جنتی دروازہ بہشتی دروازہ: گزارشات
اس ویڈیو پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، فی الحال درجِ ذیل پر گزارا کریں۔
۱۔ پہلی بات یہ کہ اس دروازے کو مستقل بند کیا جائے، یا یہ دیوار توڑ کر اسے وسعت دی جائے۔ یہ دروازہ قطعا جنت کی ضمانت نہیں بلکہ ایک myth ہے۔ پورا سال سوٹے لگانے والے، بھنگ پینے والے، نماز روزہ اور فرائض سے کوسوں دور سال کے بعد یہاں سے گزر کر خود کو جنتی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے شارٹ کٹس لوگوں کو خدا تعالٰی کے احکام اور رسول اللہ ﷺ کی سنت سے دور کرتے ہیں۔ میں اسی لیے کئی برسوں سے مسلسل کہتا آیا ہوں کہ موجودہ پیری و خانقاہی نظام افراد کی غلامی ہے، ان پیروں اور خانقانوں سے توحید و رسالت کے فیوض حاصل نہیں ہو سکتے بلکہ یہ شخصی غلامی اور شرکیہ امور کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔
۲۔ اس دروازے کو جنتی دروازہ سمجھنا بھی محلِ نظر ہے۔ کائنات میں ایسا اعزاز و فضیلت قطعی طور پر فقط مصطفٰی جان رحمت ﷺ کے در اقدس خاص ریاض الجنۃ ہی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ تو بیت اللہ شریف کو بھی جنت نہیں کہا گیا، مسجد اقصٰی، قبا، قبلتین اور نبی کریم ﷺ کے دور سے موجود مقامات مقدسہ کو جنتی مقام قرار نہیں دیا گیا تو اس دروازے کو بہشتی دروازہ کہنا وہ بھی قطعیت کے ساتھ کیسے درست ہو سکتا ہے؟
۳۔ ویڈیو دیکھیے، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، پولیس اہل کار زائرین کو چھتر لتر سوٹے ڈنڈے مار کر جنت میں داخل کرتے ہیں اور دروازے کی دوسرے جانب موجود اہلکار ان جنتیوں کو گریبان، لاتوں، باہوں ، منڈیوں اور سریوں سے پکڑ پکڑ کر دھکے مار کر جنت سے نکال کر واپس ان کی اصل دوزخ میں لے آتے ہیں۔ یہ حقوقِ انسانی کی پامالی ہے، تذلیل ہے اور تحقیر ہے۔ اگر یہ مزار ہے تو بھی یہ عمل درست نہیں اور اگر مسجد ہے تو داخلِ مسجد ایسا عمل حرام ہے۔
علمائے اہل سنت کو اس پر متفقہ فتوٰی و حکم جاری کرتے ہوئے اس دروازے کو بند کروانا چاہیے اور خصوصا پولیس کے ہاتھوں ذلت آمیر طریقے سے جنت میں دخول و خروج بند کروانا چاہیے۔
یہ بھی یاد رہے کہ جنت اور جہنم کا فیصلہ آپ کے اعمال پر مبنی ہے۔ ایسے دروازے آپ کے کبائر کی بخشش کا سبب نہیں بن سکتے۔
افتخار الحسن رضوی
۱۳ محرم الحرام ۱۴۴۴ بمطابق ۱۱ اگست ۲۰۲۲
آج تک کوئی ایسا امریکی نہیں دیکھا جو چاند پر گڑے اپنے ہی جھنڈے کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہو اور اسے جڑ سے اکھاڑنا چاہتا ہو۔