وہ ایک شخص ہے یا کوئی ادارہ —– 50 سے زائد علوم و فنون پر مہارت اور 1000 سے زیادہ کتابیں ہیں —- کتابیں بھی 3 زبانوں میں —- عربی پر ایسا عبور کہ اہل عرب حیرت زدہ — کوئی ایسا انسٹیٹیوٹ بتایے جو بیک وقت 50 سے زائد علوم و فنون پر مہارت رکھنے والے ماہرین کی ٹیم رکھتا ہو —- اس ادارے یا شخص نے کس کس شعبہ علم میں اپنی خداداد صلاحیتیوں کا اظھار نہیں کیا ، سمجھ نہیں پا رہے کہ اسے کس لقب یا خصوصیت سے یاد کریں

علم تفسیر میں 7 کتابیں ہیں — تو کیا مفسر کہیں ؟ فلسفہ و منطق پر 6 کتابیں —– ماہر فلسفہ ومنطق سمجھیں ؟ علم حدیث میں 45 کتب —— ان کو تو محدث کہنا چاہیے علم ہیئت ، ہندسہ اور ریاضی میں 28 کتابیں ہیں —– ارے یہ تو ماہر ہندسہ و ریاضی ہیں علم فقہ و تجوید پر بھی 70 کتابیں —— یہ تو کوئی فقیہ بلکہ فقیہ زمانہ ہیں شاید ادب ، نحو ، لغت و عروض پر 6 کتابیں —– ادیب یا ماہر لسانیات ہونگے شاید علم مثلث اور لوگارثمات پر 6کتابیں —- یار یہ تو ریاضی کی اعلی شاخ LOGARITHM میں بھی عبور رکھتے ہیں لگتا ہے سائنس سے گہرا شغف ہے تصوف پر 9 کتابیں —- اولیاے کرام سے خاص تعلق رکھتے ہونگے علم توقیت ، حساب نجوم پر 16 کتابیں —– شاید ماہر فلکیات یا علم نجوم کے استاذ ہیں تاریخ و سیر پر 11 کتابیں —- تاریخ گوئی و علم الرجال میں بھی باکمال بات یہیں پر ختم ہوتی نظر نہیں آتی ، مگر مضمون طویل ہوتا جارہا ہے جبر و مقابلہ پر 4 کتابیں —- علم زیجات پر 7 کتابیں — علم جفر وتکسیر پر 11 کتابیں— قرآن پاک کا بہترین ترجمہ وغیرہ وغیرہ غیرہ بڑی بڑی قد آور شخصیات کی تعداد دیکھیے جو اس شخص یا انسٹیٹیوٹ سے نور علم پا کر نکلے اور ایسے کارہاے نمایاں سر انجام دیے جو بذات خود اس شخص یا ادارے کی عظمت کےلیے کافی ہے.
جناب وہ کام جو بڑے بڑے ادارے نہ کر پائیں ایک شخص نے تن تنہا کیے — جی یہ ایک عبقری ، ہمہ گیر اور ہشت پہلو شخصیت کا ذکر ہو رہا ہے ، ان کے تحریری کام کا تھوڑا سا ذکر کیا گیا ہے ، انکے اخلاق حسنہ کے غیر معمولی واقعات کا تذکرہ تو کیا ہی نہیں گیا ، انکی کی زبان کی تاثیر نے کتنوں کی زندگی بدل دی اس کا تو بیان ہی نہیں کیا گیا ، کتنے نادار اور محتاج انکے سوشل ویلفیئر کے جذبے سے فیضیاب ہوتے رہے ، سیاست میں وہ شخص کس قدر صائب الراے تھا اس پہلو کو تو اجاگر ہی نہیں کیا گیا-

اس شخص کا سالہاسال سے معمول تھا کہ 22 , 22 گھنٹے کام کرتا امت کی بہتری میں کوشاں رہتا آرام کے لیے صرف 2 گھنٹے بچتے — درس و تدریس ، سماجی اور سیاسی امور ، تحریر وتقریر کے سخت معمولات آدمی کو بعض اوقات خشک مزاج بنا دیتے ہیں مگر یہ شخص تو بے مثال شاعر بھی تھا ، شعرگوئی اس کا مشغلہ نہ تھا نہ ہی اسکے لیے کسی کی شاگردی اختیار کی —– شاعر شاگرد ہوتے ہیں مگر عاشق شاگرد نہیں ہوتے ، جب جب مدینہ یا رحمت للعالمین ﷺ کی یاد کے دریا موجزن ہوتے تو محبت و الفت کے جذبات قلم کو وجد میں لے آتے اور ایسے اشعار تخلیق پاتے جن کی بے ساختگی اور فصاحت و بلاغت شعراے زمانہ کو پوچھنے پر مجبور کردیتی کہ یہ کس کے اشعار ہیں —– یہ وہ شخص ہےجن کو نہ صرف برصغیر بلکہ اس وقت کے علماے حجاز ، مصر ، شام و عراق نے مختلف القاب سے یاد کیا — جن کو شریعت و طریقت کا امام ، مجدد دین وملت اور حجةاللہ فی الارض کہا گیا ان کا نام احمد رضا ہے اور اعلحضرت کہے جاتے ہیں —– ایسی شخصیت اگر یورپ میں پیدا ہوتی تو انکے نام کی یونیورسٹیز اور نوبل پرائز طرز کے سلسلے ہوتے مگر میرے اعلحضرت کی ایک اور خصوصیت بھی ہے کہ آپ ایک مظلوم شخصیت ہیں.
دینی فتنہ پرور ، تفرقہ پسند اور انگریزوں کے ٹکڑوں پر پلنے والوں کے مذموم مقاصد کے سامنے اعلحضرت سینہ سپر ہوگیے تو ان دشمنان دین نے اپنی ذلت کا احساس مٹانے کےلیے اعلحضرت کے خلاف پروپیگنڈا کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو انکے وصال کے 90 سال بعد بھی جاری ہے
ان لوگوں کا فارمولا تھا کہ اس قدر جھوٹ بولو کہ آہستہ آہستہ سچ لگنے لگے ، اس میں یہ بد باطن لوگ کسی حد تک کامیاب بھی رہے .
بہت سے ایسےلوگ بھی ھیں جنہوں نے کبھی اعلحضرت کی تعلیمات کا مطالعہ بھی نہیں کیا مگر پروپییگنڈا کے وائرس کی وجہ سے اللہ کے اس خاص بندے کے فیضان سے محروم ہیں – اعلحضرت کو غیروں کے جس ظلم کا سامنا کرنا پڑا وہ اپنی جگہ ، مگر افسوس صد افسوس اپنوں نے جو گل کھلاے وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں ، اعلحضرت کے نام کے نعرے لگا لگا کر پر اپنی دکانیں چمکائیں گئیں.