محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیوں کیا؟
*محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیوں کیا؟ حسن نثار اور مرزا محمد علی کے الزامات کا تحقیقی جائزہ*
بقلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔✍️ #ابوطلحہ_سندھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ایک چرب زبان اور بد تمیزی کیساتھ گفتگو کرنے میں مشھور تجزیہ کار حسن نثار صاحب اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں مہارت تامہ رکھنے والے محمد علی مرزا صاحب کا مشترکہ کلپ فاتح سندھ محمد بن قاسم کے حوالے سے سننے کو ملا۔
حسن نثار صاحب سے میزبان عورت سوال کرتی ہے ہم کہانیوں میں اکثر پڑہتے اور سنتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ ایک عورت کی پکار پر کیا، کیا یہ درست ہے؟
سب سے پہلے اینکر صاحبہ سے ہم سوال کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کونسی کہانیوں کی کتابوں میں آپ نے پڑھا ہے؟ ہمیں بھی تو پتہ چلے! محترمہ! یہ واقعہ کہانیوں کی کتابوں میں نہیں سندھ کی تاریخ کی سب سے قدیم اور معتبر سمجھی جانے والی کتاب “چچنامہ المعروف فتح نامہ سندھ” میں لکھا ہوا ہے اور آپ نے اسکو کہانیوں کی کتاب بنادیا اگر یہ کہانیوں کی کتاب ہے تو پھر محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کا ڈنڈھورا پیٹنا بھی چھوڑ دیں کیونکہ انہیں کہانیوں کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا تھا اور راجا ڈاہر کو شکست دی تھی اگر یہ سب کہانیاں ہیں تو پھر اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں بچتا کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر کوئی حملہ کیا تھا۔
لیکن اس بچاری اینکر صاحبہ کا بھی کیا قصور انکو تو پرچی پہ سوال لکھ کر تھمادیا گیا ہوگا کہ تم نے یہ سوال کرنا ہے اور حسن نثار نے چول مارنی ہے تو بس اس نے اسی طرح لکیر کی فقیر بنتے ہوئے سوال کردیا۔
مذکورہ سوال پر حسن نثار صاحب کا جواب—–
سوال سن کر حسن نثار صاحب اپنی عادت کے مطابق اپنے مخصوص انداز میں غصے میں آگ بگولہ ہوکر کہتا ہے کہ ان کتابوں کو پڑھتے وقت بندے کو اپنی عقل استعمال کرنی چاہیئے کہ——–ان عورتوں کے پاس کونسا سیل فون تھا؟
کونسا سیٹلائٹ ٹی وی تھا؟
یا واٹس ایپ وغیرہ جس کے ذریعے انہوں نے حجاج کو مدد کیلئے پکارا؟—–
حسن نثار صاحب! یہ کوئی پاکستانی سیاست کی بات نہیں ہے کہ جسکے متعلق آپ کو اپنے نامعلوم سورسز سے پرچی کے ذریعے کسی خبر کا علم ہوتا ہے اور آپ اپنے کئی گھنٹے اس خبر پر الٹے سیدھے تبصروں پر ضایع کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
جناب یہ تاریخی بات ہے تو تاریخی کتابوں کا کچھ مطالعہ کر کہ تبصرہ کیا کرو ہر جگہ چرب زبانی سے کام نہیں چلتا۔
میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ واقعہ جس تاریخی کتاب میں لکھا ہے اسکو حسن نثار صاحب نے ھاتھ تک نہیں لگایا ہوگا اور تبصرہ کرنے بیٹھ گئے۔ اس لیے کہ جس تاریخی کتاب میں یہ واقعہ لکھا ہوا ہے وہاں صراحت کیساتھ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ڈاکووں کے اس حملے سے بچ نکلنے والے کچھ تاجروں نے جاکر حجاج کو بتایا تھا کہ قید ہوجانے والی عورتیں تمہیں مدد کیلئے پکار رہی تھیں تو یہ سن کر اس نے لبیک لبیک کہتے ہوئے ان مظلوم عورتوں کی داد رسی کی تھی۔
(دیکھیئے فتح نامہ سندہ عرف چچنامہ صفحہ 180 مطبوعہ سندھ ادبی بورڈ جامشورو)
اس تاریخی بات کو بیان کرنے کے بجائے حسن نثار صاحب نے اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کیلئے سیل فون، سیٹلائٹ، واٹس ایپ وغیرہ جیسے چٹ پٹے تبصرے کا شوشہ چھوڑنا مناسب سمجھا۔
پھر آگے چل کر جناب نے حجاج کے مظالم کا ذکر کیا جن کا ہمیں بھی کوئی انکار نہیں ہے لیکن ہم پوچھنا یہ چاہتے ہیں کہ کیا کوئی ظالم شخص اپنی عورتوں کے اغوا کئے جانے پر کوئی جوابی حملہ کرنے کا حق نہیں رکھ سکتا؟
کوئی کتنا ہی ظالم کیوں نہ ہو لیکن جب اسکے اپنے گھر کی عورتوں کی عزت کی بات آتی ہے تو وہ اتنی غیرت ضرور رکھتا ہے کہ وہ انکو بچانے کیلئے سب کچھ کر گذرتا ہے۔
اور ہمیں یہ امید ہے کہ حسن نثار صاحب اگرچہ کتنے ہی لبرل اور سیکولر کیوں نہ ہوں لیکن خدا نخواستہ اگر انکے گھر کی خواتین کی عزت پر کوئی حملہ ہوا تو ان میں یقیناً اتنی غیرت ضرور ہوگی کہ وہ انکے دفاع میں اٹھ کھڑے ہونگے۔
خیر آگے چل کر حسن نثار صاحب کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اگر یہ حملہ عورتوں کی مدد کیلئے تھا تو اس سے پہلے جو دو حملے ہوئے تھے وہ کس لئے تھے؟ پھر کہتا ہے بات دراصل یہ ہے کہ کچھ قابل احترام لوگوں نے بنو امیہ کے مظالم سے تنگ آکر راجا ڈاہر کے پاس پناہ لی ہوئی تھی اور یہ حملے اسی وجہ سے کئے گئے ۔
ہم نے پہلے ہی دعویٰ کر چکے ہیں کہ اس صاحب نے تاریخی کتابوں کو ھاتھ تک نہیں لگایا کیونکہ اس سے پہلے دو حملے نہیں بلکہ تقریباً پانچ سے چھ حملے سندھ پر ہوچکے تھے بلکہ جی۔ایم سید نے تو کئی حملوں کا ذکر کیا ہے۔
سب سے پہلا حملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا تھا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی ہوا
اب ہم حسن نثار صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ اگر محمد بن قاسم کے حملے کا سبب راجا ڈاہر کا مظلوموں کو پناہ دینا تھا تو پھر اس سے قبل جو حملے کئے گئے وہ کس وجہ سے تھے؟؟؟
یقیناً وہ اسلامی جہاد کا ایک تسلسل تھا جو ھمیشہ اس دور میں جاری رہا۔جبکہ راجا ڈاہر بھی ایک فسادی شخص تھا جس کے اشارے پر مسلمانوں کے قافلے پر حملہ ہوا، اس قافلے کو لوٹا گیا اور کئی مرد و خواتین کو قید کرلیا گیا جنہیں جنگ کے بعد آزاد کرا لیا گیا تھا اور یہ تمام تر تذکرہ تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔
اب آتے ہیں مرزا محمدی علی کی طرف۔
ان کے متعلق تو ہم یہی کہیں گے کہ اگر چالاکی کے ساتھ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر کوئی ایوارڈ دیا جائے تو اسکے سب سے پہلے حقدار یہی صاحب ہونگے۔
مرزا صاحب کہتے ہیں
سندھ کے سیدوں سے تواتر سے یہ بات چلتی آرہی ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ اس لئے کیا تھا کہ راجا ڈاہر نے سیدوں کو پناہ دی تھی۔
ہم محوِ حیرت ہیں کہ اپنے آپ کو مجتھد کے مرتبے سے کم نہ سمجھنے والے مزرا صاحب کو تواتر کے لفظ کا معنیٰ بھی نہیں پتہ۔
تواتر کا مطلب یہ ہے کہ (کسی بات کو ہر دور میں اتنے لوگ بیان کریں کہ جنکے جھوٹ پر متفق ہونے کو عقل نا ممکن سمجھے)۔
جبکہ محمد بن قاسم کو سب سے پہلے لٹیرا اور راجا ڈاہر کو ہیرو اور شہید کہنے والے سندھی قوم پرستوں کے لیڈر جی ایم سید صاحب تھے جس نے “سندھ جا سورما” نامی اپنی کتاب میں محمد بن قاسم کو لٹیرا اور راجا ڈاہر کو ہیرو اور شہید کہا جسکے بعد سے اس فتنے نے جنم لیا۔ اس سے پہلے کئی صدیاں گذر گئیں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں کئی مؤرخ، محقق، مفکر، دانشور، شاعر اور بزرگ گذرے کسی ایک نے بھی محمد بن قاسم کو لٹیرا اور راجا ڈاہر کو ہیرو اور شھید نہیں کہا۔ پھرمحمد علی مرزا کا یہ تواتر کہاں سے آیا؟؟؟
میں چیلنج کرتا ہوں محمد علی مرزا سمیت تمام سندھی قوم پرستوں کو کہ جی ایم سید سے پہلے کسی نے بھی محمد بن قاسم کو لٹیرا کہا ہو تو ثابت کر کہ دکھائیں۔
پھر مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ راجا ڈاہر نے سادات کرام کو پناہ دی تھی کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ محمد بن قاسم نے سندھ کو سن 93 ھجری میں فتح کیا اور واقعۂ کربلا سن 61 ھجری میں پیش آیا یعنی واقعۂ کربلا کے تقریباً 32 سال بعد سندھ فتح ہوا۔جبکہ سادات کرام میں سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ واقعۂ کربلا میں زندہ بچے تھے باقی سب شھید ہوگئے تھے اور انہوں نے فتح سندھ کے دو سال بعد شہادت پائی۔
اور فتح سندھ کے وقت ان کے صاحبزادگان میں سے
امام محمد الباقر
جناب زید
جناب عبداللہ
جناب علی الاصغر
جناب عمر الاشرف
اور حضرت امام حسن کے صاحبزادگان میں سے
جناب عبداللہ
جناب حسن المثنی
جناب محمد الاصغر رضی اللہ عنہم موجود تھے۔
روئے زمین پر اس وقت یہ ہی سادات کرام تھے اور یہ تمام سادات کرام فتحِ سندھ کے وقت مدینہ منورہ میں ہی مقیم تھے۔
اب ہم محمد علی مرزا اور سندھ کے قوم پرستوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ واقعۂ کربلا کے بعد 32 سالوں میں مذکورہ بالا سادات کرام کے علاوہ کونسے سادات کرام پیدا ہوچکے تھے جنہوں نے سندھ فتح ہونے سے پہلے ہی راجہ داہر کے پاس پناہ لے رکھی تھی اور انکے مہمان بنے تھے؟؟ کوئی ایک تاریخی حوالہ پیش کردیں۔
ھاتو برھانکم ان کنتم صادقین.