جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے
سید عالم ، نورِ مجسم ﷺ کا فرمان مبارکہے:
” جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے ، میں اُس کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں ۔ ”
اللہ کریم ہمیں اپنے آقا و مولا ﷺ کے اس فرمان مبارک کی عملی تفسیر بنائے !
جس بندے کو گالی نکالنے والے کو جواب دینا آتا ہو ۔۔۔۔۔۔ الزام لگانے والے کا منھ بند کرنا بھی جانتا ہو ۔۔۔۔۔ آوازے کسنے والوں کی بولتی بھی بند کرسکتا ہو ؛ اس کے باوجود وہ خاموش رہے تو یقیناً ماجور ہو گا ۔
کچھ سال پہلے محسنِ اہل سنت ، صوفی باصفا ، امیر دعوتِ اسلامی حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری حفظہ اللہ نے ایک بات سے رجوع فرمایا تھا جب کہ اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں تھی ، تو معترضین نے طرح طرح کی باتیں کیں:
کسی نے کہا سافٹ ویئر تبدیل ہوگیا ہے ، کسی نے کہا اب آئی ہے سمجھ ؛ کسی نے اسے اپنی بہادری سمجھا تو کسی نے گالیوں اور الزام تراشیوں کاثمرہ جانا ؛ کسی نے کچھ ، تو کسی نے کچھ کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن آپ حفظہ اللہ نے کمال تحمل سے کام لیا اور کسی کو کوئی جواب نہ دیا ۔
یہی اللہ والوں کی شان ہوتی ہے ، ان کی نظر کام پر ہوتی ہے وہ اعتراضات سے صَرف نظر کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔
اسی طرح حضرت کے تربیت یافتہ اور مریدِ صادق نگران شوری محمد عمران عطاری اطال اللہ عمرہ کے متعلق سوشل میڈیا پر بعض ناعاقبت اندیشوں نے مالی خرد برد اور اقربا پروری جیسے الزامات لگائے جس کا انھوں نے سوشل میڈیا پر جواب دینے کےبجائے اپنا سفر جاری رکھا ۔
اِسی طرح حال ہی میں امیر محترم حافط س ع د دام ظلہ پر طرح طرح کی الزام تراشی کی گئی لیکن انھوں نے بھی جواب در جواب والے سلسلے کے بجائے اپنا دینی سفر جاری رکھنا ہی مناسب سمجھا ۔۔۔۔۔ یہی رِیت کام کرنے والے لوگوں کی ہوا کرتیہے ، وہ اسی طریقے سے معترضین کو زیر کیا کرتے ہیں ۔
بعض دفعہ فضول لوگوں کی یاوہ گوئی کا جواب امام شافعی کے یہ دوشعر ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ انھیں یہ شعر نہیں سناتے ، بلکہ خاموشی سے گزر جاتے ہیں ؎
قل بما شئت في مسبة عِرضی
فسكوتی عن اللئيم جوابُ
ما اناعادم الجواب ولكن
ما من الاسد ان تجيب الكلاب
مفہوم: کمینہ میرے متعلق جو چاہے کہے ، میں اُس کے جواب میں خاموش رہوں گا ۔
اِس لیے نہیں کہ میں جواب دینے سے قاصر ہوں………….. بات صرف اتنی ہے کہ: ” شیر کتوں کا جواب نہیں دیا کرتے ۔ ”
( براہِ کرم بعض احباب میری اس پوسٹ کو خود پر چسپاں کرنا شروع نہ کردیں ، یہ عمومی پوسٹ ہے ۔ )
✍️لقمان شاہد
30-6-2022 ء