قرآنیات
سیر و سیاحت کا قرآنی مقصد
✍️ پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی، گجرات (انڈیا)

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَ اَشَدَّ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(سورہ غافر، ٨٢)
ترجمہ: توکیا اُنھوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے اُن سے اگلوں کا کیسا انجام ہوا وہ ان سے بہت تھے، اور ان کی قوت اور زمین میں نشانیاں اُن سے زیادہ، تو ان کے کیا کام آیا جو اُنھوں نے کمایا۔

آیت مبارکہ میں باری تعالیٰ کی طرف سے مومنین کو عبرت حاصل کرنے کے لیے زمین میں سیر کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور اس سیر کے دو مقاصد بتائے گئے ہیں.
ایک یہ کہ زمین میں سیر کر کے تمہیں معلوم ہو کہ تمہارے دور کے کافروں کے مقابلے میں پچھلے زمانے کے کافروں کی تعداد کتنی کثیر تھی، ان کے وسائل کا دائرہ کتنا پھیلا ہوا تھا، ان کے سیاسی اقتدار کی جڑیں کتنی مضبوط تھیں اور ان کا معاشی استحکام کس درجے کا تھا. صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے باقی ماندہ آثار بھی دیکھو جو ان کی دنیاوی شوکت پر دلالت کرنے والے ہیں.
دوسرا یہ کہ زمین کے مختلف علاقوں میں گھوم کر تمہیں گزشتہ کافروں کا انجام پتہ چلے گا کہ تمام تر دنیاوی جاہ و جلال اور افرادی و آلاتی قوت کے اعداد و شمار کے باوجود آج ان کی عظمت کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے. وقتی غلبہ کے سبب اہل ایمان کا مذاق بنا کر اپنے کفر پر اترانے والے کب، کیسے اور کہاں تباہ کر دیے گئے؛ تاریخ تو اس کی گواہ ہے ہی، مگر زمین پر ان کی تباہی کے بہت سارے نشانات بھی چھوڑ دیے گئے ہیں، تاکہ انہیں دیکھ کر اہل ایمان کو حوصلہ ملے کہ تمام تر ظاہری برتری کے باوجود سربلندی اہل حق ہی کا مقدر ہوگی.

ہمارے دور کے بعض داعی کہلانے والوں کا خیال ہے کہ پرانے خیال کے علماء کو دنیا دیکھنی چاہیے تاکہ انہیں دین کو لے کر اپنی سختی کا احساس ہو اور وہ لوگوں کے تئیں دینی امور میں ہاتھ ہلکا رکھنا جان لیں. ان کے بقول سیاحت ایک تجربہ حاصل کرنے کا پر تعیش عمل ہے اور اس کے بعد سیر و سیاحت کا بڑا مقصد؛ دنیا میں گھوم پھر کر اقوام عالم کے رسم و رواج اور ان کی بود و باش کے مطابق؛ دینی احکام میں سہولت پیدا کر لینا بلکہ تساہل برتنا ہے. اب ذرا غور کیجیے کہ ایک طرف دنیا گھومنے کی یہ دعوت ہے کہ گھومو تاکہ تم اپنی؛ استقامت کی کمزوریاں جان سکو اور دین میں سہولت پیدا کرنے کا کھیل تساہل کے ساتھ کھیل سکو، جب کہ دوسری طرف قرآن کی دعوت ہے کہ زمین میں گھومو تاکہ کافروں کی ہٹ دھرمی، ان کی سرکشی اور دین سے جہالت یا تجاہل کا انجام دیکھ سکو. کہاں کافروں کا عمل و انجام دیکھ کر دین پر ثابت قدم ہو جانے کی دعوت اور کہاں کافروں کی دنیاوی شوکت دیکھ کر دین میں من مرضی کی آسانیاں پیدا کرنے کی دعوت!!! کیا ان دونوں دعوتوں میں واضح ٹکراؤ نظر نہیں آ رہا؟ اگر ہاں تو ہمیں ماننا ہوگا کہ سیر فی الارض کا قرآنی داعیہ ہی درست و مستقیم ہے اور اس کے مقابلے میں پیش کیا جانے والا ہر وہ نظریہ جو سیر کو محض دنیا داری یا دین میں بے جا سہولت پسندی کی طرف لے جائے، وہ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کے مفاہیم سے متصادم بھی ہے.

ہمارے دور میں کچھ لوگوں نے سیر فی الارض کی آیات کو لے کر وزارتِ سیاحت کی بناء اور اس کے فروغ کا شوشہ بھی چھوڑا ہے. اس کے تحت وہ ٹورزم(Tourism) کو وسعت دینے اور اسلامی علاقوں میں سیاحت کے مواقع پیدا کر کے اس سے پیسا کمانے کو قرآنی مفہوم بلکہ قرآنی تعلیمات کا حصہ قرار دیتے ہیں. ہماری نظر میں “سیروا فی الارض” کو لے کر “فاعتبروا” اور “فانظروا” کو چھوڑ دینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی “لا تقربوا الصلوۃ” لے کر “وانتم سکٰری” چھوڑ دے. ایسا مفہوم نکالنا اور بیان کرنا دونوں ہی تفسیر بالرائے کی بدیہی مثالیں ہیں. صرف درج بالا ایک آیت نہیں بلکہ قرآن مجید کی درجنوں آیات اسی مفہومِ عبرت پر وارد ہیں اور سیاحت کو عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنانے ہی کی داعی ہیں.
01.03.1444
28.09.2022