جیمز ویب ٹیلی سکوپ اور لگرانج پوائنٹ ایل 2
*جیمز ویب ٹیلی سکوپ اور لگرانج پوائنٹ ایل 2*
اربوں کی ٹیلی سکوپ بنا لی گئی۔ جو وقت میں پیچھے جا کر تصویریں لے گی، لو جی تیرہ ارب سال قبل کی تصویر لے لی۔۔
جب سے جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی فلم چلنی شروع ہوئی ہے اسطرح کے جملے ہر فیس بک پوسٹ اور یوٹیوب ویڈیوز کا موضوع بنے ہوئے ہیں اور لوگ واہ واہ واہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ کہیں لبرل مولویوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں کہ جی سائنس نے ترقی کر لی مولوی نے کیا کیا؟ کہیں ملحد بغلیں بجا رہے ہیں کہ پتہ نہیں کونسا ٹھوس ثبوت مل گیا ہے جو خدا کے خلاف کوئی بڑی قوی دلیل بنے گا، کہیں بیچارے احساس کمتری کا شکار مسلمان اسے اللہ کی نشانیوں سے جوڑ رہے ہیں۔
بہرحال لگی ہے دنیا اپنی اپنی انٹرٹینمنٹ میں۔ مگر کچھ بہت ہی کم، نا ہونے کے برابر، میرے جیسے لوگ ہیں جو کافی عرصہ سے بار بار حقیقی سائنس کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروا کر اصل مدعا اور اعتراضات اٹھا رہے ہیں کہ بھائیو اور بہنوں ان باتوں کی طرف توجہ تو دو۔
اس جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے حوالے سے بھی کچھ ایسی اہم باتیں ہیں جنکی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے کچھ ایسے سوالات ہیں جن کو آپ کو ان سائنسی اتھارٹی والوں سے پوچھنا چاہیئں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ یہ ٹیلی سکوپ کو لنگرانج پوائنٹ 2 پر *پارک کروانا ہے*
جی ہاں یہ ٹیلی سکوپ کا ٹھکانہ ایل 2 ہے۔ زمین اور سورج کی گریویٹی کے درمیان ایک ایسی حادثاتی جگہہ جہاں اس ٹیلی سکوپ نے اپنا ٹھکانہ قائم کرنا ہے۔
پہلے تو گوگل کریں اور اس لگرانج پوائنٹ 2 (ایل 2) کو سٹڈی کریں کہ آخر سائنسدانوں کے بقول یہ کس چڑیا کا نام ہے؟
جان لیں کہ سورج خلاء کی چادر میں اپنی گریویٹی کی وجہ سے کھڈا ڈالتا ہے۔ اسی طرح زمین بھی اس چادر میں کھڈا ڈالتی ہے سورج کے کھڈا ڈالنے کی وجہ سے ہی زمین سورج کے گرد لڑھکتی چلی جاتی ہے اور اس جادوئی کھڈے
میں جا کر سورج سے ٹکرانے کی بجائے اسکے گرد لا محدود مدت تک چکر لگاتی رہتی ہے۔
ان دونوں کھڈوں کی کشمکش سے چھوٹے چھوٹے حادثاتی *ٹوئے* یعنی چھوٹی چھوٹی پاکٹس بن جاتی ہیں۔
بس یہ کہتے ہیں کہ بن جاتی ہیں تو بن جاتی ہیں کیونکہ کمپیوٹر سمولیشن نے بتایا ہے۔ باقی سائنٹفک ایویڈنس نا مانگنا سوائے گالیوں کے کچھ نہیں ملنے والا انکی جانب سے۔
اب انہی کمپیوٹر و کاغذی مساوات سے بنے ان چھوٹے ٹویوں کو لگرانج پوائنٹ کہا جاتا ہے۔
*اب سوچنا شروع کر دیں۔*
1۔ خلاء میں جہاں کوئی سمت کا تعین نہیں ہوتا۔ زمین پر بیٹھے ان سینسی دانوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ لو جی ہماری ٹیکی سکوپ ایگزیکٹلی لگرانج پوائنٹ 2 پر پہنچ گئی ہے۔؟
2۔ سینسی دانوں کے مطابق، وقت اضافی ہوتا ہے یعنی ریلیٹو ہوتا ہے۔ آپ نے یوٹیوب پر کئی ویڈیوز دیکھی ہوں گی کہ زمین پر اسٹراناٹ جب سفر کرنے خلاء میں جاتے ہیں تو انکا وقت زمین کے حساب سے الگ چلتا ہے اور واپس آتے تک فرق آچکا ہوتا ہے۔
تو زمین پر بیٹھے سینسی دانوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ اتنی دیر میں اگیزیکٹلی ہماری اربوں ڈالر کی ٹیلی سکوپ بالکل ایل 2 پر جا پہنچی ہے؟
3۔ زمین کے گرد سیٹلائٹ اور ٹیلی سکوپس زمین کی گرویٹی کی وجہ سے چکر لگاتی رہتی ہیں۔ زمین ایک ٹھوس جسم ہے جسکی اپنی گریویٹی مانی جاتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس لگرانج پوائنٹ پر جیمز ویب کی مہان ٹیلی سکوپ نے پارک ہی نہیں ہونا بلکہ وہاں اس پوائنٹ کے گرد چکر کاٹنے ہیں؟ جی ہاں، جہاں کوئی ٹھوس جسم ہی موجود نہیں تو یہ ٹیلی سکوپ کس اصول کے تحت وہاں کس جسم کی کشش کی وجہ سے وہاں چکر کاٹتی رہے گی؟
سوچا ہے کسی نے ان سوالات کے بارے میں؟ کوئی فیس بک پوسٹ یا کوئی یوٹیوبر نے وضاحت دی ہو؟
دی ہے تو لازمی شئیر کریں۔ گالیاں اور فضول بونگیاں مارنے کی بجائے ٹھوس سائننسی دلائل پیش کریں۔
محمد اعظم خان
(حسام رضا)