میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر ایک علمی تحریر

مصر کے پروفیسر ڈاکٹر عبد الملک العلوی کی دلچسب تحریر

*”مولد النبی قرار قلبك”*
کا اردو ترجمہ
————————-
برائے مہربانی یہ تحریر کسی فرقے سے بالاتر ہو کر پڑھیں۔
اگر سمجھ میں آجائے۔
*مولد النبی قرار قلبك*
(میلاد النبی ﷺ تیرے دل کا فیصلہ)

یہ ہم مسلمانوں کی بدقسمتی ہے حضور اکرم ﷺ کے میلاد کے مسئلے کو ایسے خطرناک اور چالاک طریقے سے الجھایا گیا کہ بظاہر بڑے بڑے پڑھے لکھے نظر آنے والے لوگ بھی وسوسوں کا شکار ہو گئے اور نیتجہ یہ نکلا ہم بطور امت اپنے نبی کریم ﷺ کے میلاد پر بھی متحد نہ رہںے


*میں بڑا دعوی تو نہیں کرتا*
لیکن اگر آپ نے یہ تحریر بغور پڑھ لی
مثال نمبر 1 سے لے کر مثال نمبر 3 تک سب کچھ سمجھ لیا تو زندگی بھر کبھی کسی وسوسے میں نہیں آئیں گے
ان شاء اللّٰهُ تعالیٰ یہ تحریر میلاد پاک کے مسئلے پر فیصلہ کن اور حرف آخرثابت ہو گی

*سب سے بڑا اور مشہور اعتراض*
میلاد کے موقع پر مسلمان جب جب قرانی آیات اور احادیث بطور دلائل پیش کرتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں آیت میں اس بات کا حکم ہے نعمت ملنے پر خوشی کرنی چاہیے وغیرہ وغیرہ
مثلاً سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 ہے
” قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-
هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔”
یعنی تم فرماؤ: اللّٰه تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ،
یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔

ان جیسی آیات پر میلاد پاک کے منکرین عام لوگوں کے ذہن میں یہ وسوسہ ڈال دیتے ہیں
کہ یہ آیات تو صحابہ کو بھی پتا تھیں
مگر انہوں نے تو 12 ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺ کا جلوس نہیں نکالا
صحابہ نے تو ربیع الاول کے مہینے میں اپنے گھروں پر جھنڈے نہیں لگائے وغیرہ وغیرہ
کیا تمہیں صحابہ سے زیادہ قران کی سمجھ ہے؟؟
کیا تم صحابہ سے بڑے عاشق رسول ہو؟؟

یہ ہی وہ اعتراض ہے جس کے ذریعے سے کچھ لوگ صدیوں سے سادہ مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں

*اعتراض کا جواب*
یاد رکھیے ایک چیز ہے جسے انگلش میں culture کلچر اور عربی میں الثقافة (ثقافت) کہتے ہیں
اور ہر علاقے کی ثقافت دوسرے علاقے سے مختلف ہوتی ہے
اسی طرح خوشی منانے کا انداز ہر زمانے میں بدلتا رہتا ہے یعنی جیسے جیسے زمانہ بدلتا ہے خوشی منانے کے نئے نئے انداز سامنے آتے ہیں جن میں سے کچھ نئے انداز حرام ہوتے ہیں اور کچھ نئے انداز حلال ہوتے ہیں
اب اس کو 4 مثالوں سے سمجھیںے جن میں سے پہلی 3 مثالیں ایک قسم کی ہیں
جبکہ مثال نمبر 4 مختلف ہے

مثال نمبر 1
مثلا آج کل کے زمانے میں خوشی منانے کا ایک انداز یہ ہے کہ لائٹنگ چراغاں کیا جائے جیسا کہ شادی یا جشن آزادی کے مواقع پر لائٹنگ کی جاتی ہے
اب لائٹنگ کر کے خوشی کرنا آج کل کے زمانے کا انداز ہے صحابہ کے زمانے کا نہیں
تو جب خود لائٹنگ کر کے خوشی کرنے کا انداز صحابہ کے زمانے میں سرے سے تھا ہی نہیں تو پھر یہ اعتراض کرنا سرا سر دھوکا ہے

مثال نمبر 2
آج کل لوگ برتھ ڈے Birthday کے موقع پر ایک دوسرے کے لیے Best Wishes یعنی نیک تمناؤوں اور دعاؤں کا اظہار کرتے ہیں
بیٹا اپنی ماں کو ، بھائی اپنی بہن کو اور دوست دوسرے دوست کو برتھ ڈے پر دعائیں اور مبارکباد دیتا ہے
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں 3 سال کے لیے مصر میں نہیں تھا تو مجھے میری بیٹی میری برتھ ڈے پر ہر سال 12 بجتے ہی نیک تمناؤں دعاؤوں کے پیغام واٹس اپ کرتی تھی
الغرض اب یہ رواج بہت عام یو چکا ہے
اب اگر ہم غور کریں تو صحابہ کے زمانے میں سے کہیں بھی یہ نہیں ملتا کہ انہوں نے جنم دن کے موقع پر یوں کسی دوسرے صحابی کو مبارکباد یا دعا دی ہو

اب اگر کل کو کوئی بیوقوف اٹھ کر یہ کہے کہ
“یوں تو اپنے کسی مسلمان بھائی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرنا اور دعا دینا ثواب کا کام ہے مگر خاص birthday کے دن کے موقع پر دعا دینا صحابہ سے ثابت نہیں اس لیے یہ حرام ہے”

تو ایسے نادان کو یہ ہی کہا جائے گا کہ برتھ ڈے نے آج کل کے زمانے میں اور ہماری ثقافت میں یہ اہمیت اختیار کر لی ہے
صحابہ کا زمانہ اس زمانے سے مختلف تھا
تو آج اگر کوئی بیٹا اپنی ماں ، کوئی شوہر اپنی بیوی ، کوئی بھائی اپنی بہن یا کوئی باپ اپنی اولاد کے برتھ ڈے پر انہیں تحفے دے دیتا ہے یا ان کے لیے لمبی زندگی کی دعا کرتا ہے اور اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سب جائز سمجھتے ہیں اگرچہ یہ کام صحابہ نے نہیں کیا
لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ
جس طرح اپنی بہن بیٹی بیوی یا ماں کی ولادت کے دن جائز طریقے سے خوشی مناتے ہوئے انہیں تحفے دینا یا ان کے لیے دعائیں کرنا ثواب ہے
اسی طرح حضور اکرم ﷺ کی ولادت کے موقع پر خوشی مناتے ہوئے کسی مسلمان بھائی کو کھانا کھلانا بھی ثواب ہے
اگرچہ یہ دونوں کام صحابہ سے ثابت نہیں ہیں اور وجہ وہ ہی ہے کہ صحابہ کے زمانے اور ہماریے زمانے کے انداز الگ الگ ہیں

مثال نمبر 3
ہر سال کسی بھی تاریخی اور خوشی کے دن پر ، اس دن یا اس مہینے میں جھنڈے لگا کر خوشی منانا بھی ایسا کام ہے جو صحابہ نے نہیں کیا
مثلاً حضور اکرم ﷺ نے 20 رمضان المبارک 8 ہجری میں فتح مکہ کیا
اسکے بعد فتح مکہ کا یہ دن 2 بار حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں آیا
2 بار حضرت ابوبکر کی خلافت میں
11 بار حضرت عمر کے دور خلافت میں
12 بار حضرت عثمان کی خلافت میں
5 بار سیدنا علی کے دور خلافت میں
الغرض کل ملا کر خلفائے راشدین کی زندگی یہ دن تقریبا 30 بار آیا
مگر کسی بھی سال صحابہ نے اس دن یا اس مہینے فتح مکہ کی خوشی میں نا تو کبھی خوشی منائی اور نا گھروں کی چھتوں پر کسی قسم کے کوئی جھنڈے لگائے
مگر ہم جشن آزادی کے موقع پر ہر سال ایسا کرتے ہیں کیا آپ نہیں دیکھتے کہ 23 جولائی کو سارے مصر میں خوشی کا سماں ہوتا ہے اسی طرح ہمارے دوسری اسلامی برادر ممالک ترکی پاکستان وغیرہ بھی اپنے اپنے قومی دنوں پر بھرپور طریقے سےجشن آزادی مناتے ہیں

تو کیا اب جشن آزادی پر جھنڈے لگانا اس لیے حرام ہو جائے گا کہ صحابہ نے تو مکہ فتح کر کے بھی ہر سال جھنڈے نہیں لگائے اور ہم لگاتے ہیں

ہرگز نہیں
فرق اب بھی وہ ہی ہے رہے گا کہ
ہر زمانے کی ثقافت کلچر رسم و رواج اور انداز مختلف ہوتے ہیں

مثال نمبر 4
البتہ گزشتہ 3 مثالوں میں
کوئی ولیمے کی سنت ادا کرتے وقت میوزک پارٹی کرے
یا
برتھ ڈے پر ڈانس اور فحاشی کی جائے
یا
جشن آزادی پر گانے باجے کا اہتمام کیا جائے
تو اب یہ وہ نئے کام ہوں گے جو حرام قرار دیے جائیں گے
کیونکہ شریعت خوشی کے موقع پر حرام کام کی اجازت نہیں دیتی اور یہ ہی وہ بدعتیں ہیں جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے

تو خلاصہ یہ نکلا کہ
برتھ ڈے آج کل کے دور کی ایجاد ہے
اب اسی برتھ ڈے پر اگر کوئی بیٹا اپنی ماں کے کمرے کو صاف کر کے سجا دے اس نیت سے کہ اس کی ماں اس سے خوش ہوجائے گی یا اپنی ماں کے لیے کوئی تحفہ لے آئے یا اس خوشی میں سب کو کیک کھلا دے یا اگر گھر سے دور ہے تو واٹس اپ پر اپنی ماں کو دعا ہی دے تو اسے ثواب ملے گا
دوسری طرف اپنی ماں کی برتھ ڈے کے موقع پر اگر وہ بیٹا اوپر ذکر کیے گئے سارے کاموں کے ساتھ ساتھ میوزک پروگرام کرے اور ڈانس کرے تو وہ گناہگار ہو گا

بس اسی طرح میلاد شریف میں جب نعت خوانی ہو ، گھروں کو سجانا ہو ، اپنے مسلمان بھائیوں کو کھانا کھلانا ہو تو بہت بڑا ثواب ہے
اور اگر ڈانس اور ڈھول ڈھماکا ہو تو بہت بڑا گناہ ہے
اور جہاں تک میں نے میلاد النبیﷺ کی محفل کو دیکھا ہے مصر ترکی بنگلادیش پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے علاقوں میں
ابھی تک میلاد ڈھول اور گانے باجے جیسی خرافات سے بالکل پاک ہے
لیکن اللّٰه نا کرے آج سے 30 چالیس سال بعد کہیں 2050 یا 2060 میں بالفرض اگر کبھی ایسی صورتحال پیدا ہو گئی کہ میلاد میں کچھ غلط چیزیں شامل ہو گئیں اور نئے اعتراض شروع ہوگئے تو اس کا جواب ابھی دیںے دیتا ہوں
جواب یہ ہے کہ
میلاد میں کچھ غلط ہو تو اس غلط کو ختم کریں نا کے میلاد کے خلاف سازش شروع کردیں
جیسا کہ مسجد میں کوئی شرابی شراب لے آئے تو شرابی کو نکالیں گے نا کہ مسجد کو بند کریں گے
جواب بڑا سیدھا ہے کہ ناک پر مکھی بیٹھ جائے تو مکھی کو اڑایا جاتا ہے ناک کو کاٹا نہیں جاتا

الغرض یہ ہی وہ اعتراض تھا جس پر منکرین میلاد عوام کو دھوکہ دیتے تھے
باقی چھوٹے موٹے اعتراضات چلتے رہیں گے اور علماء حق اسکا جواب دیتے رہیں گے
مثلا یہ اعتراض کہ پورا سال گناہ کرتے ہیں اور اس ایک مہینے میں میلاد منا لیتے ہیں

یعنی ان فرقہ پرست ملاؤوں کا مقصد یہ ہے کہ سال میں مسلمانوں کو جو ایک بار نبی کی یاد سے دل کو تر و تازہ کرنے کا موقع مل رہا ہے وہ بھی چھن جائے
یہ ایسا ہی ہے کہ جو مسلمان پورا سال نماز میں سستی کا شکار رہتے ہیں جب وہ رمضان میں باقاعدگی سے نماز و روزہ کی پابندی کریں تو انہیں طعن و تشنیہ کی جائے تاکہ وہ جو اس ایک رمضان کے مہینے میں عبادت پر مائل ہوا ہے اسےبھی دل برداشتہ ہوکر چھوڑ دے
اگلے دن مجھے ایک شخص ملا اور کہنے لگا کہ تم لوگ جس دن نبی کا مولد مناتے ہو اس تاریخ پر تو نبی کی ولادت ثابت ہی نہیں
اس احمق کا دل تھا کہ مجھے تاریخوں کے چکر میں الجھائے مگر میں نے اسے سادہ سا جواب دیا اور کہا کہ
ٹھیک ہے جو تاریخ تمہیں ٹھیک لگتی ہے تم اسی دن اپنے گھر پر میلاد کی محفل منعقد کر کے میلاد منا لیا کرو
اس پر وہ خاموشی سے چلتا بنا

آخری پیغام
اس مشہور اعتراض کی تدفین کے بعد میں بس اپنے مسلمان بھائیوں سے اتنا کہوں گا کہ خدارا ان فرقہ پرست ملاؤوں کی باتوں میں آ کر اپنے نبی کے ذکر سے دور ہونے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ یہ دیکھیں آج کل کے اس مادی دور میں اگر سال بعد ہمیں نبی سے محبت کا اظہار کا موقع مل رہا ہے تو اسے غنیمت جانیں

کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جب مولد کا مہینہ آتا ہے تو کیسے ہر خاص و عام نبی کی محبت میں سرشار ہو جاتا ہے
بچے خوش ہوتے ہیں
بڑے مسرور ہوتے ہیں
ہر طرف نبی کے ذکر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں
جس جگہ لوگ نبی کے مولد کی خوشی میں کچھ میٹھائی یا کچھ کھانے کی چیز تقسیم کرتے ہیں
وہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کا خوشی سے جانا
ان معصوم بچوں کے چہروں پر اس تبسم کا آنا
ان کی آنکھوں میں خوشیوں کی چمک نظر آنا
سوچو تو سہی حضور اکرم جب اپنے ذکر پر اپنی امت کے ان ننھے ننھے پھولوں کو خوش دیکھیں گے تو انہیں کتنی فرحت ہو گی
خدارا زندگی میں کبھی اپنے نبی سے تعلق کو مت توڑنا
✍️والسلام عبدالملک العلوی۔۔۔۔۔