حضرت امیر معاویہؓ کے کاتب وحی ہونا
حضرت امیر معاویہؓ کے کاتب وحی ہونا
ازقلم: اسد لطحاوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام حاکم و امام بیھقی نے نقل کیا ہے سند صحیح کے ساتھ کہ جو بخاری کی شرط پر ہے :
أخبرناه أبو عبد الله الحافظ، حدثنا علي بن حمشاد، حدثنا هشام بن علي، حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، عن أبي حمزة، قال: سمعت ابن عباس، فقال، وكان يكتب الوحي،
[دلائل النبوہ وسندہ صحیح علی شرط البخاری]
تبھی امام ذھبی نے اس حضرت امیر معاویہ ؓکو کاتب وحی ثابت کرنے کے لیے مذکورہ روایت بطور دلیل بیان کرکے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتے ہیں :
وقد صح عن ابن عباس قال: كنت ألعب، فدعاني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وقال: «ادع لي معاوية» وكان يكتب الوحي
امام ذھبی کہتے ہیں اور صحیح (سند) سے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں چھوٹا بچہ تھا مجھے نبی اکرمﷺ نے بلایا اور فرمایا میرے لیے معاویہ کو بلا لاو ، اور حضرت ابن عباس کے الفاظ ہیں کہ اور یہ کاتب الوحی تھے ”
[تاریخ الاسلام ]
امام ذھبی صاحب اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے
متقدمین میں حضرت امام معافی بن عمران نے امام الآجری نے ، حضرت امیر معاویہ کا تعارف کاتب وحی کے عہدے کے اعتبار سے کیا ہے
بلکہ حضرت امیر معاویہؓ کے کاتب وحی ہونے پر اعتراض کرنے والوں کا رد امام احمد نے بڑی شدو مد سے کیا ہے
جیسا کہ کتاب السنہ الخلال میں ان سے مروی ہے :
أخبرني محمد بن أبي هارون، ومحمد بن جعفر، أن أبا الحارث حدثهم قال: وجهنا رقعة إلى أبي عبد الله: ما تقول رحمك الله فيمن قال: لا أقول إن معاوية كاتب الوحي، ولا أقول إنه خال المؤمنين، فإنه أخذها بالسيف غصبا؟ قال أبو عبد الله: هذا قول سوء رديء، يجانبون هؤلاء القوم، ولا يجالسون، ونبين أمرهم للناس
ابوالحارث احمدبن محمد الصائغ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے امام احمد رحمہ اللہ سے بذریعہ خط پوچھاکہ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس کا یہ دعوی ہوکہ میں حضرت معاویہ ؓ کو کاتب وحی اور خال المؤمنین نہیں مانتا
تو امام احمد نے فرمایا:یہ انتہائی بری اور ردی بات ہے،ایسے لوگوں سے کنارہ کشی کی جائے، ان کی مجلس اختیار کرنے سے باز رہا جائے اور انکی گمراہیوں سے لوگوں کو واقف کیا جائے۔
[السنة لابی بکر بن خلال برقم :۶۵۹ وسندہ حسن]
اسکے بعد متاخرین میں امام ابن عساکر ، امام ابن جوزی، امام ابن حجر عسقلانی ، امام ذھبی ، اور ائمہ کی ایک بہت بڑی تعداد ہے !
باقی صحیح مسلم میں حضرت امیر معاویہ ؓ کے کاتب ہونے کی روایت جو کہ امام مسلم روایت کرتے ہیں :
حدثني عباس بن عبد العظيم العنبري ، واحمد بن جعفر المعقري ، قالا: حدثنا النضر وهو ابن محمد اليمامي ، حدثنا عكرمة ، حدثنا ابو زميل ، حدثني ابن عباس ، قال: ” كان المسلمون لا ينظرون إلى ابي سفيان ولا يقاعدونه، فقال للنبي صلى الله عليه وسلم: يا نبي الله، ثلاث اعطنيهن، قال: نعم، قال: عندي احسن العرب واجمله ام حبيبة بنت ابي سفيان ازوجكها؟ قال نعم، قال: ومعاوية، تجعله كاتبا بين يديك؟ قال: نعم، قال: وتؤمرني حتى اقاتل الكفار كما كنت اقاتل المسلمين؟ قال: نعم، قال ابو زميل: ولولا انه طلب ذلك من النبي صلى الله عليه وسلم، ما اعطاه ذلك لانه لم يكن يسال شيئا إلا، قال: نعم
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مسلمان ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی طرف دھیان نہیں کرتے تھے نہ اس کے ساتھ بیٹھتے تھے (کیونکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کئی مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑا تھا اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا) ایک بار انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے نبی! تین باتیں مجھے عطا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔“
ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس وہ عورت ہے کہ تمام عربوں میں حسین اور خوبصورت ہے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا میری بیٹی، میں اس کا نکاح آپ سے کر دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔
“ دوسری یہ کہ میرے بیٹے معاویہ کو آپ اپنا کاتب بنائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔“
تیسرے مجھ کو حکم دیجئیے کافروں سے لڑوں (جیسے اسلام سے پہلے) مسلمانوں سے لڑتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔“۔
ابوزمیل نے کہا: اگر وہ ان باتوں کا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ دیتے اس لئے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ جس جس بات کا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاں فرماتے اور قبول کرتے
[صحیح مسلم]
اسکی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر علیہ رحمہ فرماتے ہیں :
والمقصود منه أن معاوية كان من جملة الكتاب بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم الذين يكتبون الوحي
اسکو بیان کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ حضرت امیرمعاویؓ ان جملہ کاتبین میں سے ہیں،جوکتابت وحی کافریضہ سرانجام دیاکرتےتھے
[البداية والنهاية، ج۸، ص ۱۲۷]
یعنی علماء اہلنت کا یہ موقف ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ کے بارے متعدد روایات میں نبی اکرمﷺ کا خاص کاتب ہونا مروی ہے تو یہ بحث فضول ہے کہ جو نبی اکرمﷺ کا کاتب فریضہ انجام دے رہا ہو اور وہ کاتب وحی نہ ہو ۔۔۔
کہ نبی کریم کے اقوال کا لکھاری ہو اور نبی اکرمﷺ کی زبانی قرآنی آیات کا کاتب نہ ہو ؟
تحقیق: اسد الطحاوی