کیا پاکستان واقعی اسلامی ملک ہے؟
کیا پاکستان واقعی اسلامی ملک ہے؟
افتخار الحسن رضوی
پاکستان کے وجود سے لے کر اب تک کے پچہتر سال گواہ اور دلیل ہیں کہ یہ ملک اسلامی نہیں ہے۔ اس ملک کے دشمنوں نے اور اسلام مخالف قوتوں نے پہلے دن سے ہی اس ملک کو دو نظریاتی طبقات میں تقسیم کر دیا تھا اور یہ تقسیم وقت کے ساتھ ساتھ بہت پھیل گئی ہے۔ مثلاً قیامِ پاکستان کے بعد قائم ہونے والی پہلی حکومت میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور قادیانیوں کے نمائندوں کو قائدِ اعظم کی موجودگی میں حساس و اہم عہدے سونپے گئے، لیکن اس کابینہ میں کوئی مولوی، عالم اور مفتی نظر نہیں آتا۔
ملٹری کے اولین سربراہان غیر مسلم تھے۔ آج تک فوج، بحریہ، فضائیہ، پولیس اور دیگر دفاعی اداروں کے کلیدی عہدوں پر ایک بھی عالمِ دین یا مدرسہ فاضل تعینات نہیں ہونے دیا گیا۔ عصری علوم اور دینی علوم کے نصاب و مراکز ہی الگ ہیں جب کہ تمام بلاد عرب کے ساتھ ساتھ ملائیشیا، ترکی و وسطی ایشیاء کے ممالک میں درسِ نظامی الگ پڑھائے جانے کا دھوکہ نہیں دیا جاتا۔ بلکہ جامعات یعنی یونیورسٹیز میں میٹرک کے بعد اسی مقام پر طالب علم علومِ اسلامیہ کے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر وہیں سے ماسٹرز تک جاری رکھتے ہیں۔ انہیں اسی جامعہ میں وہ تمام سہولیات حاصل ہوتی ہیں جو ایم بی بی ایس اور سول انجنئیرنگ والوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ ان کو الگ ٹوپی اور نرالی شلوار پہننے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ مثلاء الازہر میں ایک ہی جامعہ کے تحت علومِ اسلامیہ بھی پڑھائے جاتے ہیں اور وہیں ہندسہ و جغرافیہ بھی۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (مدینہ یونیورسٹی) میں قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر سائنس اور دیگر انجنئرنگ کے کلیات بھی قائم ہیں۔ حکومت پاکستان ایک سازش کے تحت ہر دور میں مدارس کو عصری علوم سے الگ رکھ کر ملک کو تقسیم ہی رکھنا چاہتی ہے تاکہ مولوی ایک الگ مخلوق ثابت کی جا سکے۔ اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ مولوی یہ کا م ہونے نہیں دیتے تو جس طرح آپ اپنے مقاصد و اہداف بوٹوں کی ٹاپ اور ڈ نڈوں کی برسات میں پورے کر لیتے ہیں ویسے ہی ایسی تمام رکاوٹوں والے مولویوں کو رگڑ دیں تاکہ میدان صاف ہو جائے۔
حال ہی میں تحریک انصاف کی حکومت کا منصوبہ مکمل ہوا جس میں قومی ترانے کی نئی ریکارڈنگ کی گئی۔ اس نئی ریکارڈنگ میں سب ناچنے ٹاپنے والے، دریا و نہر، پہاڑ و سمندر، پولیس اور افواج سمیت سب کچھ دکھایا گیا۔ کوئی دینی مرکز و مدرسہ یا علماء کا ہلکا سا عکس بھی نہیں دکھایا گیا۔
ہر سال حکومت پاکستان کی طرف سے تمغے اور ایوارڈ برائے کاکردگی دیے جاتے ہیں۔ آج تک کسی حاکم نے کسی مفسر، محدث اور فقیہ کو تحقیقات کے بدلے نہیں نوازا، بلکہ فقط رسمِ دنیا کے طور پر کسی خطیب و نعت خوان کو نواز دیتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری پرستی میں ایک بھی قرآن و حدیث اور فقہی تحقیقات کا ایسا مرکز نہیں جس کی تحقیقات کو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ، جامعہ الازہر، دار الحدیث المغرب، جامعہ اسلامیہ کوالالمپور اور تباہ حال یمن کے تریم میں موجود مراکز سے تقابل کر سکیں۔ جب کہ اس ملک کو مدینہ ثانی اور اسلا م کا قلعہ کہا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان ہر سال کھربوں کا بجٹ لاتی ہے۔ سرکاری جامعات، کلیات اور مدارس کے لیے اربوں روپے دیے جاتے ہیں۔ کسی دینی مدرسہ کو حکومت نے آج تک اپنے تعلیمی بجٹ میں شامل کیا؟
سود حرام ہے، نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ اس ملک میں اسی فیصد اکانومی اور بینکینگ سود پر ہے۔ شرعی عدالت نے اسے حرام قرار دیا۔ سود کے حرام ہونے پر عدالت سے رجوع کرنا ہی حرام ہے کہ طے شدہ مسئلہ تھا۔ اب حکومت شرعی عدالت کے اس حکم کو معطل کروانا چاہتی ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جو سود کھانے اور کھلانے پر بضد ہے؟
پاکستان کے ہر شہر میں درجنوں مزارات ہیں جن سے کھربوں روپے ہر سال جمع کیے جاتے ہیں۔ یہ مزارات مسلسل بھنگی چرسی اور فحاشی پھیلانے والوں کے مراکز بنتے جا رہے ہیں۔ ہر حکومت میں وزارت مذہبی امور اور اوقاف کسی پیر کو دی جاتی ہے۔ حکومت چن کر نا پیر عبدالفلوس علیہ ما علیہ کو وزیر لگاتی ہے تاکہ وہ ان مراکز کو جہالت و بدعات ہی کا منبع بنائے رکھے اور یہاں سے تعلیم و فن نہ پھیلے۔
پوری دنیا میں تمام اسلامی ممالک میں مناظرے، مجادلے اور فقہی مسائل کی آڑ میں اختلافات کو ہوا دینے پر پابندی ہے۔ کئی ممالک میں ایسے علماء کو ہمیشہ کے لیے قید کر دیا جاتا ہے تا کہ فتنہ پھیلائیں۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جہاں محراب و منبر سے مولوی اور خطیب ایک دوسرے کی ماں بہن بیٹی اور حسب و نسب کے ایکسرے لٹکائے تقریر کرتے ہیں اور حکومت آج تک اس پر قابو نہیں پا سکی۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں حکومت کبھی شیعہ سے اور کبھی سنی سے بلیک میل ہوتی ہے۔ پاکستان منفرد ملک ہے جہاں نہ نماز کا وقت ایک ہے اور نہ ہی عید ایک ساتھ ہوتی ہے۔
یہ کیسا اسلامی ملک ہے جہاں دینی مسائل اور فقہی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ٹی وی چینلز پر ان خواتین اینکرز کو بٹھایا جاتا ہے جو حیض و نفاس کے احکام سے بھی واقف نہیں۔ وہ مغرب زدہ موم بتیاں دین ڈسکس کرتی ہیں جنہیں مبادیات کی بھی خبر نہیں۔ مذہبی عنوانات پر غیر مذہبی لوگ رائے زنی کرتے ہیں۔
یہ کیسی اسلامی ریاست ہے جس کی حکومت اپنے عوام کی اتنی تربیت بھی نہیں کر سکی کہ وہ خود جنازہ پڑھا لیں، بچے کے کان میں اذان سنا دیں، نماز کی امامت کر لیں اور نکاح میں ایجاب و قبول ہی کروا لیں؟
۱۹۴۷ سے لے کر آج ۲۰۲۲ تک کوئی ایک حاکم ایسا بتائیں جو قرآن درست پڑھ سکتا ہو، فرض علوم جانتا ہو، توحید، رسالت اور ضروریات دین سے مکمل واقف ہو؟ کوئی ایک حاکم؟
ان سوالوں کے جواب تلاش کیجیے اور پھر خود کو اس دھوکے سے نکالنے کی کوشش کریں کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے۔ اس کے بانی نے اسے ایک سیکولر ملک قرار دیا تھا، لہٰذا یہ ایک سیکولر ملک ہے، تسلیم کر لیں، منبر پر آپ کی چیخیں ، ریلی میں آپ کی چنگاڑ حقائق تبدیل م نہیں کر سکتی۔
دعوت: اگر کوئی میرے دعوے کو رد کرنا چاہتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ میرا مؤقف درست نہیں تو ایک فیس بک لائیو سیشن رکھتے ہیں، براہ راست مباحثہ کر لیں۔ کوئی ہے تو سامنے آئے۔
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۱۶ اگست ۲۰۲۲