مصیبت و غم و حزن و ملال و پریشانی میں ، صحابہ کرام علیھم الرضوان ، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو
” ندا ” سے پکارتے ۔۔۔۔
ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کبار صحابہ سے ہیں،
ایک بار انکا پاؤں سُن ہوگیا، کسی نے کہا ، جو آپ کو
سب زیادہ محبوب ہوں انہیں پکارو ، آپ نے ندا کی:
” یا محمد ” ( صلی اللہ علیہ وسلم )
(پاؤں ٹھیک ہوگیا ):

اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ” الادب المفرد”
میں نقل فرمایا :

اب ستم ظریفی دیکھئیے :
1300 سال تک اس حدیث پر کسی محدث نے حکمِ ضعف
نہ لگایا حتٰی کہ ایک مخصوص طبقہ کے ” امام” ابنِ تیمیہ
نے اسے ” الکلم الطیب ” میں بغیر ضعیف کہے دیگر سند
سے نقل فرمایا :
مگر امام بخاری کے تقریباً 1200 سال پیدا ہونے والے
اپنی عادت سے مجبور, ایک محقق “البانی ” نے اسے حسبِ عادت و سابق ضعیف کہا:( چونکہ اس سے ان کے عقیدے پر کاری ضرب پڑتی تھی ضعیف کہنا تو بنتا ہے)

چلیں خیر !!!
سعودیوں نے 1998 میں اسکی تعلیقات پر ہاتھ کی صفائ
دکھاتے ہوئے ، اس حدیث سے پہلے لفظِ ” یا ” کو نکال دیا
پھر ” محقق ” البانی نے ” صحیح المفرد ” نامی کتاب
مرتب کی تو پوری حدیث ہی۔۔۔۔۔۔۔۔ غائب کردی۔

ماشاء اللہ ، “محقق” ہو تو ایسا !

امام اہلسنت ، مولانا الشاہ امام احمد رضا خان رحمہ اللہ
نے جو عقیدہ ہمیں بتایا ، یہ وہ ہی عقیدہ تھا جو 1400
پہلے لوگوں کا ،خصوصاً صحابہ کرام علھیم الرضوان کا
تھا ، محدثین و فقہا و صالحین کا تھا۔اسلاف کا تھا۔

میرے امام نے کوئ عقیدہ نَو ،یا جدید نظریہ متعارف نہیں کرایا، بلکہ صدیوں پرانے ” عقیدے ” سے ہمیں روشناس
کرایا !!
اور بتادیا !
اے مسلمانو ! دکھ ، پریشانی ، تکلیف میں یارسول اللہ
کہنا ، پکارنا ، ندا کرنا، ” طریقہ اغیار ” نہیں بلکہ
“طریقہ اصحابِ کبار ” ہے۔

ابنِ حجر
21/10/2020ء