📿 ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے اسباق سیرت کا سبق#4️⃣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#eidmiladunnabi2022
📜رسول اللہ ﷺ کا تاریخ وصال 12 ربیع الاول ہرگز نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض حضرات، سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہہ کر ان کے ایمان افروز جذبات کو مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں کہ 12 ربیع الا ول نبی کریم ﷺ کی ولادت نہیں بلکہ وفات کا دن ہے۔ اس لئے اس روز خوشی منانے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو غم ، افسوس اور سوگ کا دن ہے ۔

جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس تحریر میں مستند روایات اور سائنسی لحاظ سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات بروز پیر مورخہ 1 یعنی یکم ربیع الاول 11 ہجری بمطابق 28 مئی سن 632 عیسوی میں ہوئی۔

تاریخ وفات کے تعین پر دلائل:

✅1۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! تمہاری کتاب ( قرآن ) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس ( کے نزول کے ) دن کو یوم عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے جواب دیا ( سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 3 کہ ) ”آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو ( خوب ) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ( اس وقت ) آپ ﷺ یوم عرفہ میدان عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔
( صحیح بخاری ، کتاب الایمان حدیث نمبر 45 )

◀️اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حجۃ الوداع سن 10 ہجری میں یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحج جمعہ کا دن تھا۔

✅2۔ کتب سیرت و تاریخ اس بات پر متفق ہیں کہ حضور ﷺ کے مرض وفات کی ابتدا ماہ صفرمیں ہوئی۔
اولین سیرت نگار صاحب المغازی امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ المتوفی 151ھ نے اپنی کتاب سیرت ابن اسحاق میں اورامام محمد ابن سعد رحمہ اللہ المتوفی 230ھ نے اپنی کتاب طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ نبی ﷺ کی علالت صفر میں بدھ کے روز شروع ہوئی اور آپ کی علالت کا دورانیہ 13 دن بیان ہوا ہے۔ اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ وصال مبارک ماہ ربیع الاول میں ہی ہوا۔

✅3۔ حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کے مرض الموت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھایا کرتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو نبی کریم ﷺ حجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک (حسن و جمال اور صفائی میں) گویا مصحف قرآن کا ورق تھا۔ آپ ﷺ مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ ﷺ کو دیکھنے ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں۔ جناب ابوبکررضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آ ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم ﷺ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں، لیکن آپ ﷺ نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کر لو۔ پھر آپ ﷺ نے پردہ ڈال دیا۔ پس نبی کریم ﷺ کی وفات اسی دن ہو گئی۔
( صحیح بخاری حدیث نمبر 680 )

◀️اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ کا وصال مبارک پیر کے دن ہوا۔

◀️درج بالا دلائل سے تین باتیں متعین ہوتی ہیں:

✅اولاً، رسول اللہ ﷺ نے میدان عرفات میں سن 10 ہجری یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحج کو جمعہ کے دن خطبہ دیا۔

✅ثانیاً، آپ کی علالت سن 11 ہجری، ماہ صفرمیں بدھ کو شروع ہوئی جو 13 دنوں پر مشتمل رہی۔

✅ثالثاً، آپ کی وفات پیر کے دن ربیع الاول میں ہوئی۔

◀️صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ ہجری مہینہ یا 30 دن کا ہوسکتا ہے یا 29 دن کا۔

اگر 9 ذوالحجہ جمعہ کے دن سے حساب لگایا جائے تو درج ذیل ممکنہ چار صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی یوم وصال بروز پیز 12 ربیع الاول نہیں ہو سکتا:

❗ تینوں مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر) 30 دن کے ہوں۔ اس صورت میں 12 ربیع الاول اتوار کو ہے۔ جبکہ پیر کا دن 6 یا 13 ربیع الاول کو ہے۔
یہ صورت ویسے بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ چاند کے تین لگاتار ماہ 30 دن کے نہیں ہوتے۔ جبکہ کسی سیرت نگار نے نبی پاک ﷺ کا تاریخ وصال 6 یا 13 ربیع الاول نہیں لکھی۔

‼️تینوں مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر) 29 دن کے ہوں۔ اس صورت میں 12 ربیع الاول جمعرات کو ہے۔ جبکہ پیر کا دن 2 یا 9 ربیع الاول کو ہے۔
یہ صورت ویسے بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ چاند کے تین لگاتار ماہ 29 دن کے نہیں ہوتے۔
لیکن اس کے باوجود امام سھیلی کی کتاب روض الانف میں ، امام ابن جریر طبری کی تاریخ طبری میں یہ روایت ملتی ہے کہ نبی پاک ﷺ کا تاریخ وصال 2 ربیع الاول ہے۔

⁉️ دو مہینے 30 دن کے ہوں، اور ایک مہینہ 29 دن کا ہو۔ اس صورت میں 12 ربیع الاول ہفتہ کو ہے۔ جبکہ پیر کا دن 7 یا 14 ربیع الاول کو ہے۔
کسی سیرت نگار نے نبی پاک کا تاریخ وصال 7 یا 14 ربیع الاول نہیں لکھی۔

*️⃣دو مہینے 29 دن کے ہوں، اور ایک مہینہ 30 دن کا ہو۔ اس صورت میں 12 ربیع الاول جمعہ کو ہے۔ جبکہ پیر کا دن 1 یا 8 ربیع الاول کو ہے۔

✅ثابت ہوا کہ 12 ربیع الاول حضور ﷺ کا یوم وصال نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ کا وصال صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق پیر کے دن ہوا جبکہ مندرجہ بالا تمام ممکنہ صورتوں میں 12 تاریخ کو پیر کا دن بنتا ہی نہیں ہے۔

❌ان مفروضہ تاریخوں میں سے 6، 7، 8، 13، 14 ربیع الاول کی تائید میں کوئی روایت نہیں ہے، اور نہ ہی کسی سیرت نگار نے ان تاریخوں کو ثابت کیا ہے۔ اس لیے یہ تاریخیں خارج از بحث ہیں۔

❌2 یا 9 ربیع الاول بھی ممکن نہیں کیونکہ چاند کے تین لگاتار ماہ 29 دن کے نہیں ہوتے۔

✅اب یکم 1 ربیع الاول کی تاریخ باقی بچتی ہے۔ اوردراصل یہی آپ ﷺ کا یوم وصال ہے۔

✅اس حوالے سے مستند روایات بھی موجود ہیں:

۱۔ امام ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ المتوفی 852ھ نے اپنی کتاب فتح الباری شرح صحیح بخاری میں بیان کیا ہے کہ :
یکم ربیع الاول کی روایت کو ثقہ ترین سیرت نگارامام موسیٰ بن عقبہ متوفی 141ھ نے اپنی کتاب مغازی میں نقل کیا ہے اور مشہور محدث امام لیث بن سعد مصری متوفی 175ھ سے بھی یہی تاریخ مروی ہے۔
(فتح الباری شرح صحیح بخاری – باب وفات النبی)

۲۔ امام السہیلی رحمہ اللہ متوفی 581ھ نے بھی اپنی کتاب ”الروض الانف” میں لکھا ہے کہ یوم وصال کے بارے میں یکم ربیع الاول کی روایت حقیقت سے قریب تر ہے۔
(الروض الانف فی شرح سیرۃ النبویہ ابن ھشام و ابن اسحاق – باب وفات النبی)

🌹خلاصہ کلام:
یکم ربیع الاول ہی وہ تاریخ ہے جو محدثین کی روایت و درایت کے اصولوں، اصول تقویم اور چاند کی گردش کے قانون سے مطابقت رکھتی ہے۔
کیونکہ اس صورت میں دو مہینے 29 کے اور ایک 30 دنوں کا قرار پاتا ہے ۔
اس تاریخ کو درست ماننے کی صورت میں ان روایات کی بھی تطبیق ہو جاتی ہے جن کی رو سے 9 ذوالحجہ یوم عرفہ کا دن جمعہ ہے اور نبی ﷺ کی علالت کے آغاز کا دن بدھ ہے ، اور 13 دن علالت کے ہونے پر 18 صفربدھ بنتا ہے۔

🌹چنانچہ یہ بات زیادہ قرین حقیقت ہے کہ نبی ﷺ کی تاریخ وفات پیر، یکم 1 ربیع الاول 11 ہجری بمطابق 28 مئی سن 632 عیسوی قرار دی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب