ارشد شریف کا قتل اور کینیا سے متعلق بعض مشاہدات
ارشد شریف کا قتل اور کینیا سے متعلق بعض مشاہدات
افتخار الحسن رضوی
صحافی ارشد شریف کا قتل دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ ان کے صحافتی کیرئیر سے متعلق مجھے کچھ نہیں کہنا اور پاکستان کے سیاسی ماحول اور اس سے متعلقہ ابحاث سے میں خود کو قصداً دور رکھتاہوں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے براہِ راست کئی سیاسی و سفارتی اکابرین سے رابطہ رکھنا ہی ہوتا جس کی وجہ سے متعدد ایسے حقائق سے واقفیت ملتی رہتی ہے جو عموما سوشل میڈیا سے پوشیدہ ہی ہوتے ہیں۔ ارشد کے قتل پر اس لیے بات کر رہا ہوں کہ وہ دیس میں دیے گئے زخموں کے لیے مرہم تلاش کرنے بیرون ملک نکلا تھا اور پردیسی کا دکھ ایک پردیسی بہتر سمجھ سکتاہے۔
یہ ٹارگٹ کِلنگ تھی یا ایک حادثہ، اس پر یقینی بات کرنا کم از کم میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ٹارگٹ کلنگ خارج از امکان بھی نہیں ہے۔ اگر کینیا کی بات کی جائے تو یہ ایک بد امن، غیر محفوظ اور بد عنوان معاشرے پر مبنی ملک ہے جہاں غربت و افلاس، آمریت اور لاقانونیت پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ وہاں بھی موروثی و خاندانی حکومتیں موجود رہی ہیں اور قوانین کا نفاذ امیر و غریب کے لیے الگ ہے۔ چوری ڈکیتی عام ہے، اے ٹی ایم اکھاڑ لینا، بینک لوٹنا، شراب کی ایک بوتل کی خاطر جان لے لینا، جوتے اور کپڑے چوری کر لینا عام بات ہے۔ قحبہ خانوں اور الکوحل کے مراکز پر انسانیت کی تذلیل نیروبی سے بڑھ کر شاید ہی کہیں ہو۔ سال ۲۰۱۷ میں نیروبی میں واقع “ کنیاتا انٹرنیشنل کنوینشن سنٹر” میں ایک ایونٹ تھا۔ ہم بھی اس میں شریک تھے۔ پولیس اہلکار چند لمحات بعد آتے اور آ کر ہمیں اپنے لیپ ٹاپ بیگ اپنےہاتھ میں پکڑے رکھنے، موبائل فون چھپا کر یا جیب کے اندر رکھنے اور سامان کو تالا لگا کر رکھنے کی مسلسل تاکید کرتے تھے۔ یہ ایک بین الاقوامی ایونٹ تھا جس کی سیکیورٹی فوج کے ذمہ تھی۔ جب ایسے ایونٹ کے اندرونی ہال میں یہ حال ہو تو باہر سڑکوں پر کیا بیت رہی ہو گی۔
کینیا عرب چیمبر آف کامرس کے سیکرٹری جنرل عمر فقیہ کے ساتھ کینیا کی وزارتِ خارجہ و تجارت کے دفتروں میں اجلاس کے دوران بھی ہمیں مسلسل متنبہ کیا جاتا رہا ہے کہ اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ سمیت دیگر سامان اپنے سامنے رکھیں اور اس کی حفاظت بھی خود کریں۔
کینیا کے معروف مسلمان ڈپلومیٹ ابراہیم خمیس، یہ ریاض سعودی عرب میں بطور سفیر تعینات تھے۔ میرے یہاں ان کا آنا جانا تھا اور کئی مواقع پر ہم نے ایک ساتھ سیمینارز، اجلاس اور ایونٹس میں شرکت کی۔ میں نے کبھی ان کے پاس پرس، اچھا موبائل اور لیپ ٹاپ نہیں دیکھا۔ ان کی ڈیوائسز ان کا خادم تالے میں رکھا کرتا تھا۔
شہر میں ایک علاقہ اپر ہِل upper Hill کے نام سے معروف ہے، وہاں ڈائمنڈ پلازہ میں فوڈ سٹریٹ ہے۔ اس فوڈ سٹریٹ میں جوان لڑکیاں، لڑکے، بچے اور بوڑھے ۔۔۔ ان سب سے آپ کی جان اور مال محفوظ نہیں۔ اگر آپ کا پرس چوری ہو جائے تو مزاحمت کی صورت میں آپ کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ سب ہمارے مشاہدات ہیں، جن سے اختلاف ممکن ہے۔ جب کہ ساحلی علاقہ ممباسا مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور وہاں حالات بالکل مختلف ہیں۔ نیروبی شہر میں بھی جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہ علاقے نسبتا صاف اور محفوظ ہیں۔
کینیا پہلا ملک ہے جہاں ہم نے عبادت گاہوں کے باہر رکھے جوتوں پر تالے لگے دیکھے تھے۔ پانی کے کولر کے ساتھ لٹکا ہوا گلاس بھی مقفل تھا۔ اب ایسے ملک میں یہ قتل ہرگز اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
اللہ کرے اس قتل کی مکمل تفتیش و تحقیق ہو اور جو اصل حقائق ہیں وہ سامنے آ جائیں۔
افتخار الحسن رضوی
۲۴ اکتوبر ۲۰۲۲