قرآن میں لکھا ہے زمین گول ہے
کہتے ہیں
قرآن میں لکھا ہے زمین گول ہے
پوچھا
اتنے تیقن سے فرما رہے ہیں تو کوئی آیت ہی بتا دیں جو اس بات کی تصریح کرتی ہو
کہا
نہیں نہیں قرآن کوئی سائنس کی کتاب تھوڑا ہی ہے جو ہر چیز تفصیل سے بیان کرے اس میں “اجمالاََ” ذکر ہے
مکرر پوچھا
حضور آیت ؟
فرمایا
والارض دحاھا
اپنی کم علمی کے سبب میں سمجھ نہ سکا وضاحت کی گزارش کی تو فرمایا کہ اس میں دحاھا کا معنی ہے شتر مرغ کے انڈے جیسی شکل
اپنی تسلی کی خاطر پھر عرض کی
حضور والا !
دحاھا کا یہ معنی عربی لغت کی کس کتاب میں ہے ؟
پوچھنے کی دیر تھی کہ حضرت پچھلے 21 گھنٹوں سے پردہ سکرین سے بلکل ہی غائب ہیں
ازخود جستجو کی تو لسان العرب میں ایک معنی یہ پایا :
” شتر مرغ کے انڈہ دینے کی جگہ جسے شتر مرغ اپنے پاؤں سے پھیلا کر ہموار کرتا ہے”
تو دوستو !
یہ حال ہے ان جدید سائنسی نظریات کا جنہیں قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یعنی کہ بجائے اس کے کہ ان نظریات کی بنیاد عصری علوم پر رکھی جائے انہیں قرآن سے خود ساختہ بیساکھیاں فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
اس رویے کی سختی سے تردید کی ضرورت ہے۔ قرآن ہدایت کی کتاب ہے جیسا کہ خود صراحتاََ بیان کرتا ہے :
“ذالک الکتٰب لاریب فیہ ھدی للمتقین”
ہدایت کی کتاب سے ہدایت لی جاتی ہے نہ کہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ میں اپنی من مرضی کی تحریفات کی جاتی ہیں وہ بھی ان نظریات کو سہارا دینے کے لیے جن کا قرآن سے صراحتاََ کچھ تعلق بھی نہیں
صاحبو !
قرآن حقائق کی زبان میں بات کرتا ہے
اور سائنس ظن و تخمین سے کام لیتی ہے ۔ لہٰذا آپ پر یہ فرض نہیں ہے کہ ہر ایک عصری سائنسی نظریے کو لازماََ قرآن ہی سے ثابت کرنا ہے چاہے اس کے لیے آیات مبارکہ کے معنی میں تحریف ہی کیوں نہ کرنی پڑے ۔
کسی سائنسی نظریے کا قرآن سے ثابت ہو جانا یا قرآن کے موافق ہو جانا قرآن کی حقانیت کی دلیل ہر گز ہر گز ہر گز نہیں ہے۔ اگر کوئی سائنسی نظریہ قرآن میں بیان کسی حقیقت سے موافق ہوتا ہے تو یہ اس سائنسی نظریے کے برحق ہونے کی دلیل ہے۔
ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اور اسی وجہ سے ہر سائنسی نظریے کو دور دراز کی بے جا تاویلات کے ذریعے قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے!
محمد إسحٰق قریشي ألسلطاني