آبادی کی کثرت اور رزق کی تقسیم

✍️پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی، گجرات (انڈیا)

 

لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ- یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ- یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ(49) اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ- اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ (50) [سورہ شوریٰ]

ترجمہ : اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت. پیدا کرتا ہے جو چاہے. جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے۔ یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے. بے شک وہ علم و قدرت والا ہے۔

 

آیت مبارکہ میں انسانی آبادی کا فطری نظام بیان کیا گیا ہے. بنیادی پیغام یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت والا رب؛ جو چاہے جیسے چاہے تخلیق کرنے پر قادر ہے. اولاََ تو اس کریم رب نے مخلوق کا رزق اپنے ذمہ کرم پر لیا ہے اور کائنات کو انسانوں کے لیے مسخر فرما کر اس رزق کا حصول بھی ان کے لیے آسان کر دیا ہے. اس کے باوجود کرم بالائے کرم یہ کہ اس کی جانب سے انسانی معاشرے میں توالد و تناسل کے سلسلے کو ایک انتہائی متوازن طریقے پر کنٹرول کیا گیا ہے، پھر اس میں جنس کے لحاظ سے مذکر و مؤنث کا بھی بیلنس رکھا ہے تاکہ ہر حق دار اپنا حق حاصل کر سکے اور دنیا ایک متناسب آبادی کے ساتھ رواں دواں رہے.

 

مذکورہ متوازن سسٹم کے بیان میں لطیف پہلو یہ ہے کہ اس کی شروعات بیٹی کے ذکر سے ہوتی ہے. پھر اسی سلسلہ کی دوسری اور زیادہ اہم کڑی کے طور پر بیٹوں کی نعمت کا اعلان ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہے بیٹے کی دولت سے نوازتا ہے. اس کے بعد مزید وضاحت کے ساتھ ایک ہی گھر میں لڑکا اور لڑکی دونوں جنس کی اولاد کو جمع فرما دینے کی بات ہوتی ہے اور اخیر میں ان جوڑوں کی کیفیت بھی زیر بیان آئی ہے جسے نعمت کی دونوں قسموں کا حصول تو درکنار؛ دو میں سے ایک بھی میسر نہیں ہے، یعنی وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود توالد و تناسل کے سلسلے میں اپنے نام کی کڑی شامل کرنے سے قاصر رہے ہیں یا رکھے گئے ہیں. آیت کے آخری جزء میں صفات کے الفاظ “علیمٌ قدیرٌ” کے تحت عظیم حقیقت کا اظہار پوشیدہ ہے. بے شک وہ علم والا ہے کہ کس کے حق میں توالد و تناسل کی کون سی شکل بہتر ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کائنات؛ انسانوں کی کتنی آبادی کی متحمل ہے، بے شک وہ قدرت والا ہے کہ فطرت کے اصول اپنے ارادے سے جیسے چاہے مقرر فرماتا ہے.

 

صرف عام انسانوں ہی کی بات نہیں بلکہ خود اللہ کی طرف سے مخلوق کو پیغام سنانے والے انبیائے کرام علیہم السلام کی مبارک زندگیاں بھی اپنی تمام تر عظمتوں کے ساتھ اسی فطری نظامِ آبادی سے وابستہ رہی ہیں. حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہما السلام کے یہاں صرف بیٹیاں تھیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام صرف بیٹوں کی نعمت سے سرفراز ہوئے. ہمارے آقا حضرت محمدﷺ کو متعدد بیٹے بیٹیوں کی شکل میں دونوں صنفوں سے نوازا گیا، جب کہ حضرت عیسٰی اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کو نظام آبادی کی آخری قسم کی سرداری کا شرف حاصل ہے یعنی دو صنفوں میں سے کسی بھی قسم کی اولاد کا نہ ہونا.

 

ہمارے دور کا آدمی اِس آیت سے ہدایت حاصل کرنے کا سب سے زیادہ محتاج ہے. آیت مبارکہ کا پورا مفہوم در اصل انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ دنیا کی آبادی میں ایسا کوئی غیر متناسب اضافہ نہیں ہو سکتا جو مشیت الٰہیہ کے فطری قوانین سے ہٹ کر ہو اور اپنے آپ میں کائناتی نظم کے لیے کوئی خطرہ ہو. آبادی حد سے بڑھنے یا توازن سے تجاوز کرنے کا خطرہ اسی وقت لاحق ہو سکتا ہے جب توالد و تناسل کے فطری نظام سے بغاوت کی جائے یا اس میں اپنے ہاتھوں سے فساد برپا کیا جائے. بار بار دنیا کی آبادی کے حوالے سے خطرے کا اظہار کرنے والے مفکرین اور “آبادی بَم” کی اصطلاح کے سہارے ڈر کا ماحول بنانے والے مبصرین؛ کیا اِس بات پر غور نہیں کرتے کہ آبادی کا مسئلہ در اصل کھڑا ہی اُس فطری نظام سے بغاوت کے نتیجے میں ہوتا ہے؛ جو خالق کائنات کا مقرر کردہ ہے.!!؟

 

دنیا کی آبادی حد سے بڑھنے کا رونا؛ اولاََ تو ایک ڈھونگ ہے، جو دنیا کی آدھی دولت پر کنڈلی مار کر بیٹھے ہوئے انسان نما 15-20 سانپوں کے ذریعہ کھڑا کیا جاتا ہے. پھر اگر اسے ایک سنجیدہ مسئلہ مان بھی لیا جائے تو اس کی بنیادی وجہ؛ شادی میں یقین رکھنے والا معاشرہ نہیں بلکہ فطری نظام آبادی سے بغاوت کرنے والی مادر پدر آزاد ذہنیت ہے. جب سے انسانی معاشرے کو یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ جن میاں بیوی کے یہاں فطری طور پر اولاد ہوتی ہے وہ دو ہی بچوں پر اکتفا کریں اور جو جوڑے بانجھ ہیں وہ ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ بچہ پیدا کریں؛ تب سے کائنات کے نظام آبادی میں ناقابل تلافی نقصان ہونا شروع ہو چکا ہے. بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 2008 تک ٹیسٹ ٹیوب سے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 5 ملین سے تجاوز کر چکی ہے. دیگر عالمی ذرائع کے مطابق 1978 میں پہلا بچہ ٹیسٹ ٹیوب سے پیدا ہوا اور پچاس سال کے اندر اندر یہ تعداد 8 ملین (80 لاکھ) کو پہنچ چکی ہے. صرف بھارت میں ہر سال ٹیسٹ ٹیوب کی مدد سے ایوریج 2 ہزار بچے پیدا کیے جاتے ہیں.

 

عجیب تماشا ہے کہ جو لوگ آبادی میں بے تحاشا اضافے کے شاکی ہیں وہی لوگ ٹیسٹ ٹیوب پیدائش کے داعی بھی ہیں. اگر بچے پیدا ہونا ہی آبادی میں خطرناک حد تک اضافے کا سبب ہے تو ٹیسٹ ٹیوب میں آخر کیا کمال ہے کہ اس سے آبادی بڑھائی جائے تو حرج نہیں ہوتا.؟ اصل بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ طرز حکومت نے بہت حد تک طبّ کو بھی اپنے دائرۂ مکر میں شامل کر لیا ہے. آبادی کا مسئلہ در اصل وہ ہوّا ہے جس کے ذریعہ دو طرفہ پیسا بٹورا جا سکتا ہے. جن کے فطری طور پر بچے ہوتے ہیں ان کو اگر اس بات پر آمادہ کر لیا جائے کہ دنیا کو بچانے کے لیے تمہیں کم بچے پیدا کرنے ہیں تو بہت سارے مانع حمل و اسقاط حمل کے پروڈکٹ مارکیٹ میں بآسانی فروخت کیے جا سکتے ہیں. ایسے ہی ناامیدی میں مبتلا والدین ایک بچے کے لیے منہ مانگی قیمت دینے تیار ہوں گے. یوں دو طرفہ کمائی کے لیے جو منظم کھیل کھیلا جاتا ہے؛ سرمایہ داروں کے آلہ کار مفکرین اس کا عنوان رکھتے ہیں “آبادی کی کثرت، کائنات کے لیے خطرہ”

 

آبادی اور رزق کا مسئلہ نظام قدرت کے تحت بہت نظم کے ساتھ چلتا رہتا ہے جب تک لوگ تقسیم کرنے والے رب کی تقسیم پر راضی بہ رضا رہیں، مگر جب چند آدمیوں کا ذخیرہ اندوزی کا جنون جوش مارتا ہے اور وہ معاشی و طبی دہشت گردی کا راستہ اپناتے ہیں تو سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے. ایسے بے حس لوگوں کے ذریعہ جب فطرت سے چھیڑ چھاڑ کی جائے گی اور باقی سارے لوگ اس پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے تو اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا تو سب کو بھگتنا پڑے گا. یہ الگ بات ہے کہ غضب پر رحمت غالب ہونے کے سبب؛ کم ترین مصیبتوں سے انسانی سماج کو عبرت دلائی جاتی ہے اور قیامت خیز عذاب کو قیامت کے لیے اٹھا رکھا ہے. سچ تو یہ ہے کہ انسانوں کے کرتوتوں کی تباہی پر اگر رحمت الہی کا پردہ نہ پڑا ہو تو کائنات اپنی افادیت گم کر دے گی. بحر و بر کا فساد تو محض کچھ کرتوتوں کا نتیجہ ہے تاکہ بھٹکا ہوا آدمی عبرت کی آنکھ کھولے اور اللہ کی مقرر کردہ فطرت کے راستے کی طرف پلٹ کر معرفت الٰہی کی منزل کی جانب بڑھتا جائے.

19.01.1444

17.07.2022