“واقعہ کربلا اور دورِ جدید “

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال اور رفقا کو بے دردی کے ساتھ تہِ تیغ کر دینا تاریخ کے دامن پر بدنما سیاہ ترین دھبہ اور تاریخِ امت مسلمہ کا المناک ترین باب ہے۔میدانِ کربلا میں یزید پلید اور اس کے لاﺅ لشکر نے جس سنگدلی اور شقاوت کا مظاہرہ کیا وہ ہر لحاظ سے قابلِ مذمت و نفرت ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے رفقاء کی عظیم قربانیوں کو رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا۔ دور جدید کے تناظر میں میدانِ کربلا میں پیش کی جانے والی “بے مثال جذبہ حسینی، روحانی پیغام اور لازوال شہادت کے حقیقی مقاصد”کو نظر انداز کرکے اس سے متعلق “رسم و رواج,بدعت و خرافات,ذاتی مفادات و مقاصد اور اختلافی مسائل و موضوعات” پر بحث و مباحثہ اور عمل کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے جیسا کہ سوشل میڈیا پر رضی اللہ عنہ ,علیہم السلام ,مروجہ تعزیہ داری ,غیر مروجہ تعزیہ داری وغیر ہ پر بحث و مباحثہ! اور دس روزہ شہدائے کربلا پروگرام,فاتحہ خوانی ,شربت پلانا,کھچڑا بنانا ,لاٹھی ڈنڈا کھیلنا اور تعزیہ داری وغیرہ کو امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے اہم ذرائع و اسباب مانے جا رہے ہیں !لیکن ان میں کچھ ملکی رسم و رواج کی پیداوار ہیں کیونکہ تاریخ کا کوئی زمانہ بھی رسوم ورواج کے اثرات سے خالی نہیں رہا، بلکہ ہر قبیلے ہرقوم اور ہر تہذیب میں اسے عمومی دستور العمل کی حیثیت حاصل رہی ہے یہاں یہ قاعدہ کلیہّ فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ جو امر شرعاً مطلوب و مقصود ہو اور اس میں مفاسد منضم ہو جاویں، تو اس امر کو ترک نہ کریں گے، خود ان مفاسد کا انسداد کریں گے، اور جو امر مقصود نہ ہو اس میں غلبۂ مفاسد سے خود اس امر کو ترک کر دیں گے(حجۃ اللہ البالغہ) اور ان میں کچھ ذرائع و وسائل اور اسباب سے شہادت شہداء کربلا کے حقیقی مقاصد و تعارف کو پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ان میں بعض ذاتی مفادات و اغراض سے منسلک ہوتے ہیں ! اور ایک مسلمان جب ذاتی مفادات پر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اِس کے خلوص و ایثار کی علامت ہوتی ہے اور یہ ایسی قربانی اور وسعت ظرفی پر مشتمل ہوتی ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور تائید نازل ہوتی ہے۔ اور جب وہ ذاتی مفادات کی خاطر اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کردیتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی کم ظرفی اور خبث باطن کی دلیل ہوتی ہے، بلکہ یہ ایسی خود غرضی اور خواہش پرستی ہوتی ہے کہ جس کی پاداش میں انسان تائید و توفیقِ الٰہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ پھر اسے اس کے نفس کے حوالے کردیا جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ نصرتِ الٰہی سے محروم مسلمان کا نفس اسے کس کے حوالے کرتا اور کیسے انجام تک پہنچاتا ہے؟ در اصل” واقعہ کربلا” جبر و استبداد کے خلاف ایک استعارہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ امام عالی مقام کی ظاہری شکست کے باوجود یزید اور اس کے ہمنواؤں کی موت ہوئی :

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔

حسینیت کا پرچم سربلند ہوا،آپ نے اسلام کے ابدی اور دائمی اصول حکمرانی اور حق پرستی کے لیے ملوکیت، موروثی مطلق العنانیت کو للکارا اوراسلام کی سربلندی کے لیے ’’سرداد نہ داد دست در دست یزید‘‘ کی غیر متزلزل اور روشن تاریخ رقم کی:

سر داد، نداد دست درِ دست یزید

حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

میدانِ کربلا میں استبدادیت اور سفاکیت کے خلاف امام عالی مقام کے عزم و استقلال، جرات و شجاعت اور ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ جانے کا ناقابل بدل وہ تاریخی حوالہ ہے جس پر انسانیت تاقیامت ناز کرے گی۔ کربلا کا غم انگیز سانحہ اس اعتبار سے بھی تاریخ ساز اور چشم کشا ہے کہ حق کے لیے امام عالی مقام نے جو پرچم بلند کیا اس سے اسلام کے سرمدی اصولوں کی آبیاری ہر عہد میں ہوتی رہے گی , باطل رسوا ہوتا رہے گا، یزیدی قوتوں کو اپنے ظلم سمیت سرنگوں ہونا پڑے گا۔یہ بھی واضح رہے کہ امام عالی مقام کی تعلیمات اور دین اسلام کے لیے دی جانے والی عظیم قربانیاں صرف بیان کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان پر عمل کرنے وقت کی اہم ضرورت ہے:

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل

ہم اور آپ دور جدید میں جس پرآشوب دور سے گزر رہے ہیں ایسے ناگفتہ بہ دور میں تحفظ و سرخروئی اور بلندی و ترقی کا ایک راستہ راہ کربلا بھی ہے کہ جس پر چل کر

امام عالی مقام نے اپنا کل سرمایہ لٹا کر سرمایہ اسلام کو بچا لیا آج بھی اسی جذبہ کی ضرورت ہے:

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

 

یہ بھی یاد رکھیں کہ دور جدید میں واقعہ کربلا کا ذکر پوری دنیا میں مظلوموں کا حوصلہ اور فتح کی نوید بن کر جگمگا رہا ہے کیونکہ ظالم و جابر کے سامنے ڈٹ جانے کا نام ہی حسینیت ہے یہی وجہ ہے امام حسین کی شہادت ظلم کے خلاف جدوجہد کا بہترین استعارہ ہے۔ جب بھی کسی ظالم و جابر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے توواقعۂ کربلا کو پُرقوت استعارہ کے طورپر استعمال کیا جاتارہاہے:

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

بدلتےرہتے ہیں انداز کوفی و شامی۔

کرم چندر گاندھی نے بھی جدوجہد آزادی میں واقعہ کربلا سے روحانی طاقت حاصل کی اور کہا ’’میں نے کربلا کی المناک داستان اس وقت پڑھی جب میں نوجوان تھا اس واقعہ نے مجھے دم بخود اور مسحور کردیا۔ میں اہل ہند کے سامنے کوئی نئی بات پیش نہیں کرنا چاہتا ،میں نے کربلا کے سورما کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا اور اس سے مجھے یقین ہوگیاہے کہ اگر ہم (سامراج اور ظالموں کے چنگل سے ) نجات چاہتے ہیں تو ہمیں حسینی اصولوں پر عمل کرنا ہوگا‘‘۔ اگر ہم دور جدید میں طاغوتی طاقتوں کے ظلم و ستم کے عذاب سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں حسینی اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ یعنی کسی ظالم اور جابر کے ہاتھوں پر بیعت نہ کی جائے اور ظلم کی طاقت کے سامنے سر نہ جھکایا جائے ! لیکن آج کچھ لوگ ایسے ہیں جو ذاتی مفادات کے لیے حسینت کا دم بھرنےکے باجود “یزید وقت” کی بیعت کرنے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں یعنی ڈاکٹر اقبال علیہ الرحمہ کے ان اشعار کے مصداق ہیں:

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی

یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟

سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

ان میں کچھ شعلہ بیان خطیب بھی ہیں ,کچھ سادات سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں اورکچھ غم و ماتم منانے والے ہیں اور یہ سب عارضی اور وقتی حسینی پرچم کے علم بردار ہوتے ہیں!

عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ

کٹا حسین کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ!

ناحق کیلئے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ!

حالانکہ واقعہ ٔ کربلا سے یہ سبق ملتا ہے کہ اقلیتی طبقہ کے لوگ حکومت وقت کی طاقت اور آمرانہ نظام کے خلاف تنِ تنہا , افراد کی کمی کے باوجود طاقت اور حکومت سے ٹکر لے سکتے ہیں۔واقعہ کربلا آج بھی اسی طرح تروتازہ ہے جس طرح چودہ سو سال پہلے تھا۔ اس کی تازگی اور آفاقیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ بلکہ ہر بار ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے یہ نئی تازگی اور پیغام کے ساتھ دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس نے دنیا کے ہر طبقے ،مذہب ،مسلک اور قوم کو متاثر کیاہے۔یہ ظلم اور بربریت کے خلاف دنیا کے مظلوموں کو بلا تفریق حوصلہ عطا کرتی ہے۔ ناطاقتوں کو طاقت ملتی ہے اور شکست خوردہ قومیں بھی اس کی روحانی طاقت سے فیض یاب ہوکر باطل طاقتوں کے خلاف محاذ آرا ہوجاتی ہیں۔واقعۂ کربلا تنہا ایسا واقعہ ہے جو انسان کو ظالموں اور جابروں کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کا حوصلہ عطا کرتاہے۔ دنیا میں ہزارہا جنگیں ہوئی ہیں مگر کسی ایسی جنگ کو بطور مثال پیش نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں مظلوم اقلیت نےظالم اکثریت کو قتل ہونے کے باوجود شکست دی ہو!

ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ سرو تن میں جدائی،گھروں کی بربادی ،مال و اسباب کے لٹ جانے اور طاقت کے ختم ہونے کے بعد بھی اس کا پرچم ہمیشہ کے لیے سربلند رہے اور تاریخ انسانیت قاتلوں کی قصیدہ خوانی کے بجائے مقتول کی عظمت اور شہادت کے قصیدے پڑھتی نظر آئے ! اور یہ حقیقت اب دنیا بھر کے اہل اقتدار کے قلب و ذہن پر بھی منقش ہونی چاہیے کہ کربلا کا سانحہ اور حضرت امام حسین کی طاغوت کے خلاف چراغ مصطفوی کی ستیزہ کاری در اصل بو لہبی کو زمین بوس کرنے کی جنگ سے عبارت ہے:

اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری

اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری

اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری

اک فقر ہے شبیری، اس فقر میں ہے مِیری

میراثِ مسلمانی، سرماےۂ شبیری!

دور جدید میں واقعہ کربلا کی اہمیت واثرات واضح ہونے کے باوجود اس کے فکری پہلوؤں کو اپنانے اور حسینی خصوصیات کو اس کے صحیح خدوخال میں سامنے رکھنے میں ہم ناکام ثابت ہو رہے ہیں اور اِس دور میں واقعہ کربلا کے ولولہ انگیز کارناموں کے چاروں طرف جذباتی تقدس اور خرقِ عادت روایات کا ایسا ہالہ بنا دیا گیا ہے جس میں شہادت حسین کا فکری پہلو یا بالفاظ دیگر قربانی کا مقصد نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے! واقعہ کربلا کے کچھ پہلوؤں کو بیان کیا جاتا ہے اور کچھ کو چھوڑ دیا جاتا ہے یہ بھی ایک المیہ ہے کیونکہ ایک طرف جہاں واقعہ کربلا سے ہم سب کو صبرو استقلال اور ایثار وقربانی کا سبق ملتا ہے وہی دوسری طرف ہمارے اندر فکر وعمل اور حق وانصاف کی پاسداری کی تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے:

 

مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو

لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علی ہو

واقعہ کربلا کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ظلم کے آگے سرنہ جھکایا جائے اور انسان اپنی خوداری اور شرف کو ظالم کے قدموں میں روندنے کے لئے نہ ڈال دے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ غیر ضروری طور پر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا جائے اور خونریزی سے تحفظ کی کوئی باعزت راہ ہو تو اسے تلاش نہ کیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ظالم کسی طرح نہ مانے اور اس کی سرکشی حد سے آگے بڑھ جائے تو پھر اسلام ظلم کے خلاف اٹھنے اور مقابلہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ ایسا نہ کیا جائے تو حق مغلوب اور باطل غالب آجائے گا پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا اسوہ اسی جانب ہماری رہبری کرتا ہے جسے نواسہ رسول نے اپنے لئے مشعلِ راہ بنایا:

یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے iiلو

در پردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو

’’واقعہ کربلا‘‘ کو حق وباطل کے درمیان معرکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو اسلام کی ’’شورائی نظام ‘‘کے تحفظ کے لئے ملوکیت یا ڈکٹیٹر شپ کے خلاف لڑی گئی اس نظام مصطفی ﷺ میں مسلمانوں کے خلیفہ یا امیر کا انتخاب عام لوگوں کے مشورے سے کیا جاتا ہے جس کا جانشینی یا وراثت سے کوئی تعلق نہیں، نہ اس بات کی گنجائش ہے کہ کوئی بزعم خود یا طاقت کے زور پر خلیفہ اور امیر بن جائے اس نظام نے آج سے چودہ سو برس پہلے سماجی اونچ نیچ اور ادنیٰ واعلیٰ کے امتیاز کو مٹادیا تھا، جرم وسزا میں کسی کے ساتھ تفریق نہیں تھی، غلطی خواہ امیر کرے یا کسی غریب سے سرزد ہو، شریعت کی نظر میں دونوں کی حیثیت مساوی ہے، اس اسلامی نظام کے طفیل میں نسلی امتیازات اور قبائلی غرور کا خاتمہ ہوا ،ایک دوسرے کے دشمن ہمدرد بن گئے، ان کی تمام تر پسماندگی ترقی میں بدل گئی، اونٹوں کی ریوڑ لے کر ریگستانوں کی خاک چھاننے والے مسلمانوں، ملکوں اور قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگے، اس نظام کی بنیاد سب سے پہلے اسلام نے رکھی جسے یزید نے ڈھانے کی کوشش کی,حضرت امام حسین کی میدان کربلا میں صف آرائی در اصل اسلام کے مزاج میں تغیروتبدل کے خلاف ایک ایسی مزاحمت تھی جو رہتی دنیا تک حق وباطل کے امتیاز کو واضح کرتی رہے گی:

حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو

یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو!

آزادی ضمیر، آزادی فکر اور اختلافِ رائے کا حق دور جدید کا ایک ایسا امتیاز ہے جس کو چھیننے والی حکومت کبھی جمہوری قرار نہیں پاسکتی۔ حضرت امام حسین نے بھی حکومت اور اقتدار کے مطالبہ بیعت کو ٹھکرا کر رہتی دنیا تک اپنے عمل وکردار سے یہ سبق دے دیا کہ جبر کی بنیاد پر کسی سے کوئی مطالبہ وفاداری باطل ہے اور اس جبر واستبداد کا مقابلہ اس عزیمت کے ساتھ ہونا چاہئے کہ ’سر کٹ جائے مگر جھکے نہیں۔

تم حیدری ہو‘ سینہ اژدر کو پھاڑ iiدو

اس خیبر جدید کا در بھی اکھاڑ iiدو

 

اور شخصی نظام ہو یا آمریت اس میں معاشی عدم توازن اور طبقاتی اونچ نیچ ضرور پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ برسراقتدار گروہ دولت ووسائل پر حاوی ہوجاتا ہے تو امام عالی مقام نے جب مطالبہ بیعت کو ٹھکرایا تو منجملہ دیگر باتوں کے یہ بھی فرمایا جس کا مفہوم تھا کہ ’’حکومت مال مسکین پر قابض ومتصرف ہے جو جائز نہیں‘‘ اس بلیغ فقرہ سے اسلام میں دولت کے تصور تقسیم پر روشنی پڑتی ہے جو جمع ہونا نہیں تقسیم ہونا ہے، کسی کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ دوسروں کے مال پر قابض ومتصرف ہوجائے, عوام کی دولت عوام میں ہی تقسیم ہونا چاہئے یہی نعرہ آج کی نام نہاد فلاحی حکومتیں بھی بلند کررہی ہیں لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں:

دنیا تری نظیرشہادت لیے ہوئے

اب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لیے ہوئے

دور جدید میں ہمیں حضرت امام عالی مقام اور آپ کے جان نثاروں کی عظیم قربانیوں کی یاد اس تاریخی شعور سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کا چراغ حسینیت کے لہو سے روشن ہوا، اسی روشنی کے تسلسل اور وجود سے باطل قوتوں پر لرزا طاری ہونا چاہیے تاکہ اسلام کے خلاف سازشیں دم توڑتی رہیں۔حضرت امام حسین کے لشکر میں عرب وعجم کی تخصیص اور قبائلی عصبیت کا عمل دخل نہ تھا لشکر کے میمنہ یا میسرہ کے سردار حضرت زہیر ابن قین تھے جو اس دور کی سیاسی اصطلاح میں ’’عثمانی‘‘ تھے یعنی حضرت حسین نے ہر طبقہ اور خیال کے افراد کو ایک مرکز پر جمع کرکے یہ ثابت کردیا کہ جب اعلیٰ اصول اور بلند اقدار اور بنیادی نظریات کا سوال آجائے تو جزوی اختلافات کو دور کردینا چاہئے اور حق وسچائی، دین وملت کی حفاظت اس میں سب سے زیادہ اہم ہے:

انسان کو بیدار تو ہو لینے iiدو

ہرقوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

“واقعہ کربلا‘‘ اقوام عالم کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ جنگ وتشدد میں اپنی طرف سے پہل نہ کرو کیونکہ حضرت حسین نے آخر وقت تک جنگ کو ٹالنے کی کوشش کی اور لشکر یزید کو پندونصیحت فرماتے رہے، اسی طرح حسینی کارنامہ دنیا کے کچلے ہوئے عوام کا خون کھولا دینے اور مردہ ذہنیت میں حرارت و دلیری کی روح پھونک دینے کے لئے کافی ہے جیسا کہ میدان کربلا کے خطاب میں آپ نے فرمایا۔

’’دیکھو لوگوں ! زندگی کی ذلت اور قتل ہوجانا دونوں ہی ناگوار عمل ہیں مگر ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کے بغیر چارہ نہ ہو تو میں کہتا ہوں کہ بہتر یہی ہے کہ موت کی طرف قدم بڑھا دیا جائے:

 

محراب کی ہوس ہے نہ منبر کی آرزو

ہم کو ہے طبل وپرچم ولشکر کی آرزو

 

اس آرزو سے میرے لہو میں ہے جزرومد

دشت بلا میں تھی جو بہتر کی آرزو!

 

آج کی دنیا جو نظر سے محروم اور نظریات میں گرفتار ہے جب خالص مادی بنیادوں پر شہادت حسین کا تجزیہ کرتی ہے تو اسے یہ ضرور احساس ہوتا ہے کہ کتابوں کے صفحات پر کچھ لکھ دینا الگ بات ہے اور اپنے عمل وکردار سے کتابِ دل پر خون کی سرخی سے عنوانِ حیات رقم کرنا قطعی دوسری بات ہے یہی کارنامہ حضرت امام حسین نے انجام دیا ہے۔

 

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

 

ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی

یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری۔

✍محمد عباس الازہری