تبلیغ دین آخر مدرسہ ہی تک محدود کیوں
*تبلیغ دین آخر مدرسہ ہی تک محدود کیوں؟*
✍️ ثناء المصطفی مصباحی
لکھنؤ، یوپی، ہند
برصغیر بالخصوص ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، وطن عزیز میں جہاں کہیں بھی اسلام کی روشنی پہنچی ہے اس میں مدارس اسلامیہ کا نمایاں کردار رہا ہے، مدارس نے علما، حفاظ، قراء، مفتی ہر طرح کے افراد قوم کو دیے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب مدرسہ میں آنے والے بچوں کی تعداد تقریبا 2 فیصد ہے باقی 98 فیصد بچے کبھی مدارس کا رخ نہیں کرتے بلکہ کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ان تک دین اسلام کیسے پہنچایا جائے؟
معذرت کے ساتھ ہم (علما، حفاظ، قراء) صرف مکتب یا مدرسہ میں مدرس بن کر یا کسی مسجد میں امام بن کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم تو اپنا فرض نبھا رہے ہیں، دین کی تبلیغ کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیوں کہ ہم انہیں پڑھاتے ہیں جو خود پڑھنے آتے ہیں اور انہیں سکھاتے ہیں جو خود سیکھنے آتے ہیں اور ایسا کرنے والے صرف 2 فیصد ہیں۔ اگر ہم اپنے گردو پیش کا جائزہ لیں اور معلوم کریں تو پتہ چلے گا کہ 90 فیصد افراد اپنے مذہب اسلام کے بارے میں بالکل نہیں جانتے اور نہ ہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
*آخر ان لوگوں تک دین اسلام کیسے پہنچے گا؟*
کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات غیر شعوری طور پر کبھی کبھار کفر کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ مثلاً جو لوگ غیر مسلموں کے اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہاں prayer ہوتی ہے تو انہیں اس اسکول کے مطابق prayer اور وندنا کرنی پڑتی ہے اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
*آخر ان لوگوں تک دین اسلام کیسے پہنچے گا؟*
کالج ، یونیورسٹی اور کوچنگ سینٹر میں جب ہولی، دیوالی، دشہرہ وغیرہ کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں تو سبھی بچوں کے ماتھے پر ٹیکہ لگا دیا جاتا ہے اور مسلم بچے اور بچیا ں بھی لگوالیتے ہیں۔ انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ الا ماشاءاللہ۔
*آخر ان لوگوں تک دین اسلام کیسے پہنچے گا؟*
ذرا اس پر غور کریں کہ آخر اس کا حل کیا ہے جب ہم اکثریت سےاتنے مغلوب ہوتے رہیں گے تو ہماری آنے والی نسلوں کاکیا ہوگا؟ کیا وہ اپنا ایمان بچا سکیں گی؟ کیا وہ مسلمان رہ پائیں گی؟
ہمارے خیال میں علماے کرام اپنا شیڈول اس طرح سیٹ کریں:
1.اتوار کو کسی مناسب وقت پر کالج، یونی ورسٹی، کوچنگ سینٹر کے طلبہ و طالبات، بزنس مین، دکان دار، ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ کے لیے ہفتہ واری اسلامک جنرل اسٹڈی کلاس
2. جمعرات کو ناخواندہ طبقہ کے مرد و عورت لیے ہفتہ واری منظم لیکچر
2. ایک عالم دین کم سے کم پانچ اغیار سے قربت اختیار کرے اور دھیرے دھیرے انہیں دین اسلام کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتایا کرے۔ فرض کریں کہ ہندوستان میں ایک لاکھ عالم دین ہیں تو پانچ لاکھ اغیار تک اسلام کی دعوت پہنچتی رہے گی اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوگا کہ کوئی انہیں تبلیغ کر رہا ہے اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف نفرتیں بھی کم ہونے لگیں گی۔
3. علما اپنے اپنے علاقے کے گاؤں کا دورہ کریں اور اس کے تعلیمی، سماجی، معاشی اور دینی ماحول کا جائزہ لے کر اس کو سنوارنے کی کوشش کریں۔ ہم فرض کریں کہ پورے ہندوستان میں ایک لاکھ عالم دین ہیں اور ایک عالم دین 30 گاؤں کا دودہ کر رہا ہے تو تیس لاکھ گاؤوں تک بآسانی دین اسلام پہنچ جائے گا نیز تعلقات کی کثرت علما کا ذریعہ معاش بننے میں بھی معاون ثابت ہوگی۔
4. سوشل میڈیا: فیس بک، انسٹا گرام، ٹیوٹر، بلاگ وغیرہ پر مختلف قسم کے مضامین لکھیں، امیج کی شکل میں اسلام کی چھوٹی چھوٹی باتیں پوسٹ کریں، اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا مثبت انداز میں جواب دیں، وقتاً فوقتاً دوسروں پر محتاط اعتراض بھی کریں۔
5. وہاٹس ایپ گروپ یا نیو براڈکاسٹ بنائیں۔ فرض کریں اگر 10 گروپ یا نیو براڈکاسٹ چلا رہے ہیں تو روزا نہ 2500 لوگوں تک اسلام کی باتیں پہنچ رہی ہیں۔
اگر ہم نے اس پر دھیان نہیں دیا اور صرف نذرانے کے پروگرام میں مصروف رہے یا صرف مدرسے اور مسجد تک محدود رہے تو ان 98 فیصد مسلمانوں تک اسلام کیسے پہنچے گا؟😭
علماے کرام سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے دن کا کم سے کم ایک گھنٹہ تبلیغ اسلام میں لگائیں۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
#ثناءالمصطفی مصباحی
13 صفر المظفر 1444ھ
11 ستمبر 2022ء بروز اتوار