حضرت امیر معاویہؓ کے کاتب وحی ہونے پر حضرت ابن عباسؓ سے مروی اثر پر وارد اعتراض کا رد!
ازقلم: اسد لطحاوی

ہم نے دلائل نبوہ سے روایت پیش کی باسند صحیح جس میں حضرت ابن عباس کے الفاظ ہیں کہ حضرت امیر معاویہؓ کاتب وحی تھے! جسکی تفصیل آگے آئے گی!
ہمارا دعویٰ ہے کہ اس روایت میں کوئی بھی ایسا متن نہیں جو کہ اس روایت میں کسی راوی کا وھم ہو یا شاذ و منکر ہو ۔ بلکہ یہ روایت مختلف طریق سے کہیں تفصیل سے مروی ہے اور کہیں مختصر اور اصول یہ ہے کہ اس روایت کے تمام طریق کو جمع کر کے متن کو بھی جمع کیا جائے گا اور پورے متن میں کوئی ایسا لفظ جو مذکورہ متن کے خلاف ہو جس میں تطیق نہ ہو تو وہ متن بیشک رد ہوگا ۔
لیکن مختصر و تفصیل پر مبنی متن میں تفصیلی الفاظ اس وجہ سے نہیں آڑایا جا سکتا کہ جی اوثق نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے ۔ یہ تو ثقہ کا اضافہ ہے جو بھی ثقہ اضافہ کر دے اگر روایت میں تعارض پیدا نہ کرے تو مقبول ہوتا ہے ۔۔۔۔۔

اب ہم اعتراض کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں !

متعرض کا دعویٰ ہے کہ ابی عوانہ یکتب وحی کے الفاظ بیان کرنے میں منفرد ہیں اور ان پر اوھام کی جرح ہے جبکہ یہ جرح مبھم ہے اور کسی نے اس سبب امام ابو عوانہ پر کبھی اعتراض نہیں کیا ہے ۔
نیز مذکورہ سند میں امام ابو عوانہ سے انکا شاگرد موسیٰ بن اسماعیل بیان کر رہا ہے جو کہ صحیح بخاری کی شرط پر صحیح سند ہے کیونکہ امام بخاری نے سیکڑوں روایات امام موسیٰ سے امام ابی عوانہ کی لی ہیں ۔۔۔
تو اصولا تو امام ابی عوانہ پر یہ جرح ثابت ہی نہیں ہوتی ہے کہ جب ان سے امام موسیٰ بن اسماعیل بیان کرینگے تو آیا تب اس میں ابی عوانہ کو وھم ہوتا ہے؟
تو اسکا جواب ہے بالکل نہیں کیونکہ یہ طریق صحیح بخاری کی شرط پر صحیح ہے کہ جب ابی عوانہ سے موسیٰ بیان کریگا تو روایت اصح ہوتی ہے ۔

اور متغیر راویان جو صحیحین میں ہیں ان سے احتجاج کرنے کے حوالے سے اما م ابن حجر عسقلانی ایک راوی کے بارے کہتے ہیں :

وأخرج له الشيخان من رواية القدماء عنه في الاحتجاج ومن رواية بعض المتأخرين عنه في المتابعات وإنما عيب عليه أنه تغير حفظه لكبر
اور شیخین نے انکی روایات کی تخریج احتجاج کے باب میں اسکے قدیم تلامذہ کے طریق سے کی ہے اور بعض متاخرین تلامذہ سے اسکی روایات متابعت میں لی ہیں اور اس پر عیب فقط تغیر حافظہ کا ہے
[ھدی الساری مقدمہ فتح الباری جلد۱ ، ص ۴۲۲]

اس سے معلوم ہوا کہ امام ابن حجر کے نزدیک صحیحین کے احتجاج کے باب میں متغیر راویان سے احتجاج کرنے میں شیخین نے قدیم تلامذہ کی روایات کو مقدم رکھا ہے فقط ۔ تو امام ابی عوانہ پر یہ اعتراض کہ انکو اوھام ہوتا اسکا اطلاق امام ابی عوانہ کے قدیم تلامذہ کی مروایات پر ہو ہی نہیں سکتا خصوصا جو صحیح بخاری کی شرط پر ہے ۔۔۔۔۔

تو یہاں تک یہ ثابت ہوا کہ متعرض کی طرف سے امام ابی عوانہ پر پیش کردہ جرح کا اطلاق جو کہ ہلکی پھلکی ہے اسکا اطلا ق ہو ہی نہیں سکتا اس خاص طریق پر تو روایت پر وھم والا اعتراض عمومی اس جرح کے تحت نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ابی عوانہ کے علاوہ اسکے طریق کے راویان اوثق ہیں ؟ جیسا کہ موصوف کا دعویٰ ہے اسکی حقیقت دیکھتے ہیں

سب سے مختصر سند امام مسلم لیکر آئے ہیں جو کہ یہ ہے:
حدثنا محمد بن المثنى العنزي، ح وحدثنا ابن بشار، – واللفظ لابن المثنى – قالا: حدثنا أمية بن خالد، حدثنا شعبة، عن أبي حمزة القصاب، عن ابن عباس، قال: كنت ألعب مع الصبيان، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فتواريت خلف باب، قال فجاء فحطأني حطأة، وقال: «اذهب وادع لي معاوية» قال: فجئت فقلت: هو يأكل، قال: ثم قال لي: «اذهب فادع لي معاوية» قال: فجئت فقلت: هو يأكل، فقال: «لا أشبع الله بطنه»

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں ایک دروازہ کے پیچھےچھپ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے مجھے تھپکا (پیار سے) اور فرمایا: ”جا معاویہ کو بلا لا۔“ میں گیا، پھر لوٹ آیا اور میں نے کہا: وہ کھانا کھاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”جا اور معاویہ کو بلا لا۔“ میں پھر لوٹ کر آیا اور کہا: وہ کھاناکھاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے
[صحیح مسلم ]

اب دیکھا جائے تو امام شعبہ کے طریق میں نہ یکتب کے الفاظ ہیں نہ کاتب کے
اور نہ ہی اور متن ہے کہ جس میں ابن عباس کو بتایا گیا ہو کہ حضرت امیر معاویہ کھانا کھا رہے ہیں اور اضافی الفاظ نہیں تو کیا موصوف اس متن کے علاوہ باقی جو اضافہ ہے اسکو اس متن کے خلاف قرار دیکر شاذ کہنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ؟ جبکہ موصوف نے یکتب اور کاتبہ کو قبول کر لیا اور یکتب الوحی پر اعتراض کر دیا بغیر اصول کے ۔ اور باقی زیادتی قبول کی ہوئی ہے متن میں !

اور امام مسلم کی سند پر دیکھا جائے تو متعرض جیسا دعویٰ ہم بھی کر سکتے ہیں کہ اس روایت میں امام شعبہ سے روایت کرنے میں امیہ بن خالد کا تفرد ہے
اور اس پر کچھ جرح ہے جسکے سبب امام ابن حجر نے انکو تقریب میں صدوق درجہ کا راوی قرار دیا ہے اور اس راوی پر امام ابی عوانہ والی جرح موجودہ ے

امام احمد کا کلام ان پر کچھ یوں ہے :
قال أبو بكر الأثرم أحمد بن محمد بن هانىء: سمعت أبا عبد الله يُسأل عن أمية بن خالد فلم أره يحمده في الحديث. وقال: إنما كان يحدث من حفظه لا يخرج كتابًا.
اثرم کہتا ہے کہ میں نے امام احمد سے سوا ل کیا امیہ بن خالد کے بارے تو انہوں نے حدیث کے حوالے سے اسکی تعریف نہیں کی ۔ اور کہا کہ جب یہ حفظ سے بیان کرتا ہے تو یہ کتب میں نہیں لکھتا (یعنی حافظہ پر اعتبار کرتا ہے تو اس سے غلطی ہوتی ہے )
[موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله][ الضعفاء الكبيرو]

نیز یہ امام شعبہ سے روایات کی موقوف اسناد کو مرفوع بھی بیان کر دیتا تھا غلطی سے جیسا کہ ایک روایت کے تحت امام ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں امام بزار سے :

وأخرجه البزار وبن مردويه من طريق أمية بن خالد عن شعبة فقال في إسناده عن سعيد بن جبير عن بن عباس فيما أحسب ثم ساق الحديث وقال البزار لا يروى متصلا إلا بهذا الإسناد تفرد بوصله أمية بن خالد وهو ثقة مشهور

اور اس روایت کی تخریج امام بزار اور ابن مردویہ نے امیہ بن خالد کے طریق سے شعبہ سے کی ہے ۔ تو انہوں نے سند میں کہا عن سیعد بن جبیر عن ابن عباس ، اور پھر روایت کیا ۔
اور امام بزار کہتے ہیں اس روایت کو کوئی بھی متصل بیان نہیں کرتا سوائے اس طریق سے اور اس کو متصل بیان کرنے میں امیہ بن خالد کا تفرد ہے (شعبہ سے ) اور وہ ثقہ مشہور ہے
[فتح الباری ، ابن حجر عسقلانی]

اس کے علاوہ کچھ ناقدین نے انکو ضعفاء میں شامل کیا ہے تو کیا اب متعرض کی طرح ہم بھی اس روایت کے متن جسکو ہم وھم بنانا چاہیں بنا لیں ؟ فقط ایسی ہلکی پھلکی جروحات دکھا کر ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے کلمات سے راوی کے حفظ کو کمزور نہیں گردانا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس روایت کا اور طریق اور اس میں متن میں ہلکی پھلکی تبدیلی کا ثبوت !
أخبرنا محمد بن عبد الله الحافظ، أنبأنا أبو الفضل بن إبراهيم، حدثنا أحمد بن سلمة، حدثنا إسحاق بن منصور، أنبأنا النضر بن شميل، حدثنا شعبة، حدثنا أبو حمزة، قال سمعت ابن عباس، قال: كنت ألعب مع الغلمان فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فحطأني حطأة وأرسلني إلى معاوية في حاجة، فأتيته وهو يأكل ، فقلت: أتيت وهو يأكل فأرسلني، فقال: «لا أشبع الله بطنه» .
[دلائل نبوہ وسندہ صحیح]

اہم نکتہ!
اب اس میں قابل غور متن یہ ہے ” وأرسلني إلى معاوية في حاجة” کہ مجھے معاویہ کی طرف حاجت کے سبب بھیجا ۔
اب وہ حاجت کیا تھی نبی اکرمﷺ کو حضرت معاویہؓ سے کیا کام تھا یہ بات اس میں مبھم ہے۔ لیکن یہ اضافہ صحیح مسلم کے مختصر متن (جس میں یہ الفاظ نہیں )پر اضافہ ہے لیکن یہ اضافہ متن میں مخالفت یا نکارت ثابت نہیں کر رہا ہے تو یہ اضافہ قبول کی جائے گا۔

یعنی امام شعبہ سے امیہ نے متن میں یہ بات بالکل بیان ہی نہیں کی کہ حضرت معاویہؓ کو بلایا کس سبب تھا
لیکن
امام بیھقی نے امام شعبہ کے دوسرے شاگرد نضر جو کہ متفقہ علیہ ثقہ ہے اس سے متن میں یہ اضافہ مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ کو حضرت معاویہؓ سے کوئی حاجت یعنی کوئی کام تھا ۔

اب وہ کام کیا تھا اسکی تفصیل اگلی روایتوں میں ملتی ہے

جیسا کہ امام ابو داود طیالسی اپنی سند صحیح سے روایت کرتے ہیں :
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، وَأَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى مُعَاوِيَةَ يَكْتُبُ لَهُ، فَقَالَ:۔۔۔۔الخ

امام ھشام و امام ابو عوانہ اور یہ دونوں یہ متن بیان کرتے ہیں حضرت ابن عباس کے حوالے سے کہ : یعنی رسول اللہﷺ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ آپ کے لیے کتابت کریں
[مسند طیالسی و سندہ صحیح]

اب اس روایت کی سند دیکھی جائے تو اس میں امام شعبہ کے دو متابع ہیں
۱۔ امام ابو عوانہ
۲۔ امام ھشام

چند اہم نکات !
۱۔متن دیکھا جائے تو اس میں وہ بات ہے ءجو امام شعبہ روایت نہین کرتے یعنی امام شعبہ نے اس روایت کو مختصر بیان کیا کہ اس میں حاجت کا ذکر بھی نہیں

۲۔پھر انکے ایک اوثق شاگرد نے امام شعبہ سے یہ روایت کیا کہ نبی اکرمﷺ کو حضرت معاویہؓ سے کوئی کام تھا جسکے سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ کو انکے پاس بھیجا لیکن یہ بات مبھم ہے کہ وہ حاجت کیا تھی ۔

۳۔ پھر امام شعبہ کے دو متابع امام ابو عوانہ اور امام ھشام نے اس متن میں یہ تصریح کی ہے کہ وہ حاجت نبی اکرﷺ کو لکھوانے کے سبب تھی یعنی کتابت کے حوالے سے ۔۔۔
اور ایسے ہی دیگر طریق سے امام سفیان سے وکان کاتبہ کے الفاظ آتے ہیں یعنی اس میں حضرت ابن عباس حضرت معاویہؓ کا عہدہ بتاتے ہیں کہ وہ کاتب تھے
اب مطلق کاتب آگیا کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے لکھنے کا فرائض انجام دیتے تھے ۔

اب اسکی تفصیل دوسری صحیح سند سے موجود ہے کہ کیا لکھتے تھے

جسکو امام حاکم و امام بیھقی نے نقل کیا ہے سند صحیح کے ساتھ کہ جو بخاری کی شرط پر ہے :
أخبرناه أبو عبد الله الحافظ، حدثنا علي بن حمشاد، حدثنا هشام بن علي، حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، عن أبي حمزة، قال: سمعت ابن عباس، قال: كنت ألعب مع الغلمان فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد جاء فقلت: ما جاء إلا إلي فاختبأت على باب فجاء فحطأني حطأة، فقال: «اذهب فادع لي معاوية» ، وكان يكتب الوحي،
[دلائل النبوہ وسندہ صحیح علی شرط البخاری]

اب اس میں تصریح موجود ہے کہ وکان یکتب الوحی کہ یہ وحی کے لیے کاتب تھے ۔ اب جس طرح دیگر طریق میں مکمل روایت میں کمی زیادتی ہے کہیں کوئی راوی تفصیل بیان کر رہا ہے کہیں کوئی راوی مختصر بیان کر رہا ہے ۔ کہیں دروازے کے پیچھے چھپنے کا ذکر نہیں ، کہیں حضرت ابن عباس کے اپنے بارے الفاظ نہیں جیسا کہ سفیان ثوری کی روایت بہت مختصر ہے تو کہیں یہ ذکر نہیں کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت معاویہ کو کس کام کے لیے بلایا
کہیں ذکر ہے کہ کسی کام کے لیے بلایا
کہیں ذکر ہے کہ کچھ لکھنے کے لیے بلایا
اور کہیں ذکر ہے کہ وحی لکھنے کے لیے بلایا

یعنی کام کےلیے بلایا ،وہ کام لکھنے کاتھا ، اور وہ کام وحی کو لکھنے کا تھا !

اب ان تمام اضافاجات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی بات پچھلے متن کے خلاف نہیں بلکہ تمام روایات جو جمع کیا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہر روایت کے ٹکڑے میں کوئی نہ کوئی تفصیل ہے جسکو متن یکجا کرنے پر تفصیل مل جاتی ہے

تبھی امام ذھبی نے اس حضرت امیر معاویہ ؓکو کاتب وحی ثابت کرنے کے لیے مذکورہ روایت بطور دلیل بیان کرکے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتے ہیں :
وقد صح عن ابن عباس قال: كنت ألعب، فدعاني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وقال: «ادع لي معاوية» وكان يكتب الوحي
امام ذھبی کہتے ہیں اور صحیح (سند) سے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں چھوٹا بچہ تھا مجھے نبی اکرمﷺ نے بلایا اور فرمایا میرے لیے معاویہ کو بلا لاو ، اور حضرت ابن عباس کے الفاظ ہیں کہ اور یہ کاتب الوحی تھے ”
[تاریخ الاسلام ]

امام ذھبی صاحب اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور ہو بھی کیسے نہ کیونکہ اس روایت کی سند بخاری کی شرط پر ہے اور متن میں کوئی ایسے الفاظ نہیں کہ جو مذکورہ روایت کے کسی سابقہ متن کی مخالفت پر دلالت کرتا ہو۔ یہ اضافہ ہے اور عند الجمہورثقہ کا مقبول اضافہ حجت ہوتا ہے
اور تمام محدثین نے اس اضافہ کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس سے استدلال کرتے ہوئے حضرت امیر معاویہؓ کو کاتب الوحی قرار دیا ہے ۔

متقدمین میں حضرت امام معافی بن عمران نے امام الآجری نے ، حضرت امیر معاویہ کا تعارف کاتب وحی کے عہدے کے اعتبار سے کیا ہے
بلکہ حضرت امیر معاویہؓ کے کاتب وحی ہونے پر اعتراض کرنے والوں کا رد امام احمد نے بڑی شدو مد سے کیا ہے

جیسا کہ کتاب السنہ الخلال میں ان سے مروی ہے :
أخبرني محمد بن أبي هارون، ومحمد بن جعفر، أن أبا الحارث حدثهم قال: وجهنا رقعة إلى أبي عبد الله: ما تقول رحمك الله فيمن قال: لا أقول إن معاوية كاتب الوحي، ولا أقول إنه خال المؤمنين، فإنه أخذها بالسيف غصبا؟ قال أبو عبد الله: هذا قول سوء رديء، يجانبون هؤلاء القوم، ولا يجالسون، ونبين أمرهم للناس
ابوالحارث احمدبن محمد الصائغ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے امام احمد رحمہ اللہ سے بذریعہ خط پوچھاکہ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس کا یہ دعوی ہوکہ میں حضرت معاویہ ؓ کو کاتب وحی اور خال المؤمنین نہیں مانتا
تو امام احمد نے فرمایا:یہ انتہائی بری اور ردی بات ہے،ایسے لوگوں سے کنارہ کشی کی جائے، ان کی مجلس اختیار کرنے سے باز رہا جائے اور انکی گمراہیوں سے لوگوں کو واقف کیا جائے۔
[السنة لابی بکر بن خلال برقم :۶۵۹ وسندہ حسن]

اسکے بعد متاخرین میں امام ابن عساکر ، امام ابن جوزی، امام ابن حجر عسقلانی ، امام ذھبی ، اور ائمہ کی ایک بہت بڑی تعداد ہے !

باقی صحیح مسلم میں حضرت امیر معاویہ ؓ کے کاتب ہونے کی روایت جو کہ امام مسلم روایت کرتے ہیں :
حدثني عباس بن عبد العظيم العنبري ، واحمد بن جعفر المعقري ، قالا: حدثنا النضر وهو ابن محمد اليمامي ، حدثنا عكرمة ، حدثنا ابو زميل ، حدثني ابن عباس ، قال: ” كان المسلمون لا ينظرون إلى ابي سفيان ولا يقاعدونه، فقال للنبي صلى الله عليه وسلم: يا نبي الله، ثلاث اعطنيهن، قال: نعم، قال: عندي احسن العرب واجمله ام حبيبة بنت ابي سفيان ازوجكها؟ قال نعم، قال: ومعاوية، تجعله كاتبا بين يديك؟ قال: نعم، قال: وتؤمرني حتى اقاتل الكفار كما كنت اقاتل المسلمين؟ قال: نعم، قال ابو زميل: ولولا انه طلب ذلك من النبي صلى الله عليه وسلم، ما اعطاه ذلك لانه لم يكن يسال شيئا إلا، قال: نعم

‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مسلمان ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی طرف دھیان نہیں کرتے تھے نہ اس کے ساتھ بیٹھتے تھے (کیونکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کئی مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑا تھا اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا) ایک بار انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے نبی! تین باتیں مجھے عطا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔“
ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس وہ عورت ہے کہ تمام عربوں میں حسین اور خوبصورت ہے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا میری بیٹی، میں اس کا نکاح آپ سے کر دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔
“ دوسری یہ کہ میرے بیٹے معاویہ کو آپ اپنا کاتب بنائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔“
تیسرے مجھ کو حکم دیجئیے کافروں سے لڑوں (جیسے اسلام سے پہلے) مسلمانوں سے لڑتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔“۔
ابوزمیل نے کہا: اگر وہ ان باتوں کا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ دیتے اس لئے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ جس جس بات کا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاں فرماتے اور قبول کرتے
[صحیح مسلم]

اسکی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر علیہ رحمہ فرماتے ہیں :

والمقصود منه أن معاوية كان من جملة الكتاب بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم الذين يكتبون الوحي
اسکو بیان کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ حضرت امیرمعاویؓ ان جملہ کاتبین میں سے ہیں،جوکتابت وحی کافریضہ سرانجام دیاکرتےتھے
[البداية والنهاية، ج۸، ص ۱۲۷]

یعنی علماء اہلنت کا یہ موقف ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ کے بارے متعدد روایات میں نبی اکرمﷺ کا خاص کاتب ہونا مروی ہے تو یہ بحث فضول ہے کہ جو نبی اکرمﷺ کا کاتب فریضہ انجام دے رہا ہو اور وہ کاتب وحی نہ ہو ۔۔۔
کہ نبی کریم کے اقوال کا لکھاری ہو اور نبی اکرمﷺ کی زبانی قرآنی آیات کا کاتب نہ ہو ؟

خلاصہ کلام!
تو یہ ایک فضول بحث چھیڑی گئی پھر اس پر صحیح سند سے روایت کا مطالبہ کیا گیا کہ جس میں کاتب وحی کے الفاظ ہوں اور جب وہ پیش کی گئی تو پھر متن کو ذبر دستی غیر محفوظ بغیر اصول کے قرار دیا گیا ، جبکہ متعدد اسناد میں متن میں کمی زیادتی ہے بہت سے الفاظ میں لیکن کسی بھی متن میں کوئی ایسے الفاظ نہیں جو اضافی طور پر قبول کرنے سے ساقبہ متن میں تعارض پیدا ہوتا ہو ۔ بلکہ اضافی متن مقبول اور موافق ہے سابقہ متن کی تفصیل بیان کرنے میں
اور کسی محدث نے اس روایت پر کاتب وحی کے الفاظ کو غیر محفوظ قرار نہ دیا بلکہ امام ذھبی حضرت ابن عباس کے الفاظ کو بطور حجت پیش کر کے صحیح قرار دیا کہ حضرت امیر معاویہ کاتب وحی تھے
اور مطلق طور پر انکا کاتب رسولﷺ ہونا اس بات کو لازم کرتا ہے کہ وہ کاتب وحی بھی تھے کیونکہ نبی اکرمﷺ کے خطوط، انکی طرف سے حساب کتاب اور معاہدے لکھنے والا کاتب وحی نہ ہو یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے اور فہم سلف کے بھی ۔

اللہ ہم کو حق قبول کرنے کی توفیق دے آمین!

تحقیق: اسد الطحاوی