اعتراض : جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ (اللہ) شفاء دیتا ہے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اعتراض : جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ (اللہ) شفاء دیتا ہے جب میں کسی حادثے میں ٹانگ گنوا بیٹھوں تو وہ ٹانگ نہیں دیتا کیونکہ شفاء دوا یا جسمانی مدافعتی نظام کی وجہ سے ہو سکتی ہے اور بعد میں مذہب کو یہ جھوٹا دعویٰ کرنے کا موقع مل جاتا ہے کہ اللہ نے شفاء دی (العیاذ باللہ تعالٰی ) کوئی دوائی یا جسمانی مدافعتی نظام دوسری ٹانگ نہیں دیتا
الجواب بعون الملک الوھاب :
قرآن میں ہے :
واذا مرضت فھو یشفین
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں وہی (اللہ) مجھے شفاء دیتا ہے ۔
کائنات دو چیزوں پر مشتمل ہے مادہ اور توانائی ۔ مادہ جن بنیادی عناصر سے مل کر بنا ہے وہ آگ، ہوا، پانی اور مٹی ہیں۔ مادہ کی آگے مختلف حالتیں ہیں جو کہ ٹھوس، مائع، گیس اور پلازمہ ہیں۔ ہر ایک موجود شئے جو وزن رکھتی ہے اور جگہ گھیرتی ہے اس کی تخلیق مادہ سے ہوئی ہے۔ اور کائنات میں ہر موجود شئے کی اپنی اپنی مخصوص طبعی خاصیتیں ہیں ان میں منفرد خصوصیات پائی جاتی ہیں جیسے کہ آگ جلا دینے کی طبعی خاصیت رکھتی ہے۔ یہ مسلّمہ سائنسی حقائق ہیں جن سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا چاہے وہ مسلم ہو یا ملحد ہو۔ اب یہاں مسلم اور ملحد کی تفریق ہے۔ ملحد یہ سمجھتا ہے کہ یہ تمام اشیاء اپنی منفرد طبعی خاصیتوں سمیت خود بخود وجود میں آ گئیں جبکہ مسلم کے نزدیک ان تمام اشیاء کا خالق اللہ تعالٰی ہے جس نے ہر ایک شئے کو تدبیر کے ساتھ پیدا کیا اور اس میں مخصوص طبعی خاصیتیں رکھ دیں اور اشیاء کی یہ خاصیتیں مشیت الٰہی کے تابع ہیں ۔ جیسا کہ آگ طبعاََ جلا دینے کی خاصیت رکھتی ہے لیکن اگر اللہ چاہے تو اس کی یہ خاصیت تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔
اس ضروری تمہید کے بعد
انسان جب کسی بھی بیماری میں مبتلاء ہو تو اس بیماری سے شفاء جسمانی مدافعتی نظام اور دوائی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ اس میں معترض نے یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ شفاء من جانب اللہ نہیں بلکہ دوائی سے ملی ۔ کسی بھی مرض کی دوا قدرتی طور پر موجود اور اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ عناصر میں موجود ہوتی ہے سائنس صرف اس بیماری کی وجوہات معلوم کرتی ہے اور ان عناصر کی کھوج کر کے ان سے اس مرض کی دوائی تیار کرتی ہے جن میں اللہ تعالٰی نے اس مرض کی شفاء طبعی طور پر رکھ دی ہے۔ یعنی بالواسطہ شفاء اللہ تعالٰی ہی کی طرف سے ہے لیکن ذریعہ ان عناصر پر مشتمل دوا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اس بیماری سے نجات دلانے کی تاثیر رکھ دی۔اسی طرح انسان کے اندر بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام بھی اللہ تعالٰی ہی کا تخلیق کردہ ہے۔ جب جسمانی مدافعتی نظام بنانے والا اللہ ہے، مختلف عناصر میں مختلف بیماریوں سے شفاء کی خاصیت اور تاثیر رکھنے والا اللہ ہے تو حقیقی طور پر شفاء دینے والا اللہ تعالٰی ہی ہوا ۔ ادویات تو ذریعہ بنیں۔ ادویات میں مستقل طور پر ایسی کوئی خاصیت موجود نہ تھی بلکہ جن اجزاء سے ملکر وہ ادویات تیار کی گئیں ان اجزاء میں اللہ تعالیٰ نے وہ مخصوص خاصیت رکھ دی ۔ میڈیکل سائنس نے صرف بیماری کی وجوہات کا پتا لگایا اور اس بیماری سے نجات دینے والے قدرتی اجزاء کی کھوج لگائی یا کائنات میں موجود عناصر کو مصنوعی طریقے سے مجتمع کر کے ان سے بیماریوں سے نجات کی ادویات تیار کیں۔
سمجھنے کے لیے بطور مثال
درخت کاٹنے کے لیے انسان نے کلہاڑی ایجاد کی۔ کلہاڑی قدرتی طور پر موجود لوہے کو آگ میں پگھلا کر ایک مخصوص شکل میں ڈھال کر تیار کی گئی۔ اب اس کلہاڑی میں لکڑی کو کاٹنے کی خاصیت تو موجود ہے لیکن کلہاڑی بذات خود درخت کو نہیں کاٹ سکتی اس کی یہ خاصیت تب کام آئے گی جب اس کا مؤجد اس پر طاقت لگا کر ایک مخصوص طریقے سے اسے استعمال کرے گا ۔لوہا جب خام حالت میں ہو تو اس میں بذات خود کاٹنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ یہ صلاحیت ایک مخصوص شکل میں ڈھال کر انسان پیدا کرتا ہے اور جب یہ صلاحیت پیدا ہو جائے تو تب بھی لوہا ازخود کاٹ نہیں سکتا جب تک انسان اپنی مرضی سے اسے اس مقصد کے لیے استعمال نہ کرے۔ کاٹنے کا کام کلہاڑی نے کیا لیکن اس میں یہ اثر انسان نے پیدا کیا کہ وہ اس قابل ہو سکے کہ اس سے درخت کٹ جائیں۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ درخت تو کلہاڑی نے کاتا اور انسان نے یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ اس نے درخت کاٹا تو یہ غیرمنطقی اور غیرعقلی ہے۔
اسی طرح عناصر میں کسی مخصوص بیماری سے شفاء کی صلاحیت ازخود موجود نہیں ہوتی بلکہ ان میں یہ صلاحیت اللہ پیدا کرتا ہے اور ان کی یہ صلاحیت بیماریوں کے خلاف ازخود مؤثر نہیں ہوتی بلکہ جب اللہ چاہتا ہے تب مؤثر ہوتی ہے۔ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ بعض اوقات ایک مخصوص بیماری کی معلوم دوا استعمال کرنے کے باوجود اس بیماری سے نجات نہیں ملتی ڈاکٹرز مختلف ادویات تبدیل کرتے ہیں اور بعض اوقات اس بیماری میں انسان ایک عرصہ گزار دیتا ہے لیکن اسے شفاء حاصل نہیں ہوتی۔ اگر ادویات میں ازخود کسی بیماری سے شفاء دینے کی صلاحیت ہوتی تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔
یہاں تک کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ دوا یا جسمانی مدافعتی نظام ازخود بیماری کو ختم نہیں کر سکتا جب تک اللہ تعالٰی کی مشیت شامل حال نہ ہو یعنی حقیقتاََ شفاء من جانب اللہ ہی ہے۔ اب آتے ہیں معترض کے دوسرے اعتراض کی جانب کہ جب کوئی حادثے میں ٹانگ گنوا بیٹھے تو اللہ دوسری ٹانگ کیوں نہیں دیتا
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیماری سے شفاء عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے کہیں بھی ایسا وعدہ نہیں کیا کہ کسی جسمانی عضو کے نقصان کی صورت میں اس کی جگہ نیا عضو پیدا کر دے گا ۔ اور دوسری بات کسی حادثے میں کوئی جسمانی عضو گنوا دینا بیماری نہیں کہلاتا۔
جیسا کہ تمہید میں بیان ہوا کہ مادہ جس بھی صورت میں موجود ہو اس میں مخصوص خاصیتیں طبعاََ پائی جاتی ہیں ۔ اسی طرح انسان کے اندر بھی طبعی طور پر اللہ تعالیٰ نے کئی خاصیتیں رکھی ہیں لیکن انسانی جسم میں کسی عضو کو دوبارہ نئے سرے سے پیدا کرنے کی صلاحیت اللہ نے انسانی جسم میں نہیں رکھی ۔اگر بالفرض ایسا ہوتا تو انسان مخلوق نہیں بلکہ اپنا خالق خود کہلاتا جو کہ محال ہے۔ اسی طرح کائنات کے تمام عناصر میں اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی خاصیت ہی نہیں رکھی کہ وہ انسان کے کسی عضو کو دوبارہ پیدا کر سکیں۔ یہ تخلیق کا ایک مخصوص عمل ہے جو صرف اور صرف خدا ہی کا فعل ہے ۔ کسی شئے کو عدم سے وجود میں لانا صرف اللہ ہی کا فعل ہے یہ وصف کسی اور کو حاصل نہیں کیونکہ ایسا ہونا منطقی طور پر محال ہے۔ جسمانی عضو کے نقصان کے بعد اسے کے دوبارہ اگ آنے کا مطالبہ کرنا یا توقع رکھنا یوں ہی ہے جیسے سوکھی لکڑی سے دوبارہ پھل ملنے کی توقع رکھنا ۔ اور یقیناََ ایسا مطالبہ ہی خلاف عقل ہے۔
سائنسی لحاظ سے بھی کسی سالم انسانی عضو کا دوبارہ سے اگ آنا ممکن ہی نہیں۔ انسانی جسم ایک مخصوص حد تک نئے سیل ری جنریٹ کر سکتا ہے جیسے کہ جلد کے مردہ خلیے دوبارہ پیدا ہو سکتے ہیں لیکن ایک پورا عضو دوبارہ سے پیدا کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ صرف عضو ہی نہیں بلکہ اس میں ہڈیاں، عضلات، خون کی شریانیں اور وریدیں، نیورو سیلز ، جلد کے خلیے اور دیگر مختلف اقسام کے خلیے بھی بنانے پڑتے ہیں اور ماہرین کے مطابق ایسا ہونا ممکن ہی نہیں کہ انسان پورے کا پورا عضو ری جنریٹ کر سکے۔
معترں نے جسمانی عضو کے دوبارہ پیدا نہ ہونے کو اللہ کا عجز قرار دیا ہے ۔۔۔ جبکہ یہ عجز تب ہو جب ممکن ہو اور اللہ تعالٰی اس پر قادر نہ ہو ۔ یہ محال امر ہے اور محال امر میں وہ صلاحیت ہی نہی ہوتی کہ وہ قدرت باری تعالٰی کے تحت آ سکے وہ فی نفسہٖ ناقص امر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سورج کا بیک وقت دن اور رات کو نکلنا محال ہے اور ایسے امر کے عدم وقوع سے عجز باری تعالیٰ لازم نہیں آتا یہ معترض کی کم فہمی ہے۔
محمد إسحٰق قریشی ألسلطاني