ نے محدثین کرام کو شرک میں مبتلا ثابت کرنے کی بے فائدہ کوشش کی ہے ” یعنی اس کوشش کو مکمل تکمیل تک پہنچانے میں امام ذھبی آگے آگے تھے ؟
نیز اس روایت کو امام ابن جوزی نے اپنی تصنیف میں بیان کیا ہے اور جبکہ ان کی کتاب کی سند شائع کردہ کتاب میں حذف ہیں لیکن مجھے ایک نسخہ مل چکا ہے اس پر تفصیل پوسٹ کرونگا مستقبل میں باقی ائمہ نے اس روایت کو امام مقری کی مسند سے بھی بالجزم نقل کیا ہے اس پر میں پہلے بہت تفصیلی کلام لکھ چکا ہوں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 3 :
امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنے حوالے سے بیان کرتے ہیں:ـ
قَدْ زُرْتُہٗ مِرَارًا کَثِیرَۃً، وَمَا حَلَّتْ بِي شِدَّۃٌ فِي وَقْتِ مُقَامِي بِطُوْسٍ، فَزُرْتُ قَبْرَ عَلِيِّ بْنِ مُوسَی الرِّضَا صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلٰی جَدِّہٖ وَعَلِیہِ، وَدَعَوْتُ اللّٰہَ إِزَالَتَہَا عَنِّي؛ إِلَّا اسْتُجِیْبَ لِي، وَزَالَتْ عَنِّي تِلْکَ الشِّدَّۃُ، وَہٰذَا شَيْئٌ جَرَّبْتُہٗ مِرَارًا، فَوَجَدْتُّہٗ کَذٰلِکَ، أَمَاتَنَا اللّٰہُ عَلٰی مَحَبَّۃِ الْمُصْطَفٰی وَأَہْلِ بَیْتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰہ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِم أَجْمَعِینَ ۔
’’طوس نامی مقام پر میں نے علی بن موسیٰ رضا کی قبر کی کئی مرتبہ زیارت کی۔جب بھی مجھے سخت پریشانی کا سامنا ہوا،تو میں نے علی بن موسیٰ رضا کی قبر پر آ کر اللہ تعالیٰ سے اس پریشانی کے خاتمے کی دُعا کی۔اللہ رب العزت نے میری دُعا قبول فرما کر مجھے سخت پریشانی سے نجات دلائی۔اس کا میں نے کئی مرتبہ مشاہدہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تمام اہل بیت سے محبت پر موت دے۔‘‘
(الثقات : 457/8، ت : 1441)
تبصرہ :
یہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کی اجتہادی خطا ہے۔اس سلسلے میں ان کا کوئی سلف نہیں،نہ ہی یہ عمل کتاب و سنت سے مستند ہے،بلکہ خیرالقرون کے مسلمانوں کے خلاف عمل ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661۔728ھ)فرماتے ہیں:
لَیْسَ الدُّعَائُ عِنْدَ الْقُبُورِ بِأَفْضَلَ مِنَ الدُّعَائِ فِي الْمَسَاجِدِ وَغَیْرِہَا مِنَ الْـأَمَاکِنِ، وَلَا قَالَ أَحَدٌ مِّنَ السَّلَفِ وَالْـأَئِمَّۃِ : إِنَّہٗ مُسْتَحَبٌّ أَنْ یَّقْصِدَ الْقُبُورَ لِأَجْلِ الدُّعَائِ عِنْدَہَا؛ لَا قُبُورَ الْـأَنْبِیَائِ وَلَا غَیْرِہِمْ ۔
’’قبروں کے پاس دُعا کرنا مساجد اور دیگر مقامات کی بہ نسبت افضل نہیں۔ اسلافِ اُمت اور ائمہ دین میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہا کہ دُعا کیلئے انبیائِ کرام اور دیگر قبروں کا قصد مستحب ہے۔‘‘
(مجموع الفتاوی : 180/27)
لہٰذا یہ کہنا کہ اولیا اور صالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے اور وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، قطعاً باطل ہے۔
مشہور اہل حدیث عالم،علامہ محمد بشیر سہسوانی،ہندی رحمہ اللہ (1326-1252ھ) تبرک و توسل کی ممنوع و حرام اور کفر وشرک پر مبنی صورتوں کے متعلق فرماتے ہیں:
’’آٹھویں قسم یہ ہے کہ آدمی یہ عقیدہ رکھتے ہوئے نیک لوگوں کی قبروں کے پاس اللہ تعالیٰ سے دُعا و مناجات کرے کہ وہاں دُعا قبول ہوتی ہے۔
(صیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان، ص : 212، 213)
تنبیہ :
ابوبکر، محمد بن مؤمل بن حسین بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں:ـ
خَرَجْنَا مَعَ إِمَامِ أَہْلِ الْحَدِیْثِ، أَبِي بَکْرِ بْنِ خُزَیْمَۃَ، وَعَدِیْلِہٖ أَبِي عَلِيٍّ الثَّقْفِيِّ، مَعَ جَمَاعَۃٍ مِّنْ مَّشَائِخِنَا، وَہُمْ إِذْ ذَاکَ مُتَوَافِرُوْنَ، إِلٰی زِیَارَۃِ قَبْرِ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرَّضَا بِطُوْسَ، قَالَ : فَرَأَیْتُ مِنْ تَعْظِیْمِہٖ، یَعْنِي ابْنَ خُزَیْمَۃَ، لِتِلْکَ الْبُقْعَۃِ، وَتَوَاضُعِہٖ لَہَا، وَتَضَرُّعِہٖ عِنْدَہَا، مَا تَحَیَّرْنَا ۔
’’ہم امامِ اہل حدیث، ابوبکر بن خزیمہ رحمہ اللہ کے ساتھ نکلے۔ان کے ہم زلف ابو علی ثقفی اور مشائخ کی ایک بڑی جماعت ان کے ہمراہ تھی۔ہم سارے اکٹھے ہو کر طوس میں علی بن موسیٰ رضا کی قبر کی طرف گئے۔میں نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کو زمین کے اس ٹکڑے کی تعظیم کرتے دیکھا اور اس قبر کے سامنے ان کی عاجزی اور انکساری دیکھ کر ہم حیران رَہ گئے تھے۔‘‘
(تہذیب التہذیب لابن حجر : 388/7، وسندہٗ حسنٌ)
زیارتِ قبور کے وقت آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔اگر قبروں کے احترام کو تعظیم کا نام دیاجائے تو یہ جائز ہے،لیکن دورانِ زیارت قبروں سے تبرک جائز نہیں،نہ ان کے پاس دُعا و مناجات مشروع ہے۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
واہ یعنی امام ابن حبان خود سلف میں سے نہیں ہیں کہ انکے عمل کو رد اس دلیل سے کیا جا رہا ہے کہ سلف میں اس بات کا ثبوت نہیں ؟ جبکہ سلف سے کافی کچھ اوپر بھی ثابت ہم کر آئے اور آگے مزید موصوف کا پوسٹ مارٹم ہوگا!!!
اسکے بعد موصوف امام ابن حبان کا رد ابن تیمیہ صاحب سے کرتے ہیں جو کہ ایک لطیفہ سے کم نہیں خیر اب ہم ان صاحب اور انکے شیخ ابن تیمیہ کا رد امام ذھبی علیہ رحمہ سے کرینگے کہ کیسے امام ذھبی علیہ بھی ابن تیمیہ کے اس موقف کو خارجیت کے قریب ترین سمجھتے تھے
امام ذھبی علیہ رحمہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف سیر اعلام النبلاء میں بہت سے مقام پر ایسی روایات جن یہ تصریح ہے کہ انبیاء کرامؐ اور اولیاءاللہؓ کی قبور کی زیارت کی جائے اور ان سے توسل و استغاثہ کیا جائے نہ صرف ایسی روایات کو فضائل و مناقب میں قبو ل کیا ،بلکہ ان امور کی ترغیب بھی دی اور ان پر وارد اعتراضات کا رد بھی کیا ہے ہم امام ذھبی علیہ رحمہ کی ایسی چند تصریحات کو بطور مثال پیش کرتے ہیں
ابن تیمیہ نے سب سے پہلے یہ فتویٰ دیاتھا کہ کسی کی قبر کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا حرام ہے (معاذاللہ ) جسکے جواب میں اہلسنت کے جید علماء نے ابن تیمیہ کی زندگی میں ہی اسکا شدو مد سے رد کیا اور اہلسنت نے اس مسلے پر کتب لکھیں
ابن تیمیہ نے یہ موقف نبی اکرﷺ کی ایک حدیث کی بنیاد پر کیا جس سے اس نے یہ باطل مطلب نکالا امام ذھبی علیہ رحمہ جب اس روایت کو نقل کرتے ہیں تو اس پر تجزیہ دیےت ہوئے لکھتے ہیں :
عن أبي هريرة:عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: (لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجدي، والمسجد الحرام، والمسجد الأقصى
حضرت ابوھریرہؓ فرماتے ہیں نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ تم اجر کی نیت سے سفر نہ کرو سوائے تین مساجد کے ، ایک میری مسجد ، ایک مسجد حرام اور مسجد اقصی
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی علیہ رحمہ فرماتے ہیں :
معناه: لا تشد الرحال إلى مسجد ابتغاء الأجر سوى المساجد الثلاثة، فإن لها فضلا خاصا.
فمن قال: لم يدخل في النهي شد الرحل إلى زيارة قبر نبي أو ولي، وقف مع ظاهر النص، وأن الأمر بذلك والنهي خاص بالمساجد.
ومن قال بقياس الأولى، قال: إذا كان أفضل بقاع الأرض مساجدها، والنهي ورد فيها، فما دونها في الفضل – كقبور الأنبياء والصالحين – أولى بالنهي.
أما من سار إلى زيارة قبر فاضل من غير شد رحل، فقربة بالإجماع بلا تردد، سوى ما شذ به الشعبي، ونحوه، فكان بلغهم النهي عن زيارة القبور، وما علموا بأنه نسخ ذلك – والله أعلم –
حدیث کا معنی یہ ہے کہ تم زیادہ اجر کے ارادے کے حوالے سے کسی مسجد کی طرف قصد نہ کرو سوائے ان تین مساجدکے کیونکہ ان تین کی خاص فضیلت ہے
جس نے (اہلسنت) یہ بات کی ہے ”حدیث میں جو نہی آئی ہے اس میں نبی اور ولی کی قبر کی زیارت داخل نہیں ہے اور انہوں نے نص کے ظاہر سے قیاس کیا ہے اس امر میں نہی جو ہے یہ مساجد سے خاص ہے
جس (ابن تیمیہ) نے پہلے قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب زمین کے بہتر حصے مساجد ہیں انکی نفی آگئی تو ان سے کم درجہ والے جو مقام ہے جیسا کہ قبور انبیاء تو انکی نفی بدرجہ اولیٰ ہوگی
رہی یہ بات کوئی کسی فاضل و نیک بندے کی قبر کی زیارت کے لیے جائے بغیر سامان سفر باندھے تو بغیر کسی تردد کے اس امر پر اجماع امت ہے سوائے امام شعبی یا انکے جیسے کچھ کے شاز موقف کے کہ انکو زیارت قبور کی نفی کی روایات پہنچی تھیں لیکن انکی ناسخ نہ پہنچی تھیں واللہ اعلم!
[سیر اعلام النبلاء ، ج9، ص 368]
ایک اور رایت جو سلفیہ بڑی شدو مد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ میری قبر کو عید نہ بناو اس روایت کو نقل کرکے امام ذھبی اسکی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
عن حسن بن حسن بن علي:
أنه رأى رجلا وقف على البيت الذي فيه قبر النبي -صلى الله عليه وسلم- يدعو له، ويصلي عليه، فقال للرجل : لا تفعل، فإن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: (لا تتخذوا بيتي عيدا، ولا تجعلوا بيوتكم قبورا، وصلوا علي حيث ما كنتم، فإن صلاتكم تبلغني .
هذا مرسل،
وما استدل حسن في فتواه بطائل من الدلالة، فمن وقف عند الحجرة المقدسة ذليلا، مسلما، مصليا على نبيه، فيا طوبى له، فقد أحسن الزيارة، وأجمل في التذلل والحب، وقد أتى بعبادة زائدة على من صلى عليه في أرضه، أو في صلاته، إذ الزائر له أجر الزيارة، وأجر الصلاة عليه، والمصلي عليه في سائر البلاد له أجر الصلاة فقط، فمن صلى عليه واحدة، صلى الله عليه عشرا، ولكن من زاره – صلوات الله عليه – وأساء أدب الزيارة، أو سجد للقبر، أو فعل ما لا يشرع، فهذا فعل حسنا وسيئا، فيعلم برفق، والله غفور رحيم
حضرت حسن بن حسن بن علی ؓ نے ایک آدمی دیکھا جو اس گھر کے قریب کھڑا تھا تھا جس میں نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک ہے اور ان پر درود بھیج رہاتھا تو اس آدمی کو کہا کہ یہ کام نہ کرو ، کیونکہ نبی اکرمﷺ نے منع فرمایا ہےکہ میرے گھر کو عید گاہ نہ بناو اور اپنے گھر وں کو قبرستان نہ بناو
امام ذھبی علیہ رحمہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اپنا موقف دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
یہ روایت مرسل ہے ۔ اور جو امام حسن نے استدلال کیا ہے اپنے فتویٰ پر تو وہ اپنے فتویٰ کے اعتبار سے دلالت میں طویل ہے جو حجرت مقدسہ کے قریب کھڑا ہو (ذلیل)بےچارہ بن کر ، اور سلام پڑھتے ہوئے اور دروود بھیجتے ہوئے اپنے نبی اکرمﷺ پر اسکے لیے تو بہت خوشخبری کی بات ہے کہ اس نے احسن طریقے سے زیارت کی ہے عاجزی اور محبت میں بہت خوبصورتی ظاہر کی ہے اور وہ ایک زائد عبادت کے ساتھ آیا ہے جو کہ انکی ہی زمین پر ان پر درود بھیجتا ہے ، اور اپنی نماز میں درود بھیجتا ہے تو اس وقت زیارت کرنے والے کے لیے زیارت کا اجر ہے
بلکہ اس ہر اس شخص کے لیے درود کا اجر ہے جو جہاں سے بھی پڑھتا ہو جو ایک بار درود بھیجے اللہ در دس بار بھیجتا ہے لیکن جو زیارت کرتا ہے بے ادبی سے کرتا ہے یا قبر کو سجدہ کرتا ہے اور ایسا کام کرتا ہے جو شریعت کے تحت نہ ہو ، تو یہ عمل جو (جو اوپر مذکور ہے ) وہ اچھا ہے اور دوسرا (جس میں سجود ہو قبور کو ) وہ برا ہے ۔
پھر امام ذھبی فرماتے ہیں :
.فوالله ما يحصل الانزعاج لمسلم، والصياح وتقبيل الجدران، وكثرة البكاء، إلا وهو محب لله ولرسوله، فحبه المعيار والفارق بين أهل الجنة وأهل النار، فزيارة قبره من أفضل القرب، وشد الرحال إلى قبور الأنبياء والأولياء، لئن سلمنا أنه غير مأذون فيه لعموم قوله – صلوات الله عليه -: (لا تشدوا الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد) فشد الرحال إلى نبينا -صلى الله عليه وسلم- مستلزم لشد الرحل إلى مسجده، وذلك مشروع بلا نزاع، إذ لا وصول إلى حجرته إلا بعد الدخول إلى مسجده، فليبدأ بتحية المسجد، ثم بتحية صاحب المسجد –
رزقنا الله وإياكم ذلك آمين
اللہ کی قسم ایک مسلمان کو کیا گھبراہٹ ہو سکتی ہے اسکے علاوہ دیواروں کو چومنا اور کثرت سے رونا ایسا کام کرنے والا اللہ اور اسکے رسولﷺ سے محبت کرنا والا ہے اسکی محبت جو ہے وہ ایک معیار ہے اہل جنت اور اہل نار کے درمیان فرق کرنے والا ہے تو (نبی اکرمﷺ)کی قبر مبارک کی زیارت کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے اللہ کے قرب کے لیے ،
انبیاء واولیاء اللہ کی قبر کی طرف سفر کرنا جو ہےاگر اسکو تسلیم کرے اگرچہ اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث میں عموم کی وجہ سے معزور نہیں (یعنی اس پر حکم نہیں دیا گیا ہے) لیکن
اللہ کے رسولﷺ کی قبر کی طرف سفر کرنا اس بات کو مستلزم ہے کہ انکی مسجد کی طرف بھی سفر ہوگا اور یہ بات شرعا جائز ہے بغیر کسی اختلاف کے کہ جب کوئی زریعہ نہ ہو حجرہ میں جانے کے لیے سوائے اس بات انکی مسجد میں داخل ہو جائے اور دو رکعات پڑھے پھر صاحب مسجد پر درود و سلام پڑھے اللہ ہمیں اور آپ کو اس نعمت عظمہ کا مستحق بنائے
(یعنی جو قبر مبارک کی زیارت کی نیت کریگا تو یقینی بات ہے وہ مسجد نبوی کی طرف ہی جائے گا )
اس تمام خوبصورت شرح میں امام ذھبی نے بہت اچھے طریقے اہلسنت کی ترجمانی کرتے ہوئے ابن تیمیہ کا بہترین رد کیا ہے یہاں تک کہ علامہ شعیب الارنووط کو بھی حاشیہ میں یہ بات کہنی پڑ گئی :
قصد المؤلف رحمه الله بهذا الاستطراد الرد على شيخه ابن تيمية الذي يقول بعدم جواز شد الرحل لزيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم ويرى أن على الحاج أن ينوي زيارة المسجد النبوي كما هو مبين في محله.
مولف (امام ذھبی) نے اس اختلاف میں اپنے شیخ ابن تیمیہ کو جواب دینا چاہا ہے ، جسکا یہ قول تھا کہ نبی اکرمﷺ کے روضہ کی نیت سے سفر کرنا ناجائز ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ حاجی کو مسجد نبوی کی نیت کرکے سفر کرنا چاہیے جیسا کہ یہاں نشاندہی کی گئی ہے
[سیر اعلام النباء ، ج4، ص 485[
اس طرح امام ذھبی نے جب امام احمد بن حنبل کا عمل پیش کیا توابن تیمیہ کانام لیے بغیر جو اس پر طنز کیا وہ بھی پڑھنے لائق ہے جیسا کہ امام ذھبی پہلے امام احمد کے بیٹے سے امام احمدکا عمل بیان کرتے ہیں :
قال عبد الله بن أحمد: رأيت أبي يأخذ شعرة من شعر النبي -صلى الله عليه وسلم- فيضعها على فيه يقبلها.
وأحسب أني رأيته يضعها على عينه، ويغمسها في الماء ويشربه يستشفي به.
ورأيته أخذ قصعة النبي -صلى الله عليه وسلم- فغسلها في حب الماء، ثم شرب فيها، ورأيته يشرب من ماء زمزم يستشفي به، ويمسح به يديه ووجهه.
امام عبداللہ بن احمد کہتے ہیں میں نے اپنے والد کو دیکھا وہ نبی اکرمﷺ کے بال مبارک اپنے پاس رکھتے تھے پھر اسکو بوسہ دیتے تھے پھر اسکو پانی میں ڈبو کر پانی پی لیتے اور اس سے شفاء حاصل کرتے
انکے پاس نبی اکرمﷺ کا کٹورہ تھا اسکو پانی میں غسل دیتے پھر اس میں پانی پیتے پھر انکو یہ کرتے دیکھا کہ ان سے شفاء حاصل کرتے اور مسح کرتے اپنے دونوں ہاتھوں اور منہ سے
اسکو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی ابن تیمیہ پر طنزکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قلت: أين المتنطع المنكر على أحمد، وقد ثبت أن عبد الله سأل أباه عمن يلمس رمانة منبر النبي -صلى الله عليه وسلم- ويمس الحجرة النبوية، فقال: لا أرى بذلك بأسا.
أعاذنا الله وإياكم من رأي الخوارج ومن البدع.
میں (ذھبی) کہتا ہوں کہاں ہے مغرور جو امام احمد (کے اس عمل )پر انکار کرتا ہو، اور یہ بات ثابت ہے کہ امام عبداللہ نے اپنے والد سے اس بارے پوچھا کہ جو بندہ نبی اکرمﷺ کے منبر رسولﷺ سے مس کرتا ہے اورتوامام حمد بن حنبل نے کہا میں اس میں کوئی حرج نہیں جانتا
میں اللہ کی پناہ چاہتاہوں خوارج اور بدعت کی رائے سے ۔
[سیر اعلام النبلاء ، ج11،ص212]
امام ذھبی ایک محدث ابن لال أبو بكر أحمد بن علي بن أحمد الهمذاني کی مداح نقل کرتے ہیں :
قال شيرويه: كان ثقة، أوحد زمانه، مفتي البلد، وله مصنفات في علوم الحديث، غير أنه كان مشهورا بالفقه.
قال: ورأيت له كتاب (السنن) ، و (معجم الصحابة) ، ما رأيت أحسن منه، والدعاء عند قبره مستجاب
امام شیرویہ کہتے ہیں کہ یہ اپنے زمانہ کے ثقہ تھے اور علاقے کے مفتی تھے اور انکی تصنیفات ہیں علام میں اور انکے علاوہ کوئی فقہ میں مشہورنہ تھا
پھر کہا کہ میں نے انکی کتاب السنن اور معجم الصحابہ دیکھی ہے اور اس سے بہتر کتب میں نے نہیں دیکھی ہے اور انکی قبر کے نزدیک دعا قبول ہوتی ہے
اسکو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قلت: والدعاء مستجاب عند قبور الأنبياء والأولياء،
میں ( الذھبی) کہتاہوں کہ انبیاء اور اولیاء اللہ کی قبور کے نزدیک دعا مقبول ہوتی ہے
]سیر اعلام النبلاء، ج۱۷، ص ۷۷[
اور امام معروف کرخی کے ترجمہ میں جب امام ذھبی انکی قبر سے لوگوں کے توسل کا قول نقل کرتےہیں :
وعن إبراهيم الحربي، قال: قبر معروف الترياق المجرب
امام ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : امام معروف کی قبر تریاق زہر ہے (یعنی زہر کو کاٹنے والی ہے )
پھر اسکی تشریح کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں :
يريدإجابة دعاء المضطر عنده؛ لأن البقاع المباركة يستجاب عندها الدعاء، كما أن الدعاء في السحر مرجو، ودبر المكتوبات، وفي المساجد، بل دعاء المضطر مجاب في أي مكان اتفق، اللهم إني مضطر إلى العفو، فاعف عني.
انکی مراد ہے (امام معروف کی قبر) پر مجبور و مضطر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے کیونکہ مبارک جگہوں میں دعا قبول ہوتی ہے جیسا کہ مبارک وقت میں قبول ہوتی ، سہری ، فرض نمازوں کے بعد، مساجد میں ، بلکہ مجبور مضطر آدمی کی دعا ہر جگہ قبول ہوتی ہے
[سیر اعلام النبلاء ]
یہاں تک امام ذھبی علیہ رحمہ سے ابن تیمیہ کا ٹھیک ٹھاک رد ثابت ہو چکا ہے
ابن تیمیہ کے نزدیک شرک کا فتویٰ کتنا سستا تھا اور اگر اس طرح ابن تیمیہ کے خارجیت بھرے خیالات کو تسیم کیا جائے تو امت محمدی کے بڑے بڑے اکابر مشرک بنتے ہیں اس بات کا اندازہ ابن تیمیہ کے فتوں سے خوب لگایا جا سکتا ہے
جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ صاحب لکھتے ہیں :
وأما التمسح بالقبر أو الصلاة عنده أو قصده لأجل الدعاء عنده معتقدا أن الدعاء هناك أفضل من الدعاء في غيره أو النذر له ونحو ذلك فليس هذا من دين المسلمين بل هو مما أحدث من البدع القبيحة التي هي من شعب الشرك والله أعلم وأحكم.
قبر کو مس یعنی ہاتھ لگانا (تبرک کرنا) اس کے پاس نماز پڑھنا ، یا دعا مانگنے کے غرض سے اسکی طرف سفر کا قصد کرنا اس نیت سے کہ کہ وہاں عمومی جگہوں کی بانسبت دعا قبول ہوگی ، قبر پر نزر نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ اس جیسے سارے اعمال کا دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بری بدعات میں سے ہیں کہ جنکا تعلق شرک کی مختلف اقسام سے ہے
[ مجموع الفتاوى،ج24،ص321]
یعنی موصوف کے نزدیک یہ سب عمال قبیح بدعات کے ساتھ شرک کی اقسام سے ہیں ۔
نیز ایک جگہ لکھتےہیں :
وأما التمسح بالقبر – أي قبر كان – وتقبيله وتمريغ الخد عليه فمنهي عنه باتفاق المسلمين ولو كان ذلك من قبور الأنبياء ولم يفعل هذا أحد من سلف الأمة وأئمتها بل هذا من الشرك
اور قبر کو ہاتھ لگانا (یعنی تبرک لینا) جسکی بھی قبر ہو ، اسکو چومنا اور اس پر گال پھیرنا (تبرکا) یہ متفقہ طور پر مسلمین سے منع ہے ، اگر یہ قبور انبیاء کرام کی بھی ہو ایسا فعل سلف میں کسی ایک سے وارد نہیں اور نہ ہی ائمہ سے بلکہ یہ (سب افعال) شرک میں سے ہیں
[مجموع الفتاوى،ج27،ص92]
یہاں تک یہ ثابت ہو گیا کہ ابن تیمیہ کے نزدیک قبور سے تبرک لینا ، انکو چومنا ، یا نکو مس کرنا ان پر گال پھیرنا شفاء لینا یہ سب امور اسکے نزدیک شرکیہ اعمال ہیں
لیکن چونکہ ہم جمہور ائمہ سلف سے اسکا ثبوت پیش کرتے ہیں تو اب کچھ لوگ اس پر پلٹی کھا کر اسکو شرک ہی نہیں کہتے
جبکہ تبرک کی نیت سے قبر کی طرف جانا اور اس سے چاہے روحانی فیض لینا ، شفاء لینا یہ سب استغاثہ کے باب سےہے کیونکہ شفاء دینے والا ، روحانی تسکین دینے والا یہ سب کام ما فوق الاسباب میں سےہیں جو کہ اللہ کے علاوہ کوئی مخلوق نہیں دے سکتے ۔۔۔
ابن تیمیہ کے اس صریح جھوٹ پر امام ذھبی نے انکی پکڑ کی اور فرمایا :
قلت: أين المتنطع المنكر على أحمد، وقد ثبت أن عبد الله سأل أباه عمن يلمس رمانة منبر النبي -صلى الله عليه وسلم- ويمس الحجرة النبوية، فقال: لا أرى بذلك بأسا.
أعاذنا الله وإياكم من رأي الخوارج ومن البدع.
میں (ذھبی) کہتا ہوں کہاں ہے مغرور(ابن تیمیہ) جو امام احمد (کے اس عمل )پر انکار کرتا ہو، اور یہ بات ثابت ہے کہ امام عبداللہ نے اپنے والد سے اس بارے پوچھا کہ جو بندہ نبی اکرمﷺ کے منبر رسولﷺ سے مس کرتا ہے اور نبی اکرم کا حجرہ مبارک سے مس کرتا ہے توامام حمد بن حنبل نے کہا میں اس میں کوئی حرج نہیں جانتا
میں اللہ کی پناہ چاہتاہوں خوارج اور بدعت کی رائے سے ۔
[سیر اعلام النبلاء ، ج11،ص212]
نیز اپنا مسلک بیان کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں :
قلت: والدعاء مستجاب عند قبور الأنبياء والأولياء،
میں ( الذھبی) کہتاہوں کہ انبیاء اور اولیاء اللہ کی قبور کے نزدیک دعا مقبول ہوتی ہے
[سیر اعلام النبلاء، ج۱۷، ص ۷۷]
نیز تاریخ الاسلام میں امام بن بشکوال [المتوفى: 533 هـ] سے ایک ولی کے بارے نقل کرتے ہیں :
قال ابن بشكوال: وقبره يتبرك به، ويعرف بإجابة الدعوة. جربت ذلك مرارا.
امام ابن بشکوال فرماتے ہیں انکی قبر سے تبرک (مدد و شفاء) حاصل کی جاتی ہے اور یہ دعاوں کے قبول ہونے کے لحاظ سے معروف ہے اور میں نے متعدد بار اسکا تجربہ کیا ہے
[تاریخ الاسلام ، برقم :462]
نیز متقدمین کےدور میں ایک مشہور ناقد امام ابن ماکولا (المتوفى: 475هـ) بھی ہیں جنکی رجال پر معروف کتاب ہے
تو وہ فرماتے ہیں :
أبو علي بن بيان الزاهد من أهل دير العاقول، له كرامات وقبره في ظاهرها يتبرك به، قد زرته.
ابو علی بن بیان زاھد یہ دیر عاقول(علاقہ)کے لوگوں میں سے ہیں اور انکی قبر وہی ہے انکی کرامات ہیں ، انکی قبر سے تبرک حاصل کیا جاتا ہے میں نے انکی قبر کی زیارت کی ہے
[ الإكمال في رفع الارتياب،ص367]
امام خطیب بغدادی ایک صوفی امام علي بن محمد بن بشار الزاهد أبو الحسن
کے ترجمہ میں انکے بارے روایات نقل کرتے ہیں :
، وكان له كرامات ظاهرة، وانتشار ذكر في الناس،
ان سے کرامات ظاہر ہوئی اور لوگوں میں اس چیز کا ذکر پھیل گیا
اسکے بعد امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
قلت: ودفن بالعقبة قريبا من النجمي، وقبره إلى الآن ظاهر معروف، يتبرك الناس بزيارته.
میں (خطیب بغدادی) کہتا ہوں آپ کو النجم کے قریب عقبہ میں دفن کیا گیا۔ ، اور انکی قبر لوگوں میں معروف ہے اور لوگ انکی قبر کی زیارت اور ان سے تبرک (مدد و شفاء) لیتے ہیں
[تاریخ الاسلام ، برقم:6415]
نیز ایک اور صوفی ولی امام أبو علي بن بيان العاقول،
انکے بارے فرماتے ہیں:
كان عابدا زاهدا، يتبرك أهل بلده بزيارة قبره، ويذكرون عنه أنه كان له كرامات.
یہ نیک و زاھد تھے اور انکے اہل علاقہ انکی قبر کی زیارت کرتے ہیں اور تبرک(مدد،شفاء) حاصل کرتے ہیں (قبر سے) اور وہ لوگ انکے بارے میں یہ ذکر کرتے ہیں کہ ان سے کرامات کو ظہور ہوا
[تاریخ بغداد ، برقم: 7739]
امام خطیب بغدادی، امام ابن جوزی ، امام ابن ابی یعلی ، امام طبرانی و امام مقری ، امام ابن بشکوال ، اما م ابن حجر ، امام سمعانی ، امام قسطلانی ، امام نووی ، امام ابن حبان اور کتنے لوگ ابن تیمیہ کے شرک کے فتوے میں آتے ہیں
قسط اول یہاں تک ختم ہوئی
تحقیق : اسد الطحاوی
قسط دوم!ظہیر امن پوری صاحب کی خیانتوں کا تحقیقی جائزہ!
ازقلم:اسدالطحاوی الحنفی
(ظہیرامن پوری صاحب)
دلیل نمبر 5 :
امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک ’’ضعیف‘‘اور باطل روایت یوں ہے :
إِنِّي لَـأَتَبَرَّکُ بِأَبِي حَنِیفَۃَ، وَأَجِیْیُٔ إِلٰی قَبْرِہٖ فِي کُلِّ یَوْمٍ، یَعْنِي زَائِرًا، فَإِذَا عَرَضَتْ لِي حَاجَۃٌ؛ صَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ، وَجِئْتُ إِلٰی قَبْرِہٖ، وَسَاَلْتُ اللّٰہَ تَعَالَی الْحَاجَۃَ عِنْدَہٗ، فَمَا تَبْعُدُ عَنِّي؛ حَتّٰی تُقْضٰی ۔
’’میں امام ابو حنیفہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر ہر دن زیارت کے لیے آتا ہوں۔جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے، تو میں دو رکعتیں ادا کرتا ہوں اور ان کی قبر کی طرف جاتا ہوں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا ہوں، جلد ہی وہ ضرورت پوری کر دی جاتی ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 135/1)
تبصرہ :
یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے،کیونکہ اس کے راوی عمر بن اسحاق بن ابراہیم کا کتب ِ رجال میں کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ نیز علی بن میمون راوی کی بھی تعیین نہیں ہو سکی۔
اس کے باوجود محمد زاہد الکوثری جہمی حنفی نے اس کی سند کو’’ صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
(مقالات الکوثري : 380)
جس روایت کے راوی کا حال یہ ہو کہ اس کا کتب ِ رجال میں ذکر ہی نہ ہو،اس کی سند صحیح کیسے ہوئی؟کیا یہ سب کچھ قبر پرستی کو تقویت دینے کے لیے تو نہیںکیا جا رہا ؟
جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب (م :2009ئ)لکھتے ہیں:
’’یہ واقعہ ہی جھوٹا اور گھڑا ہوا ہے۔‘‘
(بابِ جنت، ص : 66)
(الجواب :اسد الطحاوی)
موصوف ایک طرف کہتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے اور دوسری طرف اسکو باطل بھی قرار دے رہے ہیں کہ ضیعف الاسناد روایت باطل ہوجاتی ہے ؟ خیر متن کے اعتبار سے انہوں نے کہانی چلائی ابن تیمیہ سے کاپی پیسٹ مار کر خیر اسکا تحقیقی جواب پیش خدمت ہے !
امام صیمری اور امام خطیب باسند روایت بیان کرتے ہیں :
خبرنا عمر بن إبراهيم قال ثنا مكرم قال ثنا عمر بن إسحاق بن إبراهيم قال ثنا علي بن ميمون قال سمعت الشافعي يقول إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء الى قبره في كل يوم يعني زائرا فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره وسألت الله الحاجة فما تبعد عني حتى تقضى
علی بن میمون کہتےہیں میں نے امام شافعی سے سنا :
کہ جب تک میں بغداد میں موجود رہا تو فرماتے ہیں میں امام ابو حنیفہ سے برکت لیتا ہوں اور انکی قبر مبارک کی زیارت کرتا ہوں جب کوئی مشکل حاجت پیش آتی تو دو رکعت نماز پڑھ کر انکی قر کے پاس جاتا ہوں
[اخبار ابی حنیفہ للصیمری ، و تاریخ بغداد]
البانی صاحب سلسلہ ضعیفہ میں امام کوثری پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وأما قول الكوثري في مقالاته (ص 381) : وتوسل الإمام الشافعي بأبي حنيفة مذكور في أو ائل ” تاريخ الخطيب ” بسند صحيح فمن مبالغاته بل مغالطاته فإنه يشير بذلك إلى ما أخرجه الخطيب (1 / 123) من
طريق عمر بن إسحاق بن إبراهيم قال: نبأنا علي بن ميمون قال: سمعت الشافعي يقول: إنى لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم – يعني زائرا – فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره، وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى.
فهذه رواية ضعيفة بل باطلة فإن عمر بن إسحاق بن إبراهيم غير معروف وليس له ذكر في شيء من كتب الرجال، ويحتمل أن يكون هو عمرو – بفتح العين – بن إسحاق بن إبراهيم بن حميد بن السكن أبو محمد التونسى وقد ترجمه الخطيب (12 / 226) وذكر أنه بخاري قدم بغداد حاجا سنة (341) ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا فهو مجهول الحال، ويبعد أن يكون هو هذا إذ أن وفاة شيخه علي بن ميمون سنة (247) على أكثر الأقوال، فبين وفاتيهما نحومائة سنة فيبعد أن يكون قد أدركه.
وعلى كل حال فهي رواية ضعيفة لا يقوم على صحتها دليل
البانی صاحب نے امام شافعی کے امام ابوحنیفہ سے قبر سے توسل کے حوالے روایت کی امام کوثری کے حوالے سے تصحیح پر کہتے ہیں کہ اس کو صحیح سند قرار دیکر علامہ کوثری نے مبالغہ کیا ہے اور انکو مغالطہ ہوا ہے یہ تاریخ بغداد میں بھی ہے
لیکن یہ روایت ضعیف بلکہ موضوع ہے عمر بن اسحاق بن ابراہیم یہ غیر معروف ہے اور کتب رجال میں اسکے بارے کچھ نہیں ملتا ۔
اور احتمال یہ ہے کہ یہ عمرو ہے یعنی عمروبن اسحاق بن ابراہیم بن حمید بن السکن اور امام خطیب نے انکا ترجمہ بیان کیا ہے تاریخ میں اور ذکر کیا کہ یہ یہ بخاری میں ۳۴۱ھ میں آیا اور نہ ہی جرح بیان کی ہے اور نہ ہی تعدیل جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے یہ مجہول الھال ہے ۔ اور یہ بعید ہے کہ
علی بن میمون جو کہ اسکا شیخ ہے اسکی وفات ۲۴۷ھ ہے جیسا کہ اکثر اقوال میں آیا ہے تو اس روایت کا سارا حال یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے اور صحیح کی ہونے کی دلیل نہیں
[سلسلہ الضعیفہ البانی ]
اہم نکتہ!!!
یعنی البانی صاحب نے امام کوثری کی تصحیح کو غلط ثابت کیا اور یہ کہا کہ سند میں عمر بن اسحاق ابن ابراہیم غیر معروف ہے اور احتمال ہے (کیونکہ تاریخ بغداد کے نسخاجات میں بہت غلطیاں تھیں اور مناقب صیمری کے نسخے بھی اغلاط کافی زیادہ تھیں ) کہ یہ راوی عمرو بن اسحاق بن ابراہیم السکنی ہے جو کہ بغداد میں آیا تھا
اور امام خطیب لکھتے ہیں یہ 341ھ میں آیا تھا
امام خطیب کی اس بات کو دلیل بنا کر البانی صاحب کہتے ہیں کہ لیکن اسکا شیخ علی بن میمون جو کہ 247ھ میں ہوئی ہے تو بیچ میں وقفہ ہے کافی زیادہ تو بقول البانی صاحب عمرو بن اسحاق اور علی بن میمون کی وفات کے بیچ کم از کم 100 سال کا وقفہ بنتا ہے اور عمرو بن اسحاق ہے بھی مجہول الحال ۔۔۔
چونکہ البانی صاحب اسکی تاریخ وفات اور توثیق پر مطلع نہیں تو انکا یہاں اشکال وارد تھا معلوم نہیں کہ انکے بیچ وقفہ ۱۰۰سال سے کہیں زیادہ ہو وفات کا
البانی صاحب نے عمرو بن اسحاق کو مجہول الحال قرار دیا ہے انکی خطاء ہے کیونکہ وہ صدوق راوی ہے
عمرو بن اسحاق بن ابراہیم کی توثیق :
جیسا کہ امام سمعانیؒ انکے بارے فرماتے ہیں :
وهو أبو الحسن عمرو بن إسحاق بن إبراهيم بن أحمد بن السكن الأسدي السكنى البخاري، محدث عصره وشيخ العرب ببلده ومن أكثر الناس تفقدا لأهل العلم، سمع ببخارى أبا على صالح بن محمد البغدادي جزرة وأبا هارون سهل بن شاذويه الحافظ، وبمرو أبا يزيد محمد بن يحيى بن خالد الميرماهانى وأبا عبد الرحمن عبد الله بن محمود السعدي، وببغداد أبا بكر عبد الله بن أبى داود السجستاني وأبا القاسم عبد الله بن محمد البغوي، وبالكوفة عبد الله ابن زيدان البجلي وأقرانهم،
سمع منه الحاكم أبو عبد الله الحافظ وذكره في تاريخ نيسابور وقال: ورد نيسابور سنة إحدى وأربعين وثلاثمائة وحججت أنا في تلك السنة فرأيت له في الطريق مروءة ظاهرة وقبولا تاما في العلم والأخذ عنه، وتوفى سنة أربع وأربعين وثلاثمائة
یہ او حسن عمر بن اسحاق بن ابراہیم السکن الاسدی السکنی البخاری ہیں یہ محدث العصر تھے اور شیخ العرب تھے اور بہت سے لوگوں نے ان سے علم لیا ، اور بخاری کے مقام پر انہوں نے علی بن صالح ، اور جزرہ میں ابو ھارون اور یزید بن یحیییٰ اور عبد الرحمن سے سنا اور بغداد میں ابو بکر عبداللہ بن داود سجستانی اور کوفہ کے مقام پر عبداللہ بن زیدان الجبلی وغیرہ سے سنا ہے
اور ان سے سننے والوں میں امام ابو عبداللہ الحاکم وغیرہ ہیں انہوں نے اپنی تاریخ نیشاپور میں 341ھ کے حالات میں وارد کرتے ہوئے کہا:
کہ میں اسی سال حج پر گیا تو راستے میں انکو پایا اور میں یہ بات قبول کرتا ہوں انکو علم میں مکمل تامہ حاصل تھا (یعنی علم میں پختہ تھے ) اور یہ 344ھ میں فوت ہوئے
[الانساب للسمعانی جلد ۷، ص ۱۶۴]
تو جنکے بارے امام حاکم یہ کہیں کہ
اور امام حاکم نے انکو اپنی مستدرک میں بھی لائے ہیں اور ان سے مروی روایات کی تصحیح کی ہے اور امام ذھبی نے بھی موافقت کی ہے
– حدثنا عمرو بن إسحاق بن إبراهيم السكني البخاري، بنيسابور، ثنا أبو علي صالح بن محمد بن حبيب الحافظ، الخ۔۔۔
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 3172 – على شرط البخاري ومسلم
[المستدرک للحاکم وتعلیق الذھبی]
تو اتنی تفصیل کے بعد تو یہ راوی صدوق درجے سے ہرگز نیچے نہیں گرتا جتنی مداح و علم میں پختگی کا ذکر امام سمعانی اور امام حاکم نے کیا ہے
نوٹ : امام حاکم راویان کی توثیق میں متساہل نہیں البتہ روایات کی تصحیح میں متساہل ہیں اور انکا یہ تساہل فقط مستدرک تک محدود ہے
اب چونکہ امام حاکم انکے تلامذہ میں سے تھے اور انہوں نے تصریح یہ بھی کر دی کہ انکی وفات 344ھ میں ہوئی
اور انکے شیخ علی بن میمون جنکی وفات پر امام ابن حجر نے اکثر کا قول 247ھ بیان کیا ہے
– “س ق علي بن ميمون
قال أبو حاتم ثقة وقال النسائي لا بأس به وذكره بن حبان في الثقات وقال مات سنة 45 وقال أبو علي الحراني مات سنة ست وأربعين ومائتين وقال غيره مات سنة “47”
[تہذیب التہذیب ابن حجر ]
یعنی علی بن میمون 247ھ میں فوت ہوا اور اسکا شاگرد عمرو بن ابراہیم کی عمر اس وقت 5سال اگر رکھیں (نوٹ: محدثین کے نزدیک سماع کی عمر کم سے کم ۵ سال ہوتی ہے) تو عمرو بن اسحاق اور علی بن میمون کی وفات کے درمیان 97 سال کا فرق رہتا ہے یعنی عمرو کی عمر اگر 5 سال رکھیں تو عمرو کی عمر 102 سال بنتی ہے تو کیا 102 سال عمر رجال کی نہیں ہوتی کیا ؟ امام طبرانی 100 سال تک رہے ہیں اور دیگر بھی کئیوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں سماع تو پھر بھی ثابت ہوتا ہے
اور پھر علی بن میمون کے اور تلامذہ بھی موجود ہیں جنکی وفات 320ہجری اور اسکے اکے آس پاس ہوتی رہی ہے ۔
تو عمرو بن اسحاق جنکی وفات 344ھ میں ہوئی تو ان سے سماع کیسے ناممکنات میں آ سکتا ہے
جیسا کہ
علی بن میمون کا ایک شاگرد
الحسين بن محمد بن مودود، أبو عروبة بن أبي معشر الحراني السلمي الحافظ. [المتوفى: 318 هـ]
اور دوسرا شاگرد جسکی وفات درج ذیل ہے
الحسن بن أحمد بن إبراهيم بن فيل الأسدي، أبو طاهر البالسي [الوفاة: 320 هـ]
تو جو علت البانی صاحب نے راوی کا تعین کر کے کی (جیسا کہ انکے پاس نسخاجات تھے اور کلمی نسخوں میں راوی کے نام کی تصحیح کرنا آسان ہوتا ہے) اور اسی طبقے میں عمرو بن اسحاق ہی یہ راوی ہے جسکا تعین البانی صاحب نے کیا تھا
لیکن ہم نے انکے راوی کو مجہول ہونے کی علت کو رفع کر دیا ہے
اور
انکاسماع پر جو اعتراض کیا تھا اسکو بھی رفع کر دیا ہے کہ عمرو بن اسحاق کی عمر 102 سال رکھیں تو اصول حدیث کے مطابق سماع ثابت ہوتا ہے اور 102 سال عمر ہونا کوئی مشکل بات نہیں کافی رجال ایسے ہیں
اور اگر عمرو بن اسحاق کو 10 سال میں سماع مانیں 107 سال عمر بنتی ہے تو بھی مسلہ نہیں لیکن کم سے کم 102 سال میں سماع ثابت ہوتا ہے جب انہوں نے خود تصریح کر رکھی ہے ثنا علی بن میمون ۔۔۔۔۔
تو پس امام کوثری کا اس روایت کی تصحیح کرنا کوئی ایسی غلطی نہیں تھی جس پر البانی صاحب نے اس روایت کو ضعیف سے باطل بنادیاتھا نیز امام ابن حجر ہیثمی نے بھی اس روایت کو قبول کیا ہے
نیز امام خطیب کے نزدیک بھی یہ روایت احتجاج بہ ہے کیونکہ وہ یہ روایت اپنی تاریخ بغداد کے مقدمہ میں لائے ہیں اور فضائل بغداد و عراق میں بطور حجت بیان کی ہے اس وجہ سے امام کوثری علیہ رحمہ نے اس روایت کو خطیب بغداد کے حوالے سے بطور تصحیح بھی نقل کیا ہوا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلیل نمبر 6 :
قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ بَشْکَوَالَ : أَخْبَرَنَا الْقَاضِي الشَّہِیدُ أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ رَحِمَہُ اللّٰہُ قِرَاء َۃً عَلَیْہِ، وَأَنَا أَسْمَعُ، قَالَ : قَرَاْتُ عَلٰی أَبِي عَلِيٍّ حُسَیْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْغَسَّانِيِّ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو الْحَسَنِ طَاہِرُ بْنُ مُفَوِّزٍ الْمُعَافِرِيُّ، قَالَ : أَنَا أَبُو الْفَتْحِ وَأَبُو اللَّیْثِ نَصْرُ بْنُ الْحَسَنِ التَّنْکَتِيُّ، الْمُقِیمُ بِسَمَرْقَنْدَ، قَدِمَ عَلَیْہِمْ بِلَنْسِیَۃَ، عَامَ أَرْبَعَۃٍ وَّسِتِّینَ وَأَرْبَعِ مِائَۃٍ، قَالَ : قُحِطَ الْمَطَرُ عِنْدَنَا بِسَمَرْقَنْدَ فِي بَعْضِ الْـأَعْوَامِ، قَالَ : فَاسْتَسْقَی النَّاسُ مِرَارًا، فَلَمْ یُسْقَوْا، قَالَ : فَأَتٰی رَجُلٌ مِّنَ الصَّالِحِینَ مَعْرُوفٌ بِالصَّلَاحِ، مَشْہُورٌ بِہٖ، إِلٰی قَاضِي سَمَرْقَنْدَ، فَقَالَ لَہٗ : إِنِّي قَدْ رَأَیْتُ رُأْیًا أَعْرِضُہٗ عَلَیْکَ، قَالَ : وَمَا ہُوَ؟ قَالَ : أَرٰی أَنْ تَخْرُجَ وَیَخْرُجَ النَّاسُ مَعَکَ إِلٰی قَبْرِ الْإِمَامِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِيِّ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَقَبْرُہٗ بِخَرَتْنَکَ، وَتَسْتَسْقُوا عِنْدَہٗ، فَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَّسْقِیَنَا، قَالَ : فَقَالَ الْقَاضِي : نِعْمَ مَا رَاَیْتَ، فَخَرَجَ الْقَاضِي، وَخَرَجَ النَّاسُ مَعَہٗ، وَاسْتَسْقَی الْقَاضِي بِالنَّاسِ، وَبَکَی النَّاسُ عِنْدَ الْقَبْرِ، وَتَشَفَّعُوا بِصَاحِبِہٖ، فَأَرْسَلَ اللّٰہُ السَّمَائَ بِمَائٍ عَظِیمٍ غَزِیرٍ، أَقَامَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِہٖ بِخَرَتْنَکَ سَبْعَۃَ أَیَّامٍ أَوْ نَحْوَہَا، لَا یَسْتَطِیعُ أَحَدٌ الْوَصُولَ إِلٰی سَمَرْقَنْدَ مِنْ کَثْرَۃِ الْمَطَرِ وَغَزَارَتِہٖ، وَبَیْنَ خَرَتْنَکَ وَسَمَرْقَنْدَ ثَلَاثَۃُ أَمْیَالٍ أَوْ نَحْوُہَا ۔
’’سمرقند میں ایک سال قحط پڑا۔ لوگوں نے بہت دفعہ بارش طلبی کے لیے دُعائیں کیں،لیکن بارش نہ ہوئی۔ایک نیک آدمی جس کا ورع و تقویٰ مشہور تھا،قاضی سمرقند کے پاس آیا اور کہنے لگا:میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے،میں وہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔قاضی نے کہا:وہ ترکیب کیا ہے؟اس نے کہا:میرا خیال ہے کہ آپ اور تمام لوگ امام محمدبن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کریں۔ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بارش عطا فرما دے۔امام صاحب کی قبر خرتنک نامی جگہ میں ہے۔قاضی اور تمام لوگ باہر نکلے اور امام صاحب کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کی،اللہ کے ہاں گڑگڑائے اور امام صاحب کا وسیلہ پیش کیا۔اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ بارش نازل کی۔اس بارش کی وجہ سے لوگوں کو خرتنک میں تقریباً سات دن ٹھہرنا پڑا۔ زیادہ بارش کی بنا پر کوئی بھی سمرقند نہ جا سکتا تھا۔ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تقریباً تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘
(الصلۃ في تاریخ أئمّۃ الأندلس لابن بشکوال، ص : 603، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ :
پانچویںصدی کے اواخر کے بعض نامعلوم لوگوں کا یہ عمل دین کیسے بن گیا؟ایک شخص کے کہنے پر نامعلوم قاضی اور اس کی نامعلوم رعایا کا یہ عمل قرآن و سنت اور سلف صالحین کے تعامل کے خلاف تھا۔
رہا بارش کا ہوجانا،تو وہ ایک اتفاقی امر ہے۔آج بھی کتنے ہی مشرکین قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں،اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد ملتی ہے، تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحب ِ قبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی؟اور کیا ان کی کوئی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز کی دلیل ہے؟قرآن و حدیث میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان سے تبرک حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ و تابعین ضرور ایسا کرتے۔ خیرالقرون کے بعد دین میں منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی کاموں میں سے ہے۔اس دور میں کسی کے عمل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
اگر یہ واقعہ مجہول لوگوں پر مبنی ہے اور یہ ایک اتفاقی عمل ہے تو امام ذھبی علیہ رحمہ نے سیر اعلام میں اس روایت کو امام بخاری کے فضائل میں کیوں درج کیا کیا انکو معلوم نہیں تھا کہ یہ واقعہ سنت کے خلاف ہے اور اتفاقی ہے تو وہ مفت میں اسکو امام بخاری کی فضیلت میں لکھتے رہے اور انکے دوسرے مورخین بھی اس چیز سے لا علم رہے ؟ اصل میں یہ کہانی شریف اور غلط بیانی ہے جو موصوف کو لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ اسکی سند نہ ہوتی تو سند کا رونا رویا جاتا اب چونکہ سند ثابت ہے اور روایت کا تجربہ بھی ثابت ہے تو لوگوں کو مجہول بنا دیا اور بارش برس چکی جس سے امام بخاری کے توسل کے کامل ہونے کا ثبوت ہے تو اسکو تکہ اور اتفاقی امر بنا دیا الغرض ان ذہنی بیماروں کو کوئی دوا بھی اثر نہیں کر سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 8 :
معروف کرخی رحمہ اللہ کی قبر کے بارے میں امام ابراہیم حربی رحمہ اللہ سے منسوب ہے کہ :
قَبْرٌ مُّعْرُوْفٍ التَّرْیَاقُ الْمُجَرَّبُ ۔
’’معروف کرخی کی قبر تریاقِ مجرب ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 122/1)
تبصرہ :
یہ جھوٹا قول ہے، کیونکہ اس کا راوی احمد بن حسین بن یعقوب ابو الحسن عطار غیر ثقہ اور مجروح ہے۔اس کے بارے میں :
ابو القاسم ازہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَانَ کَذَّابًا ۔
’’یہ انتہائی جھوٹا تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 429/4)
خود حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَلَمْ یَکُنْ فِي الْحَدِیْثِ ثِقَۃً ۔
’’یہ روایت ِ حدیث میں ثقہ نہیں تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد : 429/4)
محمد بن ابی الفوارس رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَانَ سَيِّئَ الْحَالِ فِي الْحَدِیْثِ، مَذْمُوْمًا، ذَاہِباً، لَمْ یَکُنْ بِشَيْئٍ اَلْبَتَّۃَ ۔
’’یہ روایت ِحدیث میں بری حالت کا مالک تھا،نیز مذموم اور ردی تھا،یہ بالکل بے کار شخص تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 429/4)
حافظ ابو نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لَیِّنُ الْحَدِیْثِ ۔
’’اس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہوتی ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 429/4)
حافظ سہمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حَدَّثَ عَنْ مَّنْ لَّمْ یَرَہٗ وَمَنْ مَّاتَ قَبْلَ أَنْ یُّوْلَدَ ۔
’’یہ ان لوگوں سے روایت بیان کردیتا تھا،جنہیں اس نے دیکھا تک نہیں ہوتا تھا اور ان سے بھی،جو اس کی پیدائش سے بھی پہلے مر چکے ہوتے تھے۔‘‘
(سؤالات السہمي للدارقطني : 157)
حافظ حمزہ سہمی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
وَسَمِعْتُ الدَّارَقُطَنِيَّ وَجَمَاعَۃً مِّنَ الْمَشَایِخِ، تَکَلَّمُوْا فِي ابْنِ مِقْسَمٍ ۔
’’میں نے امام دارقطنی رحمہ اللہ اورمحدثین کرام کی ایک جماعت سے سنا ہے کہ وہ ابن مقسم پر جرح کرتے تھے۔‘‘
(سؤالات السہمي للدارقطني : 157)
(الجواب : اسد الطحاوی)
اب اس تحریر کا جواب موصوف نے یہ دیا ہے کہ چونکہ سند میں ایک متروک راوی ہے آگیا ہے تو روایت کا رد اس وجہ سے کر دیا کہ امام حربی سے منسوب کردہ تھا لیکن امام حربی کے بارے کوئی کلا نہیں کیا اس نکتہ کی نشاندہی کرنا مقصود اس لیے ہے کہ اگلی روایات میں موصوف کی منافقت اور دو رخی ثابت کرنی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب )
دلیل نمبر 9 :
عبدالرحمن بن محمد بن زہری کہتے ہیں :
قَبْرُ مَعْرُوْفٍ الْکَرْخِيِّ مُجَرَّبٌ لِّقَضَائِ الْحَوَائِجِ، وَیُقَالُ : إِنَّہٗ مَنْ قَرَأَ عِنْدَہٗ مِائَۃَ مَرَّۃٍ : قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ، وَسَأَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی مَا یُرِیْدُ؛ قَضَی اللّٰہُ لَہٗ حَاجَتَہٗ ۔
’’معروف کرخی کی قبر قضائے حاجات کے لیے مشہور ہے۔کہا جاتا ہے کہ جو اس قبر کے پاس سو مرتبہ سورت اخلاص پڑھے،تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد کو پورا کر دیتا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 122/1، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 10 :
ثقہ محدث،ابو عبداللہ ابن محاملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أَعْرِفُ قَبْرَ مَعْرُوْفَ الْکَرْخِيِّ مُنْذُ سَبْعِیْنَ سَنَۃً، مَا قَصَدَہٗ مَہْمُوْمٌ؛ إِلَّا فَرَّجَ اللّٰہُ ہَمَّہٗ ۔
’’میں ستر سال سے معروف کرخی کی قبر کو جانتا ہوں۔ جو بھی پریشان حال ان کی قبر کا قصد کرے،اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی کو دور کر دیتا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 123/1، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ :
متاخرین کا بے دلیل عمل دین کیسے بن سکتا ہے؟یہ عمل قرآن و سنت اور خیر القرون کے سلف صالحین کے خلاف ہے۔
رہا حاجت پوری ہو جانا تو یہ اتفاقی امر ہے۔آج بھی قبروں کے پجاری قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد مل جاتی ہے،لیکن وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحب ِقبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مدد مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی؟کیا ان کی کوئی دلی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز پر دلیل ہے؟
قرآن و سنت میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان کے توسل اور تبرک کا کوئی جواز نہیں،اگر ایسا کرنا جائز ہوتا،توصحابہ کرام اور تابعین عظام ضرور ایسا کرتے۔خیر القرون کے بعد دین اسلام میں جو منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی میں سے ہے۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
اب امام معروف کرخی کی قبر پر جا کر دعا کرنے اور انکی قبر کو زائرین کے کے لیے حاجت روا ہونے کی تصریحات صحیح سند سے چونکہ ثابت ہو چکی ہیں تو موصوف نے یہاں کیا خیانت کی ہے موصوف کا جملہ ہے ” متاخرین کا بے دلیل عمل دین کیسے بن سکتا ہے؟یہ عمل قرآن و سنت اور خیر القرون کے سلف صالحین کے خلاف ہے۔”
لا علمی کی یہ انتہاء سمجھی جائے یا موصوف کی خیانت اور ہڈ دھرمی سمجھی جائے کہ اوپر امام امام حربی کے قول پر یہ اعتراض نہیں کیا لیکن جن دو محدثین سے قول ثابت ہوا اسکو جہالت دکھاتے ہوئے متاخر قرار دیدیا اور پھر انکے قول کو خیر القرون کے سلف کے خلاف کہہ دیا جبکہ یہ دو محدثین جنکا یہ قول ہے وہ خود خیر القرون کے سلف میں سے ہیں اور متقدمین سے ہیں ۔ امام خطیب جنکا شمار متقدمین میں ہوتا ہے وہ اپنی کتاب میں اپنی سند سے جن محدثین کا کلام نقل کر رہے ہیں اسکے بارے موصوف یہ اندھی گھما رہا ہے کہ یہ عمل متاخرین کا ہے بھھھھ اس پر ہنسا جا سکتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ موصوف کو محقق اور شیخ الحدیث کہنے والے اسکے کتنے غالی مقلد ہیں
اب جیسا کہ یہ اقوال دو اماموں سے مروی تھے صحیح سند سے
۱۔ امام عبدالرحمن بن محمد بن زہری
۲۔ ثقہ محدث،ابو عبداللہ ابن محاملی
امام عبد الرحمن بن محمد بن عبيد الله
اور یہ صحابی رسول حضرت عبد الرحمن بن عوف القرشی کی نسل سے تھے
صرف پانچ واسطوں سے انکا سلسلہ نسب صحابی رسول ﷺ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے ملتا ہے
امام خطیب نے انکی توثیق کی ہے :
عبد الرحمن بن محمد بن عبيد الله بن سعد بن إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف(صحابی رسولﷺٌ)
وكان ثقة.
انکے شیوخ درج ذیل ہیں:
سمع أبا الأحوص محمد بن الهيثم القاضي، وعباس بن محمد الدوري، وجعفر بن محمد الصائغ، ومحمد بن غالب التمتام، ونحوهم.
یعنی کہ اما م مشہور ثقہ محدث امام ابو الاحوص قاضی ، امام محدث عباس بن محمد دوری جو کہ امام ابن معین کے مقدم شاگرد ہیں اور امام جعفر بن صائع جیسے مشہور کبیر محدثین انکے شیوخ میں ہیں ان سب کی وفات 280ھ کے دور سے پہلے ہوئی ہے
اور انکے شیوخ درج ذیل ہیں :
روى عنه أبو عمر بن حيويه، وأبو حفص بن شاهين، وعبد الله بن عثمان الصفار في آخرين.
انکے تلامذہ میں مشہور محدث و مصنف کتب کثیرہ امام ابو عمر بن حیویہ ہیں اور انکے ساتھ محدث ناقد رجال امام ابن شاھین صاحب ثقات موجود ہیں اورانکے ساتھ امام عبدا للہ بن عثمان جیسے مشہور معروف محدثین ہیں اور ان سب کا انتقال 380ھ سے پہلے تک ہوا جبکہ یہ بھی متقدمیں سے ہیں
اور امام خطیبب انکی ولادت و وفات کے بارے لکھتے ہیں :
أن أبا محمد عبد الرحمن بن محمد الزهري مات في سنة ست وثلاثين وثلاث مائة، قال غيره: في ربيع الآخر وكان مولده في سنة سبع وخمسين ومائتين.
امام ابو محمد عبد الرحمن بن محمد الزھری کی وفات 235ھ میں ہوئی اور انکی ولادت 257ھ میں ہوئی ہے
اور انکے بارے امام خطیب اپنی سند صحیح سے امام ابو بکر بن مجاہد کا قول لاتے ہیں :
أخبرني علي بن أبي علي المعدل، قال: حدثنا منصور بن محمد بن منصور الحربي القزاز، قال: سمعت أبا بكر بن مجاهد، يقول: وقد دخل إليه أبو محمد الزهري وخلفه أولاده أنا أشبه أبا محمد ببعض الصحابة وخلفه أتباعه.
امام ابو بکر بن مجاہد کہتے ہیں اور امام ابو محمد داخل ہوئے انکے ساتھ انکے اولاد خلفاء تھے اور میں انکوبعض صحابہ کے ساتھ مشابہت دیتا ہوں انکے ساتھ اور انکے اتباع کرنے والے خلفاء تھے
[تاریخ بغداد برقم : 5373]
اب ایک بندہ شیخ الحدیث کہلانے والا اور محقق کہلانے والا خیر القرون کے ایک اعظیم شخصیت جنکی نسل پانچ واسطوں سے صحابی رسولﷺ ابن عوفؓ سے ملتی ہے اور انکے تلامذہ میں بڑے بڑے حفاظ الحدیث ہیں جو کہ خود بھی متقدمین میں سےہیں اورچونکہ انہوں نےامام معروف کرخی کی قبرکو حاجات کے لیے ازمودہ قرار دیا اور تلقین کی اس امر کی تو موصوف کے نزدیک یہ متاخر اور خیر القرون سے باہر ہو گئے یہ ہے انکی تحقیق کی حیثیت!!!
دوسرے امام ابو عبداللہ بن محالی انکا تعارف پیش خدمت ہے !
امام ابو عبداللہ الحسین بن اسماعیل الماحلی جنکا یہ قول ہے انکے بارے امام ذھبی فرماتے ہیں :
المحاملي الحسين بن إسماعيل بن محمد
القاضي الإمام العلامة المحدث الثقة مسند الوقت أبو عبد الله الحسين بن إسماعيل بن محمد بن إسماعيل بن سعيد بن أبان الضبي البغدادي المحاملي مصنف السنن
قاضی امام علامہ محدث ثقہ اپنے وقت کے مسند ابو عبداللہ المحاملی جو کہ کتاب السنن کے مصنف ہیں
انکے شیوخ میں جو امام ہیں ان میں سے مختصر کے نام یہ ہیں :
فسمع من أبي حذافة أحمد بن إسماعيل السهمي صاحب مالك،
من أبي الأشعث أحمد بن المقدام العجلي صاحب حماد بن زيد،
عمرو بن علي الفلاس،
محمد بن إسماعيل البخاري،
یعنی ایک واسطے سے یہ امام مالک اور امام حماد بن زید کے شاگرد بنتے ہیں اور امام الفلاس اور امام بخاری کے یہ تلامذہ میں سے ہیں
اور انکے تلامذہ میں درج ذیل محدثین ہیں:
حدث عنه: دعلج بن أحمد، والطبراني، والدارقطني، وأبو عبد الله بن جميع، وابن شاهين،
وإبراهيم بن عبد الله بن خرشيذ قوله، وابن الصلت الأهوازي، وأبو محمد بن البيع، وأبو عمر بن مهدي، وخلق.
[سیر اعلام النبلاء برقم ۱۱۰]
یعنی امام دارقطنی ، امام طبرانی ، امام ابن شاھین جیسے حفاظ جنکے شاگرد ہوں انکے بارے موصوف نے یہ کہہ کر جان چھڑائی ” متاخرین کا بے دلیل عمل دین کیسے بن سکتا ہے؟یہ عمل قرآن و سنت اور خیر القرون کے سلف صالحین کے خلاف ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: اسد الطحاوی
قسط سوم!ظہیر امن پوری صاحب کی خیانتوں کا تحقیقی جائزہ!
ازقلم:اسدالطحاوی الحنفی
(ظہیر امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 12 :
امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے :
بَلَغَنِي عَنْ قَبْرِ أَبِي أَیُّوْبَ أَنَّ الرُّوْمَ یَسْتَصْحُوْنَ بِہٖ، وَیَسْتَسْقَوْنَ ۔
’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رومی سیدنا ابو ایوب انصاریt کی قبر کے وسیلے صحت اور بارش طلب کرتے ہیں۔‘‘
(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب لابن عبد البرّ : 1606/4)
تبصرہ :
امام مالک رحمہ اللہ نے صرف ایک خبر بیان کی ہے،اس کی تصدیق نہیں کی۔ان تک یہ بات پہنچانے والا شخص نا معلوم ہے،لہٰذا یہ قول ناقابلِ التفات ہے۔
(الجواب: اسد الطحاوی)
یعنی یہاں اب امام مالک ایک تیسرے درجہ کے محدث بن گئے ہیں جو ہر ایرے غیرے سے ہر قسم کی روایات سن کر ہر قسم کی باتیں بالجزم منسوب کرکے اپنے تلامذہ کو سنا دیتے تھے
اب یہاں موصوف منکر بن گئے کہ امام مالک روایات کو قبول کرنے کے حوالے کتنی تشدید برتتے تھے اور اپنے شیوخ کے حوالے سے کتنے متشدد اور احتیاط پسند تھے اور وہ روایات کو بیان کرنے میں بھی کتنی احتیاط کرتے تھے
دوسری اہم بات! امام مالک نے اس بات کو بیان کرکے اسکا رد نہیں کیا بلکہ وہ تو مجتہد مطلق تھے وہ تو اس بات کو اپنے تلامذہ کو ناصرف بیان کرتے بلکہ اسکا شدو مد سے رد کرتے جیسا کہ موصوف یہاں امام مالک سے مروی روایت کو رد کرنے بیٹھے ہوئے ہیں کیا بات ہے کہ امام مالک نے شرک کی تائید میں باتیں روایت کر دیتے تھے بلا نکیر!!!!
اور پھر یہ اندھی گھمانا کہ امام مالک نے خبر کی تصدیق نہیں کی جب انہوں نے رد نہیں کیا اور روایت بیان کی ہے تو یہ امر خود اس بات کا متقاضی ہے کہ امام مالک نے اس بات کو قبول کیا تبھی اسکو بلا نکیر روایت کیا ہے اور امام ابن عبدالبر نے امام مالک کے اس قول سے امام مالک کا موقف ہی یہی ثٖابت کیا تبھی تو اسکو اپنی تصنیف میں نقل کیا ہے انکے شاگرد امام ابن قاسم سے !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 13:
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَقَبْرُ أَبِي أَیُّوْبَ قُرْبَ سُوْرِہَا، مَعْلُوْمٌ إِلَی الْیَوْمِ، مُعَظَّمٌ یَّسْتَسْقُوْنَ بِہٖ، فَیُسْقَوْنَ ۔
’’سیدنا ابو ایوب کی قبر(قسطنطنیہ)شہر کی فصیل کے قریب ہے۔آج تک وہیں موجود ہے۔ اس کی تعظیم کی جاتی ہے اور اس کے وسیلہ سے بارش طلب کی جائے، تو بارش برستی ہے۔‘‘
(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب : 426/2)
تبصرہ :
اس پر کوئی دلیل نہیں کہ بارش کی دُعا اس قبر کی برکت سے قبول ہوتی ہے۔اتفاقاً ایسے ہو جاتا ہے،اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قبر کی وجہ سے یا صاحب قبر کے سبب دُعا قبول ہوتی ہے۔اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین کو ضرور معلوم ہوتا اور وہ ضرور اس کے قائل و فاعل ہوتے۔
تنبیہ :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَالدُّعَائُ مُسْتَجَابٌ عِنْد قُبُوْرِ الْـأَنْبِیَائِ وَالْـأَوْلِیَائِ، وَفِي سَائِرِ الْبِقَاعِ، لٰکِنْ سَبَبُ الْإِجَابَۃِ حُضُورُ الدَّاعِي، وَخُشُوعُہٗ، وَابْتِہَالُہٗ، وَبِلاَ رَیْبٍ فِي الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ، وَفِي الْمَسْجَدِ، وَفِي السَّحَرِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، یَتَحَصَّلُ ذٰلِکَ لِلدَّاعِي کَثِیْراً، وَکُلُّ مُضْطَرٍّ؛ فَدُعَاؤُہٗ مُجَابٌ ۔
’’انبیا، اولیا کی قبروں اور باقی تمام مقدس مقامات پر دُعا قبول ہو جاتی ہے،لیکن قبولیت ِدُعا کا سبب(قبور کا متبرک ہونا نہیں،بلکہ)دعا کرنے والے کا خشوع اور گریہ و زاری ہوتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مبارک مقامات، مسجد، سحری اور دیگر اوقات میں دعا کرنے والے کو بہت کچھ حاصل ہو جاتا ہے اور ہر پریشان حال کی دُعا قبول ہوجاتی ہے۔‘‘
(سیر أعلام النبلاء : 77/17)
یہ بے دلیل بات ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا،تو صحابہ کرام ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر دعائیں کرتے،تابعین، تبع تابعین اور خیر القرون کے مسلمان ایسا کرتے۔اگر وہ قبر نبی پر دُعا نہیں مانگتے تھے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قبورِ انبیا و اولیا پر دعا کے قبول ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں،لہٰذا یہ ایک عالم کی اجتہادی خطا ہے جو ناقابل قبول ہے۔
عقائد و اعمال میں سلف صالحین پر اکتفا کرناچاہیے۔باقی جن اہل علم نے یہ لکھا ہے کہ فلاں کی قبر سے تبرک و توسل حاصل کیا جاتا ہے،تو یہ عام گمراہ یا جاہل عوام کی عادت کا ذکر ہے،جس پر کوئی دلیل نہیں،اگر بعض متاخرین اہل علم کا ایسا نظریہ ہو بھی، تو یہ حجت نہیں،کیونکہ یہ خیر القرون کے سلف صالحین کے مخالف ہے۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
اب اس جواب پر سر پیٹا جا سکتا ہے کہ موصوف اتنا مجبور اور لاچار ہو چکا ہے کہ ایک بات کاپی پیسٹ مار رہا ہے کہ یہ اتفاقی طور سے ہو رہا ہے خدا کے بندے امام ابن عبدالبر متقدمین سے متواتر عمل کا ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ یہ عمل ہو رہا ہے اور لوگوں کی دعائیں قبول ہو رہی ہے موصوف اندھی گھماتا ہے کہ یہ اتفاقی امر ہو سکتا ہے اور پھر انکے مقابل اپنا دو کوڑی کا قیاس کرنا سمجھ سے باہر ہے!
اور پھر امام ذھبی کےکلام میں تحریف کر دی اور بریکٹ میں اپنا زہر ملا دیا جبکہ امام ذھبی پر تفصیلی کلام پچھلی قسط میں ہم نے تفصیلی بیان کیا جس میں انہوں نے ابن تیمیہ کا شد و مد سے رد کیا ہے اس مسلے پر بلکہ ابن تیمیہ کی رائے کو بدعت اور خارجیت کی رائے قرار دیا ہے ۔۔۔۔۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ امام ابن عبدالبر بھی اس موقف کے قائل تھے اور وہ بھی متقدمین میں شمار ہوتے ہیں جیساکہ امام خطیب ، امام بیھقی اور امام ابن عبد البر کا شمار متقدمین کے آخری ادوار کے محدثین میں ہوتا ہے ۔۔۔۔
مزے کی بات یہ ہے کہ موصوف خیر القررون اور متقدمین کے اقوال و اعمال کو یہ کہہ کر رد کر رہا ہے کہ انکا عمل متقدمین کے خلاف تھے اور خیر القرون کے سلف کے خلاف ہے بھھھھھ معلوم نہیں موصوف کے خیر القرون کے سلف کونسی غار میں چھپے ہوئے ہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب)
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کُنَّا نَتَبَرَّکُ بِأَبِي الْفَتْحِ الْقوَّاسِ، وَہُوَ صَبِيٌّ ۔
’’ہم ابو فتح قواس سے برکت حاصل کیا کرتے تھے،حالانکہ ابھی وہ بچے تھے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 325/14، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ :
اس سے مراد ان سے دعا کی برکت حاصل کرنا ہے اور زندہ نیک شخص سے دعا کروائی جا سکتی ہے،اس سے کسی کوئی اختلاف نہیں۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
یہاں ایک نکتہ پر موصوف نے غور نہیں کیا امام دارقطنی جیسا محدث فرما رہے ہیں کہ وہ ابھی بچہ تھا یعنی نا سمجھ پھر بھی ہم اس سے دعا کے زریعہ تبرک حاصل کرتے تھے اسکی کیا وجہ ہے ؟ ایک چھوٹے سا بچے سے کبیر محدثین دعا کروا رہے ہیں تو اسکی کیا وجہ ہے ؟
اسکی تفصیل اس قول سے سابقہ قول میں موجود تھی
جیسا کہ یہ روایت کچھ یوں ہے :
سمعت البرقاني والأزهري ذكرا أبا الفتح القواس.فقالا: كان من الأبدال وقال لنا الأزهري: كان أبو الفتح مجاب الدعوة.
كتب إلي أبو ذر عبد بن أحمد الهروي من مكة يذكر أنه سمع أبا الحسن الدارقطني يقول: كنا نتبرك بأبي الفتح القواس وهو صبي.
امام خطیب کہتے ہیں میں نے امام برقانی کو سنا جب امام الازھری نے ابو فتح القوا س کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا یہ ابدال میں سے ایک تھے اور امام الازھری نے کہ امام ابو فتح کے زریعہ دعائیں قبول ہوتی ہیں
اسکے بعد امام دارقطنی کی روایت آتی ہے یعنی اس سے یہ پتہ چلا کہ متقدمین اولیاء اللہ پر ابدال کا اطلاق کرتے تھے اور آج کل ان ابن تیمیہ مقلدین کے نزدیک ابدال و قطب لیس بشئ بدعات ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 17 :
امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ رَأَیْتُ جَمَاعَۃً مِّنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَأَہْلِ الْفَضْلِ، إِذَا ہَمَّ أَحَدَہُمْ أَمْرٌ؛ قَصَدَ إِلٰی قَبْرِہٖ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ، وَدَعَا بِحَضْرَتِہٖ، وَکَانَ یَعْرِفُ الْإِجَابَۃَ، وَأَخْبَرَنَا مَشَایِخُنَا قَدِیمًا أَنَّہُمْ رَأَوْا مَنْ کَانَ قَبْلَہُمْ یَفْعَلُہٗ ۔
’’میں نے اہل علم و فضل کی ایک جماعت کو دیکھا کہ جب انہیں کسی پریشانی کا سامنا ہوتا، تو وہ ان(سیدنا طلحہ بن عبیداللہ)کی قبر پر جاکر سلام کرتے،اس جگہ دُعا مانگتے۔ وہ قبولیت ِدعا کو محسوس کرتے تھے۔ہمارے مشایخ نے یہ خبر دی کہ انہوں نے بھی اپنے سے پہلے لوگوں کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔‘‘
(الآحاد والمثاني : 163/1)
تبصرہ :
یہ نا معلوم لوگوں کا عمل ہے،جسے دین نہیں بنایا جا سکتا۔جب صحابہ کرام اور تابعین عظام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر ایسا نہیں کرتے تھے،تو کسی اور کی قبر پر کیسے روا ہو گیا؟
الحاصل :
اولیا و صالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا ممنوع اور بدعت ہے،خیرالقرون میں قبروں سے تبرک حاصل کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔یہ بعد والوں کی ایجاد ہے اور بعد والوں کی ایجاد دین نہیں بن سکتی۔
(الجواب : اسد الطحاوی )
حد ہے امام ابی عاصم جیسا امام تصریح کر رہاہے ” وَقَدْ رَأَیْتُ جَمَاعَۃً مِّنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَأَہْلِ الْفَضْلِ کہ میں نے اہل علم اور اہل فضل لوگوں کی جماعت کو دیکھا ہے ”
اس پر موصوف میاں کہانی شریف کروا رہا ہے کہ یہ نا معلوم لوگوں کا عمل ہے اصل میں وہابیہ کی قلت معرفت اور کم عقلی یہ ہے کہ یہ ہر بات کو حدیث کی شرط پر پرکھتے ہیں جبکہ ایک بندہ اپنا مشاہدہ بتا رہا ہے اسکے موقف کو کپڑے جھاڑتے ہوئے اڑا دیا
اس سے بڑی جہالت تو آگے موصوف نے یہ گھمائی کہتے ہوئے کہ ” اولیا و صالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا ممنوع اور بدعت ہے،خیرالقرون میں قبروں سے تبرک حاصل کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی”
جبکہ امام ابن ابی عاصم امام ابن ابی حاتم کے شیوخ میں سے ہیں اور یہ خود متقدمین میں کثیر الحدیث محدث الکبیر تھے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آتے ہیں اسکے اس دعوے کی طرف کہ متقدمین میں سلف و صالحین سے اس مسلہ پر کچھ وارد نہیں ہے!
تابعی امام امحمد بن منکدرؓ سے کا نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک سے رخسار مس کرکے شفاء حاصل کرنا او ران سے فریاد کرنا
ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
ایک پیج اعتراض کیا گیا ہے :
محمد بن منکدر تابعی اور قبر نبی سے وسیلہ
“محمد بن منکدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھتے تو ان کو بہرے پن کا مرض لاحق ہو جاتا۔وہ وہاں سے اٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنے رخسار رکھتے ، پھر واپس پلٹ آتے۔ اس فعل پر ملامت کی گئی ، تو انہوں نے کہا: جب مجھے مرض کا خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر فریاد کرتا ہوں۔ (تو مجھے شفاء ملتی ہے )
“
التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ:258/2-259،ت؛2778، تاریخ دمشق لابن عساکر:50/56،
سیر اعلام النبلاء للذھبی358/5-359
یہ اثر ضعیف اور منکر ہے، کیونکہ اس کا راوی اسماعیل بن یعقوب تیمی مجروح راوی ہے۔
امام ابو حاتم رازیرحمہ اللہ اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:
یہ ضعیف الحدیث راوی ہے۔
الجرح و التعدیل لا بن ابی حاتم: 204/2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بات یہ ہے کہ مجہول نے اپنی طرف سے اس اثر پر منکر کا اطلاق کیا ہے جو کہ اسکی جہالت اور بد دیانتی ہے اور جس راوی پر اعتراض کیا ہے اس میں بھی بد دیانتی کی ہے
جہاں تک ہمارا خیال ہے اس پیج کے ایڈمن نے یہ کاپی پیسٹ محدث فورم سے ماری ہے تو محدث فورم پر اس اثر پر جو اعتراض ہے ہم اسکا بھی مکمل رد پیش کر دیتے ہیں
محدث فورم پر سنابلی یزیدی ھندی نے اس روایت پر فضول اعتراض کیا ہے جو کہ درج ذیل ہے :
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وقال مصعب بن عبد الله: حدثنا إسماعيل بن يعقوب التيمي، قال: كان محمد بن المنكدر يجلس مع أصحابه، وكان يصيبه صمات فكان يقوم كما هو حتى يضع خده على قبر النبي – صلى الله عليه وسلم -، ثم يرجع، فعوتب في ذلك فقال: إنه تصيبني خطرة فإذا وجدت ذلك استغثت بقبر النبي – صلى الله عليه وسلم -. وكان يأتي موضعا من المسجد يتمرغ فيه ويضطجع، فقيل له في ذلك، فقال: إني رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في هذا الموضع.
إسماعيل: فيه لين.
[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 524]
امام ذہبی رحمہ اللہ اس روایت ذکر کرنے کے بعد خود ہی اسماعیل کو لین کہا ہے۔اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
یہ روایت ضعیف ہے جیساکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا کیونکہ اس کی سند میں موجود اسماعیل بن یعقوب یہ ضعیف ہے۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 204]
ابن حبان کے علاوہ کسی نے بھی اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ لہذا یہ راوی ضعیف ہی ہے ۔ اور اس کے سبب یہ روایت ضعیف ہے۔
یادرہے کہ یہ کوئی مرفوع حدیث یا صحابی کا اثر نہیں ہے بلکہ محمدبن المنکدر تابعی کی طرف یہ بات منسوب ہے اگر یہ ثابت بھی ہوجائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے
****************
: اب ہم اسکا تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں :
جیسا کہ اسکو امام خیثمہ نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے درج ذیل سند کے ساتھ :
حَدَّثَنا مُصْعَب، قَالَ: حدثني إسماعيل بن يعقوب التَّيْمِيّ، قَالَ: كان مُحَمَّد بن الْمُنْكَدِر يجلس مع أصحابه فكان يصيبه الصمات فكان يقوم كما هو يضع خده على قبر النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثم يرجع فعوتب في ذلك فقال: إنه تصيبني خطره فإذ وجدتُ ذلك استغثت بقبر النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وكان يأتي موضعا في المسجد في الصحن فيتمرَّغ ويضطجع فقيل له في ذلك فقال: إني رأيت النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الموضع؛ قَالَ: أراه في النوم.
اور اس مذکورہ اثر میں جو اعتراض جڑا گیا ہے کہ اسمائیل بن یعقوب التمیمی ضعیف ہے
تو عرض ہے سنابلی یزیدی ھندی نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس پر ابو حاتم کی جرح ضعیف الحدیث کے علاوہ
امام ابن حبان نے اسکو ثقات میں درج کرتے ہوئے ثقہ قرار دیا ہے
جیسا کہ ابن حبان الثقات میں اسکے بارے لکھتے ہیں :
إِسْمَاعِيل بن يَعْقُوب التَّيْمِيّ يرْوى عَن بن أبي الزِّنَاد روى عَنهُ يَعْقُوب بن مُحَمَّد الزُّهْرِي
[الثقات برقم : ۱۲۳۹۵]
اب امام ابو حاتم بھی متشد د ہیں اور امام ابن حبان بھی تو جب تو متشدد ناقدین میں سے ایک امام توثیق کر رہا ہے تو اسکے مقابل ابو حاتم کا ضعیف الحدیث کی جرح کرنا مبھم ہے تو راوی ضعیف کیسے بن جائے گا ؟
اور ابن حبان پر یہاں یہ اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ متساہل ہیں کیونکہ انکا تساہل مجہولین میں ہے نہ کہ معروف راویان میں بلکہ معروف راویان پر انکا فیصلہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ وہ معروف راویان پر تشدید سے کام لیتے تھے
تو یہاں سنابلی نے چکر بازی کرتے ہوئے امام ابن حبان کی طرف سے توثیق پر منفرد والا بہانہ لگا کر توثیق گو ل کر لیا ، جبکہ تفرد والا معاملہ مجہول رواتہ کا ثقات میں شامل کرنے پر ہوتا ہے نہ کہ معروف
اسکے بعد سنابلی نے امام ذھبی کے حوالے سے یہ پیش کیا کہ امام ذھبی نے اس اثر کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اسماعیل لین یعنی کمزور ہے
اسکو نقل کرنے کے بعد ایک پھکی تیار کرتے ہوئے لکھتا ہے :
” امام ذہبی رحمہ اللہ اس روایت ذکر کرنے کے بعد خود ہی اسماعیل کو لین کہا ہے۔اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔”
عرض ہے کہ یا تو سنابلی یزیدی ھندی اصول جرح و تعدیل سے جاہل ہے یا اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے امام ذھبی پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے
جبکہ امام ذھبی نے اس روایت کی تضعیف کا فیصلہ بالکل نہیں دیا بلکہ انہوں نے اسماعیل کے بارے فقط فیہ لین کہا یعنی اس میں کمزوری ہے نہ کہ مطلق اسکو ضعیف کہا ہے اور لین کا اطلاق امام ذھبی صدوق درجے کے راوی پر کرتے ہیں
کیونکہ صدوق راوی بھی تو حفظ کے اعتبار سے لین ہوتا ہے تبھی تو ثقہ درجے کا نہیں ہوتا ہے
امام ذھبی سے اس پر چند مثالیں درج ذیل ہیں:
ایک راوی : حجاج بن أرطاة
انکا ذکر میزان الاعتدال میں کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں :
حجاج بن أرطاة الفقيه، أبو أرطاة النخعي، أحد الأعلام على لين في حديثه.
حجاج بن ارطاء جو کہ فقیہ ہیں اعلام میں سے ایک ہیں لیکن حدیث میں لین (کمزور ) ہیں
پھر ان پر جرح اور توثیق نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وهو صدوق يدلس.
کہ یہ صدوق ہے اور مدلس ہے
[میزان الاعتدال برقم : ۱۷۲۶]
اسی طرح امام ذھبی سیر اعلام میں اس راوی کے بارے کہتے ہیں :
وَكَانَ جَائِزَ الحَدِيْثِ، إِلاَّ أَنَّهُ صَاحِبُ إِرسَالٍ
کہ یہ جائز الحدیث ہے سوائے یہ کہ یہ ارسال کرتے تھے
وَكَانَ مِنْ بُحُوْرِ العِلْمِ، تُكُلِّمَ فِيْهِ لِبَأْوٍ فِيْهِ، وَلِتَدْلِيسِه، وَلِنَقصٍ قَلِيْلٍ فِي حِفْظِه، وَلَمْ يُتْرَكْ.
یہ علم کا سمندر تھے ان پر کلام کیا گیا ہے تدلیس کے سبب اور انکے حافظہ میں بہت کم نقص تھا لیکن (احتجاج میں ) ترک کرنے کے لائق نہیں
[سیر اعلام النبلاء برقم : ۲۷]
ایک جگہ لکھتے ہیں:
هذا حديث حسن اللفظ، لولا لين في محمد بن كثير المصيصي لصحح.
کہ یہ حدیث حسن ہے ان الفاظ سے اگر محمد بن کسیر میں کمزوری (لین ) نہ ہوتی تو یہ صحیح کے درجہ کی ہوتی
[سیر اعلام النبلاء جلد ۷ ، ص۱۳۴]
ایک اور راوی کے بارے فرماتے ہیں:
بهز بن حَكِيم بن مُعَاوِيَة الْقشيرِي صَدُوق فِيهِ لين وَحَدِيثه حسن
بھز بن حکیم یہ صدوق درجہ کا ہے اور اس میں کمزوری ہے اور اسکی حدیث حسن درجہ کی ہے
[المغنی فی ضعفاء برقم : 1007 ]
تو معلوم ہوا مام ذھبی کے نزدیک اسماعیل میں کمزوری تو ہے لیکن ضعیف اور لائق ترک نہیں بلکہ اس سے احتجاج کیا جائے گا اور ہ صدوق راوی ہے
یہی وجہ ہے کہ امام ذھبی نے اس واقعہ کو بغیر نکیر کے سیر اعلام میں درج کیا ہے جیسا کہ سیر اعلام میں اسکو نقل کرتے ہیں :
قال مصعب بن عبد الله: حدثني إسماعيل بن يعقوب التيمي، قال:
كان ابن المنكدر يجلس مع أصحابه، فكان يصيبه صمات، فكان يقوم كما هو حتى يضع خده على قبر النبي -صلى الله عليه وسلم- ثم يرجع.
فعوتب في ذلك، فقال: إنه يصيبني خطر، فإذا وجدت ذلك، استعنت بقبر النبي -صلى الله عليه وسلم-
[سیر اعلام النبلاء برقم : ۱۶۳]
اور حاشیہ میں علامہ شعیب نے اس قصہ کو ضعیف ابو حاتم کی جرح سے قرار دیا ہے جبکہ انہوں نے بھی ابن حبان سے توثیق کا ذکر نہیں کیا ہو سکتا ہے علامہ شعیب کے علم میں ابن حبان کی توثیق نہ ہو ورنہ وہ امام ابن حبان سے توثیق کو نظر انداز نہ کرتے جیسا کہ انکا خود کا موقف امام ابن حبان کے بارے درج ذیل ہے جو انہوں نےصحیح ابن حبان کے مقدمہ میں درج کیا ہے
وقد اشار الائمة الی تشدده و نعنته فی الجرح
کہ ائمہ نے (ابن حبان ) کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ جرح کرنے مین متشدد و متعنت تھے
[الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان ، ص ۴]
نیز امام محدث قاسم بن قطلوبغہ نے بھی اس راوی کو ثقات میں درج کیا ہے کیونکہ ابو حاتم کی جرح مبھم ہے انکے متعنت ہونے کے ساتھ
إسماعيل بن يعقوب التيمي
[الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة، برقم: 1673]
تو انکے منہج پر بھی اسماعیل صدوق راوی ثابت ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ سنابلی ہندی کو معلوم تھا کہ اس اثر کی سند میں کوئی ایسا ضعف نہیں جیسا کہ اس روایت کا مطلق رد کیا جا سکے تو آخر میں یہ لکھتا ہے :
”یادرہے کہ یہ کوئی مرفوع حدیث یا صحابی کا اثر نہیں ہے بلکہ محمدبن المنکدر تابعی کی طرف یہ بات منسوب ہے اگر یہ ثابت بھی ہوجائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے”
میسنی بلی بن کر وابی لوگوں کا آخری حربہ یہی ہوتا ہے کہ جسی مجتہد ، امام ، تابعی کے درجے کے بندے سے بھی ایسا عمل مل جائے جو وابیوں کے نزدیک شرک ہو تو کہتے ہیں چونکہ صحیح حدیث نہیں یا اثر صحابی نہیں (بقول انکے ) تو اسکی کوئی حیثیت نہین
جب ایک مسلے کے رد میں حدیث یا اثر صحابی نہیں تو ایک تابعی کا عمل آگیا تو وہ عمل بدعت ، یا شرک کیسے ہو گیا پھر ؟ پھر اپنے آپ کو سلفی کہلوانے کی بجائے کلفی کہلوایا کریں یہی وابی رفع الیدین ثابت کرنے کے لیے تابعین کو دکھا دکھا کر ایک ٹانگ پر ناچتے ہین
جب کسی تابعی سے ایسا عمل ثابت ہو جائے جو انکے نزدیک گمراہی اور بدعت ہے تو کپڑے جھاڑ دیتے ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں یہ یہود کے پکے چیلے ہیں
خیر یہ اثر ثابت ہے اور اسکی سند حسن ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام بخاری علیہ رحمہ کی قبر سے کستوری کی خوشبو آنا مذکورہ روایت کی سند پر جناب عامر بن عبدالقيوم الأثري کی طرف سے وارد اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
تمہید:
ہم کو معلوم نہیں کہ سلفیہ حضرات کیوں ائمہ کے بارے ایسے مشہور واقعات جنکو محدثین و مورخین اور ائمہ سلف نے قبول کیا ہے اور ایسے واقعات کو بطور فضائل اپنی کتب میں جگہ دی اور ان پر کوئی اعتراض وارد نہیں کیے اور سلف سلف کی رٹ لگانے والے کیوں اپنی نفس پرستی میں پھر سلف کے منہج کے باغی ہو جاتے ہیں اور فضائل پر مبنی روایات پر حدیث کے رجال جیسی کڑی شرائط لگا کر اسکا رد کرنے بیٹھ جاتے ہیں جبکہ ائمہ سلف کا منہج یہ ہے کہ جب تک اسناد میں کوئی کذاب یا متروک درجہ کا راوی نہ ہو تو اسکو فضائل میں ائمہ قبول کرتے ہیں اور یہ حسن ظن کی بات ہے اسکو رد کوئی کرتا ہے تووہ ذاتی طور پر کر سکتا ہے لیکن پھر اس کو منہج بنا کر سلف کی طرف منسوب کرنا یہ غلط با ت ہے ۔ اور سلفیہ کی عمومی یہ کوشش رہتی ہے کہ لوگوں کو سلف کی کرامات اور فضائل سے دور رکھا جائے تاکہ یہ اسلام کی روحانیت کی طرف نہ جائیں اور علم باطن اور مرتبہ اولیاء اللہ کی کرامات سے لوگوں کو متنفر کیا جائے کہ ایسی کوئی باتوں کا اسلام میں تصور نہیں بس اسلام فقط فروع اور عقائد کی تشریحات تک محدود ہے باقی کوئی علم ایسا نہیں وغیرہ وغیرہ !!
خیرایک موصوف کی تحریر پر ہم مطلع ہوئے ہیں جس میں انہوں نے زور لگا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ایک واقعہ جسکو امام ذھبی ، امام ابن حجر عسقلانی و امام سبکی نے نقل کیا ہےلیکن یہ مشہور ہونے کے باوجود ثابت نہیں اور انکی تحریر جب پڑھی تو اتنی سطحی قسم کی تھی کہ مجھ جیسا ناچیز جس نے مدرسہ کا منہ نہیں دیکھا اور علم رجال کا بنیادی ٹوٹا پھوٹا علم رکھنے والا ہےذاتی مطالعہ کے سبب ، میں انکی انکی تحریر کے واضح نقائص پر مطلع ہو گیا ایک بار پڑھتےاور مجھے حیرانگی یہ ہےکہ موصوف نے اپنی تحریر پر نظرثانی کے حوالے سے اپنے کسی شیخ بنام ” حافظ ندیم ظہیر”کا حوالہ بھی دیااور موصوف کے شیخ نے بھی ان صاحب کی ایک سطحی تحریر کو جامع و صحیح قرار دے دیا جس سےمعلوم ہوتا ہے کہ جماعت غیر مقلدین کےنزدیک علم جرح و تعدیل اب یتیم ہونے کے در پر آپہنچا ہے ۔ اگر یہ اس طرح نفس پرستی میں روایات کو غیر ضروری اعتراضات کرکر کے رد کرتے رہینگے تو اہل علم ان سے ضرور متنفر ہونگے اور اس میں انکا اپنا ہی نقصان ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر اب موصوف کی تحریر کی طرف آتے ہیں ہم من و عن موصوف کی مکمل تحریر نقل کرکے پھر اسکا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں
چناچہ موصوف لکھتے ہیں :
کیا امام المحدثین والفقہاء محمد بن اسماعیل البخاري رحمه اللّٰه کی قبر کی مٹی سے کستوری کی خوشبو آتی تھی؟
تحقیق : عامر بن عبدالقيوم الأثري
تصحیح ونظرثانی: حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ
بسم اللّٰه الرحمن الرحيم
امام بخاری رحمہ اللّٰه کی قبر کی مٹی سے کستوری کی خوشبو آنے کا واقعہ مشہور اور زبان زدِ عام ہے۔
آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا واقعی یہ قصّہ ثابت اور درست ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللّٰه اس قصے کو کچھ اس طرح نقل کرتے ہیں:
وقال محمد بن أبي حاتم، سمعت أبا منصور غالب بن جبريل، وهو الذي نزل عليه أبو عبد اللّٰه يقول: “۔۔۔۔۔۔۔ فلما دفناه فاح من تراب قبره رائحة غالية أطيب من المسك، فدام ذلك أياما، ثم علت سواري بيض في السماء مستطيلة بحذاء قبره، فجعل الناس يختلفون ويتعجبون، وأما التراب فإنهم كانوا يرفعون عن القبر حتى ظهر القبر، ولم نكن نقدر على حفظ القبر بالحراس، وغلبنا على أنفسنا، فنصبنا على القبر خشبا مشبكا، لم يكن أحد يقدر على الوصول إلى القبر، فكانوا يرفعون ما حول القبر من التراب، ولم يكونوا يخلصون إلى القبر، وأما ريح الطيب فإنه تداوم أياما كثيرة حتى تحدث أهل البلدة، وتعجبوا من ذلك، وظهر عند مخالفيه أمره بعد وفاته، وخرج بعض مخالفيه إلى قبره، وأظهروا التوبة والندامة۔۔۔۔۔۔ “
محمد بن أبی حاتم وراق کہتے ہیں کہ میں نے أبو منصور غالب بن جبریل کو کہتے ہوئے سنا: جب ہم نے امام بخاری رحمہ اللّٰه کو دفن کیا تو ان کی قبر کی مٹی سے ایسی تیز خوشبو جو مسک سے بھی بہتر تھی آنے لگی اور کئی دنوں تک یہ خوشبو آتی رہی۔ دور دراز کے علاقوں سے لوگ قبر پر آتے اور مٹی بطورِ تبرک لے جاتے۔ حالت یہاں تک آپہنچی کہ قبر ظاہر ہونے لگی۔ آخرکار امام بخاری رحمہ اللّٰه کی قبر کو لکڑی کے جال سے گھیرا گیا تاکہ کوئی قبر تک نہ پہنچ سکے اور قبر کی مٹی محفوظ رہے۔ (خلاصہ)
[سير أعلامالنبلاء: 12/467، ط: مؤسسة الرسالة]
یہ قصہ درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
[تغليق التعليق:(5/141)، طبقات السبكي: (2/233)، مقدمة فتح الباري: (493)، الوافي بالوفيات: (2/208) وغيرها]
یہ قصہ اگرچہ مشہور ہے لیکن قابلِ اعتماد سند سے ثابت نہیں۔
وجہ ضعف:
1. اس قصے کا راوی محمد بن أبی حاتم الوراق کی توثیق کسی سے ثابت نہیں۔
2. اسی طرح غالب بن جبریل کی توثیق بھی کسی معتبر محدث سے ثابت نہیں۔
محدِّث العصر زبير علي زئي رحمہ اللّٰه کے بقول امام ذہبی رحمہ اللّٰه سے لیکر محمد بن أبی حاتم تک سند بھی نا معلوم ہے۔ [مقالات: 3/580 ]
تنبیہ: واضح رہے کہ امام بخاری رحمه اللّٰه کی عظمت و جلالت خود ساختہ قصوں کی محتاج نہیں، ان کی شان و مقام کسی صاحب علم سے مخفی نہیں، اور یہ بھی یاد رہے کہ اہل حدیث اصولوں کے پابند ہیں اگر اپنے حق میں موجود روایت بھی اصول کے مطابق غیر ثابت ہو گی تو اسے رد کر دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف کی تنبیہ پر ہم آخر میں آئیں گے پہلے انکے بنیادی اعتراضات کا جواب پیش خدمت ہے
کیا محمد بن ابی حاتم وراق مجہول راوی ہے ؟
موصوف کے اس اعتراض کا اندازہ ا س بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موصوف نے اسکو مجہول قرار دے دیا ایک سطر میں جبکہ یہ امام بخاری کے مشہور کتابین میں سے ایک تھا اور یہ امام بخاری کے ساتھ مدت تک رہے ہیں ائمہ نے انکی مروایات کو قبول کیا ہے حدیث کی علل کے باب میں ، مناقب امام بخاری کا ۸۰فیصد حصہ انہی سے روایت ہے ۔
محدث امام ابن حجر عسقلانی علیہ رحمہ کا محمد بن ابی حاتم وراق کے بارے موقف اور انکی مروایات سے احتجاج کا ثبوت:
چناچہ آپ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں :
قال الفربري سمعت أبا جعفر محمد بن أبي حاتم وراق أبي عبد الله يقول قال أبو عبد الله عن إبراهيم مرسل وعن الضحاك المشرقي مسند ثبت هذا عند أبي ذر عن شيوخه والمراد أن رواية إبراهيم النخعي عن أبي سعيد منقطعة ورواية الضحاك عنه متصلة وأبو عبد الله المذكور هو البخاري المصنف
۔ امام فربری کہتے ہیں میں نے امام ابو جعفر محمد بن ابی حاتم وراق ابو عبداللہ کو کہتے سنا ۔ کہ امام ابو عبداللہ بخاری کہتے ہیں امام ابراہیم کی روایت مرسل ہے (ابی سعید خدری)سے اور ضحاک مشرقی کی متصل اور ثبت ہے ابی زر کے نزدیک ، انکی مراد ہے کہ کہ ابراہیم نخعی جو روایت ابی سعید سے بیان کرتے ہیں وہ منقطع ہے اور جو ضحاک ان (ابی سعید) سے روایت کرتا ہے وہ متصل ہے اور ابو عبداللہ نام جو مذکورہ ہے اس سے مراد مصنف بخاری یعنی محمد بن اسماعیل ہیں
اسکو نقل کرنے کے بعد امام ابن حجرفرماتے ہیں :
وكأن الفربري ما سمع هذا الكلام منه فحمله عن أبي جعفر عنه وأبو جعفر كان يورق للبخاري أي ينسخ له وكان من الملازمين له والعارفين به والمكثرين عنه
امام فربری نے یہ کلام (امام بخاری) سے سماع نہیں تھا بلکہ وہ امام ابو جعفر کے طریق سے لائے ہیں اور ابو جعفر یہ وراق ہے جو یہ امام بخاری کے لیے اوراق لکھتا تھا یعنی انکے لیے نقل کرتا تھا ، یہ امام بخاری کی صحبت میں رہے انکے (منہج واسلوب)کو جاننے والوں میں سے تھے ، اور ان سے بہت زیادہ روایت کرنے والوں میں سے تھے ۔
[فتح الباری شرح صحیح بخاری ، ج۹،ص ۶۰]
اور یہی وجہ ہے کہ امام بخاری اپنی صحیح میں حضرت ابو سعید سے حضرت ابراہیم النخعی کے طریق کو منفرد نہیں لیا بلکہ انکے ساتھ امام ضحاک کو متابع کے طور پر لائے
جیسا کہ صحیح بخاری میں انکی سند یوں ہے :
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا إبراهيم، والضحاك المشرقي، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لأصحابه۔۔۔الخ
[صحیح البخاری ، برقم:۵۰۱۵]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو جعفر و ابو عبداللہ محمد بن ابی حاتم امام بخاری سے علل کے اقوال نقل کیے ہیں اور امام ابن حجر نے انکے اقوال کو ناصر ف قبول کیا ہے بلکہ ان سے احتجاج بھی کیا ہے اور امام ابو جعفر سے امام بخاری کے کثیر مناقب بھی نقل کیے ہیں جن میں سے ایک مذکورہ واقعہ بھی ہے اور امام بخاری سے متعدد مقامات پر علل کے باب میں امام ابن حجر نے امام فربری کے طریق سے امام محمد بن ابی حاتم کے بیان کردہ اقوال کو قبول کیا ہے ہم نے بطور مثال ایک اوپر پیش کردی۔
نیز امام ابن حجر عسقلانی کی امام محمد بن ابی حاتم وراق تک سند متصل موجود تھی جسکو انہوں نے ایک بار بیان کرکے تصریح دے دی تھی اسکے بعد وہ ڈریکٹ امام محمد بن ابی حاتم سے روایت کرتے تھے
جیسا کہ امام ابن حجر تغلیق میں امام محمد بن ابی حاتم تک اپنی متصل سند کی تصریح کرتے ہیں :
قال وراق البخاري فيما أنبأنا عبد الله بن محمد المكي إذنا مشافهة عن كتاب سليمان بن حمزة عن عبد العزيز بن باقا عن طاهر بن محمد بن طاهر عن أحمد ابن علي بن خلف أنا أبو طاهر أحمد بن عبد الله بن مهرويه أنا أحمد بن عبد الله ابن محمد بن يوسف أنا جدي أبو عبد الله محمد بن يوسف الفربري أنا أبو جعفر محمد بن أبي حاتم وراق البخاري قلت وكل ما أسوقه عن وراق البخاري فبهذا الإسناد
۔امام وراق بخاری کہتے ہیں جسکی مجھے خبر نے عبداللہ بن محمد مکی نے وہ کتاب سے سلیمان بن حمزہ سے وہ عبد العزیز سے ،وہ طاھر بن محمد سے وہ احمد بن علی سے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی ابو طاہر نے ، وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی احمد بن عبداللہ نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی میرے دادا امام فربری نے وہ کہتے ہیں مجھے بیان کیا ابو جعفروراق نے ۔
میں (ابن حجر ) کہتا ہوں کہ سب کچھ جو میں نے امام وراق سے روایت کیا اسکی سند یہی (ایک )طریق سے مروی ہے
[تغليق التعليق ج۵،ص۳۶۵]
اس سے یہ ثابت ہوا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے جو یہ واقعہ بیان کیا تغلیق میں وہ متصل الاسناد ہے اور امام ابن حجر عسقلانی کی سند کی تحقیق کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ انکے پاس امام محمد بن ابی حاتم کی کتاب تھی جو انہوں نے مناقب امام بخاری پر لکھی تھی
جیسا کہ امام سمعانی اپنے شیخ کے ترجمہ میں کہتے ہیں :
كتبت عنه بنيسابور، ومن جملة ما كتبت عنه كتاب البيتوتة الصغيرة لأبي العباس السراج، بروايته عن ابن المحب، عن الخفاف، عنه.
وكتاب مناقب محمد بن إسماعيل البخاري من جمع محمد بن أبي حاتم البخاري، بروايته عن ابن خلف الشيرازي، عن أبي طاهر ابن مهرويه، عن أبي محمد أحمد بن عبد الله بن محمد بن يوسف الفربري، عن جده، عنه، وغير ذلك.
۔میں نے ان سے نیسابور میں لکھا ہے ، وہ کتب جو میں نے ان سے نقل کی ہیں ایک کتاب بیتویہ صغیر جو ابو عباس سراج کی ہے جسکو یہ ابن محلب سے خفاف سے روایت کرتا ہے ۔
اور دوسری کتاب مناقب محمد بن اسماعیل ہے جسکو جمع کیا امام محمد بن ابی حاتم بخاری نے ۔ جو یہ روایت کرتے ہیں ابن خلف کے طریق سے ان تک۔۔۔
[المنتخب من معجم شيوخ السمعاني،ص۱۲۶۹]
اور امام ابو جعفر کے بارے امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:
ووراقة الإمام الجليل أبو عبد الله محمد بن أبي حاتم الوراق وهو الناسخ وكان ملازمه سفرا وحضرا فكتب كتبه
اور وراق یہ جلیل القدر امام ابو عبداللہ محمد بن ابی حاتم وراق ہیں وہ ناسخ تھے جنہوں نے امام بخاری کی صحبت انکے ساتھ سفر میں موجود رہے اور ان(امام بخاری) سے کتب لکھ لیں ۔
[تغلیق التعلیق ، ج۵،ص۴۳۷]
یہان تک یہ ثابت ہو گیا کہ امام ابو جعفر وراق کوئی مجہول شخصیت نہیں بلکہ امام فربری جو امام بخاری کےصحیح کے راوی ہیں انہوں نے بھی بعض علل کی ابحاث امام بخاری سے خود نہیں سنی تھیں بلکہ انہوں نے امام ابو جعفر وراق پر اعتماد کیا اور چونکہ امام ابو جعفر وراق امام بخاری کی صحبت میں مستقل رہے اور سفر میں انکے ساتھ رہے نیز چونکہ وہ کاتب اور لکھنےوالے تھے تو انہوں نے امام بخاری کی تمام کتب کو لکھ لیا جس سے انکے حفظ و ضبط کی دلیل ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ یہ تمام چیزیں لکھتے تھے امام بخاری سے نیز ایسے راوی کی فقط عدالت کا ثبوت چاہیے ہوتا ہے اور عدالت کا ثبوت ہم اوپر پیش کرچکے امام ابن حجر انکو جلیل القدر امام کہتے ہیں
یہاں تک امام ابو جعفر وراق کو مجہول کہنے کا جواب مکمل ہوا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ امام ذھبی نے بھی یہ روایت سیر اعلام میں نقل کی ہے جس پر موصوف نے اپنے شیخ زبیر زئی کی ناقص تحقیق کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
محدِّث العصر زبير علي زئي رحمہ اللّٰه کے بقول امام ذہبی رحمہ اللّٰه سے لیکر محمد بن أبی حاتم تک سند بھی نا معلوم ہے۔ [مقالات: 3/580 ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب :
موصوف نے اپنے محدث العصر کی بات لکھ کر اسکی جامد تقلید کر لی اور خود تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی یہ بات موصوف کے شیخ کی بالکل باطل اور کم علمی کی بنیاد پر مبنی ہے
کیونکہ ہم نے اوپر ثابت کیا ہے کہ امام سمعانی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے اپنی متصل سند سے مذکورہ کتاب کو بیان کیا ہے جو امام ابو جعفر محمد بن ابی حاتم نے لکھی تھی مناقب امام بخاری کے باب میں
اسکی تصریح امام ذھبی نے بھی اپنی سند سے ذکر کی ہے چناچہ وہ لکھتےہیں :
قاله أبو جعفر محمد بن أبي حاتم البخاري، وراق أبي عبد الله في كتاب (شمائل البخاري) ، جمعه، وهو جزء ضخم.
۔ امام ابو جعفر محمد بن ابی حاتم بخاری وراق نے اپنی کتاب شمائل بخاری میں اسکو بیان کیا ہے جسکو جمع کیا ہے جو کہ ضخیم حصہ پر مشتمل ہے
اسکے بعد امام ذھبی اسکی متصل سند بھی بیان کرتے ہیں اس کتاب جو کہ انہوں نے سماع کی تھی
أنبأني به أحمد بن أبي الخير، عن محمد بن إسماعيل الطرسوسي، أن محمد بن طاهر الحافظ أجاز له، قال: أخبرنا أحمد بن علي بن خلف، أخبرنا أبو طاهر أحمد بن عبد الله بن مهرويه الفارسي المؤدب، قدم علينا من مرو لزيارة أبي عبد الله السلمي، أخبرنا أبو محمد أحمد بن عبد الله بن محمد بن يوسف بن مطر الفربري، حدثنا جدي، قال: سمعت محمد بن أبي حاتم
اسکی متصل سند کو بیان کرنے کےبعد امام ذھبی کہتے ہیں :
، فذكر الكتاب فما أنقله عنه، فبهذا السند.
اس کتاب میں ذکر کیا ہے جو کچھ میں نے ان (ابو جعفر وراق)سے نقل کیا ہے وہ سب اسی سند سے مروی ہے
[سیر اعلام النبلاء ، ج۱۲،ص۳۹۲]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف کا دوسرا اعتراض تھا : غالب بن جبریل کی توثیق بھی کسی معتبر محدث سے ثابت نہیں
تو عرض ہے :
غالب بن جبریل امام ابو جعفر وراق کے شیوخ میں سے ہیں اور یہ امام بخاری کے ہم عصر اہل علم شخصیات میں سے تھے اور امام بخاری سے قبر سے خوشبو آنے کے واقعہ کے یہ عینی شاہد گواہ تھے اور اس واقعہ کے بعد انہوں نے یہ وصیحت کی تھی کہ انکی قبر بھی امام بخاری کی قبر کے ساتھ ہو اور انکو وہی دفن کیا جائے چناچہ انکو بھی امام بخاری کے ساتھ دفن کیا گیا جس سے پتہ چلتا ہے یہ دین دار اور معروف شخصیت تھے
جیسا کہ امام خطیب بغدادی اپنے شیخ ناقد سے نقل کرتے ہیں :
والآخر غالب بن جبريل
وأخبرني الأزهري قال قال لنا أبو سعيد الإدريسي غالب بن جبريل الخرتنكي السمرقندي شيخ آخر كنيته أبو منصور نزل عليه محمد بن إسماعيل البخاري ومات عنده وتولى أسباب دفنه حكى ذلك عنه أبو جعفر محمد بن أبي حاتم وراق محمد بن إسماعيل قال الإدريسي لا أعلم له حديثا مسندا يقال إنه كان من أهل العلم تحكى عنه حكايات وفضائل لمحمد بن إسماعيل ذكر لي أن غالب بن جبريل هذا مات بعد البخاري بقليل وأوصى أن يدفن إلى جنبه.
امام خطیب کہتے ہیں مجھے میرے شیخ امام ازھری نے خبر دی وہ کہتے ہیں مجھے ابو سعید الادریسی نے کہا : غالب بن جبریل خرتنکی سمرقندی شیخ ہیں جنکی کنیت ابو منصور ہیں جب امام بخاری وہاں پہنچے اور انکی وفات وہیں (خرتنک) میں ہوئی تو انہوں نے انکو دفنانے کا سدباب کیا ، اور ان سے امام ابو جعفر ابن ابی حاتم وراق یہ واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ اور کہا کہ ادریسی کے بارے حدیث و مسند کے بارے میں نہیں جانتا اور کہا کہ یہ (غالب بن جبریل) اہل علم لوگوں میں سے ایک تھے ، اور یہ امام بخاری کے فضائل میں حکایت (قبر سے خوشبوں والی)بیان کرتے ہیں ۔ اور مجھ سے غالب بن جبریل نے یہ بات بیان کی ۔ اور یہ امام بخاری کی وفات کے تھوڑے عرصے بعد فوت ہوگئے اور اپنے بارے وصیحت کی کہ انکو امام بخاری کے جانب دفنایا جائے۔
[المتفق والمفترق، برقم:۱۱۴۶]
اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری کی قبر سے کستوری کی خوشبو والی روایت کے جنکے سامنے یہ کرامت واقع ہوئی ا نکی عدالت بھی ثابت ہے یہ اپنے زمانے کے معروف اہل علم لوگوں میں سے ایک تھے اور یہ آگے کسی سے روایت نہیں بیان کر رہے جو انکے ضبط کی دلیل ہونی چاہیے بلکہ یہ خود عینی شاہد ہیں اسکے لیے انکی عدالت ثابت ہونا لازم ہے جو کہ ہم نے اوپر ثابت کر دی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ تحقیق:
امام بخاری سے یہ واقعہ بااعتبار رجال سے مروی ہے
اور امام ابو جعفر محمد بن ابی حاتم امام بخاری کے خاص تلامذہ میں سے تھے اور انکی مرویات کو سب سے زیادہ جاننے والے اور لکھنے والے تھے یہاں تک کہ امام فربری نے بھی بہت سی مرویات انکے طریق سے امام بخاری نے بیان کی ہیں
اور امام ابن حجر کے پاس امام محمد بن ابی حاتم کی کتاب تھی اور ایسے ہی امام ذھبی کے پاس یہ کتاب تھی جسکا نام شمائل بخاری تھا جسکو بقول امام سمعانی کے امام ابو جعفر نے جمع کیا انکی حکایات کو ۔
اور وہ چونکہ ناسخ و کاتب تھے تو انکی عدالت کی ضرورت ہے ضبط کی نہیں لیکن اسکے باوجود امام ابن حجر و دیگر حفاظ نے انکی مروایات کو قبول کیا ہے اور احتجاج کیا ہے
نیز اس روایت کے مرکزی راوی خود اہل علم لوگوں میں سے تھے اور عینی شاہد ہیں اس کرامت کے اور اس واقعہ کے بعد انہوں نے خود کو بھی وہیں دفن کرنے کی وصیحت کی تھی ۔
حد ہے جنکا شیخ امام بخاری کی جز رفع الیدین کو امام بخاری کے ایک مجہول شاگرد محمود بن اسحاق سے قبول کرتا ہے جسکی تفصیل اتنی بھی ہیں جتنی اس راوی کی ہے اور نہ ہی اسکی کوئی صریح اور نہ ہی ضمنی توثیق مروی ہے جسکا دعویٰ ہو کہ انکے شیخ زبیر زئی نے معتبر اصول پر محمود بن اسحاق کی توثیق ضمنی ثابت کی ہے تو جب کوئی یہ دلیل دیگا تو اسکا پوسٹ مارٹم بھی پیش کر دونگا کہ انکے شیخ نے کس طرح اپنے اندھے بھکتوں کو بیوقوف بنایا
ایک مجہولیے سے پوری کتاب تسلیم کر لیتے ہیں اور دوسری طرف اس سے بہتر راوی سے ایک کرامت مروی ہو جائے تو رد
اجساد اولیاء سے منسوب تبرکات پر ظہیر امن پوری صاحب کی تحریر کا تحقیقی جائزہ!
ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
تمہید!
ہم اس تحریر میں موصوف کی طرف سے فقط ان روایات کا تذکرہ اور موصوف کی تحقیق پیش کرینگے جس میں ہمارے نزدیک موصوف نے کذب بیانی سے کام لیا ہے اور تحقیق کے نام پر اپنے مقلدین حضرات کو دھوکا دیا ہے ۔ موصوف اپنی تحریر کا آغاز ایک جھوٹ سے کیا ہے اور یہ دعویٰ لکھ مارا!
(امن پوری صاحب)
اجساد اولیا سے منسوب اشیا سے تبرک جائز نہیں،بلکہ بدعت ہے،سلف صالحین سے قطعاً اس کا ثبوت نہیں،اس بارے میں بعض الناس کے دلائل کا جائزہ پیش خدمت ہے:
(الجواب : اسد الطحاوی)
موصوف نے یہ دعویٰ کیا ”کہ اشیاء سے تبرک جائز نہیں ہے بلکہ بدعت ہے سلف صالحین سے قطعا اسکا ثبوت نہیں ہے ”
جبکہ موصوف نے یہاں مطلق اشیاء سے تبرک کی نفی کرتے ہوئے اس کم علمی کا ثبوت دیا کہ اس بات کا بھی رد کر دیا کہ صحابہ کرامﷺ نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد انکی استعمال کردہ اشیاء اور انکے موئے مبارک سے تبرک بھی حاصل کرتے اورشفاء بھی حاصل کرتےتھے ۔
جیسا کہ صحیح مسلم میں روایت موجود ہے!
عن عبداللہ مولی اسماء بنت أبی بکر رضی اللہ عنها أنھا أخرجت إلیّ جبۃ طیالسۃ کسروانیۃ لھا لبنۃ دیباج، وفرجیھا مکفوفین بالدیباج، فقالت : ھذہ کانت عند عائشۃ حتی قُبضتْ، فلما قُبضتْ قبضتھا وکان النبیﷺ یلبسھا، فنحن نغلسلھا للمرضی لنستشفی بھا۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے مولی عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں : یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا جب وہ فوت ہوئیں تو میں نے لے لیا اور نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ ہم بیماروں کیلئے اس کو دھوتے اور اس کے ساتھ بیماروں کیلئے شفاء طلب کرتے ہیں
[صحیح مسلم ، برقم:2069]
نیز اس روایت کی شرح کے تحت شارح مسلم امام نووی الشافعی فرماتے ہیں :
هذا الحديث دليل على استحباب التبرك بآثار الصالحين وثيابهم
یہ حدیث دلیل ہے صالحین کی اشیاء اور کپڑوں سے تبرک حاصل کرنے پر
[شرح مسلم للنووی ، ج14و14]
معلوم ہوا اس روایت کے تحت بھی محدثین و مفسرین اور شارحین نےاولیاء اللہ اور صالحین سے تبرک کی عمومی دلیل اخذ کی ہے کیونکہ اگر یہ بدعت و شرک ہوتا تو نبی اکرمﷺ کی اشیاء مبارک کے ساتھ بھی یہ فعل نہ کیا جاتا صحابہ کرام ؓ کی طرف سے !
جیسا کہ امام بخاری علیہ رحمہ اپنی صحیح میں روایت لاتے ہیں :
حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا محمد بن عبد الله الأسدي، حدثنا عيسى بن طهمان، قال: أخرج إلينا أنس «نعلين جرداوين لهما قبالان ، فحدثني ثابت البناني بعد، عن أنس أنهما «نعلا النبي صلى الله عليه وسلم
حضرت عیسیٰ بن طھمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں دو پرانے نعلین مبارک نکال کر دکھائے ان میں سے ایک ایک کے دو تسمے تھے۔ پھر ثابت بُنانی نے اس کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ دونوں حضورﷺ کے نعلین مبارک ہیں۔
[صحیح بخاری ، برقم: 3107]
اس روایت کے تحت امام قسطلانی المالکی علیہ رحمہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛
ومن بعض ما ذكر من فضلها وجرب من نفعها وبركتها، ما ذكره أبو جعفر أحمد بن عبد المجيد، وكان شيخا صالحا قال: حذوت هذا المثال لبعض الطلبة فجاءنى يوما فقال لى رأيت البارحة من بركة هذا النعل عجبا.
أصاب زوجى وجع شديد كاد يهلكها فجعلت النعل على موضع الوجع وقلت: اللهم أرنى بركة صاحب هذا النعل، فشفاها الله للحين.
نعلین پاک کی فضیلت، منفعت اور برکت جو بیان کی گئی ہے، اس میں سے ایک وہ ہے جو صالح شیخ ابو جعفر بن عبدالمجید نے بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نعلین پاک کا نمونہ اپنے ایک طالب علم کو دیا۔ ایک دن وہ میرے پاس آکر کہنے لگا : کل میں نے نعلین پاک کی عجیب برکت دیکھی۔ میری بیوی شدید درد کی وجہ سے قریب المرگ تھی۔ میں نے نعلین پاک کو درد کی جگہ پر رکھا اور کہا : اے اللہ! مجھے اس نعلین کے مالکﷺ کی کرامت دکھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور میری بیوی فوراً صحت یاب ہوگئی
[المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج2، ص215]
اور بھی بہت سے حوالاجات اصحاب رسوﷺ سے مروی ہیں کہ وہ کیسے نبی اکرمﷺ کی استعمال کردہ اشیاء کو بطور تبرک سنبھال کر رکھتے تھے جن میں نبی اکرمﷺ کے موئے مبارک کا تذکرہ بھی ملتا ہےصحیح بخاری میں ہے کہ اس کو پانی میں ڈبو کر مریضوں کی شفاء کے لیے استعمال کیا جاتا تھا
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الغداة جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء، فما يؤتى بإناء إلا غمس يده فيها، فربما جاءوه في الغداة الباردة، فيغمس يده فيها
أرسلني أهلي إلى أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم بقدح من ماء – وقبض إسرائيل ثلاث أصابع من قصة – فيه شعر من شعر النبي صلى الله عليه وسلم، وكان إذا أصاب الإنسان عين أو شيء بعث إليها مخضبه، فاطلعت في الجلجل، فرأيت شعرات حمرا
مجھے میرے گھر والوں نے حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا کے پاس پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں جس میں نبی اکرمﷺ کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف پہنچتی تو وہ حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے
[صحیح بخاری ، برقم: 5896]
یہاں تک موصوف کی اس غلط بیانی کا رد ہو اکہ جو دعویٰ کیا گیا کہ تبر کا مطلقا قطعا ثبوت نہیں سلف سے تو یہ موصوف کا سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آتے اولیاء اللہ کی قبور سے تبرک کے حوالے سے جس پر موصوف نے سند سند کھیل کر خیانتیں کی ہیں
(ظہری امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 1 :
علامہ سخاوی(831۔902ھ)نے سیدنا حمزہ کے حالات میں لکھا ہے:
وَجُعِلَ عَلٰی قَبْرِہٖ قُبَّۃٌ، فُہُوَ مَزَارٌ وَّیُتَبَرَّکُ بِہٖ ۔
’’سیدنا حمزہ کی قبر پر ایک قبہ بنایا گیا،جو ان کا مزار ہے،اس سے(لوگ) تبرک حاصل کرتے ہیں۔‘‘
(التحفۃ اللطیفۃ في تاریخ المدینۃ الشریفۃ : 307/1)
تبصرہ :
قبروں پر قبے بنانا رافضیوں کی بدعت اور ایجاد ہے۔ظاہر ہے جو قبے بناتے ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ قبروں سے تبرک اور فیض حاصل کیا جائے۔
مذکورہ نا معلوم رافضیوں اور بدعتیوں کا عمل پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اہل سنت کے ائمہ کا عمل پیش کیا جائے۔اہل سنت والجماعت کے نزدیک قبروں پر قبے بنانا بالاتفاق حرام اور معصیت ہے۔یہ اہل بدعت کی کاررائی ہے، جیسا کہ بعض بدعتیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر پر سبز گنبد بنا دیا،حالانکہ خیر القرون میں ایسا کچھ نہیں تھا۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
موصوف نے یہاں یہ کہانی شریف کرا دی کہ گنبد و قبے بنانا تو روافض کا کام تھا اور چونکہ قبروں سے تبرک اور فیض حاصل کیا جاتا ہے اسی مقصد کے لیے یہ بنائے جاتے ہیں تو اب ہم اہلسنت کے ائمہ سے قبر پر قبے بنوانے اور گنبد کی تعریف کی تصریحات پیش کرتا ہو ں
متقدمین سے گنبد کا ثبوت
امام ابن عبد البر (المتوفی 463ھ)
عبد الله بن عبد الحكم
ابن أعين بن الليث مولى عثمان بن عفان رضي الله عنه يكنى أبا محمد روى عن الشافعي وأخذ عنه وكتب كتبه لنفسه ولابنه محمد وكان متحققا بقول مالك وكان صديقا للشافعي وعليه نزل إذ جاء من بغداد إلى مصر وعنده مات الشافعي ودفن في وسط قبور بني عبد الحكم بمصر وبنوا على قبره قبة وتوفي عبد الله بن عبد الحكم في شهر رمضان سنة أربع عشرة ومائتين ومنهم
امام شافعی کے شاگردوں میں عبداللہ بن الحکم تھے پھر انکے بارے مختصر تعارف بیان کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :
جب امام شافعی بغداد سے مصر تشریف لائے تو انہوں نے ان کے ہاں قیام کیا تھا ، امام شافعی کا انتقال بھی ان کے ہاں ہوا تھا ، انہیں بنو عبدالحکم ی قبر کے درمیان میں دفن کی گیا
، ان لوگوں نے امام شافعی کی قبر پر ایک قبہ بھی بنوایا دیا تھا ، شیخ عبداللہ بن عبدالحکم کا انتقال رمضان کے مہینہ ۲۱۴ھ میں ہوا
[الانتقاء للابن عبد البر ، ص113]
معلوم ہوا امام شافعی کے تلامذہ میں امام ابن عبد الحکم جو امام مالک کے بھی شاگرد تھے انہوں نے امام شافعی کی قبر پر قبہ بنوایا تھا اور یہ ثقہ امام ہیں تو ان پر بھی فتویٰ رافصیت ٹھو ک دیا جائے!!!!
نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قبور پر قبہ و گنبد بنانا متقدمین سے ثابت ہے تو یہ بدعت والی کہانی بھی جھوٹی ثابت ہوئی اور بقول موصوف کے گنبد و قبے بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ان سے تبرک و فیض حاصل ہو تو یہ موقف بھی موصوف کے مطابق متقدمین سے ثابت ہوگیا ۔
آگے چلتے ہیں:
امام نووی رحمتہ اللہ
حضرت محمد ﷺ کے پیارے بیٹے حضرت ابراہیم بن محمد ﷺ کے بارے تفصیلی ذکر بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں:
ودفن بالبقيع، وقبره مشهور عليه قبة،
وصلى عليه رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وكبر أربع تكبيرات،
هذا قول جمهور العلماء، وهو الصحيح.
اور یہ (ابراہیم رضہ اللہ ) جنت البقیع میں دفن ہیں ، اور انکی قبر مبارکہ مشہور ہے اس پر قبہ (گنبد) بنا ہوا ہے اور نبی کریمﷺ نے ان پر چار تکبیرات پڑھیں اور یہی جمہور کا قول ہے اور یہی صحیح ہے
[تهذيب الأسماء واللغات ،ص ۱۰۳، النووی]
سوال یہ ہے کہ جنت البقیع پر کب رافضیوں کا قبضہ ہوا اور کب یہ چیزیں بنیں ؟ اور امام نووی اس بات کو بطور تحسین بیان کرکے اس بدعت کے کرتکب ہوئے یا نہیں ؟
آگے چلتےہیں :
امام نووی رحمتہ اللہ
حضرت محمد ﷺ کے پیارے بیٹے حضرت ابراہیم بن محمد ﷺ کے بارے تفصیلی ذکر بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں:
ودفن بالبقيع، وقبره مشهور عليه قبة،
وصلى عليه رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وكبر أربع تكبيرات،
هذا قول جمهور العلماء، وهو الصحيح.
اور یہ (ابراہیم رضہ اللہ ) جنت البقیع میں دفن ہیں ، اور انکی قبر مبارکہ مشہور ہے اس پر قبہ (گنبد) بنا ہوا ہے اور نبی کریمﷺ نے ان پر چار تکبیرات پڑھیں اور یہی جمہور کا قول ہے اور یہی صحیح ہے
[ تهذيب الأسماء واللغات ،ص ۱۰۳، النووی]
امام ابن ابی یعلیؒ مصنف صاحب طبقات حنابلہ
اپنے شیخ ابو جعفر کے تعارف میں لکھتے ہیں :
انکا مکمل نسب :
أَبُو جَعْفَر عبد الخالق بْن عيسى بْن أَحْمَد بن محمد بْنِ عِيسَى بْن أَحْمَد بْن موسى بْن مُحَمَّد بن إبراهيم بْن عَبْدِ اللَّهِ بْن معبد بْن العباس بْن عبد المطلب
پھر تفصیل ذکر کرنے کے بعد مام ابن ابی یعلی فرماتے ہیں :
وتقدم للصلاة عَلَيْهِ أخوه أَبُو الفضل بجامع المدينة وحفر لَهُ بجنب قبر إمامنا أَحْمَد فدفن فِيهِ
وأخذ الناس من تراب قبره الكثير تبركا به.
ان پر انکے بھائی ابو الفضل نے نماز جنازہ پڑھا مدینہ کی مسجد میں
اور ان کے لیے امام احمد بن حنبل کی قبر مبارک کے نزدیک زمین کھودی گئی قبر کے لیے
اور انکی قبر سے بہت سے لوگ مٹی تبرک کے لیے لے جاتے
اسکے بعد آگے امام ابن ابی یعلی فرماتے ہیں :
ولزم الناس قبره ليلا ونهارا مدة طويلة ويقرأون ختمات ويكثرون الدعاء.
اور لوگوں نے اس کی قبر پر دن رات طویل عرصے تک قرآن کے بہت زیادہ ختم کیے اور بہت زیادہ دعا کی (انکی مزار پر)
ولقد بلغني أنه ختم عَلَى قبره فِي مدة شهور ألوف ختمات.
امام ابن ابی یعلی کہتے ہیں اور مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ انکی قبر مبارک پر ایک مہینے میں قرآن کے ہزاروں ختم ہوئے تھے
[طبقات حنابلہ، جلد 2 ص 241 ، امام ابن ابی یعلی ]
امام سمعانی اپنی تصنیف الانساب میں ایک راوی ابو مذاحم کے ترجمہ میں انکا مکمل نسب نقل کرتے ہیں
أبو مزاحم سباع بن النضر بن مسعدة بن بحر بن النضر بن حبيب ابن عبد الله بن قطن بن المنذر بن حذافة بن حبيب بن ثعلبة بن سعد بن قيس بن ثعلبة بن عكابة بن صعب بن على بن بكر بن وائل ابن قاسط، البكري الوذارى،
پھر فرماتے ہیں
كان بنى بها الجامع، وكان من قواد سمرقند وأجلائها وثنائها وأفاضلها ووجوهها ورؤسائها، معروفا بالفضل والديانة والصيانة، له آثار جميلة وأوقاف جليلة على وجوه الخيرات، جالس على بن عبد الله المديني ويحيى بن معين وأخذ عنهما العلم،
کہ انہوں نے جامع (مسجد) تعمیر کرائی ، یہ سمرقند کے قائدین میں سے ایک تھے یہ قابل تعریف ہیں فاضلین میں سے ایک تھے اچھے چہرے والے اور فضل کی معرفت سے موصوف ہیں اور اچھے عادات والے تھے
یہ امام علی بن مدینی اور امام یحییٰ بن معین کی مجلس میں بیٹھتے اور ان سے علم حاصل کیا
پھر انکے تلامذہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
روى عنه أبو عيسى الترمذي ومحمد بن إسحاق الحافظ السمرقندي والحسن بن على بن نصر الطوسي ومحمد بن المنذر الهروي الملقب بشكّر وغيرهم،
رجع أبو مزاحم من العراق سنة ثلاث وثلاثين ومائتين، ومات في جمادى الأولى سنة تسع وستين ومائتين،
ان سے امام ترمذی ، محمد بن اسحاق سمرقندی ، حسن بن علی بن نصر الطوس ی، اور محمد بن منذر الھروی وغیرہ ہم نے روایت کیا ہے
یہ جمادی الاول میں ۱۶۹ھ میں فوت ہوئے
پھر امام سمعانی آخر میں فرماتے ہیں :
قلت: وزرت قبره في قبة بأسفل قرية وذار وصلينا في المسجد بقربة
میں (السمعانی) کہتا ہوں : میں نے ایک گاوں میں انکے قبر کی زیارت کی ہے ایک قبہ( گنبد) کے نیچے اور (مزار) کے قرب میں مسجد میں نماز بھی ادا کی ہے
[الانساب السمعانی ، جلد جلد ۱۳ ، ص ۲۹۵]
امام ذھبی علیہ رحمہ سے ثبوت!
حدیث میں قبہ گنبد عمارت علی قبر یعنی عین قبر پر بنانے کی ممانعت ہے
نہ کہ فوق قبر یعنی قبر کے کے گرد چھت بنانا
جیسا کہ امام حافظ الحدیث و ناقد الرجال الذھبیؒ اپنی تصنیف تاریخ الاسلام میں باب قائم کرتے ہیں
بناء قبة فوق قبر أبي حنيفة
امام ابی حنیفہ کی قبر مبارک کے گرد قبہ یعن گنبد بنانا
پھر اسکے تحت لکھتے ہیں :
وفيها بنى عميد بغداد على قبر أبي حنيفة قبة عظيمة وأنفق عليها الأموال
اور اس سن میں بنی عمید نے بغداد میں امام ابی حنیفہ کی قبر پر اعظیم الشان گنبد تعمیر کرایا اور اس پر کافی پیسہ خرچ کیا
[تاریخ الاسلام ]
حدیث میں جو ممانعت ہے وہ عین قبر پر عمارت بنانا صاحب قبر والے کے لیے
جبکہ زائرین کے لیے گنبد و قبر پر عمارت بنانے پر اہلسنت کا اتفاق ہے کہ لوگ چھاو میں بیٹھ کر قرآن و تلاوت اور دعا کر سکیں
حضرت عباسؓ جو کہ نبی کریمﷺ کے چچا تھے
انکا تفصیلی ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ومات: سنة اثنتين وثلاثين، فصلى عليه عثمان، ودفن بالبقيع.
وعلى قبره اليوم قبة عظيمة من بناء خلفاء آل العباس
اور انکی وفات ۳۲ہ میں ہوئی ، اور ان پر حضرت عثمانؓ نے نماز جنازہ پڑھی اور انکو جنت البقیع میں دفن کیا گیا
اور انکی قبر مبارک پرآج ایک اعظیم قبہ (گنبد) ہے جو کہ آل عباس کےخاندان کی طرف سے بنایا گیا
[سیر اعلام النبلاء جلد ۲ ، ص ۹۷]
تو موصوف کے لیے اتنے حوالے بطور مثال کافی ہونگے کہ ائمہ اہلسنت کے نزدیک متقدمین سے متاخرین تک قبور اولیاء اللہ پر قبے بنانے اور انکے جوار میں نماز پڑھنے و تبرک حاصل کرنے میں اختلاف نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 2 :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک واقعہ یوں نقل کرتے ہیں:
وَرُوِيَ عَنْ أَبِي بَکْرِ بنِ أَبِي عَلِيٍّ، قَالَ : کَانَ ابْنُ المُقْرِیئِ یَقُوْلُ : کُنْتُ أَنَا وَالطَّبَرَانِيُّ، وَأَبُو الشَّیْخِ بِالْمَدِیْنَۃِ، فَضَاقَ بِنَا الْوَقْتُ، فَوَاصَلْنَا ذٰلِکَ الْیَوْمَ، فَلَمَّا کَانَ وَقْتُ الْعشَائِ حَضَرْتُ الْقَبْرَ، وَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ الْجُوْعُ، فَقَالَ لِيَ الطَّبَرَانِيُّ : اِجْلِسْ، فَإِمَّا أَنْ یَّکُونَ الرِّزْقُ أَوِ الْمَوْتُ، فَقُمْتُ أَنَا وَأَبُو الشَّیْخِ، فَحَضَرَ الْبَابَ عَلَوِيٌّ، فَفَتَحْنَا لَہٗ، فَإِذَا مَعَہٗ غُلاَمَانِ بِقَفَّتَیْنِ، فِیْہِمَا شَيْئٌ کَثِیْرٌ، وَقَالَ : شَکَوْتُمُونِي إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ رَأَیْتُہٗ فِي النَّوْمِ، فَأَمَرَنِي بِحَمْلِ شَيْئٍ إِلَیْکُمْ ۔
’’ابوبکر بن ابو علی بیان کرتے ہیں کہ ابن مقری کہا کرتے تھے:میں،امام طبرانی اور امام ابو الشیخ مدینہ منورہ میں تھے،ہم تنگ دستی کا شکار ہو گئے۔ہم نے وصال(مسلسل روزے رکھنا شروع) کیا۔ عشا کے وقت میں قبر رسول کے پاس آکر میں نے کہا: یارسول اللہ! بھوک؟مجھے امام طبرانی نے کہا:بیٹھ جائو،اب یا تو رزق آئے گا یا پھر موت۔۔۔ میں اور ابوالشیخ نے کھڑے ہوئے اور باب ِعلوی کے پاس آکر ان کے لیے دروازہ کھولا:اچانک دیکھا کہ ان کے ساتھ دو نوجوان تھے،جن کے پاس دو ٹوکرے تھے، جن میں بہت کچھ تھا۔امام طبرانی نے کہا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تم لوگوں نے مجھ سے شکایت کی۔میں نے آپ کو خواب میں دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہارے لیے کچھ اٹھا لائوں۔‘‘
(تذکرۃ الحفّاظ : 122/3، سیر أعلام النبلاء : 400/16، 401، مصباح الظلام لأبي عبد اللّٰہ محمّد بن موسی بن النعمان (م : 683ھ)، ص : 61)
تبصرہ :
یہ بے سند اور جھوٹا واقعہ ہے۔کسی گمراہ نے محدثین کرام کو شرک میں مبتلا ثابت کرنے کی بے ہودہ اور ناکام کوشش کی ہے۔بے سند اقوال پیش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔ویسے بھی بے سند مذہب کا کوئی اعتبار نہیں۔
(الجواب: اسد الطحاوی)
ما شاءاللہ موصوف کے ذھنی توازن کا اندازہ اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے ”کسی گمراہ نے محدثین کرام کو شرک میں مبتلا ثابت کرنے کی بے فائدہ کوشش کی ہے ” یعنی اس کوشش کو مکمل تکمیل تک پہنچانے میں امام ذھبی آگے آگے تھے ؟
نیز اس روایت کو امام ابن جوزی نے اپنی تصنیف میں بیان کیا ہے اور جبکہ ان کی کتاب کی سند شائع کردہ کتاب میں حذف ہیں لیکن مجھے ایک نسخہ مل چکا ہے اس پر تفصیل پوسٹ کرونگا مستقبل میں باقی ائمہ نے اس روایت کو امام مقری کی مسند سے بھی بالجزم نقل کیا ہے اس پر میں پہلے بہت تفصیلی کلام لکھ چکا ہوں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 3 :
امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنے حوالے سے بیان کرتے ہیں:ـ
قَدْ زُرْتُہٗ مِرَارًا کَثِیرَۃً، وَمَا حَلَّتْ بِي شِدَّۃٌ فِي وَقْتِ مُقَامِي بِطُوْسٍ، فَزُرْتُ قَبْرَ عَلِيِّ بْنِ مُوسَی الرِّضَا صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلٰی جَدِّہٖ وَعَلِیہِ، وَدَعَوْتُ اللّٰہَ إِزَالَتَہَا عَنِّي؛ إِلَّا اسْتُجِیْبَ لِي، وَزَالَتْ عَنِّي تِلْکَ الشِّدَّۃُ، وَہٰذَا شَيْئٌ جَرَّبْتُہٗ مِرَارًا، فَوَجَدْتُّہٗ کَذٰلِکَ، أَمَاتَنَا اللّٰہُ عَلٰی مَحَبَّۃِ الْمُصْطَفٰی وَأَہْلِ بَیْتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰہ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِم أَجْمَعِینَ ۔
’’طوس نامی مقام پر میں نے علی بن موسیٰ رضا کی قبر کی کئی مرتبہ زیارت کی۔جب بھی مجھے سخت پریشانی کا سامنا ہوا،تو میں نے علی بن موسیٰ رضا کی قبر پر آ کر اللہ تعالیٰ سے اس پریشانی کے خاتمے کی دُعا کی۔اللہ رب العزت نے میری دُعا قبول فرما کر مجھے سخت پریشانی سے نجات دلائی۔اس کا میں نے کئی مرتبہ مشاہدہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تمام اہل بیت سے محبت پر موت دے۔‘‘
(الثقات : 457/8، ت : 1441)
تبصرہ :
یہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کی اجتہادی خطا ہے۔اس سلسلے میں ان کا کوئی سلف نہیں،نہ ہی یہ عمل کتاب و سنت سے مستند ہے،بلکہ خیرالقرون کے مسلمانوں کے خلاف عمل ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661۔728ھ)فرماتے ہیں:
لَیْسَ الدُّعَائُ عِنْدَ الْقُبُورِ بِأَفْضَلَ مِنَ الدُّعَائِ فِي الْمَسَاجِدِ وَغَیْرِہَا مِنَ الْـأَمَاکِنِ، وَلَا قَالَ أَحَدٌ مِّنَ السَّلَفِ وَالْـأَئِمَّۃِ : إِنَّہٗ مُسْتَحَبٌّ أَنْ یَّقْصِدَ الْقُبُورَ لِأَجْلِ الدُّعَائِ عِنْدَہَا؛ لَا قُبُورَ الْـأَنْبِیَائِ وَلَا غَیْرِہِمْ ۔
’’قبروں کے پاس دُعا کرنا مساجد اور دیگر مقامات کی بہ نسبت افضل نہیں۔ اسلافِ اُمت اور ائمہ دین میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہا کہ دُعا کیلئے انبیائِ کرام اور دیگر قبروں کا قصد مستحب ہے۔‘‘
(مجموع الفتاوی : 180/27)
لہٰذا یہ کہنا کہ اولیا اور صالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے اور وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، قطعاً باطل ہے۔
مشہور اہل حدیث عالم،علامہ محمد بشیر سہسوانی،ہندی رحمہ اللہ (1326-1252ھ) تبرک و توسل کی ممنوع و حرام اور کفر وشرک پر مبنی صورتوں کے متعلق فرماتے ہیں:
’’آٹھویں قسم یہ ہے کہ آدمی یہ عقیدہ رکھتے ہوئے نیک لوگوں کی قبروں کے پاس اللہ تعالیٰ سے دُعا و مناجات کرے کہ وہاں دُعا قبول ہوتی ہے۔
(صیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان، ص : 212، 213)
تنبیہ :
ابوبکر، محمد بن مؤمل بن حسین بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں:ـ
خَرَجْنَا مَعَ إِمَامِ أَہْلِ الْحَدِیْثِ، أَبِي بَکْرِ بْنِ خُزَیْمَۃَ، وَعَدِیْلِہٖ أَبِي عَلِيٍّ الثَّقْفِيِّ، مَعَ جَمَاعَۃٍ مِّنْ مَّشَائِخِنَا، وَہُمْ إِذْ ذَاکَ مُتَوَافِرُوْنَ، إِلٰی زِیَارَۃِ قَبْرِ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرَّضَا بِطُوْسَ، قَالَ : فَرَأَیْتُ مِنْ تَعْظِیْمِہٖ، یَعْنِي ابْنَ خُزَیْمَۃَ، لِتِلْکَ الْبُقْعَۃِ، وَتَوَاضُعِہٖ لَہَا، وَتَضَرُّعِہٖ عِنْدَہَا، مَا تَحَیَّرْنَا ۔
’’ہم امامِ اہل حدیث، ابوبکر بن خزیمہ رحمہ اللہ کے ساتھ نکلے۔ان کے ہم زلف ابو علی ثقفی اور مشائخ کی ایک بڑی جماعت ان کے ہمراہ تھی۔ہم سارے اکٹھے ہو کر طوس میں علی بن موسیٰ رضا کی قبر کی طرف گئے۔میں نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کو زمین کے اس ٹکڑے کی تعظیم کرتے دیکھا اور اس قبر کے سامنے ان کی عاجزی اور انکساری دیکھ کر ہم حیران رَہ گئے تھے۔‘‘
(تہذیب التہذیب لابن حجر : 388/7، وسندہٗ حسنٌ)
زیارتِ قبور کے وقت آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔اگر قبروں کے احترام کو تعظیم کا نام دیاجائے تو یہ جائز ہے،لیکن دورانِ زیارت قبروں سے تبرک جائز نہیں،نہ ان کے پاس دُعا و مناجات مشروع ہے۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
واہ یعنی امام ابن حبان خود سلف میں سے نہیں ہیں کہ انکے عمل کو رد اس دلیل سے کیا جا رہا ہے کہ سلف میں اس بات کا ثبوت نہیں ؟ جبکہ سلف سے کافی کچھ اوپر بھی ثابت ہم کر آئے اور آگے مزید موصوف کا پوسٹ مارٹم ہوگا!!!
اسکے بعد موصوف امام ابن حبان کا رد ابن تیمیہ صاحب سے کرتے ہیں جو کہ ایک لطیفہ سے کم نہیں خیر اب ہم ان صاحب اور انکے شیخ ابن تیمیہ کا رد امام ذھبی علیہ رحمہ سے کرینگے کہ کیسے امام ذھبی علیہ بھی ابن تیمیہ کے اس موقف کو خارجیت کے قریب ترین سمجھتے تھے
امام ذھبی علیہ رحمہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف سیر اعلام النبلاء میں بہت سے مقام پر ایسی روایات جن یہ تصریح ہے کہ انبیاء کرامؐ اور اولیاءاللہؓ کی قبور کی زیارت کی جائے اور ان سے توسل و استغاثہ کیا جائے نہ صرف ایسی روایات کو فضائل و مناقب میں قبو ل کیا ،بلکہ ان امور کی ترغیب بھی دی اور ان پر وارد اعتراضات کا رد بھی کیا ہے ہم امام ذھبی علیہ رحمہ کی ایسی چند تصریحات کو بطور مثال پیش کرتے ہیں
ابن تیمیہ نے سب سے پہلے یہ فتویٰ دیاتھا کہ کسی کی قبر کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا حرام ہے (معاذاللہ ) جسکے جواب میں اہلسنت کے جید علماء نے ابن تیمیہ کی زندگی میں ہی اسکا شدو مد سے رد کیا اور اہلسنت نے اس مسلے پر کتب لکھیں
ابن تیمیہ نے یہ موقف نبی اکرﷺ کی ایک حدیث کی بنیاد پر کیا جس سے اس نے یہ باطل مطلب نکالا امام ذھبی علیہ رحمہ جب اس روایت کو نقل کرتے ہیں تو اس پر تجزیہ دیےت ہوئے لکھتے ہیں :
عن أبي هريرة:عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: (لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجدي، والمسجد الحرام، والمسجد الأقصى
حضرت ابوھریرہؓ فرماتے ہیں نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ تم اجر کی نیت سے سفر نہ کرو سوائے تین مساجد کے ، ایک میری مسجد ، ایک مسجد حرام اور مسجد اقصی
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی علیہ رحمہ فرماتے ہیں :
معناه: لا تشد الرحال إلى مسجد ابتغاء الأجر سوى المساجد الثلاثة، فإن لها فضلا خاصا.
فمن قال: لم يدخل في النهي شد الرحل إلى زيارة قبر نبي أو ولي، وقف مع ظاهر النص، وأن الأمر بذلك والنهي خاص بالمساجد.
ومن قال بقياس الأولى، قال: إذا كان أفضل بقاع الأرض مساجدها، والنهي ورد فيها، فما دونها في الفضل – كقبور الأنبياء والصالحين – أولى بالنهي.
أما من سار إلى زيارة قبر فاضل من غير شد رحل، فقربة بالإجماع بلا تردد، سوى ما شذ به الشعبي، ونحوه، فكان بلغهم النهي عن زيارة القبور، وما علموا بأنه نسخ ذلك – والله أعلم –
حدیث کا معنی یہ ہے کہ تم زیادہ اجر کے ارادے کے حوالے سے کسی مسجد کی طرف قصد نہ کرو سوائے ان تین مساجدکے کیونکہ ان تین کی خاص فضیلت ہے
جس نے (اہلسنت) یہ بات کی ہے ”حدیث میں جو نہی آئی ہے اس میں نبی اور ولی کی قبر کی زیارت داخل نہیں ہے اور انہوں نے نص کے ظاہر سے قیاس کیا ہے اس امر میں نہی جو ہے یہ مساجد سے خاص ہے
جس (ابن تیمیہ) نے پہلے قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب زمین کے بہتر حصے مساجد ہیں انکی نفی آگئی تو ان سے کم درجہ والے جو مقام ہے جیسا کہ قبور انبیاء تو انکی نفی بدرجہ اولیٰ ہوگی
رہی یہ بات کوئی کسی فاضل و نیک بندے کی قبر کی زیارت کے لیے جائے بغیر سامان سفر باندھے تو بغیر کسی تردد کے اس امر پر اجماع امت ہے سوائے امام شعبی یا انکے جیسے کچھ کے شاز موقف کے کہ انکو زیارت قبور کی نفی کی روایات پہنچی تھیں لیکن انکی ناسخ نہ پہنچی تھیں واللہ اعلم!
[سیر اعلام النبلاء ، ج9، ص 368]
ایک اور رایت جو سلفیہ بڑی شدو مد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ میری قبر کو عید نہ بناو اس روایت کو نقل کرکے امام ذھبی اسکی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
عن حسن بن حسن بن علي:
أنه رأى رجلا وقف على البيت الذي فيه قبر النبي -صلى الله عليه وسلم- يدعو له، ويصلي عليه، فقال للرجل : لا تفعل، فإن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: (لا تتخذوا بيتي عيدا، ولا تجعلوا بيوتكم قبورا، وصلوا علي حيث ما كنتم، فإن صلاتكم تبلغني .
هذا مرسل،
وما استدل حسن في فتواه بطائل من الدلالة، فمن وقف عند الحجرة المقدسة ذليلا، مسلما، مصليا على نبيه، فيا طوبى له، فقد أحسن الزيارة، وأجمل في التذلل والحب، وقد أتى بعبادة زائدة على من صلى عليه في أرضه، أو في صلاته، إذ الزائر له أجر الزيارة، وأجر الصلاة عليه، والمصلي عليه في سائر البلاد له أجر الصلاة فقط، فمن صلى عليه واحدة، صلى الله عليه عشرا، ولكن من زاره – صلوات الله عليه – وأساء أدب الزيارة، أو سجد للقبر، أو فعل ما لا يشرع، فهذا فعل حسنا وسيئا، فيعلم برفق، والله غفور رحيم
حضرت حسن بن حسن بن علی ؓ نے ایک آدمی دیکھا جو اس گھر کے قریب کھڑا تھا تھا جس میں نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک ہے اور ان پر درود بھیج رہاتھا تو اس آدمی کو کہا کہ یہ کام نہ کرو ، کیونکہ نبی اکرمﷺ نے منع فرمایا ہےکہ میرے گھر کو عید گاہ نہ بناو اور اپنے گھر وں کو قبرستان نہ بناو
امام ذھبی علیہ رحمہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اپنا موقف دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
یہ روایت مرسل ہے ۔ اور جو امام حسن نے استدلال کیا ہے اپنے فتویٰ پر تو وہ اپنے فتویٰ کے اعتبار سے دلالت میں طویل ہے جو حجرت مقدسہ کے قریب کھڑا ہو (ذلیل)بےچارہ بن کر ، اور سلام پڑھتے ہوئے اور دروود بھیجتے ہوئے اپنے نبی اکرمﷺ پر اسکے لیے تو بہت خوشخبری کی بات ہے کہ اس نے احسن طریقے سے زیارت کی ہے عاجزی اور محبت میں بہت خوبصورتی ظاہر کی ہے اور وہ ایک زائد عبادت کے ساتھ آیا ہے جو کہ انکی ہی زمین پر ان پر درود بھیجتا ہے ، اور اپنی نماز میں درود بھیجتا ہے تو اس وقت زیارت کرنے والے کے لیے زیارت کا اجر ہے
بلکہ اس ہر اس شخص کے لیے درود کا اجر ہے جو جہاں سے بھی پڑھتا ہو جو ایک بار درود بھیجے اللہ در دس بار بھیجتا ہے لیکن جو زیارت کرتا ہے بے ادبی سے کرتا ہے یا قبر کو سجدہ کرتا ہے اور ایسا کام کرتا ہے جو شریعت کے تحت نہ ہو ، تو یہ عمل جو (جو اوپر مذکور ہے ) وہ اچھا ہے اور دوسرا (جس میں سجود ہو قبور کو ) وہ برا ہے ۔
پھر امام ذھبی فرماتے ہیں :
.فوالله ما يحصل الانزعاج لمسلم، والصياح وتقبيل الجدران، وكثرة البكاء، إلا وهو محب لله ولرسوله، فحبه المعيار والفارق بين أهل الجنة وأهل النار، فزيارة قبره من أفضل القرب، وشد الرحال إلى قبور الأنبياء والأولياء، لئن سلمنا أنه غير مأذون فيه لعموم قوله – صلوات الله عليه -: (لا تشدوا الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد) فشد الرحال إلى نبينا -صلى الله عليه وسلم- مستلزم لشد الرحل إلى مسجده، وذلك مشروع بلا نزاع، إذ لا وصول إلى حجرته إلا بعد الدخول إلى مسجده، فليبدأ بتحية المسجد، ثم بتحية صاحب المسجد –
رزقنا الله وإياكم ذلك آمين
اللہ کی قسم ایک مسلمان کو کیا گھبراہٹ ہو سکتی ہے اسکے علاوہ دیواروں کو چومنا اور کثرت سے رونا ایسا کام کرنے والا اللہ اور اسکے رسولﷺ سے محبت کرنا والا ہے اسکی محبت جو ہے وہ ایک معیار ہے اہل جنت اور اہل نار کے درمیان فرق کرنے والا ہے تو (نبی اکرمﷺ)کی قبر مبارک کی زیارت کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے اللہ کے قرب کے لیے ،
انبیاء واولیاء اللہ کی قبر کی طرف سفر کرنا جو ہےاگر اسکو تسلیم کرے اگرچہ اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث میں عموم کی وجہ سے معزور نہیں (یعنی اس پر حکم نہیں دیا گیا ہے) لیکن
اللہ کے رسولﷺ کی قبر کی طرف سفر کرنا اس بات کو مستلزم ہے کہ انکی مسجد کی طرف بھی سفر ہوگا اور یہ بات شرعا جائز ہے بغیر کسی اختلاف کے کہ جب کوئی زریعہ نہ ہو حجرہ میں جانے کے لیے سوائے اس بات انکی مسجد میں داخل ہو جائے اور دو رکعات پڑھے پھر صاحب مسجد پر درود و سلام پڑھے اللہ ہمیں اور آپ کو اس نعمت عظمہ کا مستحق بنائے
(یعنی جو قبر مبارک کی زیارت کی نیت کریگا تو یقینی بات ہے وہ مسجد نبوی کی طرف ہی جائے گا )
اس تمام خوبصورت شرح میں امام ذھبی نے بہت اچھے طریقے اہلسنت کی ترجمانی کرتے ہوئے ابن تیمیہ کا بہترین رد کیا ہے یہاں تک کہ علامہ شعیب الارنووط کو بھی حاشیہ میں یہ بات کہنی پڑ گئی :
قصد المؤلف رحمه الله بهذا الاستطراد الرد على شيخه ابن تيمية الذي يقول بعدم جواز شد الرحل لزيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم ويرى أن على الحاج أن ينوي زيارة المسجد النبوي كما هو مبين في محله.
مولف (امام ذھبی) نے اس اختلاف میں اپنے شیخ ابن تیمیہ کو جواب دینا چاہا ہے ، جسکا یہ قول تھا کہ نبی اکرمﷺ کے روضہ کی نیت سے سفر کرنا ناجائز ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ حاجی کو مسجد نبوی کی نیت کرکے سفر کرنا چاہیے جیسا کہ یہاں نشاندہی کی گئی ہے
[سیر اعلام النباء ، ج4، ص 485[
اس طرح امام ذھبی نے جب امام احمد بن حنبل کا عمل پیش کیا توابن تیمیہ کانام لیے بغیر جو اس پر طنز کیا وہ بھی پڑھنے لائق ہے جیسا کہ امام ذھبی پہلے امام احمد کے بیٹے سے امام احمدکا عمل بیان کرتے ہیں :
قال عبد الله بن أحمد: رأيت أبي يأخذ شعرة من شعر النبي -صلى الله عليه وسلم- فيضعها على فيه يقبلها.
وأحسب أني رأيته يضعها على عينه، ويغمسها في الماء ويشربه يستشفي به.
ورأيته أخذ قصعة النبي -صلى الله عليه وسلم- فغسلها في حب الماء، ثم شرب فيها، ورأيته يشرب من ماء زمزم يستشفي به، ويمسح به يديه ووجهه.
امام عبداللہ بن احمد کہتے ہیں میں نے اپنے والد کو دیکھا وہ نبی اکرمﷺ کے بال مبارک اپنے پاس رکھتے تھے پھر اسکو بوسہ دیتے تھے پھر اسکو پانی میں ڈبو کر پانی پی لیتے اور اس سے شفاء حاصل کرتے
انکے پاس نبی اکرمﷺ کا کٹورہ تھا اسکو پانی میں غسل دیتے پھر اس میں پانی پیتے پھر انکو یہ کرتے دیکھا کہ ان سے شفاء حاصل کرتے اور مسح کرتے اپنے دونوں ہاتھوں اور منہ سے
اسکو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی ابن تیمیہ پر طنزکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قلت: أين المتنطع المنكر على أحمد، وقد ثبت أن عبد الله سأل أباه عمن يلمس رمانة منبر النبي -صلى الله عليه وسلم- ويمس الحجرة النبوية، فقال: لا أرى بذلك بأسا.
أعاذنا الله وإياكم من رأي الخوارج ومن البدع.
میں (ذھبی) کہتا ہوں کہاں ہے مغرور جو امام احمد (کے اس عمل )پر انکار کرتا ہو، اور یہ بات ثابت ہے کہ امام عبداللہ نے اپنے والد سے اس بارے پوچھا کہ جو بندہ نبی اکرمﷺ کے منبر رسولﷺ سے مس کرتا ہے اورتوامام حمد بن حنبل نے کہا میں اس میں کوئی حرج نہیں جانتا
میں اللہ کی پناہ چاہتاہوں خوارج اور بدعت کی رائے سے ۔
[سیر اعلام النبلاء ، ج11،ص212]
امام ذھبی ایک محدث ابن لال أبو بكر أحمد بن علي بن أحمد الهمذاني کی مداح نقل کرتے ہیں :
قال شيرويه: كان ثقة، أوحد زمانه، مفتي البلد، وله مصنفات في علوم الحديث، غير أنه كان مشهورا بالفقه.
قال: ورأيت له كتاب (السنن) ، و (معجم الصحابة) ، ما رأيت أحسن منه، والدعاء عند قبره مستجاب
امام شیرویہ کہتے ہیں کہ یہ اپنے زمانہ کے ثقہ تھے اور علاقے کے مفتی تھے اور انکی تصنیفات ہیں علام میں اور انکے علاوہ کوئی فقہ میں مشہورنہ تھا
پھر کہا کہ میں نے انکی کتاب السنن اور معجم الصحابہ دیکھی ہے اور اس سے بہتر کتب میں نے نہیں دیکھی ہے اور انکی قبر کے نزدیک دعا قبول ہوتی ہے
اسکو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قلت: والدعاء مستجاب عند قبور الأنبياء والأولياء،
میں ( الذھبی) کہتاہوں کہ انبیاء اور اولیاء اللہ کی قبور کے نزدیک دعا مقبول ہوتی ہے
]سیر اعلام النبلاء، ج۱۷، ص ۷۷[
اور امام معروف کرخی کے ترجمہ میں جب امام ذھبی انکی قبر سے لوگوں کے توسل کا قول نقل کرتےہیں :
وعن إبراهيم الحربي، قال: قبر معروف الترياق المجرب
امام ابراہیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : امام معروف کی قبر تریاق زہر ہے (یعنی زہر کو کاٹنے والی ہے )
پھر اسکی تشریح کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں :
يريدإجابة دعاء المضطر عنده؛ لأن البقاع المباركة يستجاب عندها الدعاء، كما أن الدعاء في السحر مرجو، ودبر المكتوبات، وفي المساجد، بل دعاء المضطر مجاب في أي مكان اتفق، اللهم إني مضطر إلى العفو، فاعف عني.
انکی مراد ہے (امام معروف کی قبر) پر مجبور و مضطر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے کیونکہ مبارک جگہوں میں دعا قبول ہوتی ہے جیسا کہ مبارک وقت میں قبول ہوتی ، سہری ، فرض نمازوں کے بعد، مساجد میں ، بلکہ مجبور مضطر آدمی کی دعا ہر جگہ قبول ہوتی ہے
[سیر اعلام النبلاء ]
یہاں تک امام ذھبی علیہ رحمہ سے ابن تیمیہ کا ٹھیک ٹھاک رد ثابت ہو چکا ہے
ابن تیمیہ کے نزدیک شرک کا فتویٰ کتنا سستا تھا اور اگر اس طرح ابن تیمیہ کے خارجیت بھرے خیالات کو تسیم کیا جائے تو امت محمدی کے بڑے بڑے اکابر مشرک بنتے ہیں اس بات کا اندازہ ابن تیمیہ کے فتوں سے خوب لگایا جا سکتا ہے
جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ صاحب لکھتے ہیں :
وأما التمسح بالقبر أو الصلاة عنده أو قصده لأجل الدعاء عنده معتقدا أن الدعاء هناك أفضل من الدعاء في غيره أو النذر له ونحو ذلك فليس هذا من دين المسلمين بل هو مما أحدث من البدع القبيحة التي هي من شعب الشرك والله أعلم وأحكم.
قبر کو مس یعنی ہاتھ لگانا (تبرک کرنا) اس کے پاس نماز پڑھنا ، یا دعا مانگنے کے غرض سے اسکی طرف سفر کا قصد کرنا اس نیت سے کہ کہ وہاں عمومی جگہوں کی بانسبت دعا قبول ہوگی ، قبر پر نزر نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ اس جیسے سارے اعمال کا دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بری بدعات میں سے ہیں کہ جنکا تعلق شرک کی مختلف اقسام سے ہے
[ مجموع الفتاوى،ج24،ص321]
یعنی موصوف کے نزدیک یہ سب عمال قبیح بدعات کے ساتھ شرک کی اقسام سے ہیں ۔
نیز ایک جگہ لکھتےہیں :
وأما التمسح بالقبر – أي قبر كان – وتقبيله وتمريغ الخد عليه فمنهي عنه باتفاق المسلمين ولو كان ذلك من قبور الأنبياء ولم يفعل هذا أحد من سلف الأمة وأئمتها بل هذا من الشرك
اور قبر کو ہاتھ لگانا (یعنی تبرک لینا) جسکی بھی قبر ہو ، اسکو چومنا اور اس پر گال پھیرنا (تبرکا) یہ متفقہ طور پر مسلمین سے منع ہے ، اگر یہ قبور انبیاء کرام کی بھی ہو ایسا فعل سلف میں کسی ایک سے وارد نہیں اور نہ ہی ائمہ سے بلکہ یہ (سب افعال) شرک میں سے ہیں
[مجموع الفتاوى،ج27،ص92]
یہاں تک یہ ثابت ہو گیا کہ ابن تیمیہ کے نزدیک قبور سے تبرک لینا ، انکو چومنا ، یا نکو مس کرنا ان پر گال پھیرنا شفاء لینا یہ سب امور اسکے نزدیک شرکیہ اعمال ہیں
لیکن چونکہ ہم جمہور ائمہ سلف سے اسکا ثبوت پیش کرتے ہیں تو اب کچھ لوگ اس پر پلٹی کھا کر اسکو شرک ہی نہیں کہتے
جبکہ تبرک کی نیت سے قبر کی طرف جانا اور اس سے چاہے روحانی فیض لینا ، شفاء لینا یہ سب استغاثہ کے باب سےہے کیونکہ شفاء دینے والا ، روحانی تسکین دینے والا یہ سب کام ما فوق الاسباب میں سےہیں جو کہ اللہ کے علاوہ کوئی مخلوق نہیں دے سکتے ۔۔۔
ابن تیمیہ کے اس صریح جھوٹ پر امام ذھبی نے انکی پکڑ کی اور فرمایا :
قلت: أين المتنطع المنكر على أحمد، وقد ثبت أن عبد الله سأل أباه عمن يلمس رمانة منبر النبي -صلى الله عليه وسلم- ويمس الحجرة النبوية، فقال: لا أرى بذلك بأسا.
أعاذنا الله وإياكم من رأي الخوارج ومن البدع.
میں (ذھبی) کہتا ہوں کہاں ہے مغرور(ابن تیمیہ) جو امام احمد (کے اس عمل )پر انکار کرتا ہو، اور یہ بات ثابت ہے کہ امام عبداللہ نے اپنے والد سے اس بارے پوچھا کہ جو بندہ نبی اکرمﷺ کے منبر رسولﷺ سے مس کرتا ہے اور نبی اکرم کا حجرہ مبارک سے مس کرتا ہے توامام حمد بن حنبل نے کہا میں اس میں کوئی حرج نہیں جانتا
میں اللہ کی پناہ چاہتاہوں خوارج اور بدعت کی رائے سے ۔
[سیر اعلام النبلاء ، ج11،ص212]
نیز اپنا مسلک بیان کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں :
قلت: والدعاء مستجاب عند قبور الأنبياء والأولياء،
میں ( الذھبی) کہتاہوں کہ انبیاء اور اولیاء اللہ کی قبور کے نزدیک دعا مقبول ہوتی ہے
[سیر اعلام النبلاء، ج۱۷، ص ۷۷]
نیز تاریخ الاسلام میں امام بن بشکوال [المتوفى: 533 هـ] سے ایک ولی کے بارے نقل کرتے ہیں :
قال ابن بشكوال: وقبره يتبرك به، ويعرف بإجابة الدعوة. جربت ذلك مرارا.
امام ابن بشکوال فرماتے ہیں انکی قبر سے تبرک (مدد و شفاء) حاصل کی جاتی ہے اور یہ دعاوں کے قبول ہونے کے لحاظ سے معروف ہے اور میں نے متعدد بار اسکا تجربہ کیا ہے
[تاریخ الاسلام ، برقم :462]
نیز متقدمین کےدور میں ایک مشہور ناقد امام ابن ماکولا (المتوفى: 475هـ) بھی ہیں جنکی رجال پر معروف کتاب ہے
تو وہ فرماتے ہیں :
أبو علي بن بيان الزاهد من أهل دير العاقول، له كرامات وقبره في ظاهرها يتبرك به، قد زرته.
ابو علی بن بیان زاھد یہ دیر عاقول(علاقہ)کے لوگوں میں سے ہیں اور انکی قبر وہی ہے انکی کرامات ہیں ، انکی قبر سے تبرک حاصل کیا جاتا ہے میں نے انکی قبر کی زیارت کی ہے
[ الإكمال في رفع الارتياب،ص367]
امام خطیب بغدادی ایک صوفی امام علي بن محمد بن بشار الزاهد أبو الحسن
کے ترجمہ میں انکے بارے روایات نقل کرتے ہیں :
، وكان له كرامات ظاهرة، وانتشار ذكر في الناس،
ان سے کرامات ظاہر ہوئی اور لوگوں میں اس چیز کا ذکر پھیل گیا
اسکے بعد امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
قلت: ودفن بالعقبة قريبا من النجمي، وقبره إلى الآن ظاهر معروف، يتبرك الناس بزيارته.
میں (خطیب بغدادی) کہتا ہوں آپ کو النجم کے قریب عقبہ میں دفن کیا گیا۔ ، اور انکی قبر لوگوں میں معروف ہے اور لوگ انکی قبر کی زیارت اور ان سے تبرک (مدد و شفاء) لیتے ہیں
[تاریخ الاسلام ، برقم:6415]
نیز ایک اور صوفی ولی امام أبو علي بن بيان العاقول،
انکے بارے فرماتے ہیں:
كان عابدا زاهدا، يتبرك أهل بلده بزيارة قبره، ويذكرون عنه أنه كان له كرامات.
یہ نیک و زاھد تھے اور انکے اہل علاقہ انکی قبر کی زیارت کرتے ہیں اور تبرک(مدد،شفاء) حاصل کرتے ہیں (قبر سے) اور وہ لوگ انکے بارے میں یہ ذکر کرتے ہیں کہ ان سے کرامات کو ظہور ہوا
[تاریخ بغداد ، برقم: 7739]
امام خطیب بغدادی، امام ابن جوزی ، امام ابن ابی یعلی ، امام طبرانی و امام مقری ، امام ابن بشکوال ، اما م ابن حجر ، امام سمعانی ، امام قسطلانی ، امام نووی ، امام ابن حبان اور کتنے لوگ ابن تیمیہ کے شرک کے فتوے میں آتے ہیں
قسط اول یہاں تک ختم ہوئی
تحقیق : اسد الطحاوی
قسط دوم!ظہیر امن پوری صاحب کی خیانتوں کا تحقیقی جائزہ!
ازقلم:اسدالطحاوی الحنفی
(ظہیرامن پوری صاحب)
دلیل نمبر 5 :
امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک ’’ضعیف‘‘اور باطل روایت یوں ہے :
إِنِّي لَـأَتَبَرَّکُ بِأَبِي حَنِیفَۃَ، وَأَجِیْیُٔ إِلٰی قَبْرِہٖ فِي کُلِّ یَوْمٍ، یَعْنِي زَائِرًا، فَإِذَا عَرَضَتْ لِي حَاجَۃٌ؛ صَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ، وَجِئْتُ إِلٰی قَبْرِہٖ، وَسَاَلْتُ اللّٰہَ تَعَالَی الْحَاجَۃَ عِنْدَہٗ، فَمَا تَبْعُدُ عَنِّي؛ حَتّٰی تُقْضٰی ۔
’’میں امام ابو حنیفہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر ہر دن زیارت کے لیے آتا ہوں۔جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے، تو میں دو رکعتیں ادا کرتا ہوں اور ان کی قبر کی طرف جاتا ہوں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا ہوں، جلد ہی وہ ضرورت پوری کر دی جاتی ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 135/1)
تبصرہ :
یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے،کیونکہ اس کے راوی عمر بن اسحاق بن ابراہیم کا کتب ِ رجال میں کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ نیز علی بن میمون راوی کی بھی تعیین نہیں ہو سکی۔
اس کے باوجود محمد زاہد الکوثری جہمی حنفی نے اس کی سند کو’’ صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
(مقالات الکوثري : 380)
جس روایت کے راوی کا حال یہ ہو کہ اس کا کتب ِ رجال میں ذکر ہی نہ ہو،اس کی سند صحیح کیسے ہوئی؟کیا یہ سب کچھ قبر پرستی کو تقویت دینے کے لیے تو نہیںکیا جا رہا ؟
جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب (م :2009ئ)لکھتے ہیں:
’’یہ واقعہ ہی جھوٹا اور گھڑا ہوا ہے۔‘‘
(بابِ جنت، ص : 66)
(الجواب :اسد الطحاوی)
موصوف ایک طرف کہتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے اور دوسری طرف اسکو باطل بھی قرار دے رہے ہیں کہ ضیعف الاسناد روایت باطل ہوجاتی ہے ؟ خیر متن کے اعتبار سے انہوں نے کہانی چلائی ابن تیمیہ سے کاپی پیسٹ مار کر خیر اسکا تحقیقی جواب پیش خدمت ہے !
امام صیمری اور امام خطیب باسند روایت بیان کرتے ہیں :
خبرنا عمر بن إبراهيم قال ثنا مكرم قال ثنا عمر بن إسحاق بن إبراهيم قال ثنا علي بن ميمون قال سمعت الشافعي يقول إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء الى قبره في كل يوم يعني زائرا فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره وسألت الله الحاجة فما تبعد عني حتى تقضى
علی بن میمون کہتےہیں میں نے امام شافعی سے سنا :
کہ جب تک میں بغداد میں موجود رہا تو فرماتے ہیں میں امام ابو حنیفہ سے برکت لیتا ہوں اور انکی قبر مبارک کی زیارت کرتا ہوں جب کوئی مشکل حاجت پیش آتی تو دو رکعت نماز پڑھ کر انکی قر کے پاس جاتا ہوں
[اخبار ابی حنیفہ للصیمری ، و تاریخ بغداد]
البانی صاحب سلسلہ ضعیفہ میں امام کوثری پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وأما قول الكوثري في مقالاته (ص 381) : وتوسل الإمام الشافعي بأبي حنيفة مذكور في أو ائل ” تاريخ الخطيب ” بسند صحيح فمن مبالغاته بل مغالطاته فإنه يشير بذلك إلى ما أخرجه الخطيب (1 / 123) من
طريق عمر بن إسحاق بن إبراهيم قال: نبأنا علي بن ميمون قال: سمعت الشافعي يقول: إنى لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم – يعني زائرا – فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره، وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى.
فهذه رواية ضعيفة بل باطلة فإن عمر بن إسحاق بن إبراهيم غير معروف وليس له ذكر في شيء من كتب الرجال، ويحتمل أن يكون هو عمرو – بفتح العين – بن إسحاق بن إبراهيم بن حميد بن السكن أبو محمد التونسى وقد ترجمه الخطيب (12 / 226) وذكر أنه بخاري قدم بغداد حاجا سنة (341) ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا فهو مجهول الحال، ويبعد أن يكون هو هذا إذ أن وفاة شيخه علي بن ميمون سنة (247) على أكثر الأقوال، فبين وفاتيهما نحومائة سنة فيبعد أن يكون قد أدركه.
وعلى كل حال فهي رواية ضعيفة لا يقوم على صحتها دليل
البانی صاحب نے امام شافعی کے امام ابوحنیفہ سے قبر سے توسل کے حوالے روایت کی امام کوثری کے حوالے سے تصحیح پر کہتے ہیں کہ اس کو صحیح سند قرار دیکر علامہ کوثری نے مبالغہ کیا ہے اور انکو مغالطہ ہوا ہے یہ تاریخ بغداد میں بھی ہے
لیکن یہ روایت ضعیف بلکہ موضوع ہے عمر بن اسحاق بن ابراہیم یہ غیر معروف ہے اور کتب رجال میں اسکے بارے کچھ نہیں ملتا ۔
اور احتمال یہ ہے کہ یہ عمرو ہے یعنی عمروبن اسحاق بن ابراہیم بن حمید بن السکن اور امام خطیب نے انکا ترجمہ بیان کیا ہے تاریخ میں اور ذکر کیا کہ یہ یہ بخاری میں ۳۴۱ھ میں آیا اور نہ ہی جرح بیان کی ہے اور نہ ہی تعدیل جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے یہ مجہول الھال ہے ۔ اور یہ بعید ہے کہ
علی بن میمون جو کہ اسکا شیخ ہے اسکی وفات ۲۴۷ھ ہے جیسا کہ اکثر اقوال میں آیا ہے تو اس روایت کا سارا حال یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے اور صحیح کی ہونے کی دلیل نہیں
[سلسلہ الضعیفہ البانی ]
اہم نکتہ!!!
یعنی البانی صاحب نے امام کوثری کی تصحیح کو غلط ثابت کیا اور یہ کہا کہ سند میں عمر بن اسحاق ابن ابراہیم غیر معروف ہے اور احتمال ہے (کیونکہ تاریخ بغداد کے نسخاجات میں بہت غلطیاں تھیں اور مناقب صیمری کے نسخے بھی اغلاط کافی زیادہ تھیں ) کہ یہ راوی عمرو بن اسحاق بن ابراہیم السکنی ہے جو کہ بغداد میں آیا تھا
اور امام خطیب لکھتے ہیں یہ 341ھ میں آیا تھا
امام خطیب کی اس بات کو دلیل بنا کر البانی صاحب کہتے ہیں کہ لیکن اسکا شیخ علی بن میمون جو کہ 247ھ میں ہوئی ہے تو بیچ میں وقفہ ہے کافی زیادہ تو بقول البانی صاحب عمرو بن اسحاق اور علی بن میمون کی وفات کے بیچ کم از کم 100 سال کا وقفہ بنتا ہے اور عمرو بن اسحاق ہے بھی مجہول الحال ۔۔۔
چونکہ البانی صاحب اسکی تاریخ وفات اور توثیق پر مطلع نہیں تو انکا یہاں اشکال وارد تھا معلوم نہیں کہ انکے بیچ وقفہ ۱۰۰سال سے کہیں زیادہ ہو وفات کا
البانی صاحب نے عمرو بن اسحاق کو مجہول الحال قرار دیا ہے انکی خطاء ہے کیونکہ وہ صدوق راوی ہے
عمرو بن اسحاق بن ابراہیم کی توثیق :
جیسا کہ امام سمعانیؒ انکے بارے فرماتے ہیں :
وهو أبو الحسن عمرو بن إسحاق بن إبراهيم بن أحمد بن السكن الأسدي السكنى البخاري، محدث عصره وشيخ العرب ببلده ومن أكثر الناس تفقدا لأهل العلم، سمع ببخارى أبا على صالح بن محمد البغدادي جزرة وأبا هارون سهل بن شاذويه الحافظ، وبمرو أبا يزيد محمد بن يحيى بن خالد الميرماهانى وأبا عبد الرحمن عبد الله بن محمود السعدي، وببغداد أبا بكر عبد الله بن أبى داود السجستاني وأبا القاسم عبد الله بن محمد البغوي، وبالكوفة عبد الله ابن زيدان البجلي وأقرانهم،
سمع منه الحاكم أبو عبد الله الحافظ وذكره في تاريخ نيسابور وقال: ورد نيسابور سنة إحدى وأربعين وثلاثمائة وحججت أنا في تلك السنة فرأيت له في الطريق مروءة ظاهرة وقبولا تاما في العلم والأخذ عنه، وتوفى سنة أربع وأربعين وثلاثمائة
یہ او حسن عمر بن اسحاق بن ابراہیم السکن الاسدی السکنی البخاری ہیں یہ محدث العصر تھے اور شیخ العرب تھے اور بہت سے لوگوں نے ان سے علم لیا ، اور بخاری کے مقام پر انہوں نے علی بن صالح ، اور جزرہ میں ابو ھارون اور یزید بن یحیییٰ اور عبد الرحمن سے سنا اور بغداد میں ابو بکر عبداللہ بن داود سجستانی اور کوفہ کے مقام پر عبداللہ بن زیدان الجبلی وغیرہ سے سنا ہے
اور ان سے سننے والوں میں امام ابو عبداللہ الحاکم وغیرہ ہیں انہوں نے اپنی تاریخ نیشاپور میں 341ھ کے حالات میں وارد کرتے ہوئے کہا:
کہ میں اسی سال حج پر گیا تو راستے میں انکو پایا اور میں یہ بات قبول کرتا ہوں انکو علم میں مکمل تامہ حاصل تھا (یعنی علم میں پختہ تھے ) اور یہ 344ھ میں فوت ہوئے
[الانساب للسمعانی جلد ۷، ص ۱۶۴]
تو جنکے بارے امام حاکم یہ کہیں کہ
اور امام حاکم نے انکو اپنی مستدرک میں بھی لائے ہیں اور ان سے مروی روایات کی تصحیح کی ہے اور امام ذھبی نے بھی موافقت کی ہے
– حدثنا عمرو بن إسحاق بن إبراهيم السكني البخاري، بنيسابور، ثنا أبو علي صالح بن محمد بن حبيب الحافظ، الخ۔۔۔
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 3172 – على شرط البخاري ومسلم
[المستدرک للحاکم وتعلیق الذھبی]
تو اتنی تفصیل کے بعد تو یہ راوی صدوق درجے سے ہرگز نیچے نہیں گرتا جتنی مداح و علم میں پختگی کا ذکر امام سمعانی اور امام حاکم نے کیا ہے
نوٹ : امام حاکم راویان کی توثیق میں متساہل نہیں البتہ روایات کی تصحیح میں متساہل ہیں اور انکا یہ تساہل فقط مستدرک تک محدود ہے
اب چونکہ امام حاکم انکے تلامذہ میں سے تھے اور انہوں نے تصریح یہ بھی کر دی کہ انکی وفات 344ھ میں ہوئی
اور انکے شیخ علی بن میمون جنکی وفات پر امام ابن حجر نے اکثر کا قول 247ھ بیان کیا ہے
– “س ق علي بن ميمون
قال أبو حاتم ثقة وقال النسائي لا بأس به وذكره بن حبان في الثقات وقال مات سنة 45 وقال أبو علي الحراني مات سنة ست وأربعين ومائتين وقال غيره مات سنة “47”
[تہذیب التہذیب ابن حجر ]
یعنی علی بن میمون 247ھ میں فوت ہوا اور اسکا شاگرد عمرو بن ابراہیم کی عمر اس وقت 5سال اگر رکھیں (نوٹ: محدثین کے نزدیک سماع کی عمر کم سے کم ۵ سال ہوتی ہے) تو عمرو بن اسحاق اور علی بن میمون کی وفات کے درمیان 97 سال کا فرق رہتا ہے یعنی عمرو کی عمر اگر 5 سال رکھیں تو عمرو کی عمر 102 سال بنتی ہے تو کیا 102 سال عمر رجال کی نہیں ہوتی کیا ؟ امام طبرانی 100 سال تک رہے ہیں اور دیگر بھی کئیوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں سماع تو پھر بھی ثابت ہوتا ہے
اور پھر علی بن میمون کے اور تلامذہ بھی موجود ہیں جنکی وفات 320ہجری اور اسکے اکے آس پاس ہوتی رہی ہے ۔
تو عمرو بن اسحاق جنکی وفات 344ھ میں ہوئی تو ان سے سماع کیسے ناممکنات میں آ سکتا ہے
جیسا کہ
علی بن میمون کا ایک شاگرد
الحسين بن محمد بن مودود، أبو عروبة بن أبي معشر الحراني السلمي الحافظ. [المتوفى: 318 هـ]
اور دوسرا شاگرد جسکی وفات درج ذیل ہے
الحسن بن أحمد بن إبراهيم بن فيل الأسدي، أبو طاهر البالسي [الوفاة: 320 هـ]
تو جو علت البانی صاحب نے راوی کا تعین کر کے کی (جیسا کہ انکے پاس نسخاجات تھے اور کلمی نسخوں میں راوی کے نام کی تصحیح کرنا آسان ہوتا ہے) اور اسی طبقے میں عمرو بن اسحاق ہی یہ راوی ہے جسکا تعین البانی صاحب نے کیا تھا
لیکن ہم نے انکے راوی کو مجہول ہونے کی علت کو رفع کر دیا ہے
اور
انکاسماع پر جو اعتراض کیا تھا اسکو بھی رفع کر دیا ہے کہ عمرو بن اسحاق کی عمر 102 سال رکھیں تو اصول حدیث کے مطابق سماع ثابت ہوتا ہے اور 102 سال عمر ہونا کوئی مشکل بات نہیں کافی رجال ایسے ہیں
اور اگر عمرو بن اسحاق کو 10 سال میں سماع مانیں 107 سال عمر بنتی ہے تو بھی مسلہ نہیں لیکن کم سے کم 102 سال میں سماع ثابت ہوتا ہے جب انہوں نے خود تصریح کر رکھی ہے ثنا علی بن میمون ۔۔۔۔۔
تو پس امام کوثری کا اس روایت کی تصحیح کرنا کوئی ایسی غلطی نہیں تھی جس پر البانی صاحب نے اس روایت کو ضعیف سے باطل بنادیاتھا نیز امام ابن حجر ہیثمی نے بھی اس روایت کو قبول کیا ہے
نیز امام خطیب کے نزدیک بھی یہ روایت احتجاج بہ ہے کیونکہ وہ یہ روایت اپنی تاریخ بغداد کے مقدمہ میں لائے ہیں اور فضائل بغداد و عراق میں بطور حجت بیان کی ہے اس وجہ سے امام کوثری علیہ رحمہ نے اس روایت کو خطیب بغداد کے حوالے سے بطور تصحیح بھی نقل کیا ہوا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلیل نمبر 6 :
قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ بَشْکَوَالَ : أَخْبَرَنَا الْقَاضِي الشَّہِیدُ أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ رَحِمَہُ اللّٰہُ قِرَاء َۃً عَلَیْہِ، وَأَنَا أَسْمَعُ، قَالَ : قَرَاْتُ عَلٰی أَبِي عَلِيٍّ حُسَیْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْغَسَّانِيِّ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو الْحَسَنِ طَاہِرُ بْنُ مُفَوِّزٍ الْمُعَافِرِيُّ، قَالَ : أَنَا أَبُو الْفَتْحِ وَأَبُو اللَّیْثِ نَصْرُ بْنُ الْحَسَنِ التَّنْکَتِيُّ، الْمُقِیمُ بِسَمَرْقَنْدَ، قَدِمَ عَلَیْہِمْ بِلَنْسِیَۃَ، عَامَ أَرْبَعَۃٍ وَّسِتِّینَ وَأَرْبَعِ مِائَۃٍ، قَالَ : قُحِطَ الْمَطَرُ عِنْدَنَا بِسَمَرْقَنْدَ فِي بَعْضِ الْـأَعْوَامِ، قَالَ : فَاسْتَسْقَی النَّاسُ مِرَارًا، فَلَمْ یُسْقَوْا، قَالَ : فَأَتٰی رَجُلٌ مِّنَ الصَّالِحِینَ مَعْرُوفٌ بِالصَّلَاحِ، مَشْہُورٌ بِہٖ، إِلٰی قَاضِي سَمَرْقَنْدَ، فَقَالَ لَہٗ : إِنِّي قَدْ رَأَیْتُ رُأْیًا أَعْرِضُہٗ عَلَیْکَ، قَالَ : وَمَا ہُوَ؟ قَالَ : أَرٰی أَنْ تَخْرُجَ وَیَخْرُجَ النَّاسُ مَعَکَ إِلٰی قَبْرِ الْإِمَامِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِيِّ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَقَبْرُہٗ بِخَرَتْنَکَ، وَتَسْتَسْقُوا عِنْدَہٗ، فَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَّسْقِیَنَا، قَالَ : فَقَالَ الْقَاضِي : نِعْمَ مَا رَاَیْتَ، فَخَرَجَ الْقَاضِي، وَخَرَجَ النَّاسُ مَعَہٗ، وَاسْتَسْقَی الْقَاضِي بِالنَّاسِ، وَبَکَی النَّاسُ عِنْدَ الْقَبْرِ، وَتَشَفَّعُوا بِصَاحِبِہٖ، فَأَرْسَلَ اللّٰہُ السَّمَائَ بِمَائٍ عَظِیمٍ غَزِیرٍ، أَقَامَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِہٖ بِخَرَتْنَکَ سَبْعَۃَ أَیَّامٍ أَوْ نَحْوَہَا، لَا یَسْتَطِیعُ أَحَدٌ الْوَصُولَ إِلٰی سَمَرْقَنْدَ مِنْ کَثْرَۃِ الْمَطَرِ وَغَزَارَتِہٖ، وَبَیْنَ خَرَتْنَکَ وَسَمَرْقَنْدَ ثَلَاثَۃُ أَمْیَالٍ أَوْ نَحْوُہَا ۔
’’سمرقند میں ایک سال قحط پڑا۔ لوگوں نے بہت دفعہ بارش طلبی کے لیے دُعائیں کیں،لیکن بارش نہ ہوئی۔ایک نیک آدمی جس کا ورع و تقویٰ مشہور تھا،قاضی سمرقند کے پاس آیا اور کہنے لگا:میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے،میں وہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔قاضی نے کہا:وہ ترکیب کیا ہے؟اس نے کہا:میرا خیال ہے کہ آپ اور تمام لوگ امام محمدبن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کریں۔ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بارش عطا فرما دے۔امام صاحب کی قبر خرتنک نامی جگہ میں ہے۔قاضی اور تمام لوگ باہر نکلے اور امام صاحب کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کی،اللہ کے ہاں گڑگڑائے اور امام صاحب کا وسیلہ پیش کیا۔اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ بارش نازل کی۔اس بارش کی وجہ سے لوگوں کو خرتنک میں تقریباً سات دن ٹھہرنا پڑا۔ زیادہ بارش کی بنا پر کوئی بھی سمرقند نہ جا سکتا تھا۔ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تقریباً تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘
(الصلۃ في تاریخ أئمّۃ الأندلس لابن بشکوال، ص : 603، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ :
پانچویںصدی کے اواخر کے بعض نامعلوم لوگوں کا یہ عمل دین کیسے بن گیا؟ایک شخص کے کہنے پر نامعلوم قاضی اور اس کی نامعلوم رعایا کا یہ عمل قرآن و سنت اور سلف صالحین کے تعامل کے خلاف تھا۔
رہا بارش کا ہوجانا،تو وہ ایک اتفاقی امر ہے۔آج بھی کتنے ہی مشرکین قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں،اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد ملتی ہے، تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحب ِ قبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی؟اور کیا ان کی کوئی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز کی دلیل ہے؟قرآن و حدیث میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان سے تبرک حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ و تابعین ضرور ایسا کرتے۔ خیرالقرون کے بعد دین میں منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی کاموں میں سے ہے۔اس دور میں کسی کے عمل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
اگر یہ واقعہ مجہول لوگوں پر مبنی ہے اور یہ ایک اتفاقی عمل ہے تو امام ذھبی علیہ رحمہ نے سیر اعلام میں اس روایت کو امام بخاری کے فضائل میں کیوں درج کیا کیا انکو معلوم نہیں تھا کہ یہ واقعہ سنت کے خلاف ہے اور اتفاقی ہے تو وہ مفت میں اسکو امام بخاری کی فضیلت میں لکھتے رہے اور انکے دوسرے مورخین بھی اس چیز سے لا علم رہے ؟ اصل میں یہ کہانی شریف اور غلط بیانی ہے جو موصوف کو لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ اسکی سند نہ ہوتی تو سند کا رونا رویا جاتا اب چونکہ سند ثابت ہے اور روایت کا تجربہ بھی ثابت ہے تو لوگوں کو مجہول بنا دیا اور بارش برس چکی جس سے امام بخاری کے توسل کے کامل ہونے کا ثبوت ہے تو اسکو تکہ اور اتفاقی امر بنا دیا الغرض ان ذہنی بیماروں کو کوئی دوا بھی اثر نہیں کر سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب)
دلیل نمبر 8 :
معروف کرخی رحمہ اللہ کی قبر کے بارے میں امام ابراہیم حربی رحمہ اللہ سے منسوب ہے کہ :
قَبْرٌ مُّعْرُوْفٍ التَّرْیَاقُ الْمُجَرَّبُ ۔
’’معروف کرخی کی قبر تریاقِ مجرب ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 122/1)
تبصرہ :
یہ جھوٹا قول ہے، کیونکہ اس کا راوی احمد بن حسین بن یعقوب ابو الحسن عطار غیر ثقہ اور مجروح ہے۔اس کے بارے میں :
ابو القاسم ازہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَانَ کَذَّابًا ۔
’’یہ انتہائی جھوٹا تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 429/4)
خود حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَلَمْ یَکُنْ فِي الْحَدِیْثِ ثِقَۃً ۔
’’یہ روایت ِ حدیث میں ثقہ نہیں تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد : 429/4)
محمد بن ابی الفوارس رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَانَ سَيِّئَ الْحَالِ فِي الْحَدِیْثِ، مَذْمُوْمًا، ذَاہِباً، لَمْ یَکُنْ بِشَيْئٍ اَلْبَتَّۃَ ۔
’’یہ روایت ِحدیث میں بری حالت کا مالک تھا،نیز مذموم اور ردی تھا،یہ بالکل بے کار شخص تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 429/4)
حافظ ابو نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لَیِّنُ الْحَدِیْثِ ۔
’’اس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہوتی ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 429/4)
حافظ سہمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حَدَّثَ عَنْ مَّنْ لَّمْ یَرَہٗ وَمَنْ مَّاتَ قَبْلَ أَنْ یُّوْلَدَ ۔
’’یہ ان لوگوں سے روایت بیان کردیتا تھا،جنہیں اس نے دیکھا تک نہیں ہوتا تھا اور ان سے بھی،جو اس کی پیدائش سے بھی پہلے مر چکے ہوتے تھے۔‘‘
(سؤالات السہمي للدارقطني : 157)
حافظ حمزہ سہمی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
وَسَمِعْتُ الدَّارَقُطَنِيَّ وَجَمَاعَۃً مِّنَ الْمَشَایِخِ، تَکَلَّمُوْا فِي ابْنِ مِقْسَمٍ ۔
’’میں نے امام دارقطنی رحمہ اللہ اورمحدثین کرام کی ایک جماعت سے سنا ہے کہ وہ ابن مقسم پر جرح کرتے تھے۔‘‘
(سؤالات السہمي للدارقطني : 157)
(الجواب : اسد الطحاوی)
اب اس تحریر کا جواب موصوف نے یہ دیا ہے کہ چونکہ سند میں ایک متروک راوی ہے آگیا ہے تو روایت کا رد اس وجہ سے کر دیا کہ امام حربی سے منسوب کردہ تھا لیکن امام حربی کے بارے کوئی کلا نہیں کیا اس نکتہ کی نشاندہی کرنا مقصود اس لیے ہے کہ اگلی روایات میں موصوف کی منافقت اور دو رخی ثابت کرنی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ظہیر امن پوری صاحب )
دلیل نمبر 9 :
عبدالرحمن بن محمد بن زہری کہتے ہیں :
قَبْرُ مَعْرُوْفٍ الْکَرْخِيِّ مُجَرَّبٌ لِّقَضَائِ الْحَوَائِجِ، وَیُقَالُ : إِنَّہٗ مَنْ قَرَأَ عِنْدَہٗ مِائَۃَ مَرَّۃٍ : قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ، وَسَأَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی مَا یُرِیْدُ؛ قَضَی اللّٰہُ لَہٗ حَاجَتَہٗ ۔
’’معروف کرخی کی قبر قضائے حاجات کے لیے مشہور ہے۔کہا جاتا ہے کہ جو اس قبر کے پاس سو مرتبہ سورت اخلاص پڑھے،تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد کو پورا کر دیتا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 122/1، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 10 :
ثقہ محدث،ابو عبداللہ ابن محاملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أَعْرِفُ قَبْرَ مَعْرُوْفَ الْکَرْخِيِّ مُنْذُ سَبْعِیْنَ سَنَۃً، مَا قَصَدَہٗ مَہْمُوْمٌ؛ إِلَّا فَرَّجَ اللّٰہُ ہَمَّہٗ ۔
’’میں ستر سال سے معروف کرخی کی قبر کو جانتا ہوں۔ جو بھی پریشان حال ان کی قبر کا قصد کرے،اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی کو دور کر دیتا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 123/1، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ :
متاخرین کا بے دلیل عمل دین کیسے بن سکتا ہے؟یہ عمل قرآن و سنت اور خیر القرون کے سلف صالحین کے خلاف ہے۔
رہا حاجت پوری ہو جانا تو یہ اتفاقی امر ہے۔آج بھی قبروں کے پجاری قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد مل جاتی ہے،لیکن وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحب ِقبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مدد مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی؟کیا ان کی کوئی دلی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز پر دلیل ہے؟
قرآن و سنت میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان کے توسل اور تبرک کا کوئی جواز نہیں،اگر ایسا کرنا جائز ہوتا،توصحابہ کرام اور تابعین عظام ضرور ایسا کرتے۔خیر القرون کے بعد دین اسلام میں جو منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی میں سے ہے۔
(الجواب : اسد الطحاوی)
اب امام معروف کرخی کی قبر پر جا کر دعا کرنے اور انکی قبر کو زائرین کے کے لیے حاجت روا ہونے کی تصریحات صحیح سند سے چونکہ ثابت ہو چکی ہیں تو موصوف نے یہاں کیا خیانت کی ہے موصوف کا جملہ ہے ” متاخرین کا بے دلیل عمل دین کیسے بن سکتا ہے؟یہ عمل قرآن و سنت اور خیر القرون کے سلف صالحین کے خلاف ہے۔”
لا علمی کی یہ انتہاء سمجھی جائے یا موصوف کی خیانت اور ہڈ دھرمی سمجھی جائے کہ اوپر امام امام حربی کے قول پر یہ اعتراض نہیں کیا لیکن جن دو محدثین سے قول ثابت ہوا اسکو جہالت دکھاتے ہوئے متاخر قرار دیدیا اور پھر انکے قول کو خیر القرون کے سلف کے خلاف کہہ دیا جبکہ یہ دو محدثین جنکا یہ قول ہے وہ خود خیر القرون کے سلف میں سے ہیں اور متقدمین سے ہیں ۔ امام خطیب جنکا شمار متقدمین میں ہوتا ہے وہ اپنی کتاب میں اپنی سند سے جن محدثین کا کلام نقل کر رہے ہیں اسکے بارے موصوف یہ اندھی گھما رہا ہے کہ یہ عمل متاخرین کا ہے بھھھھ اس پر ہنسا جا سکتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ موصوف کو محقق اور شیخ الحدیث کہنے والے اسکے کتنے غالی مقلد ہیں
اب جیسا کہ یہ اقوال دو اماموں سے مروی تھے صحیح سند سے
۱۔ امام عبدالرحمن بن محمد بن زہری
۲۔ ثقہ محدث،ابو عبداللہ ابن محاملی
امام عبد الرحمن بن محمد بن عبيد الله
اور یہ صحابی رسول حضرت عبد الرحمن بن عوف القرشی کی نسل سے تھے
صرف پانچ واسطوں سے انکا سلسلہ نسب صحابی رسول ﷺ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے ملتا ہے
امام خطیب نے انکی توثیق کی ہے :
عبد الرحمن بن محمد بن عبيد الله بن سعد بن إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف(صحابی رسولﷺٌ)
وكان ثقة.
انکے شیوخ درج ذیل ہیں:
سمع أبا الأحوص محمد بن الهيثم القاضي، وعباس بن محمد الدوري، وجعفر بن محمد الصائغ، ومحمد بن غالب التمتام، ونحوهم.
یعنی کہ اما م مشہور ثقہ محدث امام ابو الاحوص قاضی ، امام محدث عباس بن محمد دوری جو کہ امام ابن معین کے مقدم شاگرد ہیں اور امام جعفر بن صائع جیسے مشہور کبیر محدثین انکے شیوخ میں ہیں ان سب کی وفات 280ھ کے دور سے پہلے ہوئی ہے
اور انکے شیوخ درج ذیل ہیں :
روى عنه أبو عمر بن حيويه، وأبو حفص بن شاهين، وعبد الله بن عثمان الصفار في آخرين.
انکے تلامذہ میں مشہور محدث و مصنف کتب کثیرہ امام ابو عمر بن حیویہ ہیں اور انکے ساتھ محدث ناقد رجال امام ابن شاھین صاحب ثقات موجود ہیں اورانکے ساتھ امام عبدا للہ بن عثمان جیسے مشہور معروف محدثین ہیں اور ان سب کا انتقال 380ھ سے پہلے تک ہوا جبکہ یہ بھی متقدمیں سے ہیں
اور امام خطیبب انکی ولادت و وفات کے بارے لکھتے ہیں :
أن أبا محمد عبد الرحمن بن محمد الزهري مات في سنة ست وثلاثين وثلاث مائة، قال غيره: في ربيع الآخر وكان مولده في سنة سبع وخمسين ومائتين.
امام ابو محمد عبد الرحمن بن محمد الزھری کی وفات 235ھ میں ہوئی اور انکی ولادت 257ھ میں ہوئی ہے
اور انکے بارے امام خطیب اپنی سند صحیح سے امام ابو بکر بن مجاہد کا قول لاتے ہیں :
أخبرني علي بن أبي علي المعدل، قال: حدثنا منصور بن محمد بن منصور الحربي القزاز، قال: سمعت أبا بكر بن مجاهد، يقول: وقد دخل إليه أبو محمد الزهري وخلفه أولاده أنا أشبه أبا محمد ببعض الصحابة وخلفه أتباعه.
امام ابو بکر بن مجاہد کہتے ہیں اور امام ابو محمد داخل ہوئے انکے ساتھ انکے اولاد خلفاء تھے اور میں انکوبعض صحابہ کے ساتھ مشابہت دیتا ہوں انکے ساتھ اور انکے اتباع کرنے والے خلفاء تھے
[تاریخ بغداد برقم : 5373]
اب ایک بندہ شیخ الحدیث کہلانے والا اور محقق کہلانے والا خیر القرون کے ایک اعظیم شخصیت جنکی نسل پانچ واسطوں سے صحابی رسولﷺ ابن عوفؓ سے ملتی ہے اور انکے تلامذہ میں بڑے بڑے حفاظ الحدیث ہیں جو کہ خود بھی متقدمین میں سےہیں اورچونکہ انہوں نےامام معروف کرخی کی قبرکو حاجات کے لیے ازمودہ قرار دیا اور تلقین کی اس امر کی تو موصوف کے نزدیک یہ متاخر اور خیر القرون سے باہر ہو گئے یہ ہے انکی تحقیق کی حیثیت!!!
دوسرے امام ابو عبداللہ بن محالی انکا تعارف پیش خدمت ہے !
امام ابو عبداللہ الحسین بن اسماعیل الماحلی جنکا یہ قول ہے انکے بارے امام ذھبی فرماتے ہیں :
المحاملي الحسين بن إسماعيل بن محمد
القاضي الإمام العلامة المحدث الثقة مسند الوقت أبو عبد الله الحسين بن إسماعيل بن محمد بن إسماعيل بن سعيد بن أبان الضبي البغدادي المحاملي مصنف السنن
قاضی امام علامہ محدث ثقہ اپنے وقت کے مسند ابو عبداللہ المحاملی جو کہ کتاب السنن کے مصنف ہیں
انکے شیوخ میں جو امام ہیں ان میں سے مختصر کے نام یہ ہیں :
فسمع من أبي حذافة أحمد بن إسماعيل السهمي صاحب مالك،
من أبي الأشعث أحمد بن المقدام العجلي صاحب حماد بن زيد،
عمرو بن علي الفلاس،
محمد بن إسماعيل البخاري،
یعنی ایک واسطے سے یہ امام مالک اور امام حماد بن زید کے شاگرد بنتے ہیں اور امام الفلاس اور امام بخاری کے یہ تلامذہ میں سے ہیں
اور انکے تلامذہ میں درج ذیل محدثین ہیں:
حدث عنه: دعلج بن أحمد، والطبراني، والدارقطني، وأبو عبد الله بن جميع، وابن شاهين،
وإبراهيم بن عبد الله بن خرشيذ قوله، وابن الصلت الأهوازي، وأبو محمد بن البيع، وأبو عمر بن مهدي، وخلق.
[سیر اعلام النبلاء برقم ۱۱۰]
یعنی امام دارقطنی ، امام طبرانی ، امام ابن شاھین جیسے حفاظ جنکے شاگرد ہوں انکے بارے موصوف نے یہ کہہ کر جان چھڑائی ” متاخرین کا بے دلیل عمل دین کیسے بن سکتا ہے؟یہ عمل قرآن و سنت اور خیر القرون کے سلف صالحین کے خلاف ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: اسد الطحاوی