امام اہل سنت ۔۔۔۔۔ ایک تعارف
⚘امام اہل سنت ۔۔۔۔۔ ایک تعارف⚘
🖋 : محمداکبر خان ضیائی
اعلی حضرت ، عظیم البرکت ، امام اہل سنت ، پروانۂ شمع رسالت ، عالم شریعت ، واقف اسرار حقیقت الشاہ ، حامی سنت ، ماحی بدعت ، مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیه الرحمة والرضوان ماضی قریب کی وہ عبقری شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی روشن خدمات کے ذریعہ چودھویں صدی ہجری میں بدعات و خرافات کا سد باب کرکے دین و سنت کے احیاء و تجدید کا بے مثال عظیم کارنامہ انجام دیا اور اپنے زمانہ میں اٹھنے والے ہر باطل فرقہ کا رد بلیغ فرماکر بالخصوص بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت فرمائی ۔
ولادت باسعادت :۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی ولادت باسعادت ۱۰ ﺷﻮﺍﻝ ﺍﻟﻤﮑﺮﻡ ۱۲۷۲ ﮪ ﺑﻤﻄﺎﺑﻖ ١٤ ﺟﻮﻥ ١٨٥٦ ﺀ ﺑﺮﻭﺯ ﮨﻔﺘﮧ ﺑﻮﻗﺖ ﻇﮩﺮ ، ﻣﺤﻠﮧ ﺟﺴﻮﻟﯽ ﺑﺮﯾﻠﯽ ﺷﺮﯾﻒ کے عظیم علمی خانوادہ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ۔
جب ہوئے جلوہ کناں احمد رضا خان قادری
جگمگا اٹـھا جہـاں احمـد رضا خان قادری
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے خود اپنا سن ولادت قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے نکالا ہے :
“اُولٰٓئكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ”۔
یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان کو نقش کردیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی ۔ (سورة المجادلة ، آیت : ۲۲)
نام و نسب :۔
پیدائشی نام “محمد” تاریخی نام “المختار” (١٢٧٢) اور آپ کے جد امجد نے “احمد رضا” تجویز فرمایا اور چہار دانگ عالم میں آپ کو شہرت و مقبولیت اسی نام سے ملی ، خود اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ بارگاہ مصطفی ﷺ سے اپنی وابستگی اور حضور ﷺ سے اپنی نسبت کے اظہار کے لیے “عبد مصطفی” استعمال فرماتے ۔
خوف نہ رکھ رضؔا ذرا تو تو ہے عَبدِ مصطفٰی
تیـرے لئے اَمـان ہے تیـرے لئے اَمـان ہے
دیـو کے بنـدوں سے ہم کو کیا غـرض
ہم ہیں عبدِ مُصطَفیٰ پھر تجھ کو کیا
امام احمد رضؔا قدس سرہ کا نسبی تعلق قندھار (افغانستان) کے مشہور پٹھان قبیلہ “بڑھیچ” سے تھا جو مغل بادشاہوں کے دور میں لاہور پھر وہاں سے غیر منقسم ہندوستان آکر بریلی میں سکونت پذیر ہوگئے تھے ، آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے :
امام احمد رضا خان بن علامہ مفتی نقی علی خان بن علامہ رضا علی خان بن حافظ کاظم علی خان بن محمد اعظم خان بن سعادت یار خان بن سعید اللہ خان رحمھم اللہ علیھم اجمعین ۔
ابتدائی تعلیم :۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے صرف چار برس کی عمر میں ناظرہ قرآن ختم کرلیا اس کے بعد ابتدائی تعلیم میزان و منشعب تک مولوی مرزا غلام قادر بیگ سے ، باقی علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم اپنے والد ماجد علامہ نقی علی خان سے حاصل کی ، اسی دوران شرح چیغ مینی وغیرہ کے بعض اسباق مولانا عبد العلی رامپوری سے بھی پڑھے ۔
آپ کے اساتذہ کی فہرست اور تعلیمی مدت اگرچہ مختصر ہے لیکن آپ نے خداداد ذہانت و صلاحیت کی کی بنا پر محض ١٣ سال ١٠ ماہ ٤ دن کی عمر میں مروجہ علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت حاصل کرلی اور اسی دن جب رضاعت سے متعلق مسئلہ لکھ کر والد ماجد کی بارگاہ میں پیش کیا تو اس قدر خوش ہوئے کہ اسی دن فتوی نویسی کی اجازت مرحمت فرمادی اور آپ کو مسند افتاء پر بٹھادیا ۔
فراغت کے بعد تصوف و طریقت کی تعلیم اپنے مرشد سید شاہ آل رسول مارہروی سے اور علم جفر ، علم تکسیر وغیرہ کی تعلیم سید شاہ ابو الحسین نوری میاں سے حاصل کی اور جب حج کے لیے مکہ معظمہ حاضر ہوئے تو مفتی حنفیہ شیخ عبدالرحمن سراج مکی ، مفتی شافعیہ شیخ احمد بن زین بن دحلان مکی اور شیخ حسین بن صالح مکی امام کعبہ وغیرہ سے حدیث و فقہ و تفسیر کی سندیں حاصل کی ۔
ازدواجی زندگی اور اولاد :۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے ۱۲۹۱ھ/ ۱۸۷۵ء میں جب آپ کی عمر مبارک تقریبا ۱۹ برس تھی اپنی پھوپھی زاد بہن (جناب محمد افضل حسین صاحب کی بڑی شہزادی) محترمہ ارشاد بیگم صاحبہ سے نکاح فرمایا ، جو بڑی ہی سادہ مزاج ، صوم و صلوة کی پابند ، منکسر المزاج ، مہمان نواز ، خوش اخلاق ، ملنسار اور سنجیدہ و اطاعت گزار خاتون تھیں ۔ اللہ رب العزت نے آپ کو سات اولادیں عطا فرمائی ، جن میں ۲ صاحبزادے اور ۵ صاحبزادیاں ہیں ۔
(۱) حجة الاسلام مولانا حامد رضا خان
(۲) مفتٔی اعظم مولانا مصطفی رضا خان
(۳) محترمہ مصطفائی بیگم
(٤) محترمہ کنیز حسن
(٥) محترمہ کنیز حسین
(٦) محترمہ کنیز حسنین
(٧) محترمہ مرتضائی بیگم
رحمھم اللہ علیھم اجمعین
بیعت و خلافت :۔
امام احمد رضا خان قدس سرہ ۱۲۹٤ ھ میں جب تاج الفحول مولانا عبد القادر بدایونی اور اپنے والد ماجد علامہ نقی علی خان کے ساتھ مارہرہ مطھرہ حاضر ہوئے تو خاتم الاکابر سید شاہ آل رسول احمدی مارہروی نے داخل سلسلہ فرماکر آپ کو اسی وقت تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمادی ۔
خلاف معمول اس منظر کو دیکھ کر آل رسول سید شاہ ابو الحسین نوری میاں نے عرض کی : حضور ! خلاف معمول بغیر کسی مشقت و مجاہدہ کے آپ نے مولانا احمد رضا کو اجازت و خلافت عطا فرمادی ؟؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا :
لوگ میلا کچیلا زنگ آلود دل لے کر آتے ہیں جس کے تزکیہ کے لیے ریاضت و مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے ، یہ مزکی و مصفی قلب لے کر آئے ہیں ، انھیں ریاضت و مجاہدہ کی کیا ضرورت ؟ صرف اتصال نسبت کی ضرورت تھی جو بیعت سے حاصل ہوگئی ۔
مزید یہ بھی فرمایا : مجھے بڑی فکر تھی کہ بروز محشر اگر احکم الحاکمین نے سوال فرمایا کہ آل رسول تو میرے لیے کیا لایا ہے ؟؟ تو میں کیا پیش کروں گا ؟؟ مگر اللہ کا شکر ہے کہ آج وہ فکر دور ہوگئی ، اس وقت میں احمد رضا کو پیش کردوں گا ۔
ﺳﻔﺮ ﺣﺞ ﻭﺯﯾﺎﺭﺕ :۔
امام اہل سنت ۱۲۹۵ﮪ/۱۸۷۸ء ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﻣﺎﺟﺪ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﺣﺞ ﺑﯿﺖ ﺍﷲ کی سعادت سے سرفراز ہوئے ، ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺁﭖ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﭘﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﻓﺮﻣﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯿﮧ ، امام حرم مکہ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﯿﻦ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺟﻤﺎﻝ مکی قدس سرہ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﮯ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻣﺎ ، ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ آپ کی پیشانی کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے :
’’ ﺍِﻧِّﯽْ ﻟَﺎَﺟِﺪُ ﻧُﻮْﺭَ ﺍللہِ ﻓِﯽْ ﮬٰﺬَﺍ ﺍﻟْﺠَﺒِﯿْﻦِ‘‘ ۔
’’ ﺑﯿﺸﮏ ﻣﯿﮟ ﷲ ﮐﺎ ﻧﻮﺭ ﺍﺱ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ‘‘ ۔
ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺎﺡ ﺳﺘﮧ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﻗﺎﺩﺭﯾﮧ وغیرہﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ، ﺍﺱ ﺳﻨﺪ ﮐﯽ خصوصیت ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍس میں ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺗﮏ صرف ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﮨﯿﮟ۔
دوسرا سفر حج :۔۔۔ ۱۳۲۳ﮪ / ۱۹۰۵ ء میں اعلی حضرت نے دوسری مرتبہ حج کی سعادت پائی ، اسی سفر حج میں آپ نے ” الدولة المکیة بالمادة الغیبیة” اور “کفل الفقیه الفاھم فی احکام قرطاس الدراھم” وغیرہ جیسی گراں قدر کتابیں تصنیف فرمائی ، جنھیں پڑھ کر علمائے عرب نے آپ کے علمی وقار ، تبحر علمی اور قوت استدلال و استحضار کی خوب تعریف و تحسین کی اور آپ سے حدیث ، فقہ و تفسیر وغیرہ کی سندیں حاصل کی ۔
حج سے فارغ ہونے کے بعد جب آپ مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو بالمشافہ حضور اکرم ﷺ کی زیارت کی آرزو لیے ہوئے ساری رات درود و سلام کا نذرانہ پیش کرتے رہے لیکن اس رات آپ کی آرزو پوری نہ ہوئی ، دوسرے دن عشق نبی میں پروانہ وار مست و بے خود ہوکر ایک غزلیہ نعت لکھی جس میں دامن رحمت ﷺ سے امید لگاتے ہوئے بارگاہ ناز میں گویا ہوئے :
وہ ســوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیــرے دن اے بہار پھرتے ہیں
ہر چــراغِ مــزار پــر قُــدسی
کیسے پروانہ وار پِھرتے ہیں
اس گلی کاگدا ہوں میں جس میں
مـانگتے تــاجــدار پھــرتے ہـیں
دلی آرزو کی تکمیل نہ ہونے پر مقطع میں آپ نے حسرت و یاس کے ساتھ اپنی تڑپ ، عاجزی و انکساری اور بے مائیگی کا ہوں نقشہ کھینچا کہ :
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضؔا
تــجھ سے کتے ہـزار پھـرتے ہیں
اور اسی رات اس نعت پاک کو پڑھتے ہوئے دوبارہ زیارت کی آرزو لیے ہوئے ساری رات مواجہہ اقدس میں بیٹھے رہے ، اس رات قسمت نے یاوری کی ، سرکار نے کرم فرمایا اور آپ نے بالمشافہ اپنی آنکھوں سے حضور ﷺ کے جمال جہاں آرا کا دیدار فرمایا ۔ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ۔
اعلان مجددیت :۔
امام اہل سنت امام احمد رضا قدس سرہ نے ساری زندگی دین کی خدمت اور سنیت کی نشر و اشاعت کرتے ہوئے گزاری ۔ آپ کی انھیں بے لوث خدمات کو دیکھتے ہوئے پٹنہ میں منعقدہ ۱۳۱۸ھ /۱۹۰۰ ء کے عظیم الشان تاریخی اجلاس میں مولانا عبد المقتدر بدایونی نے آپ کے تجدیدی کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے اور آپ کے چودھویں صدی ہجری کے مجدد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے مجمع عام میں آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا :
“جناب عالم اہل سنت ، مجدد مأة حاضرہ مولانا احمد رضا خان صاحب”۔
اس اعلان کو سن کر اجلاس میں موجود سینکڑوں علماء و فضلاء اور عوام الناس نے بخوشی آپ کے اعلان کی تائید کی اور آپ کو داد و تحسین سے نوازا ، اس طرح ۱۳۱۸ ھ میں آپ کے “مجدد” ہونے پر علماء و عوام کا اجماع (اتفاق) ہوگیا ۔
سلام اس پر کہ جس نے خـدمت تجـدید ملت کی
سلام اس پر کہ جس نے خدمت احیائے سنت کی
اعلی حضرت کا فقہی مقام :۔
اللہ رب العزت نے امام احمد رضا قدس سرہ کو بے شمار علوم و فنون عطا فرمائے تھے لیکن بالخصوص فقہ میں جو آپ کا کمال تھا وہ اپنی مثال آپ ہے ، آپ نے یوں تو ہر فن پر قلم اٹھایا ہے لیکن فقہ میں آپ کے قلم کی جولانی ہمیشہ اوج ثریا پر نظر آتی ہے ۔
آپ کا عظیم علمی و تحقیقی شاہ کار “فتاوی رضویہ” آپ کے فقہی کمال ، تحقیقی محاسن اور علمی خوبیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ آپ کے فتاوی میں طرق استدلال کا اچھوتا انداز ، دلائل کی کثرت ، اقوال متعارضہ کی بے مثال تطبیق ، استدلال و استحضار کی قوت ، جدید و قدیم مسائل کی اچھوتی تحقیق و تنقیح آپ کو نہ صرف معاصرین بلکہ قدیم ائمہ و فقہاء سے بھی ممتاز کردیتی ہے ۔ بطور ثبوت آپ کا ایک فقہی شہہ پارہ ملاحظہ کریں :
علامہ ابن عابدین شامی نے ایک مسئلہ کی وضاحت میں حدیث پاک نقل فرمائی :
“الْقُرْآنُ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ” یعنی قرآن مجید اللہ کو آسمانوں زمین اور اس میں جو کچھ ہے سب سے زیادہ محبوب ( افضل) ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا قرآن مجید اللہ رب العزت کو حضور ﷺ سے بھی زیادہ محبوب اور افضل ہے ، اس میں علماء کا اختلاف ہے ۔ علامہ ابن عابدین شامی اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں بظاہرحدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن افضل ہے اور مسئلہ اختلافی ہے ، اخیر میں فرمایا : أَلْاَحْوَطُ عِنْدِیْ اَلتَّوقُّفُ یعنی میرے نزدیک احتیاط اسی میں ہے کہ سکوت کیا جائے ۔
لیکن جب اعلی حضرت نے اس مسئلہ پر قلم اٹھایا ہے تو علامہ ابن عابدین شامی کی عبارت کے تحت فرماتے ہیں : سکوت کی کوئی ضرورت نہیں ، بتوفیق اللہ ! میرے نزدیک مسئلہ بالکل واضح ہے ۔
فَانَّ الْقُرْآنَ أِنْ اُرِیْدَ بِهِ الْمُصْحَفِ فَلَا شَکَّ أَنَّهُ حَادِثٌ وَکُلُّ حَادِثٍ مَخْلُوْقٌ وَکُلُّ مَخْلُوْقٍ فَالنَّبِیُّ ﷺ أَفْضَلُ مِنْهُ ۔
اگر قرآن سے مراد مصحف یعنی کاغذ اور روشنائی ہے تو بلا شبہ وہ حادث (فنا ہونے والی) ہے اور ہر حادث مخلوق ہے اور تمام مخلوقات میں سب سے افضل حضور ﷺ ہیں ۔
وَ أِنْ اُرِیْدَ بِهِ کَلَامُ اللہِ تَعَالَی أَلَّذِیْ ھُوْ صِفَتُهُ فَلَا شَکَّ أَنَّ صِفَاتَهُ بِهِ أَفْضَلُ مِنْ جَمْیْعِ الْمَخْْلُوقَاتِ ۔
اگر قرآن سے مراد اللہ تعالی کا کلام ہو جو کہ اس کی صفت ہے تو بلا شبہ اللہ تعالی کی صفات تمام مخلوقات سے افضل ہے ۔
یعنی قرآن سے مراد بعد اگر مصحف ہو تو ایسی صورت میں حضور ﷺ افضل ہیں اور اگر قرآن سے مراد اللہ کا کلام ہو تو ایسی صورت میں قرآن یعنی اللہ کی صفت افضل ہے ۔
سبحان اللہ ! ایسی بے مثال توضیح پیش کی کہ نہ توقف کی ضرورت رہی اور نہ ہی اختلاف کی کوئی گنجائش ۔
وصال پر ملال :۔
امام اہل سنت نے اپنی وفات سے تقریبا چھ ٦ ماہ قبل ہی قرآن مجید کی آیت کریمہ سے استخراج کرتے ہوئے اپنے سن وفات کی خبر دیدی تھی ۔ وہ آیت مبارکہ یہ ہے :
وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ ۔(سورة الدھر ، آیت : ۱۵)
اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کوزوں کا دور ہوگا ۔
اگر اس آیت مبارکہ کے عدد نکالیں تو ۱۳٤٠ نکلتے ہیں جو کہ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا سن وفات ہے ۔
اس خبر کے ٦ ماہ بعد ۲۵ صفر المظفر ١٣٤٠ھ بروز جمعہ عین اس وقت جب مؤذن حی علی الفلاح کہا آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ
بعد وفات حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی نے آپ کو غسل دیا ، حضور حجة الاسلام علامہ حامد رضا خان نے نماز جنازہ پڑھائی اور مرکز علم و فن دار العلوم منظر اسلام کے شمالی جانب آپ کو دفن کیا گیا ۔
آج بھی شہر محبت بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں آپ کی تربت انور انوار و تجلیات کی مرکز ہے اور عوام و خواص ، علماء و صلحاء ، صوفیاء و اتقیاء سبھی غلامانہ انداز لیے ہوئے حاضر بارگاہ ہونے کو سعادت مندی تصور کرتے ہیں ۔
ترسیل سیرت :
الجامعة الرضويه انوار العلوم
ہاشمی کالونی نظام آباد