کند ذہن بچوں کو کیسے سیکھایا جائے؟
کند ذہن بچوں کو کیسے سیکھایا جائے؟
یہ حقیقت ہے کہ کچھ بچے پیدائشی طور پر ذہنی کمزور ہوتے ہیں جن کے سیکھنے کی طاقت عام بچوں کی بنسبت کافی کم ہوتی ہے.
ماہرین نفسیات نے ان کند ذہن بچوں کی تعلیم و تربیت کو عمومی بچوں سے ممتاز رکھا ہے.
کیونکہ کند ذہن بچے جب عام بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں تو وہ پیچھے رہ جاتے ہیں.
کند ذہن افراد کو عوام کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنانی ہوتی ہے اور اس کے لیے ان کا ملنسار،صاف ستھرا، ایماندار، قابل اعتماد اور محنتی ہونا ضروری ہے.
ایسا بنانے کے لیے ان کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا جانا چاہیے.
ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق چند اہم باتیں درج ذیل ہیں جو کہ والدین اور اساتذہ کے لیے نفع مند ہوں ہیں.
سب سے پہلے تو صحت مند ذہن اور کند ذہن میں فرق جاننا ضروری ہے.
*صحت مند ذہن دقیق اور مشکل باتیں سمجھ سکتا ہے وہ کونوں کھدروں سے بھی بات ڈھونڈ نکالتا ہے جبکہ کند ذہن صرف موٹی اور آسان بات سمجھتا ہے
اس لیے کند ذہن بچے کی تعلیم کے لیے ظاہری حواس (دیکھنا چھونا سونگھنا وغیرہ) کی طاقتوں کا استعمال کیا جائے گا.
*صحت مند ذہن کند ذہن سے جلدی اور زیادہ سیکھتا ہے
*صحت مند ذہن کا انسان دلیل دینے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے جبکہ کند ذہن بچہ معنی کی گہرائی تک پہنچنے کی بجائے صرف الفاظ رٹ کر سیکھنے کی کوشش کرتا ہے.
*صحت مند ذہن دو طرح سے سیکھتا ہے رسمی تعلیم اور خود بخود سیکھنا. کند ذہن صرف سیکھانے سے ہی سیکھتا ہے خود سیکھنے کی صلاحیت اس میں نہیں ہوتی.
کند ذہنی کے علاوہ ناکامی کی وجوہات :
ماہرین نفسیات کے نزدیک کند ذہنی کے ساتھ ساتھ کچھ اور وجوہات بھی ایسے بچے کو ناکام بناتی ہیں.
*بچے ایام و سال کے اعتبار سے تو ایک جتنے ہوتے ہیں لیکن کند ذہن بچے کم ذہنی عمر میں ہونے کی بنا پر اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ گُلتے ملتے نہیں ہیں.
-
والدین کا معمول سے زیادہ لاڈ پیار اور حفاظت بھی انہیں نا پختہ رہنے دیتا ہے.
*انسان جب اپنا جائزہ لیتا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ دوسرے اس کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں. کند ذہن بچہ دوسروں کی ناپسندیدگی اور والدین کی اس کے متعلق مایوسی کو دیکھ کر اپنے آپ کو کمتر سمجھتا ہے جس کی وجہ سے اس میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا.
*کند ذہن کی تعلیم شکلوں، صورتوں آوازوں اور کھیلوں وغیرہ کے ذریعے ہوتی ہے بچہ جب روایتی طریقے سے پڑھتا ہے تو اس کا ذہن قبول نہیں کرتا تو اس لیے بھی ناکام ہو جاتاہے.
اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف
والدین کا کند ذہن بچوں کے ساتھ برتاؤ کیسا ہونا چاہیے؟
*والدین سب سے پہلے یاد رکھیں کہ کند ذہن بچے کے ساتھ دوسرے بچوں جیسا سلوک کریں انہیں کبھی بھی کند ذہنی کا طعنہ نہ دیا جائے.
-
کند ذہن بچوں کا دوسرے بچوں کے ساتھ تقابل نہ کیا جائے کہ اس میں احساس کمتری پیدا نہ ہو.
-
والدین صبر کا دامن تھامے رکھیں اپنے بچے کی کند ذہنی کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں اور ایسا سلوک کریں کہ وہ خود کو اجنبی محسوس نہ کرے.
*والدین ان لوگوں سے ملاقات کریں جن کے بچے کبھی کند ذہن تھے یا اب ہیں لیکن وہ اس کے باوجود خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں.
( جاری ہے…)
فرحان رفیق قادری عفی عنہ
ڈائریکٹر دارالنور سکول سسٹم
2/7/2022
کند ذہن بچوں کو کیسے سیکھایا جائے؟
حصہ دوم
اولاد اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے اور اس نعمت سے سب سے زیادہ پیار بھی والدین کو ہی ہوتا ہے، والدین پر اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور جب اولاد کند ذہن ہو تو والدین کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے.
عمومی طور پر والدین چند پیسے فیس دے کر بچوں کی تعلیم و تربیت کو مکمل طور پر اسکولوں کے حوالے کر دیتے ہیں جو کہ غلط ہے کیونکہ سکول کا استاد روزانہ 4 سے 5 گھنٹے اوسط 25 بچوں کو پڑھاتا ہے اور اگر پریڈ سسٹم ہو تو اوسط 100 بچوں کو پڑھاتا ہے. یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہاں 1 گھنٹہ 2 بچوں کو دینا اور کہاں 4 گھنٹے 100بچوں کو….
(اسکول بچوں کو علم سے روشناس کرتے ہیں اور والدین اس علم کو بچوں میں محفوظ کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں .)
اسی وجہ سے بہت سے نامور سکول بھی زیادہ کند ذہن بچوں (جن کی دماغی عمر ان کی اصلی عمر سے کم ہوتی ہے) کو اسکول میں داخلہ نہیں دیتے کہ وہ خصوصی توجہ چاہتے ہیں جو کہ ایک سکول کے لیے معاشی اور تنظیمی لحاظ سے مشکل امر ہے.
تمہید باندھنے کا مقصد والدین کو ان کی ذمہ داری بتانا ہے کہ بچہ آپ کا ہے تو اس کی تعلیم کا اکثر و بیشتر حصہ آپ کے سر ہی ہے.
ماہرین نفسیات کند ذہن بچوں کی تعلیم کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے والدین کو ہی مخاطب کرتے ہیں.
کند ذہن بچے کی تعلیم کیسی ہو گی؟
کند ذہن بچے کی ابتدائی تعلیم activities پر مشتمل ہو گی جس کے لیے چاک، اخبار، رنگ برنگے مارکرز، پوسٹر کاغذ، تیلے اور ہر وہ سامان جس کے ذریعے آپ ایک یا ڈیرھ سالہ بچے کو بالکل معمولی اور عام چیزیں سیکھا سکتے ہیں؛ کی ضرورت ہو گی.
*ایسے بچوں کو سیکھانے کے لیے طوالت کی بجائے لگے بندھے طریقوں پر کام کرنا چاہیے.
*جہاں تک ہو سکے قاعدے تھوڑے ہوں مگر عمل سختی سے ہو جیسا کہ نو سے گیارہ تک پڑھانا ہے ہر حال میں…..
شروع شروع میں ہر کام پانچ سے دس منٹ تک ہونا چاہیے
* کند ذہن بچوں کو کسی چیز کے بارے میں زبان سے بتانے کی بجائے وہ چیز دکھائی جائے جو آپ اسے بتانا اور سمجھانا چاہتے ہیں. کیونکہ کند ذہن بچہ زبانی بات خواہ کہانی ہی کیوں نہ ہو پر توجہ نہیں دے پاتا.
یاد رہے!
کند ذہن بچے کو سیکھانے والا کچھ عرصے بعد سوچنے لگ جاتا ہے کہ یہ بچہ کبھی نہیں سیکھ سکتا جبکہ ایسا نہیں ہے؛ استقامت کے ساتھ تعلیم جاری رکھنے کا نتیجہ ضرور نکلتا ہے.
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کند ذہن بچے کو کیا سیکھایا جائے؟
کند ذہن بچے کا ذہن کھولنے کے لیے درج ذیل چیزوں پر توجہ دی جائے.
مہارتیں ہنر مندیاں اور عادتیں :
روزمرہ کا کام، صفائی، ستھرائی، اپنی حفاظت آپ کرنا، الماری میں رکھے ہوئے کپڑوں کی دیکھ بھال، کوئی پیغام لانا یا لے کر جانا، اپنے گھر کا راستہ، محلے کی دوکان کا معلوم ہونا، ٹیلی فون نمبر یاد کرنا اور استعمال کرنا،
تحفہ ملے تو شکریہ کہنا، دوسروں کی مدد کرنا، گھر اور اسکول کے کام کاج میں شریک ہونا، ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے صحیح رویہ اختیار کرنا، مسجد، اسکول، مدرسہ، شادی بیاہ، عید وغیرہ ہر اہم موقع پر اسی کےمطابق لباس پہننا،
حرکتی مہارتیں :
اچھلنا کودنا، پھسلنا، سائیکل، تین پہیوں کی سائیکل، گیند بلا سے کھیلنا، رسی کودنا، آنکھ مچولی کھیلنا، قدم ملا کر چلنا، ریل کی پٹری پر چلنا(نگرانی میں) چڑھنا، تیرنا، نعتیں اور کلام پڑھنا وغیرہ
اسی طرح چھوٹے پٹھوں کو استعمال میں لانے کے لیے
کاٹنا، چپساں کرنا، ڈرائینگ کرنا، رنگ بھرنا، سینا، پرونا، لڑی میں دانے پرونا، بٹن، زپ بکسوئے لگانا وغیرہ شامل ہے
بولنے کے الفاظ کا ذخیرہ :
روزمرہ بولے جانے والے، حصول معلومات اور تدریس کے لیے بولے جانے والے الفاظ سیکھائیے،
ریاضی کی تیاری کے الفاظ، ہندسوں کے الفاظ، موازنے کے الفاظ جیسا کہ زیادہ، کم، بہت کم، سب سے اونچا وغیرہ
اسی طرح پیمائش کی اصطلاحیں جیسے انچ، میٹر، کلو میٹر چھٹانک، کلو من وغیرہ
وقت کا تصور آج، کل پرسوں، ہفتہ، مہینہ، سال، دن، گھنٹے، منٹ، ٹائم دیکھنے کا طریقہ، حیوانات، الفاظ متضاد بچوں، علاقوں، شہروں وغیرہ کے نام.
پڑھنے والے الفاظ کا ذخیرہ :
سڑکوں اور بازاروں میں لگے بورڈز پر لکھے ہوئے الفاظ، ٹریفک کے سائن بورڈز کا مطلب، کھانے میں استعمال ہونے والی اشیاء کے نام روزمرہ گھریلو استعمال ہونے والے اوزار کے نام وغیرہ سیکھائیے.
ریاضی کی تیاری :
کسی مقصد سے چیزیں گننا، باہر کتنی گاڑیاں کھڑی ہیں، سامنے کتنی مرغیاں ہیں، روپے پیسے کی مقدار اور پہچان وغیرہ
لکھنے کی تیاری :
ڈرائینگ، مختلف شکلیں، لائنیں، مربعے، تکون بنانا، بڑے بڑے سائز میں الفاظ حروف-تہجی، گنتی لکھوانا پھر ان سے جوڑ بنانا وغیرہ شامل ہے.
ان امثلہ سے آپ بخوبی جان چکے ہوں گے کہ یہ نا تو مکمل ہیں اور نہ ہی انہی پر بس,
جب والدین اس طریقہ سے بچوں کو سیکھانا شروع کر دیں گے تو روز مرہ زندگی میں بے شمار ایسی چیزیں ہوں گی جو بچوں کو سیکھا کر ان کند ذہنی دور کر سکتے ہیں.
شاید کسی کے ذہن میں وسوسہ آئے؛ یہ تو عام باتیں ہیں…… تو ہم پہلے ہی بتا چکے صحت مند دماغ والا بچہ ایک چیز سے دوسری چیزیں خود بخود سیکھتا ہے جبکہ کند ذہن بچے کو ہر چیز سیکھانی پڑتی ہے.
کوئی یہ بات بھی سوچ سکتا ہے کہ یہ چیزیں تو ہمارے صحت مند دماغ والے بچوں کو بھی نہیں معلوم….
ہم بھی تو یہی کہنا چاہتے ہیں بچوں کی تعلیم کا بہت سا حصہ والدین کے ذمہ ہے اگر والدین بھی بچوں کو سیکھانے میں وقت دیں گے تو بچے بہت جلد سیکھتے چلے جائیں گے.
نوٹ:مذکورہ بالا ہدایات والدین، اساتذہ اور ہر قسم کے سرپرست کے لیے ہیں.
فرحان رفیق قادری عفی عنہ
ڈائریکٹر دارالنور سکول سسٹم
4/7/2022