بشکریہ قبلہ استاد بابر حسین بابر صاحب مدظلہ العالی، مدرس دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف

*جشن میلاد اور ہماری لا پرواہی ، تھوڑا سا گلہ بھی سن لے*

وہ عظیم الشان ہستی جن کی بعثت کو رب تعالی نے اہل_ ایمان پر احسان قرار دیا جن کی آمد کا ذکر قرآن پاک میں بار بار فرمایا۔ جن کے اوصاف_حمیدہ اور اخلاق_ کریمانہ کاتذکرہ زبان_ قدرت نے کیا۔

ان کی تشریف آوری پر اظہار_مسرت کسی دلیل کا محتاج نہیں۔
جتنا تعلق کسی کے ساتھ گہرا ہوتا ہے اس کی خوشی بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے۔

اور ایک مومن کا اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق قرآن نے یوں بیان فرما یا ہے: النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے قریب ہیں۔

ایمان کی نسبت سے یہ ایسا تعلق ہے جو انسان کا کسی اور رشتے کے ساتھ حتی کہ اپنے ماں باپ ، اولاد اور خود انسان کی اپنی ذات کے ساتھ بھی نہیں۔

اس لیے آمد_ مصطفی صلی اللہ علیہ واالہ وسلم پر خوشیوں کا اظہار ایمان کا تقاضا ہے۔
جب تک زندگی ہے ان شاء اللہ بفضلہ تعالی ہم اللہ تعالی کی اس نعمت_عظمی کے ملنے پر سر بسجود رہیں گے۔

جہاں تک ایمان کی حرارت کا تعلق یے وہ تو اہل_ ایمان میں خوب نظر آتی ہے لیکن عمل کے اعتبار سے جو کمی ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

محبت_مصطفی صلی اللہ علیہ واالہ وسلم کے نام پر آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی حیثیت ثانوی ہے۔
سجاوٹ ، چراغاں ، محافل کا انعقاد اور جلوس کا اہتمام محض استحباب و جواز کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر ہم اپنا سارا زور صرف کر دیتے ہیں۔

ہمارا پوارا مہینہ جھنڈیوں اور برقی قمقموں کا جواز ثابت کرنے میں گزر جاتا ہے۔
ہم جھنڈیاں بھی لگاتے ہیں، گلی محلے اور بازار بھی سجاتے ہیں، لباس کا انتخاب بھی بہترین کرتے ہیں سر پر عمامہ اور سینے پر بیج بھی سجاتے ہیں لیکن فرائض سے غفلت کا عالم مت پوچھئیے۔

نمازوں میں سستی ایک بھیانک حقیقت ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اسی بے عملی پر جنت کی ٹکٹیں تقسیم ہو رہی ہیں۔
مستحبات میں خرافات اور قباحتیں شامل کرنے کے بعد محافل کے انعقاد میں گانے کی طرز پر بلند آواز سے نعتیں لگانے کے بعد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عاشقان_ رسول ہیں۔

ہم سجاوٹ اور محافل کے نام پر اپنے ہمسائیوں، اہل_محلہ اور راہگیروں کے لیے جو اذیتیں پیدا کرتے ہیں اس کا عشق_ رسالے کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں۔

کوئی عین بازار کے وسط میں سیڑھی کھڑی کر کے جھنڈیاں اور پھول لگا رہا ہے اور آنے جانے والوں کا راستہ روک رکھا ہے

کسی کے عشق نے است اتنا مجبور کر دیا ہے کہ وہ شاہراہ پر ہی سٹیج لگائے بیٹھا ہے اور راہگیروں کا راستہ روک رکھا ہے۔

خدا کے بندو! اگر محض بازاروں اور شاہراہوں کی سجاوٹ ہی کو عشق رسول سمجھ لیا ہے تو کم از کم اتنا تو کرو کہ اس عشق کا تقاضا رات گئے پورا کر لو جب لوگوں کی آمد و رفت معدوم یا کم ہو جائے۔

اس سجاوٹ سے کسی کا راستہ تو بند نہ ہو۔

فرض نماز کی ادائیگی سے کوسوں دور چہرہ سنت رسول سے عاری ، احکام شریعت سے بے خبر جھنڈیاں اور قمقمے لگانے میں مصروف ہیں ۔

جھنڈیوں پر خانہ کعبہ، سبز گنبد یا نعلین پاک کی تصویر بنی ہوئی ہے آج ان جھنڈیوں کو لگائے بغیر جشن میلاد کا حق ادا نہیں ہو سکتا کل یہی مقدس جھنڈیاں گلیوں اور نالیوں میں بکھری پڑی ہوں گی ۔

نہ جانے ہمیں کب عقل آئے گی عشق کے نام پر، جشن میلاد کے نام پر ایسے اقدامات کر گزرتے ہیں جو فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔

ہماری زبانوں پر آمد_مصطفی کے نعرے اور عشق_رسالت کے دعوے ہوتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا ذرا احساس نہیں۔

نہ کسی کے آرام کا خیال رکھتے ہیں اور نہ کسی کی تکلیف کا احساس کرتے ہیں۔

دلوں میں وہی بغض ،لہجے میں وہی کرختگی ، گفتگو میں وہی درشتی

ملنساری، خندہ پیشانی اور نرم گوئی جیسے اخلاق_ نبوی کی ہلکی سی جھلک کہیں نظر نہیں آتی۔

مجموعی طور پر ہم صفائی پسند قوم نہیں ہیں۔
سجاوٹ کے باوجود ہم صفائی کا ذرا خیال نہیں رکھتے۔
جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ اسی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی مٹھائی کے ڈبوں اور لفافوں کو جگہ جگہ پھینکتے چلے جاتے ہیں۔

عاشقان_ مصطفی کا یہ ہجوم جہاں سے گزرتا ہے اپنے پیچھے کوڑے کے ڈھیر چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ حالانکہ صفائی نصف ایمان یے لیکن ہم صفائی کا خیال رکھنا اپنے اجتماعی مزاج کے خلاف سمجھتے ہیں ہم کسی استعمال شدہ چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھنے کو آپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔
محافل_ میلاد کے اصل مقاصد کو ہم نے بھلا کر نمود و نمائش کو رواج دے دیا ہے۔

درود پاک ، نعت ، تلاوت اور وعظ کے بجائے تصویر کشی اور عکس بندی پر ہماری توجہ زیادہ ہو گئی ہے جس سے محافل کا حسن ماند پڑ گیا ہے۔

جو کچھ ہو رہا ہے اور جس کو ہم اہل_ سنت کی پہچان سمجھ کر سینے سے لگائے ہوئے ہیں یہ زیادہ سے زیادہ استحباب کے زمرے میں آتا ہے وہ بھی اس شرط پر کہ اس میں خرافات شامل نہ ہوں

اگر ہم نے فرائض ادا نہیں کرنے، اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا خیال نہیں رکھنا، لوگوں کو تکلیف دینے سے باز نہیں آنا، دلوں سے بغض اور لہجوں سے کرختگی کو دور نہیں کرنا اور اخلاق_نبوی کو نہیں اپنانا تو یہ سب کچھ بے کار ہے

جی ہاں بے کار ہے۔

کوئی راضی ہو یا ناراض۔

محض مسلکی وابستگی کی خاطر صدائے حق بلند کرنے سے اجتناب نہیں کیا جا سکتا۔
کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے:

ترے حسن_ خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی

میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا۔

اور

جشن _ میلاد کی ہیں بڑی برکتیں

یہ تو ثابت ہے پختہ روایات سے

پر گوار نہیں ہم کو بیہودگی

ہم ہیں بیزار ایسی خرافات سے

بابر حسین بابر
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف