یہ موضوع کیسا ہے؟

(خورشید احمد سعیدی، اسلام آباد، 18 ستمبر 2022ء)

ہر روز نہیں تو تقریباً ہر ہفتے مجھ سے میسنجر؍انباکس میں یا ٹائم لائن پر یہ سوال پوچھا جاتا ہے ’’یہ موضوع کیسا ہے؟‘‘۔ سائل پہلے موضوع کی عبارت لکھتا ہے۔ پھر پوچھتا ہے کہ اگر ایم فل یا پی ایچ ڈی سطح کا مقالہ اس پر تحریر کیا جائے تو یہ کیسا موضوع ہے؟

میں اتنا کم علم اور کم فہم ہوں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کیا جواب دوں؟ لفظ ’’کیسا‘‘ کا معنی یا مفہوم ان کے نزدیک کیا ہے؟ وہ اس سے کیا مراد لیتے ہیں؟

کیا
1. یہ جواب دوں: اچھا موضوع ہے۔ کام کریں؟
یا
2. یہ جواب دوں: موضوع اچھا نہیں ہے۔ اس پر کام نہ کریں؟
یا
3. یہ جواب دوں: یہ موضوع طویل ہے اس کی مدت یا منتخب عرصے کی حد بندی کریں؟
یا
4. یہ جواب دوں: یہ موضوع عریض ہے اس کی جغرافیائی حد بندی کر کے کوئی ایک بر اعظم، ملک، صوبہ، ریاست، ڈویژن، تحصیل وغیرہ مقرر کریں؟
یا
5. یہ جواب دوں: اس موضوع کے متعلق مواد کئی زبانوں میں دستیاب ہے زبانوں کے لحاظ سے حد بندی کریں۔
یا
6. یہ جواب دوں: اس موضوع کے متعلق شائع شدہ کافی مواد نہیں ملے گا۔ سروے، مشاہدات اور انٹرویوز کے ذریعے مواد جمع کرنا پڑے گا؟
یا
7. یہ بتاؤں کہ ان کی تحقیق کے بنیادی سوالات اور اہداف میں ہم آہنگی ہونی چاہیے.
یا
8. یہ کہوں کہ ان کے موضوع کی عبارت اور تحقیق کے بنیادی سوالات میں گہری ہم آہنگی ہونی چاہیئے.
یا
9. یہ مشورہ دوں کہ ان کی تحقیق کے بنیادی سوالات اور ابواب وفصول میں گہرا ربط ہونا چاہیے.
یا
10. یہ نصیحت کروں کہ موضوع کی عبارت کے کلیدی الفاظ و تراکیب ان کے ابواب و فصول میں پائے جانے چاہئیں.
یا
11. انہیں متنبہ کروں کہ خاکے میں انہوں نے جس منہج کو منتخب کیا ہے تھیسس کے ابواب وفصول کی مباحث میں اس کا استعمال نظر بھی آنا چاہیے.

یہ جواب دوں تو انہیں اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ تو انہیں ان کے اساتذہ بھی بتا سکتے ہیں. مزید یہ کہ کئی اساتذہ اور ماہرین نے اصول تحقیق اور تحقیقی مقالہ نگاری پر کئی کتابیں شائع کی ہیں۔ انہیں پڑھ لیں اور فیصلہ کر لیں کہ انہیں اپنے موضوع پر کام کرنا چاہیئے یا نہیں؟

میں نے بھی اپنی کتاب ’’علوم اسلامیہ میں تحقیقی مقالہ نگاری‘‘ میں وہ نکات تفصیل سے لکھے ہیں جنہیں سمجھنے سے ایک نو آموز تحقیق کار خود جان سکتا ہے کہ اس کا موضوع کیسا ہے؟

میرے خیال میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ نو آموز تحقیق کار اپنے موضوع کا پورا خاکہ دکھائے جس میں خاکے کے دس عناصر (1. موضوع کا تعارف، 2. موضوع کی اہمیت، 3. اختیار موضوع کے اسباب، 4. سابقہ کام کا جائزہ، 5. تحقیق کے بنیادی سوالات، 6. موضوع پر تحقیق کی حدود، 7. موضوع پر تحقیق کے اہداف، 8. منہج تحقیق، 9. سوالات کے پیش نظر ابواب و فصول بندی، اور 10. خاکہ سازی کے وقت دستیاب کتابوں کی فہرست) پر اس نے لکھا ہو۔ ایسا کرے گا تو بہتر مشورہ یا رائے دی جا سکتی ہے۔

بعض نو آموز اسکالرز یہ فرماتے ہیں کہ اساتذہ ؍ اسٹڈی بورڈ نے یہ موضوع دیا ہے۔ کام اسی پر کرنا ہے متعلقہ کتابیں بتا دیں۔

لو دیکھو! موضوع کسی نے بتایا، کام کسی نے کرنا ہے۔ کتابیں میں بتا دوں۔ یہ رویہ ، یہ مزاج، یہ انداز تحقیق کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟ آپ پاکستان بھر کی لائبریریوں میں کیوں نہیں جاتے؟ انٹرنیٹ سے مستند کتابیں خود کیوں نہیں جمع کر لیتے؟ دُنیا کی بڑی بڑی جامعات نے اپنی ویب سائٹوں پر اپنی تحقیقات کے مخزن (research repository) پیش کر دیئے ہیں۔ بازار میں کتب خانوں کو ملاحظہ کیوں نہیں کرتے ؟ ان میں اپنے موضوع کے متعلق مواد تلاش کریں۔ تحقیقی مجلات کی ویب سائٹیں الگ سے کام کر رہی ہیں۔ انہیں وقت دیں اور اپنی معلومات وسیع کریں۔

میری کتاب کے پندرہ ملحقات میں سینکڑوں آن لائن لائبریریوں کے ایڈریسز جمع کر دیئے گئے ہیں ان سے استفادہ کریں۔ اپنے آپ کو اپڈیٹ کریں۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد جب خود کچھ نہ کر سکیں تو پھر آخر میں علم کی خیرات لینے کے لیے کاسۂ گدائی لے کر رخت سفر باندھیں۔ کہیں نہ کہیں اپنا نصیب مل جائے گا۔

ہونا تو یہ چاہیئے کہ ایم فل یا پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے سے پہلے اپنی دلچسپی کے میدان کے قدیم و جدید لٹریچر کو اچھی طرح جان لیں۔ ورنہ داخلہ لیتے ہی اپنی جامعہ اور اپنے شہر کی جامعات کی لائبریریوں اور علماء کی ذاتی لائبریریوں میں موجود تمام کتابوں سے شناسائی پیدا کریں۔ ماہنامہ رسائل اور علمی تحقیقی مجلات کی فہارس مرتب کریں اور ہفتہ وار بنیادوں پر انہیں اچھی طرح کھنگالیں۔

اگر موضوع کا تعلق آئین و قانون سے ہو تو تھانوں، وکلاء اور ججز کی ذاتی لائبریریوں، عدالتوں کی لائبریریوں کی چھان بین بھی کریں۔

اگر موضوع کا تعلق معاشیات سے ہو تو بینکوں کے اصحاب علم و ہنر، پراپرٹی ڈیلروں، وکلاء اور کاروباری شخصیات سے ملیں. انٹرویوز لیں، بازار اور منڈیوں میں خود جائیں خرید و فروخت کے لوگوں، معیارات اصول و قواعد کا مشاہدہ کریں. فیکٹریوں میں جائیں. ذاتی مشاہدے بہت ضروری ہیں.

ہر دو سمسٹروں کے درمیان یا دوسرے سمسٹر کے امتحانات کے بعد پورے پاکستان کا دورہ کریں۔ کراچی، ملتان، لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، پشاور، اسلام آباد وغیرہ کے علمی مراکز کی لائبریریوں میں جائیں۔ صرف کتابوں سے ہی نہیں بلکہ فروغ علم، تخلیق علم اور تحقیقی عمل میں مشغول افراد سے ملاقاتیں بھی کریں۔ اس طرح اپنی شخصیت کی تعمیر کریں۔

نہ تو میں کتب فروش ہوں نہ ہی کسی ریسرچ لائبریری کا لائبریرین، نہ ہی ہر فن مولا عالم، استاد، محقق، خبیر کہ کسی بھی شعبہ کے، کسی بھی میدان، کسی بھی علم و فن کی قدیم و جدید کتابوں سے شناسائی رکھتا ہوں۔ ہر کسی کو ان کے مطلب، موضوع، علم و فن کی کتابیں کیسے بتا سکوں؟

گزشتہ 18 سال سے میں ایک معمولی سا، حقیر سا، چھوٹا سا لیکچرار ہوں۔ تقابل ادیان کے شعبے میں پڑھاتا ہوں۔ دنیا کے ہر دین و مذہب کے بارے میں تفصیلی معلومات بھی نہیں رکھتا۔ بے شمار علوم و فنون قدیم ہیں ۔ ان کے جدید شعبوں میں روز افزوں جدت، تنوع، وسعت اور تقسیمات سامنے آ رہی ہیں۔ تو آج کے اس دور میں کون ایسا استاد ہے جو سب کچھ جانتا ہو؟

یہ بات یاد رکھیں کہ تدریس و تحقیق کے کاموں میں زیادہ مصروف رہنے والے افراد کی صحت بھی اکثر خراب رہتی ہے۔ بڑی عمر میں شاید حافظہ بھی کم ہی ساتھ دیتا ہے۔ ان امور کے پیش نظر دیکھیں آپ نوجوان، جوبن عروج پر ہے، کچھ کر گزرنے کی تمنا بھی دل میں ہے۔ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں تو یہ اور فائدے کی بات ہے کہ عائلی زندگی کی مصروفیات سے آزاد ہیں۔ سارا وقت تحقیقی کام کو دے سکتے ہیں۔

ہمت کریں، سیروا فی الأرض کے مد نظر اپنے گھر، جامعہ اور شہر سے باہر نکلیں۔ صرف کتابوں سے واقفیت پیدا نہ کریں بلکہ کتابوں سے ، لائبریریوں سے، تحقیق و تدریس سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، علماء اور محققین سے شناسائی بھی پیدا کریں۔ ان سے ملاقاتیں کریں، ہم کلامی کا شرف حاصل کریں، ان کے تجربات سے استفادہ کریں۔ یہ سارے فوائد کتب بینی سے نہیں ملتے۔

حصول علم کے لیے أئمہ، مفسرین، محدثین، فقہاء اور صوفیاء کے طرز زندگی کی پیروی کریں۔ سفر وسیلہ ظفر کا اصول سمجھیں.

کچھ سائلیں کی خواہش ہوتی ہے کہ جونہی انہوں نے سوال لکھا بلاتاخیر اس کا جواب انہیں مل جائے۔ یہ کیونکر ممکن ہے؟ مسؤول اپنی روزانہ کی روٹین کی تدریس، تحقیق، ترجیحی تحریری کام، گھریلو ذمہ داریوں، اپنی اولاد کے تقاضوں، ملاقاتیوں، صحت کے مسائل وغیرہ میں پہلے سے ہی پھنسا ہوا مصروف عمل ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ وہ کسی مشاورتی دفتر میں نہیں بیٹھا ہوتا کہ اس کا کوئی اور کام نہ ہو۔ اسے وقت دیں، انتظار کریں، یاد دہانی کرواتے رہیں۔ جب آپ کی باری آئے گی تو حسب استطاعت جواب مل جائے گا۔

بارك الله العليم في علومكم.